نئی سیکیورٹی پالیسی
دہشت گردی بڑھ رہی ہے، یوم آزادی کے موقع پر کراچی میں عبادت گاہوں پر حملے ہوئے.
دہشت گردی بڑھ رہی ہے، یوم آزادی کے موقع پر کراچی میں عبادت گاہوں پر حملے ہوئے، اندرون سندھ مختلف شہر دھماکوں سے گونج اٹھے۔ ڈیرہ اسماعیل خان کی جیل پر حملے میں سیکڑوں خطرناک قیدی رہا ہوگئے۔ کوئٹہ میں پولیس لائن پر حملے میں ڈی آئی جی کے عہدے سے لے کر ایس ایچ او کے عہدے تک کے 26 افسران شہید کردیے گئے۔ شمالی علاقے میں غیر ملکی سیاحوں کے قتل کی تحقیقات میں مصروف فوجی اور پولیس افسر قتل کردیے گئے۔ لیاری میں فٹبال ٹورنامنٹ کے اختتام پر12 معصوم بچے ریموٹ کنٹرول بم کے دھماکے کی نذر ہوگئے۔ وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ یہ دہشت گردی کی جنگ ہم پر مسلط کی گئی۔ 13 برسوں میں سیکیورٹی پالیسی نہیں بنی لہٰذا جامع سیکیورٹی پالیسی بننے میں مزید وقت لگے گا۔ پیپلزپارٹی کے رہنما میاں رضا ربانی کہتے ہیں کہ سیکیورٹی پالیسی کو حتمی شکل دیتے وقت صوبوں کو اعتماد میں لیا جائے۔
پاکستان میں دہشت گردی کی بدترین شکل افغانستان پر اتحادی افواج کے حملے کے بعد سامنے آئی جب کابل میں لڑی جانے والی لڑائی پشاور اور کوئٹہ کے راستے اسلام آباد اور لاہور سے ہوتی ہوئی کراچی تک پہنچ گئی۔ جلال آباد، کابل، مزارشریف، قندھار تو محفوظ ہوگئے لیکن پاکستان کے شہر اور دیہات دہشت گردوں کی سرگرمیوں کا مرکز بن گئے۔ حقائق سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان پر دہشت گردی کی جنگ مسلط نہیں کی گئی بلکہ گزشتہ صدی کی 80 کی دہائی میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے پروجیکٹ میں شمولیت کی بنا پر پاکستان افغان جنگ کا حصہ بنا جس کے نتیجے میں کلاشنکوف کلچر، اربن فسطائیت ، اور مذہبی جنونیت کو تقویت ملی۔ پاکستان اور امریکا کے مشترکہ پروجیکٹ کے تحت مذہبی انتہاپسندوں کو دنیا بھر سے جمع کیا گیا، مذہبی جماعتوں کو جہادی نوجوانوں کی تربیت کا فریضہ سونپا گیا، اسکول سے یونیورسٹی کی سطح تک کے تعلیمی نصاب میں جنونی مواد کو شامل کرایا گیا، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات کی امداد سے مدرسوں کا جال ملک بھر میں پھیلادیا گیا اور ایک مخصوص ذہن کی پرورش کی گئی۔
اس صورتحال کا پہلا منطقی نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ ملک میں فرقہ وارانہ خلیج بڑھنی شروع ہوئی۔ جب میاں نواز شریف وزیراعظم محمد خان جونیجو کے دور میں پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے تو ان کی حکومت اس پالیسی پر عمل درآمد کررہی تھی۔ جب پیپلزپارٹی کی دوسری حکومت محترمہ بے نظیر بھٹو کی قیادت میں قائم ہوئی تو میاں صاحب کے اسامہ بن لادن سے تعلقات قائم ہوئے اور بے نظیر بھٹو حکومت کے خلاف اسامہ بن لادن کی سرمایہ کاری کی کہانی جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد مرحوم کی زبانی اخبارات کی فائلوں کا حصہ بنی رہی، مگر جب میاں نوازشریف پہلی دفعہ ملک کے وزیراعظم بنے تو مسلم لیگی حکومت کو صورتحال کی سنگینی کا ادراک ہوا، اس زمانے میں ایک دہشت گرد ریاض بسرا پنجاب پولیس کو چکمہ دیتا رہا۔
