اپنی خدمت عوام کی خدمت
ہم نے آخری کاری ضرب لگائی کہ بھئی اگر وہ ’’عوام‘‘ ہیں تو ٹھیک ہی کہتے بھی ہیں اورکرتے بھی ہیں۔
اس دن ایک بہت بڑے ''خادم'' سے ملاقات ہوئی جو بہت زیادہ ''ہمہ جہت'' ''خادم'' ہونے کی وجہ سے ایک طرف بہت زیادہ پھیلا ہوا بھی تھا۔ گویا جذبے کے ساتھ ساتھ اس نے اپنے جسم کو بھی اس کام میں لگایا ہوا تھا جو خدمت کے لیے ''شش جہات'' پھیلا ہوا یعنی خدمت کا دائرہ بڑھائے ہوئے تھا۔
جس تقریب سے ہم لوٹ رہے تھے، اس میں اس نے جو تقریر دلپذیر ارشاد فرمائی، اس میں اپنی خدمت کی تفصیلات کے علاوہ وہ تمام عہدے بیان فرمائے جو اس وقت اس کے بابرکت سائے تلے ''خدمات'' سر انجام دے رہے ہیں۔ لگ بھگ ڈیڑھ درجن کے قریب یہ عہدے پہلے بھی اس نے اپنے ایک پرستار کے ذریعے مشتہر کیے تھے لیکن شاید اس خدشے کے تحت کہ کوئی عہدہ چھوٹ نہ گیا ہو اور یا کسی کے کانوں تک پہنچا نہ ہو۔
اس نے سارے مع تعارف اور خدمات کے ری ٹیلی کاسٹ کیے۔اور پھر وہ تقریر ارشاد فرمائی جو آج کل کچھ تھوڑی سی لفظی تبدیلی کے ساتھ ہر خادم کو ازبر ہے۔ یعنی اسلام زندہ باد، پاکستان کے عوام زندہ باد، تم زندہ باد، میں بھی زندہ باد،... اور پھر اس کے بعد ایک دعا۔ جس میں خود کو دکاندار سمجھ کر ان تمام چیزوں کی لسٹ ہوتی ہے جن کی کسی نہ کسی طرح سامعین، ناظرین اور غائبین کو ضرورت یا خواہش ہوتی ہے۔ اس یقین کے ساتھ کہ بھول نہ جائے اس لیے ایک ہی چیز کے کئی کئی نام اور تشریحات بھی ہوتی ہیں۔دنیا کی ضرورتوں اور خواہشات کے ساتھ آخرت کی ضروری چیزیں بھی یاد دلا دی جاتی ہیں، سامان قبر کی بھی مختصر سی لسٹ ہوتی ہے جس میں روشنی کے انتظامات کے ساتھ سیر کے لیے گل و گلزار بھی شامل ہوتی۔
ساتھ ہی کفرستان پر پرچم اسلام بذریعہ پاکستان لہرانے، کافروں کو نیست و نابود کرنے کے ساتھ ساتھ ان تمام بزرگوں اور غازیوں کی اپنے ''پنر جنم'' کی استدعا بھی ہوتی ہے جو اگلے وقتوں میں ساری دنیا پر پرچم اسلام لہرایا کرتے تھے ۔
دین و دنیا کے سارے چھوٹے بڑے کام خدا کے سپرد کرتے ہوئے وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے اسی زبان سے وہ اپنی ڈیڑھ درجن تنظیموں سے یہ تمام کام کرا چکا ہے،واپسی میں ہمارے ساتھ گاڑی میں ایک دل جلا، پیٹ پھولا اور منہ پھٹا ایک ایسا آدمی بھی تھا جس کی زبان کو شدید کجھلی کا عارضہ تھا اور تقریباً ہر طریقہ طب کے معالج اسے جواب دے چکے ہیں کہ یہ کجھلی وہی کجھلی ہے جو منصور یعنی حسین ابن منصور حلاج کو بھی لاحق ہوئی تھی، اس لیے اس کا صرف ایک ہی علاج ہے جس سے ابن منصور کو بھی ٹریٹ کیا گیا تھا چاہو تو تیرا بھی شروع کریں لیکن فی الحال وہ اس علاج پر راضی نہیں ہے، اس لیے کجھلی برابر چل رہی ہے، تنہائی ملتے ہی اس نے زبان کھجائی ۔ سنا تم نے اس شخص کی تقریر کو ۔۔۔ سنا تو ہم نے تھا لیکن اس کی زبان کی طرح ہمیں بھی کانوں کا ایک عارضہ لاحق ہے کہ دونوں کے درمیان ایک اچھا خاصا سوراخ موجود ہے جس میں ان کمنگ کے ساتھ آوٹ گوئنگ سسٹم بھی ہے یا آمد و رفت اور داخل خارج کا سلسلہ برابر جاری رہتا ہے، اس لیے تقریب سے نکلنے کے ساتھ ہمارے کان بھی سب کچھ نکال چکے ہوتے ہیں۔
