لیاری تیری کون کرے گا آبیاری
تعلیمی اعتبار سے لیاری میں ایک بڑا حلقہ علم بگوش تھا۔
مجھے اپنی دادی کا کہا یہ یاد رہ گیاہے کہ والد مرحوم پروفیسر مجتبیٰ حسین اپنے آبائی شہر جونپور سے 30 میل دور اپنے آبائی گاؤں سنجر پور سے ریل میں لکھنو آئے پھر لکھنو سے بمبئی چند ہفتے یہاں اپنی خالہ کے گھر رہے، اپنے گھر کا قیمتی مال و اسباب پھوپھی جان کی موجودگی میں ایک حویلی نما مکان کے بڑے کمرے میں بند کیا ایک چابی خود رکھی دوسری پھوپھی جان کے حوالے کی، دادی صاحبہ نے جو بعد میں 1967 تک زندہ رہیں یہ باتیں انھوں نے بتائیں جو اب تک رہ رہ کے یاد آتی ہیں وہ پاکستان آنے پر تیار نہ تھیں مگر وہ آگئیں دادا مرحوم مجسٹریٹ تھے جو والد صاحب کے بچپن میں ہی انتقال کرگئے 1948 کی ابتداء میں بمبئی سے پانی کے جہاز میں بیٹھے اور چند دنوں میں کراچی پہنچ گئے۔
یہاں کیماڑی شہر کے بعد لیاری میں ایک علاقہ بہار کالونی تھا ، عجیب اتفاق ہے زیادہ تر آنے والے لوگ بی اے یا ایم اے پاس تھے اور جو کم تعلیم یافتہ تھے وہ بھی میٹرک تک پڑھے ہوئے تھے مگر سب کے سب شعر وادب، ہلکی پھلکی سیاست سے دلچسپی رکھتی تھے اور کم ازکم 70 یا 80 گھرانے ایسے تھے جن کے سربراہ شعروادب کے دلدادہ تھے اور بیشتر شعرا تھے یا سخن فہم یا سخن شناس تھے گوکہ آئے ہوئے ان لوگوں سے مقامی لوگ ناشناس تھے مگر اجنبی نہ تھے ، ان نئے آنے والوں سے لوگ خصوصاً ترقی پسند، اور دانشور ملنے چلے آتے تھے، اپنا تعارف کراتے پھر دعوت دیتے تھے ۔ تھوڑے ہی عرصے میں لیاری کے چیدہ چیدہ مکینوں سے نئے آنے والوں کے تعلقات قائم ہوگئے یہاں تک کہ 1949 سے شعری، فکری، ادبی اور سیاسی نشستوں کا آغاز ہونے لگا۔ لوگ اس نئے وطن میں فکری، نظری اور قومی بندھن میں بندھتے چلے گئے، تعلیمی اعتبار سے لیاری میں ایک بڑا حلقہ علم بگوش تھا، غنڈہ گردی،بھتہ خوری ، اغواء، قتل، لوٹ مار کا نام و نشان نہ تھا چند غنڈے تھے مگر ان کی بھی کوئی سماجی یا سیاسی حیثیت نہ تھی ۔
ماہانہ ادبی نشستوں کا اہتمام ہوتا تھا ایک نشست بہار کالونی تو دوسری لیاری کے دیگر علاقوں میں ۔ گل محمد لین اور دریا باد میں بلوچ و سندھی ادبی سرکل کے لوگ تھے، لیاری ٹرام پٹہ سے ٹرام چلتی تھی ۔ لیاری کے تعلیمی نظام میں سرعبداللہ ہارون کی فیملی نے نمایاں کردار ادا کیا، عبداللہ ہارون کالج 1960 کے ابتدائی عشرے میں قائم کیا گیا۔ بہرحال ادبی سنگتوں نے جو بڑے اہتمام سے ہوا کرتی تھیں ان میں شہر بھر کے شعرا شریک ہوتے تھے کیونکہ شہر خود گرومندر تک محدود تھا بعدازاں پیرالٰہی بخش کے کھلے دل نے پیر کالونی کو آباد کیا اور ان لوگوں کی فکری اور نظری ارتقا کی ذمے داری دانشوروں پر تھی اس لیے مقامی اور غیر مقامی کی چپقلش پیدا نہ ہوئی جو ممتاز بھٹو کے دور میں سندھ کی دھرتی پر دیکھنے میں آئی اور شدید عمل اور ردعمل کی سیاست پروان چڑھتی گئی 1950 کی دہائی میں لیاری ایک دبستان کی شکل اختیار کرچکا تھا ادب اور ثقافت کے علاوہ اسپورٹس کا ایک زبردست رجحان قدرتی طور پر بلوچ اور مکرانی نوجوانوں میں رہا ہے غرض اس ثقافت کو جنم دینے والے بھارت سے آئے ہوئے ادیب شاعر و دانشور تھے۔
بعض سیاسی کارکن بھی تھے جن میں سے چند کے اسماء گرامی جو یاد ہیں لکھے دیتا ہوں ، ڈاکٹر جوادی باقاعدگی سے شعری اور ادبی نشست کا اہتمام کراتے تھے، سید ہاشمی ، یوسف نسکندی ، شعیب حمیدی ، یار محمد یار، اکبر بارکزئی ، اے ایس ملک ، شفیع ادبی،کاوش رضوی صاحب جو شعروادب، صحافت کے علاوہ سیاسی منظرنامے میں بھی پیش پیش تھے مگر 50 کی ابتدا اور 41 میں محترم ریاض روفی صاحب، سلیم احمد صاحب، عزیز حامد مدنی، پروفیسر مجتبیٰ حسین انجمن ترقی پسند کے پلیٹ فارم سے رابطے میں تھے، اسلام حسین سابق صدر نیشنل بینک یونین ، سیاسی محاذ پر سید صالح شاہ ، غوث بخش بزنجو، لالہ لعل بخش رند، یار محمد یار ، انور احسن صدیقی خاصے سرگرم رہے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو سیاسی اعتبار سے ایک نئی سیاسی پارٹی کی داغ بیل لیاری میں ڈالی گئی جس کو نیشنل پارٹی کے نام سے یاد کیا جاتا رہا بعدازاں اس پارٹی نے وسعت اختیار کی ۔ نذیر عباسی بھی لیاری کے سرگرم سیاسی اور سماجی کارکن تھے جنھیں سیاسی بنیادوں پرقتل کیا گیا۔
اس کے علاوہ لیاری کے سیاسی کارکنوں نے کھیل کے میدان میں بڑی جانفشانی سے کام کیا کہ ایک وقت ایسا آیا کہ مولابخش گوٹائی اور عبدالجبار کو عالمی پوزیشن کا فٹبال کھلاڑی 1970 میں تسلیم کیا گیا مگر لیاری کی ایک بدقسمتی رہی ہے کہ وہاں کے مکین نسلی اور جغرافیائی اعتبار سے بلوچستان سے جڑے رہتے ہیں تمام نہ سہی مگر کسی حد تک درست ہے لہٰذا بلوچستان میں ہونے والے سیاسی واقعات یہاں اثر انداز ہوتے رہے ہیں اور کسی حد تک کراچی میں بھی مجموعی طور پر اگر آپ جائزہ لیں تو خان آف قلات کے ماننے والے تقریباً 3000 خاندان آج بھی گزری، ڈیفنس سے ملحقہ علاقوں میں آباد ہیں جن کا ذریعہ معاش پتھروں کو عمارت میں قابل استعمال بنانا ہے مگر یہاں تک ابھی کسی گینگ وار کی رسائی نہیں ہوئی ہے یہ تمام فیملیاں بلوچ رسم و رواج، عزت و آبرو کے زیور سے آراستہ ہیں، یہی حال لیاری کی اکثریت کا ہے مگر یہاں اقلیت اکثریت پر حکمرانی کر رہی ہے۔