میاں نواز شریف کی حکومت نے سوویت یونین کے خاتمے کے بعد جب وسطی ایشیائی ممالک سے روابط قائم کرنے کی پالیسی اختیار کی تو پاکستان کی مدد سے منظم ہونے والے افغان مجاہدین کے گروہوں نے اس پالیسی کو اسی بنا پر سبوتاژ کردیا۔ افغانستان میں موجود جہادی گروپوں کو دنیا بھر میں جہاد برآمد کرنے کی تربیت دی گئی، اس زمانے میں کشمیر میںمجاہدین سرگرم ہوئے۔ بدقسمتی تو یہ ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اپنے دوسرے دورِ حکومت میں طالبان کو منظم کرنے کے عسکری منصوبے کے نقصانات کا اندازہ نہیں لگاسکیں۔ میاں نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت میں امریکی طیارہ بردار جہاز سے خوست میں میزائل داغے گئے، اس پالیسی کے نتیجے میں نائن الیون کی عظیم دہشت گردی کا سانحہ ہوا۔ اس کے بعد جنرل پرویز مشرف دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ بن گئے مگر اسٹیبلشمنٹ نے اپنی پرانی پالیسی برقراررکھی جس کے نتیجے میں لڑائی کراچی تک پہنچ گئی۔
2008 میں صدر آصف علی زرداری کی حکومت قائم ہوئی تو پشاور اور کوئٹہ کے بعد اسلام آباد اور لاہور میں بھی دہشت گردی کے واقعات ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ میاں شہباز شریف نے مذہبی انتہا پسندوں سے کسی سطح پر مفاہمت کی، اب لاہور، فیصل آباد اور ملتان تو محفوظ ہوگئے مگر ملک کا باقی حصہ تباہی کا مرکز بن گیا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مختلف قسم کی تجاویز سامنے آئیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تطہیر کی جائے اور انٹیلی جنس نیٹ ورک کو مزید موثر بنایا جائے، اس کے ساتھ ہی انتہاپسندی کے مخصوص ذہن کی تبدیلی کے لیے انتہا پسند قوانین کی تبدیلی اور جدید تعلیمی اداروں اور مدرسوں کے نصاب میں بھی تبدیلی کی جائے۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے دور حکومت میں بھی ان ہی تجاویز کا بار بار ذکر ہوا مگر پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں شامل طاقتور لوگ اس معاملے میں رکاوٹ بن گئے۔
مسلم لیگ ن کے اراکین اسمبلی نے بھی سوچ کو آگے بڑھایا، مسلم لیگی قیادت اور عمران خان نے فوری طور پر طالبان سے مذاکرات پر زور دینا شروع کیا، انتہا پسند ذہن کی تبدیلی کا معاملہ التوا کا شکار ہوا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ بنوں جیل سے فرار ہونے والے اور ڈیرہ اسماعیل خان جیل توڑنے کی منصوبہ بندی کے بنیادی کردار عدنان رشید کی سپریم کورٹ سے اپیل مسترد ہونے کے بعد آزاد کشمیر، خیبر پختونخوا اور پنجاب کی 8 بار ایسوسی ایشنوں نے عدنان رشید کا مقدمہ دوبارہ چلانے کا مطالبہ کردیا ہے۔ ایک وقت ایسا آیا کہ طالبان نے میاں نواز شریف، عمران خان اور سید منور حسن کو مذاکرات کے لیے ثالث مقرر کرنے کا بھی اعلان کردیا۔ جیسے ہی 11 مئی 2013 کے انتخابات کے لیے مہم شروع ہوئی پیپلزپارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور ایم کیو ایم کے رہنمائوں اور انتخابات پر حملے شروع ہوئے، مسلم لیگ ن، تحریک انصاف اور مذہبی جماعتوں نے آزادی سے اپنی مہم چلائی، مسلم لیگ ن کو عام انتخابات میں واضح کامیابی حاصل ہوئی مگر مسلم لیگ کی حکومت قائم ہوتے ہی دہشت گردی میں شدت آگئی۔