لیکن مذکورہ خادم قوم خادم ملت، خادم مریضان و غریبان، خادم بڈھا گان و نوجوانان و بچہ گان، خادم یتیمان و بیوگان اور ناکتخدگان، خادم نشائیاں، معذوران اور خادم مالکانان مکان و کرایہ دہندگان کی ہی قصیدہ خوانی خود یہ اتنی بارسن چکے ہیں کہ باوجود ہمارے کانوں کے سوراخ کے جاتے جاتے بھی کہیں چپک چکا ہے۔
اس لیے کہا کہ ہاں سن لی ہے۔
بولا پھر کیا خیال ہے؟
ہم نے ارادتاً بلکہ شرارتاً کہا کہ ہاں اچھی تقریر تھی، بڑی اچھی باتیں کیں۔ اس پر وہ ایک دم بلاسٹ ہو گیا۔ بولا، ایسی ایک بات بھی اس میں نہیں، پکا سوداگر ہے، دکاندار ہے، مداری ہے، بہروپیا ہے۔ ہم نے مزید پھونک مارتے ہوئے کہا۔ مگر خدمت تو کرتا ہے نا۔۔ بولا،کونسی خدمت ، کیسی خدمت۔ عرض کیا پھر بھی ہم سے تو اچھا ہے بچارا کچھ نہ کچھ تو کرتا ہے۔ ہمارے جیسا نکما نکھٹو اور کاہل الوجود تو نہیں۔
بولا، ہاں کرتا ہے، صرف باتیں بلکہ کرتا بھی ہے اور بناتا بھی ہے۔تو پھر یہ عوام نے اسے اتنی تنظیموں اور اداروں کا صدر، چیئرمین اور سیکریٹری جو بنایا ہے۔بولا ،یہ ساری تنظیمیں صرف اس کی جیب میں بلکہ پیٹ میں ہیں۔ پھر وہ اس موضوع کی تفصیلات سنانے لگا۔ ہم بھی درمیان میں کوئی موڑ ڈال کر مزید تیز کرتے۔
پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
رکتی ہے میری طبع تو ہوتی ہے رواں اور
ہم نے سفر بھی کاٹنا تھا اس لیے سن رہے تھے اور جب سفر کا دی اینڈ قریب آ گیا تو ایک اچھا خاصا بریک ڈال کر عوامی خدمت اور عوامی خدمت کرنے والوں کو اس کے سامنے کیا، پھر وہ جو رپٹ چلا تو خدا کی پناہ۔لیکن جب اس کلائمکس پر پہنچا کہ یہ سب ''خادم'' صرف اپنے لیے کرتے ہیں دوسروں کے لیے کچھ نہیں کرتے اور یہیں پر ہم نے اسے پکڑا اور ایسا پکڑا کہ پھڑپھڑا کر رہ گیا۔عرض کیا تم نے کہا کہ اپنے لیے کرتے ہیں۔ تو پھر ٹھیک ہے اور ٹھیک ہی کہتے ہیں کیوں کہ وہ خود بھی ''عوام'' ہیں۔ پھر سوال کیا کہ تم انھیں عوام کے زمرے سے نکال سکتے ہو؟ پاکستانی زمرے سے نکال سکتے ہو؟ مسلمان کے زمرے سے نکال سکتے ہو یا پشتون کے زمرے سے نکال سکتے ہو؟
وہ الجھ گیا تو ہم نے آخری کاری ضرب لگائی کہ بھئی اگر وہ ''عوام'' ہیں تو ٹھیک ہی کہتے بھی ہیں اورکرتے بھی ہیں۔ یہ بھی اگر خدمت کا کام اپنے آپ سے اور اپنوں سے شروع کر چکے ہیں تو کرنے دو، ایک دن جب قریب کی خدمت مکمل کر لیں گے تو دوسروں کی باری بھی آ جائے گی۔
