مذاق بن جانے والی سیاست
آج کی سیاست میں زیادہ بولنے والے کامیاب اور مقبول سیاستدان ہیں۔
آج کل سیاست میں کسی کو زبردستی اپنی استادی دکھانے کا شوق چڑھا ہوا ہے ،کوئی کسی کو اپنی شاگردی میں لینے کا ٹھیکہ لے رہا ہے تو کوئی اپنے باپ کی عمر والے کو اپنا شاگرد بنانے کا خواہش مند نظر آرہا ہے اور یہ استادی شاگردی بھی سیاست کے لیے مختص ہے۔
سیاست کبھی واقعی عوامی خدمت اور بعض کے نزدیک عبادت بھی تھی مگر اب سیاست صرف اور صرف کاروبار اور مفاد پرستی ہے اور مالی مفادات کے حصول، اثر و رسوخ بڑھانے اور تحفظ کے لیے سیاست میں آنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ سیاست میں اب اخلاقیات، اصولوں کو نظرانداز کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے سیاست میں سنجیدگی کہیں نظر نہیں آتی ۔
زیادہ سے زیادہ جھوٹ بولنے والا اور سیاست میں مزاح اور مذاق زیادہ کرنے، ٹی وی پروگراموں میں جارحیت کا مظاہرہ کرنے والا زیادہ کامیاب سیاستدان ہے اور آج کی سیاست میں ایک ایسا سیاستدان بھی ہے جو عوامی کم مگر عوامی ہونے کا دعوے دار زیادہ ہے مگر عوامی نبض پر ہاتھ رکھنے، خود کو فرشتہ ثابت کرنے، عوام کے دلوں کی باتیں کرنے کا ماہر تو ہے مگر اس کی شرط ٹی وی پروگرام میں تنہا شمولیت کی ہوتی ہے جو دوسرے مہمان کو برداشت نہیں کرتا اور خود چھایا رہنا چاہتا ہے۔ سیاست میں سنجیدگی تو ختم ہوچکی اور مزاحیہ سیاست عروج پا رہی ہے۔
آج کی سیاست میں زیادہ بولنے والے کامیاب اور مقبول سیاستدان ہیں،ایک سیاستدان پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو سیاست میں زبردستی اپنا شاگرد بنانے پر تلے ہوئے ہیں ، مگر وہ خود کو راولپنڈی کا فرزند قرار دیتے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ اپنے شہر میں اپنے عوامی کردار کے باعث مقبول بھی ہیں مگر اتنے مقبول بھی نہیں ہیں کہ ذاتی حیثیت میں جمشید دستی کی طرح تین بار کسی سیاسی جماعت کی مدد کے بغیر منتخب ہوئے ہیں۔
ان کا دعویٰ ہے کہ وہ آٹھ بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے کے باعث سب سے سینئر رکن پارلیمنٹ ہیں، وہ مسلم لیگ (ن) میں ایک عرصہ رہے ہیں اور تیس سال قبل جب نواز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب تھے اور انھوں نے کراچی میں شاہراہ قائدین پر متحدہ کے جلسے سے خطاب کیا تھا اور حاجی مولا بخش سومرو کی وفات پر اظہار تعزیت کے لیے میرے آبائی شہر شکار پور آئے تھے تو شیخ رشید احمد اور چوہدری شجاعت ان کے ساتھ تھے ۔ میڈیا سے انھوں نے دونوں کے درمیان کھڑے ہوکر گفتگو کی تھی تو میاں نواز شریف کو یقین نہیں ہوگا کہ جنرل پرویز مشرف سے شیخ رشید اور چوہدری شجاعت کی قربت ان سے دوریاں اتنی بڑھا دے گی اور اتنے قریب رہنے والے ہی ان کے سیاسی مخالف بن جائیں گے۔