جب ایک ماہ قبل کوئٹہ میں خواتین کی یونیورسٹی کی بس اور اسپتال کمپلیکس پر حملہ ہوا تو میاں نواز شریف عسکری اور سول انٹیلی جنس اداروں کے سربراہوں کے ساتھ کوئٹہ گئے اور اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ 20 گلیوں والے شہر میں بھی دہشت گردی روکی نہیں جاسکی مگر صورتحال بدستور خراب رہی۔ اب نئی صورتحال میں مسلم لیگی حکومت کو طالبان سے فوری مذاکرات کی کوئی جلدی نہیں ہے، عمران خان گول میز کانفرنس سے پہلے وزیراعظم اور فوج کے سربراہ سے ملنا چاہتے ہیں۔ وفاقی حکومت کو فوری طور پر سیکیورٹی پالیسی کو حتمی شکل دینے کے لیے مشترکہ مفاد کونسل کا اجلاس بلانا چاہیے اور تمام صوبوں کو ایک مربوط پالیسی تیار کرنے کے لیے گرم جوشی سے حصہ لینا چاہیے۔ چوہدری نثار نے اپنی ایک پریس کانفرنس میں انتہا پسندوں کی طرف سے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کا ذکر کیا ہے۔ انھوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا ہے کہ انتہاپسند سرکاری اہلکاروں سے زیادہ تربیت یافتہ ہیں۔
دہشت گردوں کے منظم ہونے میں عوام کے ایک حصے کی ہمدردی، قانون نافذکرنے والے اداروں کے بعض حصوں کی حمایت، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ملک کے مختلف حصوں سے جمع ہونے والی امداد کا اہم حصہ ہے۔ معاملہ صرف انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مشترکہ نیٹ ورک کے قیام اور پولیس اہلکاروں کی شرکت سے ہی حل نہیں ہوگا بلکہ ریاست کے اعلیٰ ترین اداروں میں متحرک افراد کے ذہنوں کی تبدیلی بھی لازمی عنصر ہوگی۔ نیشنل سیکیورٹی پالیسی کو بہت جامع بنانا ہوگا۔ نواز شریف حکومت انتہاپسندوں سے جنگ یا مذاکرات کا معاملہ محض گول میز کانفرنس کے شرکاء پر نہیں چھوڑ سکتی، حکومت کو واضح موقف اختیار کرنا چاہیے کہ ملک کے آئین اور قوانین کو تسلیم کرنے والوں سے ہی مذاکرات ہوسکتے ہیں اور ان کو معافی دینے کی تجویز پر بھی غور ہوسکتا ہے مگر ایک مخصوص فرقے کے فرسودہ نظریات ریاست پر نافذ کرنے کی جنگی حکمت عملی اختیار کرنے والے لوگوں سے کوئی مذاکرات نہیں ہوسکتے۔ نیشنل سیکیورٹی پالیسی کا سب سے اہم نکتہ یہ ہونا چاہیے کہ منتخب حکومت کی تیار کردہ پالیسی پر تمام عسکری اور سول ایجنسیاں عمل پیرا ہوں۔
پاکستان میں دہشت گردی کی بدترین شکل افغانستان پر اتحادی افواج کے حملے کے بعد سامنے آئی جب کابل میں لڑی جانے والی لڑائی پشاور اور کوئٹہ کے راستے اسلام آباد اور لاہور سے ہوتی ہوئی کراچی تک پہنچ گئی۔ جلال آباد، کابل، مزارشریف، قندھار تو محفوظ ہوگئے لیکن پاکستان کے شہر اور دیہات دہشت گردوں کی سرگرمیوں کا مرکز بن گئے۔ حقائق سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان پر دہشت گردی کی جنگ مسلط نہیں کی گئی بلکہ گزشتہ صدی کی 80 کی دہائی میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے پروجیکٹ میں شمولیت کی بنا پر پاکستان افغان جنگ کا حصہ بنا جس کے نتیجے میں کلاشنکوف کلچر، اربن فسطائیت ، اور مذہبی جنونیت کو تقویت ملی۔ پاکستان اور امریکا کے مشترکہ پروجیکٹ کے تحت مذہبی انتہاپسندوں کو دنیا بھر سے جمع کیا گیا، مذہبی جماعتوں کو جہادی نوجوانوں کی تربیت کا فریضہ سونپا گیا، اسکول سے یونیورسٹی کی سطح تک کے تعلیمی نصاب میں جنونی مواد کو شامل کرایا گیا، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات کی امداد سے مدرسوں کا جال ملک بھر میں پھیلادیا گیا اور ایک مخصوص ذہن کی پرورش کی گئی۔