وہ کچھ اور نہیں کہ سکا تو بولا اور وہ دن شاید قیامت کا دوسرا دن ہو گا۔ٹھیک ہے وہ اتاؤلا ہو رہا تھا تو اس کی مرضی لیکن اصولی بات یہ ہے کہ ایک کام ختم ہو گا تو دوسرا شروع کیا جائے گا۔ اب اگر ان بچاروں کو ''قریبی عوام''کی خدمت سے فرصت حاصل نہیں ہو رہی ہے تو اس میں ان بچاروں کا کیا دوش، عوام تھوڑا صبر کریں، اپنی باری کا، کہ اﷲ بھی صابرین اور شاکرین کو پسند کرتا ہے۔
جس تقریب سے ہم لوٹ رہے تھے، اس میں اس نے جو تقریر دلپذیر ارشاد فرمائی، اس میں اپنی خدمت کی تفصیلات کے علاوہ وہ تمام عہدے بیان فرمائے جو اس وقت اس کے بابرکت سائے تلے ''خدمات'' سر انجام دے رہے ہیں۔ لگ بھگ ڈیڑھ درجن کے قریب یہ عہدے پہلے بھی اس نے اپنے ایک پرستار کے ذریعے مشتہر کیے تھے لیکن شاید اس خدشے کے تحت کہ کوئی عہدہ چھوٹ نہ گیا ہو اور یا کسی کے کانوں تک پہنچا نہ ہو۔
اس نے سارے مع تعارف اور خدمات کے ری ٹیلی کاسٹ کیے۔اور پھر وہ تقریر ارشاد فرمائی جو آج کل کچھ تھوڑی سی لفظی تبدیلی کے ساتھ ہر خادم کو ازبر ہے۔ یعنی اسلام زندہ باد، پاکستان کے عوام زندہ باد، تم زندہ باد، میں بھی زندہ باد،... اور پھر اس کے بعد ایک دعا۔ جس میں خود کو دکاندار سمجھ کر ان تمام چیزوں کی لسٹ ہوتی ہے جن کی کسی نہ کسی طرح سامعین، ناظرین اور غائبین کو ضرورت یا خواہش ہوتی ہے۔ اس یقین کے ساتھ کہ بھول نہ جائے اس لیے ایک ہی چیز کے کئی کئی نام اور تشریحات بھی ہوتی ہیں۔دنیا کی ضرورتوں اور خواہشات کے ساتھ آخرت کی ضروری چیزیں بھی یاد دلا دی جاتی ہیں، سامان قبر کی بھی مختصر سی لسٹ ہوتی ہے جس میں روشنی کے انتظامات کے ساتھ سیر کے لیے گل و گلزار بھی شامل ہوتی۔
ساتھ ہی کفرستان پر پرچم اسلام بذریعہ پاکستان لہرانے، کافروں کو نیست و نابود کرنے کے ساتھ ساتھ ان تمام بزرگوں اور غازیوں کی اپنے ''پنر جنم'' کی استدعا بھی ہوتی ہے جو اگلے وقتوں میں ساری دنیا پر پرچم اسلام لہرایا کرتے تھے ۔
دین و دنیا کے سارے چھوٹے بڑے کام خدا کے سپرد کرتے ہوئے وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے اسی زبان سے وہ اپنی ڈیڑھ درجن تنظیموں سے یہ تمام کام کرا چکا ہے،واپسی میں ہمارے ساتھ گاڑی میں ایک دل جلا، پیٹ پھولا اور منہ پھٹا ایک ایسا آدمی بھی تھا جس کی زبان کو شدید کجھلی کا عارضہ تھا اور تقریباً ہر طریقہ طب کے معالج اسے جواب دے چکے ہیں کہ یہ کجھلی وہی کجھلی ہے جو منصور یعنی حسین ابن منصور حلاج کو بھی لاحق ہوئی تھی، اس لیے اس کا صرف ایک ہی علاج ہے جس سے ابن منصور کو بھی ٹریٹ کیا گیا تھا چاہو تو تیرا بھی شروع کریں لیکن فی الحال وہ اس علاج پر راضی نہیں ہے، اس لیے کجھلی برابر چل رہی ہے، تنہائی ملتے ہی اس نے زبان کھجائی ۔ سنا تم نے اس شخص کی تقریر کو ۔۔۔ سنا تو ہم نے تھا لیکن اس کی زبان کی طرح ہمیں بھی کانوں کا ایک عارضہ لاحق ہے کہ دونوں کے درمیان ایک اچھا خاصا سوراخ موجود ہے جس میں ان کمنگ کے ساتھ آوٹ گوئنگ سسٹم بھی ہے یا آمد و رفت اور داخل خارج کا سلسلہ برابر جاری رہتا ہے، اس لیے تقریب سے نکلنے کے ساتھ ہمارے کان بھی سب کچھ نکال چکے ہوتے ہیں۔