چوہدری شجاعت تو رواداری کے باعث نواز شریف کے خلاف سخت رویہ نہیں رکھتے مگر چوہدری پرویز الٰہی شیخ رشید کی طرح نواز شریف اور شہباز شریف پر تنقید کرتے رہتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب بنانے کا وعدہ پورا کرنے پر نواز شریف سے ناراض چوہدری پرویز الٰہی 1997 میں نواز شریف کے کہنے پر اسپیکر پنجاب اسمبلی تو بن گئے تھے مگر 1999 میں جنرل مشرف کے ہاتھوں منتخب وزیر اعظم کی برطرفی پر چوہدریوں نے شریفوں سے علیحدگی اختیار کرلی تھی اور بعد میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں پرویز الٰہی پانچ سال وزیر اعلیٰ پنجاب رہے اور انھوں نے اچھی کارکردگی کا بھی مظاہرہ کیا تھا ۔
انھوں نے جنرل پرویز کو دس بار وردی میں صدر منتخب کرنے کا بیان بھی دیا تھا۔ بعد میں پرویز الٰہی کی جگہ وزیر اعلیٰ پنجاب جب شہباز شریف بنے اور انھوں نے لاہور میں میٹرو بس منصوبہ شروع کیا تو انھوں نے ہی عوام کو سفر کی باعزت سہولت دینے والے منصوبے کو ''جنگلا بس'' قرار دیا جو مذاق ہی ہوگا کیونکہ اس کی تائید عمران خان نے بھی کی تھی جنھوں نے 5 سالہ حکومت ختم ہونے پر اس کی افادیت تسلیم کرکے وہی منصوبہ پشاور میں شروع کرایا مگر ان کی حکومت ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی یہ منصوبہ مکمل ہونے میں نہیں آرہا ہے۔
سیاست میں یہ اعزاز بھی شیخ رشید نے حاصل کیا ہے کہ بلاول ان سے معافی نہ بھی مانگے تب بھی شیخ رشید انھیں معاف کردیتے ہیں۔ بلاول زرداری کو سیاسی شاگرد بنانے کی تجویز میڈیا پروگرام میں کیا دی گئی اس پر شیخ رشید نے بلاول کو شاگرد بنانا اپنا حق قرار دے دیا اور جواب میں بلاول زرداری نے مولانا فضل الرحمن کو مشورہ دے دیا کہ میں بھٹو کا نواسہ اور بے نظیر کا سیاسی جانشین ہوں اس لیے مولانا میری شاگردی اختیار کرلیں ۔ بلاول زرداری مولانا کو اپنا شاگرد بننے کا مشورہ دیتے ہوئے یہبھول گئے کہ مولانا ان کے والد کی عمر کے ہیں اور ان کی والدہ کے سیاسی رفیق بھی رہے ہیں اور چار عشروں سے سیاست میں ہیں کیا بلاول اس قابل ہوگئے ہیں کہ مولانا انھیں اپنا استاد بنالیں گے۔
سیاست اب مذاق بنائی جا رہی ہے اور پرانے سیاستدانوں سے بھی سنجیدگی ختم ہوتی جا رہی ہے۔ پہلے مرحوم پیرپگاڑا سیاست میں پیش گوئیاں کرنے میں مشہور تھے جن کی جگہ جے یو آئی کے حافظ حسین احمد نے لینے کی کوشش کی مگر پیپلز پارٹی کے منظور وسان بازی لے گئے اور اب انھوں نے یہ پیش گوئی کی ہے کہ جون کے بعد وزیر اعظم مستعفیٰ ہوجائیں گے یا ان سے استعفیٰ لے لیا جائے گا۔