یہ حالات 1970 کے انتخابات کے بعد پیدا ہوئے جب پی پی سمیت تمام سیاسی گروہوں نے لیاری کے عوام کے دل جیتنے کی کوشش کی یہ سیاسی پارٹیاں دل تو نہ جیت سکیں البتہ علاقے جیتنے کی کوشش میں مصروف ہوگئیں اور عوام کا معیار زندگی مزید پست ہوگیا گزشتہ 20 برسوں سے لیاری کے لوگوں کو نسل پرستی کے نعرے اور جرائم میں الجھایا جارہا ہے جو ان کی ترقی اور خوشحالی کے دشمن عوامل ہیں کیونکہ بندر گاہ (گودی) پر وزنی اسباب زیادہ تر لیاری کے نوجوان ہی اٹھاتے ہیں، مچھلی کا کاروبار یا فش ایکسپورٹ انہی کا کام ہے، ساحل سمندر کی سرگرمیاں انہی کے دم سے ہیں ، لیاری کا ادبی ذوق و شوق تو جاتا رہا مگر ابھی بھی نئے چراغ روشن کرنے والوں کی تعداد بہت ہے مگر وہ بے بسی کے عالم میں بے اثر ہیں ۔ لیاری کے نوجوان اور کچھی برادری ایک ہی مکتبہ فکر کے لوگ تھے مگر غلط فہمی اور شکوک نے سیاسی مصلحتوں کی بنا پر دور کردیا ہے ۔ مجھے یاد ہے بہت عرصہ نہیں گزرا حافظہ کام کر رہا ہے جب پروفیسر علی محمد شاہین 1970 کی دہائی میں طلبہ کے مقبول ترین پروگرام کراتے تھے اور ان کی آراء کا احترام نہ صرف لیاری بلکہ شہر بھر کے لوگ کرتے تھے، ان میں ن ۔م دانش بھی قابل ذکر ہیں جو اردو میں شاعری کرتے ہیں۔
لیاری کے ان بچوں کی آواز جو 2013 کی چاند رات کو گھروں میں ٹرافی سجانے کی رات تھی کھیل کے ان متوالوں کو آگ اور خون میں نہلا دیا گیا، لیاری نے عید نہ منائی مگر شہر میں عید منائی گئی مگر کچھ نہ سہی لیاری کے ان شہید بچوں کی یاد میں مساجد سے خطبے تو ہوسکتے تھے کہ ان کو پھر حرارت بخشنے کی ضرورت ہے ۔ لیاری سے حب شہر تک سائیکل اور چھوٹی گدھا گاڑی ریس کا بھی غالباً خاتمہ ہوگیا اگر لیاری پر توجہ دی جاتی تو یہاں سے اولمپک چیمپئن ضرور اٹھیں گے خاص طور سے وزن اٹھانے، باکسنگ میں کیونکہ ان شرپسندوں کے ہاتھوں میں اسلحہ اور ان کے مدمقابل لوگوں کے پاس فٹبال، یا باکسنگ گلوز اور حکمران قومی پالیسی بنانے میں مصروف ہیں، خاک ہو جائیں گے یہ تم کو خبر ہونے تک ۔
قائد کے پاکستان کی لیاری پر قبضہ گروپ اور بھتہ گروپ کی یلغار ہے ۔ دامن لیاری اقلیت کے کارہائے نمایاں سے شرم سارہے، ووٹ بینک کے طلب گار محض ووٹ بینک کو پکا کرنے میں مصروف ہیں یہ ووٹ بینک بدلتا رہتا ہے، کبھی یہ ووٹ بینک عبدالمجید سندھی، پیر الٰہی بخش، سوبھو گیان چندانی، پہومل، نارائن داس اور ہارون فیملی کا تھا۔ 1948 میں جب کراچی میں ہندو مسلم فساد ہوا اور سوبھو گیان چندانی کی بلڈنگ کو فرقہ پرستوں نے آگ لگانے کی کوشش کی تو لیاری اور گودی کے مزدوروں نے یہ سازش ناکام بنادی اور لیاری کے مسلمانوں نے ان کو بچایا۔ یہ مظلوم و لاوارث لیاری آج بھی زندہ ہے قائد کا گھر ان کے پہلو میں ہے ۔ چاند رات سے ایک روز قبل کی وہ خونی رات جب لیاری کے فٹبال کے شوقین بچے شہید ہوئے ان کی آواز آج بھی گونج رہی ہے کہ اب بچوں کے ٹورنامنٹ ختم ہوگئے اب نہ ہوں گے میرے بچو یہ پھر ہوں گے ووٹ بینک بدلتا رہتا ہے ستم کی یہ موج ختم ہوکر رہے گی، بچو! جیت تہماری ہوکر رہے گی، تمہاری بستی میں امن جلد ہوگا، لیاری ساحل کی بستی ہے جہاں زندگی مشکل ہے موت سستی ہے، مگر قدم جمائے رکھو، پیار دامن میں سجائے رکھو ۔ تم حکومت سے توقع نہ رکھنا اس زمین کی آبیاری کرنی ہے اپنی تہذیب کو قلم سے بچانا ہوگا ، پھر تمہارے ساتھ یہ زمانہ ہوگا۔
یہاں کیماڑی شہر کے بعد لیاری میں ایک علاقہ بہار کالونی تھا ، عجیب اتفاق ہے زیادہ تر آنے والے لوگ بی اے یا ایم اے پاس تھے اور جو کم تعلیم یافتہ تھے وہ بھی میٹرک تک پڑھے ہوئے تھے مگر سب کے سب شعر وادب، ہلکی پھلکی سیاست سے دلچسپی رکھتی تھے اور کم ازکم 70 یا 80 گھرانے ایسے تھے جن کے سربراہ شعروادب کے دلدادہ تھے اور بیشتر شعرا تھے یا سخن فہم یا سخن شناس تھے گوکہ آئے ہوئے ان لوگوں سے مقامی لوگ ناشناس تھے مگر اجنبی نہ تھے ، ان نئے آنے والوں سے لوگ خصوصاً ترقی پسند، اور دانشور ملنے چلے آتے تھے، اپنا تعارف کراتے پھر دعوت دیتے تھے ۔ تھوڑے ہی عرصے میں لیاری کے چیدہ چیدہ مکینوں سے نئے آنے والوں کے تعلقات قائم ہوگئے یہاں تک کہ 1949 سے شعری، فکری، ادبی اور سیاسی نشستوں کا آغاز ہونے لگا۔ لوگ اس نئے وطن میں فکری، نظری اور قومی بندھن میں بندھتے چلے گئے، تعلیمی اعتبار سے لیاری میں ایک بڑا حلقہ علم بگوش تھا، غنڈہ گردی،بھتہ خوری ، اغواء، قتل، لوٹ مار کا نام و نشان نہ تھا چند غنڈے تھے مگر ان کی بھی کوئی سماجی یا سیاسی حیثیت نہ تھی ۔
ماہانہ ادبی نشستوں کا اہتمام ہوتا تھا ایک نشست بہار کالونی تو دوسری لیاری کے دیگر علاقوں میں ۔ گل محمد لین اور دریا باد میں بلوچ و سندھی ادبی سرکل کے لوگ تھے، لیاری ٹرام پٹہ سے ٹرام چلتی تھی ۔ لیاری کے تعلیمی نظام میں سرعبداللہ ہارون کی فیملی نے نمایاں کردار ادا کیا، عبداللہ ہارون کالج 1960 کے ابتدائی عشرے میں قائم کیا گیا۔ بہرحال ادبی سنگتوں نے جو بڑے اہتمام سے ہوا کرتی تھیں ان میں شہر بھر کے شعرا شریک ہوتے تھے کیونکہ شہر خود گرومندر تک محدود تھا بعدازاں پیرالٰہی بخش کے کھلے دل نے پیر کالونی کو آباد کیا اور ان لوگوں کی فکری اور نظری ارتقا کی ذمے داری دانشوروں پر تھی اس لیے مقامی اور غیر مقامی کی چپقلش پیدا نہ ہوئی جو ممتاز بھٹو کے دور میں سندھ کی دھرتی پر دیکھنے میں آئی اور شدید عمل اور ردعمل کی سیاست پروان چڑھتی گئی 1950 کی دہائی میں لیاری ایک دبستان کی شکل اختیار کرچکا تھا ادب اور ثقافت کے علاوہ اسپورٹس کا ایک زبردست رجحان قدرتی طور پر بلوچ اور مکرانی نوجوانوں میں رہا ہے غرض اس ثقافت کو جنم دینے والے بھارت سے آئے ہوئے ادیب شاعر و دانشور تھے۔