اس صورتحال کا پہلا منطقی نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ ملک میں فرقہ وارانہ خلیج بڑھنی شروع ہوئی۔ جب میاں نواز شریف وزیراعظم محمد خان جونیجو کے دور میں پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے تو ان کی حکومت اس پالیسی پر عمل درآمد کررہی تھی۔ جب پیپلزپارٹی کی دوسری حکومت محترمہ بے نظیر بھٹو کی قیادت میں قائم ہوئی تو میاں صاحب کے اسامہ بن لادن سے تعلقات قائم ہوئے اور بے نظیر بھٹو حکومت کے خلاف اسامہ بن لادن کی سرمایہ کاری کی کہانی جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد مرحوم کی زبانی اخبارات کی فائلوں کا حصہ بنی رہی، مگر جب میاں نوازشریف پہلی دفعہ ملک کے وزیراعظم بنے تو مسلم لیگی حکومت کو صورتحال کی سنگینی کا ادراک ہوا، اس زمانے میں ایک دہشت گرد ریاض بسرا پنجاب پولیس کو چکمہ دیتا رہا۔
میاں نواز شریف کی حکومت نے سوویت یونین کے خاتمے کے بعد جب وسطی ایشیائی ممالک سے روابط قائم کرنے کی پالیسی اختیار کی تو پاکستان کی مدد سے منظم ہونے والے افغان مجاہدین کے گروہوں نے اس پالیسی کو اسی بنا پر سبوتاژ کردیا۔ افغانستان میں موجود جہادی گروپوں کو دنیا بھر میں جہاد برآمد کرنے کی تربیت دی گئی، اس زمانے میں کشمیر میںمجاہدین سرگرم ہوئے۔ بدقسمتی تو یہ ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اپنے دوسرے دورِ حکومت میں طالبان کو منظم کرنے کے عسکری منصوبے کے نقصانات کا اندازہ نہیں لگاسکیں۔ میاں نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت میں امریکی طیارہ بردار جہاز سے خوست میں میزائل داغے گئے، اس پالیسی کے نتیجے میں نائن الیون کی عظیم دہشت گردی کا سانحہ ہوا۔ اس کے بعد جنرل پرویز مشرف دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ بن گئے مگر اسٹیبلشمنٹ نے اپنی پرانی پالیسی برقراررکھی جس کے نتیجے میں لڑائی کراچی تک پہنچ گئی۔
2008 میں صدر آصف علی زرداری کی حکومت قائم ہوئی تو پشاور اور کوئٹہ کے بعد اسلام آباد اور لاہور میں بھی دہشت گردی کے واقعات ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ میاں شہباز شریف نے مذہبی انتہا پسندوں سے کسی سطح پر مفاہمت کی، اب لاہور، فیصل آباد اور ملتان تو محفوظ ہوگئے مگر ملک کا باقی حصہ تباہی کا مرکز بن گیا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مختلف قسم کی تجاویز سامنے آئیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تطہیر کی جائے اور انٹیلی جنس نیٹ ورک کو مزید موثر بنایا جائے، اس کے ساتھ ہی انتہاپسندی کے مخصوص ذہن کی تبدیلی کے لیے انتہا پسند قوانین کی تبدیلی اور جدید تعلیمی اداروں اور مدرسوں کے نصاب میں بھی تبدیلی کی جائے۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے دور حکومت میں بھی ان ہی تجاویز کا بار بار ذکر ہوا مگر پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں شامل طاقتور لوگ اس معاملے میں رکاوٹ بن گئے۔