سیاسی تکے تو مشہور تھے ہی جو کبھی کبھی لگ بھی جاتے تھے مگر اکثر غلط ہی ثابت ہوتے تھے اور بعض سیاستدانوں کے لیے شرمندگی کا باعث بھی بنتے تھے جس کی وجہ سے پرانے سیاستدانوں کی اکثریت اس معاملے میں سنجیدہ ہی نظر آتی تھی۔ سیاست مذاق نہیں، سنجیدگی اور تدبر اس سلسلے میں انتہائی ضروری ہے اس لیے تمام سیاستدانوں کو احتیاط برتنے کی ضرورت ہمیشہ رہنی چاہیے۔
سیاست کبھی واقعی عوامی خدمت اور بعض کے نزدیک عبادت بھی تھی مگر اب سیاست صرف اور صرف کاروبار اور مفاد پرستی ہے اور مالی مفادات کے حصول، اثر و رسوخ بڑھانے اور تحفظ کے لیے سیاست میں آنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ سیاست میں اب اخلاقیات، اصولوں کو نظرانداز کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے سیاست میں سنجیدگی کہیں نظر نہیں آتی ۔
زیادہ سے زیادہ جھوٹ بولنے والا اور سیاست میں مزاح اور مذاق زیادہ کرنے، ٹی وی پروگراموں میں جارحیت کا مظاہرہ کرنے والا زیادہ کامیاب سیاستدان ہے اور آج کی سیاست میں ایک ایسا سیاستدان بھی ہے جو عوامی کم مگر عوامی ہونے کا دعوے دار زیادہ ہے مگر عوامی نبض پر ہاتھ رکھنے، خود کو فرشتہ ثابت کرنے، عوام کے دلوں کی باتیں کرنے کا ماہر تو ہے مگر اس کی شرط ٹی وی پروگرام میں تنہا شمولیت کی ہوتی ہے جو دوسرے مہمان کو برداشت نہیں کرتا اور خود چھایا رہنا چاہتا ہے۔ سیاست میں سنجیدگی تو ختم ہوچکی اور مزاحیہ سیاست عروج پا رہی ہے۔
آج کی سیاست میں زیادہ بولنے والے کامیاب اور مقبول سیاستدان ہیں،ایک سیاستدان پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو سیاست میں زبردستی اپنا شاگرد بنانے پر تلے ہوئے ہیں ، مگر وہ خود کو راولپنڈی کا فرزند قرار دیتے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ اپنے شہر میں اپنے عوامی کردار کے باعث مقبول بھی ہیں مگر اتنے مقبول بھی نہیں ہیں کہ ذاتی حیثیت میں جمشید دستی کی طرح تین بار کسی سیاسی جماعت کی مدد کے بغیر منتخب ہوئے ہیں۔
ان کا دعویٰ ہے کہ وہ آٹھ بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے کے باعث سب سے سینئر رکن پارلیمنٹ ہیں، وہ مسلم لیگ (ن) میں ایک عرصہ رہے ہیں اور تیس سال قبل جب نواز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب تھے اور انھوں نے کراچی میں شاہراہ قائدین پر متحدہ کے جلسے سے خطاب کیا تھا اور حاجی مولا بخش سومرو کی وفات پر اظہار تعزیت کے لیے میرے آبائی شہر شکار پور آئے تھے تو شیخ رشید احمد اور چوہدری شجاعت ان کے ساتھ تھے ۔ میڈیا سے انھوں نے دونوں کے درمیان کھڑے ہوکر گفتگو کی تھی تو میاں نواز شریف کو یقین نہیں ہوگا کہ جنرل پرویز مشرف سے شیخ رشید اور چوہدری شجاعت کی قربت ان سے دوریاں اتنی بڑھا دے گی اور اتنے قریب رہنے والے ہی ان کے سیاسی مخالف بن جائیں گے۔