لیکن مذکورہ خادم قوم خادم ملت، خادم مریضان و غریبان، خادم بڈھا گان و نوجوانان و بچہ گان، خادم یتیمان و بیوگان اور ناکتخدگان، خادم نشائیاں، معذوران اور خادم مالکانان مکان و کرایہ دہندگان کی ہی قصیدہ خوانی خود یہ اتنی بارسن چکے ہیں کہ باوجود ہمارے کانوں کے سوراخ کے جاتے جاتے بھی کہیں چپک چکا ہے۔
اس لیے کہا کہ ہاں سن لی ہے۔
بولا پھر کیا خیال ہے؟
ہم نے ارادتاً بلکہ شرارتاً کہا کہ ہاں اچھی تقریر تھی، بڑی اچھی باتیں کیں۔ اس پر وہ ایک دم بلاسٹ ہو گیا۔ بولا، ایسی ایک بات بھی اس میں نہیں، پکا سوداگر ہے، دکاندار ہے، مداری ہے، بہروپیا ہے۔ ہم نے مزید پھونک مارتے ہوئے کہا۔ مگر خدمت تو کرتا ہے نا۔۔ بولا،کونسی خدمت ، کیسی خدمت۔ عرض کیا پھر بھی ہم سے تو اچھا ہے بچارا کچھ نہ کچھ تو کرتا ہے۔ ہمارے جیسا نکما نکھٹو اور کاہل الوجود تو نہیں۔
بولا، ہاں کرتا ہے، صرف باتیں بلکہ کرتا بھی ہے اور بناتا بھی ہے۔تو پھر یہ عوام نے اسے اتنی تنظیموں اور اداروں کا صدر، چیئرمین اور سیکریٹری جو بنایا ہے۔بولا ،یہ ساری تنظیمیں صرف اس کی جیب میں بلکہ پیٹ میں ہیں۔ پھر وہ اس موضوع کی تفصیلات سنانے لگا۔ ہم بھی درمیان میں کوئی موڑ ڈال کر مزید تیز کرتے۔
پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
رکتی ہے میری طبع تو ہوتی ہے رواں اور
ہم نے سفر بھی کاٹنا تھا اس لیے سن رہے تھے اور جب سفر کا دی اینڈ قریب آ گیا تو ایک اچھا خاصا بریک ڈال کر عوامی خدمت اور عوامی خدمت کرنے والوں کو اس کے سامنے کیا، پھر وہ جو رپٹ چلا تو خدا کی پناہ۔لیکن جب اس کلائمکس پر پہنچا کہ یہ سب ''خادم'' صرف اپنے لیے کرتے ہیں دوسروں کے لیے کچھ نہیں کرتے اور یہیں پر ہم نے اسے پکڑا اور ایسا پکڑا کہ پھڑپھڑا کر رہ گیا۔عرض کیا تم نے کہا کہ اپنے لیے کرتے ہیں۔ تو پھر ٹھیک ہے اور ٹھیک ہی کہتے ہیں کیوں کہ وہ خود بھی ''عوام'' ہیں۔ پھر سوال کیا کہ تم انھیں عوام کے زمرے سے نکال سکتے ہو؟ پاکستانی زمرے سے نکال سکتے ہو؟ مسلمان کے زمرے سے نکال سکتے ہو یا پشتون کے زمرے سے نکال سکتے ہو؟
وہ الجھ گیا تو ہم نے آخری کاری ضرب لگائی کہ بھئی اگر وہ ''عوام'' ہیں تو ٹھیک ہی کہتے بھی ہیں اورکرتے بھی ہیں۔ یہ بھی اگر خدمت کا کام اپنے آپ سے اور اپنوں سے شروع کر چکے ہیں تو کرنے دو، ایک دن جب قریب کی خدمت مکمل کر لیں گے تو دوسروں کی باری بھی آ جائے گی۔
وہ کچھ اور نہیں کہ سکا تو بولا اور وہ دن شاید قیامت کا دوسرا دن ہو گا۔ٹھیک ہے وہ اتاؤلا ہو رہا تھا تو اس کی مرضی لیکن اصولی بات یہ ہے کہ ایک کام ختم ہو گا تو دوسرا شروع کیا جائے گا۔ اب اگر ان بچاروں کو ''قریبی عوام''کی خدمت سے فرصت حاصل نہیں ہو رہی ہے تو اس میں ان بچاروں کا کیا دوش، عوام تھوڑا صبر کریں، اپنی باری کا، کہ اﷲ بھی صابرین اور شاکرین کو پسند کرتا ہے۔