مسلم لیگ ن کے اراکین اسمبلی نے بھی سوچ کو آگے بڑھایا، مسلم لیگی قیادت اور عمران خان نے فوری طور پر طالبان سے مذاکرات پر زور دینا شروع کیا، انتہا پسند ذہن کی تبدیلی کا معاملہ التوا کا شکار ہوا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ بنوں جیل سے فرار ہونے والے اور ڈیرہ اسماعیل خان جیل توڑنے کی منصوبہ بندی کے بنیادی کردار عدنان رشید کی سپریم کورٹ سے اپیل مسترد ہونے کے بعد آزاد کشمیر، خیبر پختونخوا اور پنجاب کی 8 بار ایسوسی ایشنوں نے عدنان رشید کا مقدمہ دوبارہ چلانے کا مطالبہ کردیا ہے۔ ایک وقت ایسا آیا کہ طالبان نے میاں نواز شریف، عمران خان اور سید منور حسن کو مذاکرات کے لیے ثالث مقرر کرنے کا بھی اعلان کردیا۔ جیسے ہی 11 مئی 2013 کے انتخابات کے لیے مہم شروع ہوئی پیپلزپارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور ایم کیو ایم کے رہنمائوں اور انتخابات پر حملے شروع ہوئے، مسلم لیگ ن، تحریک انصاف اور مذہبی جماعتوں نے آزادی سے اپنی مہم چلائی، مسلم لیگ ن کو عام انتخابات میں واضح کامیابی حاصل ہوئی مگر مسلم لیگ کی حکومت قائم ہوتے ہی دہشت گردی میں شدت آگئی۔
جب ایک ماہ قبل کوئٹہ میں خواتین کی یونیورسٹی کی بس اور اسپتال کمپلیکس پر حملہ ہوا تو میاں نواز شریف عسکری اور سول انٹیلی جنس اداروں کے سربراہوں کے ساتھ کوئٹہ گئے اور اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ 20 گلیوں والے شہر میں بھی دہشت گردی روکی نہیں جاسکی مگر صورتحال بدستور خراب رہی۔ اب نئی صورتحال میں مسلم لیگی حکومت کو طالبان سے فوری مذاکرات کی کوئی جلدی نہیں ہے، عمران خان گول میز کانفرنس سے پہلے وزیراعظم اور فوج کے سربراہ سے ملنا چاہتے ہیں۔ وفاقی حکومت کو فوری طور پر سیکیورٹی پالیسی کو حتمی شکل دینے کے لیے مشترکہ مفاد کونسل کا اجلاس بلانا چاہیے اور تمام صوبوں کو ایک مربوط پالیسی تیار کرنے کے لیے گرم جوشی سے حصہ لینا چاہیے۔ چوہدری نثار نے اپنی ایک پریس کانفرنس میں انتہا پسندوں کی طرف سے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کا ذکر کیا ہے۔ انھوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا ہے کہ انتہاپسند سرکاری اہلکاروں سے زیادہ تربیت یافتہ ہیں۔
دہشت گردوں کے منظم ہونے میں عوام کے ایک حصے کی ہمدردی، قانون نافذکرنے والے اداروں کے بعض حصوں کی حمایت، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ملک کے مختلف حصوں سے جمع ہونے والی امداد کا اہم حصہ ہے۔ معاملہ صرف انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مشترکہ نیٹ ورک کے قیام اور پولیس اہلکاروں کی شرکت سے ہی حل نہیں ہوگا بلکہ ریاست کے اعلیٰ ترین اداروں میں متحرک افراد کے ذہنوں کی تبدیلی بھی لازمی عنصر ہوگی۔ نیشنل سیکیورٹی پالیسی کو بہت جامع بنانا ہوگا۔ نواز شریف حکومت انتہاپسندوں سے جنگ یا مذاکرات کا معاملہ محض گول میز کانفرنس کے شرکاء پر نہیں چھوڑ سکتی، حکومت کو واضح موقف اختیار کرنا چاہیے کہ ملک کے آئین اور قوانین کو تسلیم کرنے والوں سے ہی مذاکرات ہوسکتے ہیں اور ان کو معافی دینے کی تجویز پر بھی غور ہوسکتا ہے مگر ایک مخصوص فرقے کے فرسودہ نظریات ریاست پر نافذ کرنے کی جنگی حکمت عملی اختیار کرنے والے لوگوں سے کوئی مذاکرات نہیں ہوسکتے۔ نیشنل سیکیورٹی پالیسی کا سب سے اہم نکتہ یہ ہونا چاہیے کہ منتخب حکومت کی تیار کردہ پالیسی پر تمام عسکری اور سول ایجنسیاں عمل پیرا ہوں۔