بعض سیاسی کارکن بھی تھے جن میں سے چند کے اسماء گرامی جو یاد ہیں لکھے دیتا ہوں ، ڈاکٹر جوادی باقاعدگی سے شعری اور ادبی نشست کا اہتمام کراتے تھے، سید ہاشمی ، یوسف نسکندی ، شعیب حمیدی ، یار محمد یار، اکبر بارکزئی ، اے ایس ملک ، شفیع ادبی،کاوش رضوی صاحب جو شعروادب، صحافت کے علاوہ سیاسی منظرنامے میں بھی پیش پیش تھے مگر 50 کی ابتدا اور 41 میں محترم ریاض روفی صاحب، سلیم احمد صاحب، عزیز حامد مدنی، پروفیسر مجتبیٰ حسین انجمن ترقی پسند کے پلیٹ فارم سے رابطے میں تھے، اسلام حسین سابق صدر نیشنل بینک یونین ، سیاسی محاذ پر سید صالح شاہ ، غوث بخش بزنجو، لالہ لعل بخش رند، یار محمد یار ، انور احسن صدیقی خاصے سرگرم رہے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو سیاسی اعتبار سے ایک نئی سیاسی پارٹی کی داغ بیل لیاری میں ڈالی گئی جس کو نیشنل پارٹی کے نام سے یاد کیا جاتا رہا بعدازاں اس پارٹی نے وسعت اختیار کی ۔ نذیر عباسی بھی لیاری کے سرگرم سیاسی اور سماجی کارکن تھے جنھیں سیاسی بنیادوں پرقتل کیا گیا۔
اس کے علاوہ لیاری کے سیاسی کارکنوں نے کھیل کے میدان میں بڑی جانفشانی سے کام کیا کہ ایک وقت ایسا آیا کہ مولابخش گوٹائی اور عبدالجبار کو عالمی پوزیشن کا فٹبال کھلاڑی 1970 میں تسلیم کیا گیا مگر لیاری کی ایک بدقسمتی رہی ہے کہ وہاں کے مکین نسلی اور جغرافیائی اعتبار سے بلوچستان سے جڑے رہتے ہیں تمام نہ سہی مگر کسی حد تک درست ہے لہٰذا بلوچستان میں ہونے والے سیاسی واقعات یہاں اثر انداز ہوتے رہے ہیں اور کسی حد تک کراچی میں بھی مجموعی طور پر اگر آپ جائزہ لیں تو خان آف قلات کے ماننے والے تقریباً 3000 خاندان آج بھی گزری، ڈیفنس سے ملحقہ علاقوں میں آباد ہیں جن کا ذریعہ معاش پتھروں کو عمارت میں قابل استعمال بنانا ہے مگر یہاں تک ابھی کسی گینگ وار کی رسائی نہیں ہوئی ہے یہ تمام فیملیاں بلوچ رسم و رواج، عزت و آبرو کے زیور سے آراستہ ہیں، یہی حال لیاری کی اکثریت کا ہے مگر یہاں اقلیت اکثریت پر حکمرانی کر رہی ہے۔
یہ حالات 1970 کے انتخابات کے بعد پیدا ہوئے جب پی پی سمیت تمام سیاسی گروہوں نے لیاری کے عوام کے دل جیتنے کی کوشش کی یہ سیاسی پارٹیاں دل تو نہ جیت سکیں البتہ علاقے جیتنے کی کوشش میں مصروف ہوگئیں اور عوام کا معیار زندگی مزید پست ہوگیا گزشتہ 20 برسوں سے لیاری کے لوگوں کو نسل پرستی کے نعرے اور جرائم میں الجھایا جارہا ہے جو ان کی ترقی اور خوشحالی کے دشمن عوامل ہیں کیونکہ بندر گاہ (گودی) پر وزنی اسباب زیادہ تر لیاری کے نوجوان ہی اٹھاتے ہیں، مچھلی کا کاروبار یا فش ایکسپورٹ انہی کا کام ہے، ساحل سمندر کی سرگرمیاں انہی کے دم سے ہیں ، لیاری کا ادبی ذوق و شوق تو جاتا رہا مگر ابھی بھی نئے چراغ روشن کرنے والوں کی تعداد بہت ہے مگر وہ بے بسی کے عالم میں بے اثر ہیں ۔ لیاری کے نوجوان اور کچھی برادری ایک ہی مکتبہ فکر کے لوگ تھے مگر غلط فہمی اور شکوک نے سیاسی مصلحتوں کی بنا پر دور کردیا ہے ۔ مجھے یاد ہے بہت عرصہ نہیں گزرا حافظہ کام کر رہا ہے جب پروفیسر علی محمد شاہین 1970 کی دہائی میں طلبہ کے مقبول ترین پروگرام کراتے تھے اور ان کی آراء کا احترام نہ صرف لیاری بلکہ شہر بھر کے لوگ کرتے تھے، ان میں ن ۔م دانش بھی قابل ذکر ہیں جو اردو میں شاعری کرتے ہیں۔
لیاری کے ان بچوں کی آواز جو 2013 کی چاند رات کو گھروں میں ٹرافی سجانے کی رات تھی کھیل کے ان متوالوں کو آگ اور خون میں نہلا دیا گیا، لیاری نے عید نہ منائی مگر شہر میں عید منائی گئی مگر کچھ نہ سہی لیاری کے ان شہید بچوں کی یاد میں مساجد سے خطبے تو ہوسکتے تھے کہ ان کو پھر حرارت بخشنے کی ضرورت ہے ۔ لیاری سے حب شہر تک سائیکل اور چھوٹی گدھا گاڑی ریس کا بھی غالباً خاتمہ ہوگیا اگر لیاری پر توجہ دی جاتی تو یہاں سے اولمپک چیمپئن ضرور اٹھیں گے خاص طور سے وزن اٹھانے، باکسنگ میں کیونکہ ان شرپسندوں کے ہاتھوں میں اسلحہ اور ان کے مدمقابل لوگوں کے پاس فٹبال، یا باکسنگ گلوز اور حکمران قومی پالیسی بنانے میں مصروف ہیں، خاک ہو جائیں گے یہ تم کو خبر ہونے تک ۔
قائد کے پاکستان کی لیاری پر قبضہ گروپ اور بھتہ گروپ کی یلغار ہے ۔ دامن لیاری اقلیت کے کارہائے نمایاں سے شرم سارہے، ووٹ بینک کے طلب گار محض ووٹ بینک کو پکا کرنے میں مصروف ہیں یہ ووٹ بینک بدلتا رہتا ہے، کبھی یہ ووٹ بینک عبدالمجید سندھی، پیر الٰہی بخش، سوبھو گیان چندانی، پہومل، نارائن داس اور ہارون فیملی کا تھا۔ 1948 میں جب کراچی میں ہندو مسلم فساد ہوا اور سوبھو گیان چندانی کی بلڈنگ کو فرقہ پرستوں نے آگ لگانے کی کوشش کی تو لیاری اور گودی کے مزدوروں نے یہ سازش ناکام بنادی اور لیاری کے مسلمانوں نے ان کو بچایا۔ یہ مظلوم و لاوارث لیاری آج بھی زندہ ہے قائد کا گھر ان کے پہلو میں ہے ۔ چاند رات سے ایک روز قبل کی وہ خونی رات جب لیاری کے فٹبال کے شوقین بچے شہید ہوئے ان کی آواز آج بھی گونج رہی ہے کہ اب بچوں کے ٹورنامنٹ ختم ہوگئے اب نہ ہوں گے میرے بچو یہ پھر ہوں گے ووٹ بینک بدلتا رہتا ہے ستم کی یہ موج ختم ہوکر رہے گی، بچو! جیت تہماری ہوکر رہے گی، تمہاری بستی میں امن جلد ہوگا، لیاری ساحل کی بستی ہے جہاں زندگی مشکل ہے موت سستی ہے، مگر قدم جمائے رکھو، پیار دامن میں سجائے رکھو ۔ تم حکومت سے توقع نہ رکھنا اس زمین کی آبیاری کرنی ہے اپنی تہذیب کو قلم سے بچانا ہوگا ، پھر تمہارے ساتھ یہ زمانہ ہوگا۔