چوہدری شجاعت تو رواداری کے باعث نواز شریف کے خلاف سخت رویہ نہیں رکھتے مگر چوہدری پرویز الٰہی شیخ رشید کی طرح نواز شریف اور شہباز شریف پر تنقید کرتے رہتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب بنانے کا وعدہ پورا کرنے پر نواز شریف سے ناراض چوہدری پرویز الٰہی 1997 میں نواز شریف کے کہنے پر اسپیکر پنجاب اسمبلی تو بن گئے تھے مگر 1999 میں جنرل مشرف کے ہاتھوں منتخب وزیر اعظم کی برطرفی پر چوہدریوں نے شریفوں سے علیحدگی اختیار کرلی تھی اور بعد میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں پرویز الٰہی پانچ سال وزیر اعلیٰ پنجاب رہے اور انھوں نے اچھی کارکردگی کا بھی مظاہرہ کیا تھا ۔
انھوں نے جنرل پرویز کو دس بار وردی میں صدر منتخب کرنے کا بیان بھی دیا تھا۔ بعد میں پرویز الٰہی کی جگہ وزیر اعلیٰ پنجاب جب شہباز شریف بنے اور انھوں نے لاہور میں میٹرو بس منصوبہ شروع کیا تو انھوں نے ہی عوام کو سفر کی باعزت سہولت دینے والے منصوبے کو ''جنگلا بس'' قرار دیا جو مذاق ہی ہوگا کیونکہ اس کی تائید عمران خان نے بھی کی تھی جنھوں نے 5 سالہ حکومت ختم ہونے پر اس کی افادیت تسلیم کرکے وہی منصوبہ پشاور میں شروع کرایا مگر ان کی حکومت ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی یہ منصوبہ مکمل ہونے میں نہیں آرہا ہے۔
سیاست میں یہ اعزاز بھی شیخ رشید نے حاصل کیا ہے کہ بلاول ان سے معافی نہ بھی مانگے تب بھی شیخ رشید انھیں معاف کردیتے ہیں۔ بلاول زرداری کو سیاسی شاگرد بنانے کی تجویز میڈیا پروگرام میں کیا دی گئی اس پر شیخ رشید نے بلاول کو شاگرد بنانا اپنا حق قرار دے دیا اور جواب میں بلاول زرداری نے مولانا فضل الرحمن کو مشورہ دے دیا کہ میں بھٹو کا نواسہ اور بے نظیر کا سیاسی جانشین ہوں اس لیے مولانا میری شاگردی اختیار کرلیں ۔ بلاول زرداری مولانا کو اپنا شاگرد بننے کا مشورہ دیتے ہوئے یہبھول گئے کہ مولانا ان کے والد کی عمر کے ہیں اور ان کی والدہ کے سیاسی رفیق بھی رہے ہیں اور چار عشروں سے سیاست میں ہیں کیا بلاول اس قابل ہوگئے ہیں کہ مولانا انھیں اپنا استاد بنالیں گے۔
سیاست اب مذاق بنائی جا رہی ہے اور پرانے سیاستدانوں سے بھی سنجیدگی ختم ہوتی جا رہی ہے۔ پہلے مرحوم پیرپگاڑا سیاست میں پیش گوئیاں کرنے میں مشہور تھے جن کی جگہ جے یو آئی کے حافظ حسین احمد نے لینے کی کوشش کی مگر پیپلز پارٹی کے منظور وسان بازی لے گئے اور اب انھوں نے یہ پیش گوئی کی ہے کہ جون کے بعد وزیر اعظم مستعفیٰ ہوجائیں گے یا ان سے استعفیٰ لے لیا جائے گا۔
سیاسی تکے تو مشہور تھے ہی جو کبھی کبھی لگ بھی جاتے تھے مگر اکثر غلط ہی ثابت ہوتے تھے اور بعض سیاستدانوں کے لیے شرمندگی کا باعث بھی بنتے تھے جس کی وجہ سے پرانے سیاستدانوں کی اکثریت اس معاملے میں سنجیدہ ہی نظر آتی تھی۔ سیاست مذاق نہیں، سنجیدگی اور تدبر اس سلسلے میں انتہائی ضروری ہے اس لیے تمام سیاستدانوں کو احتیاط برتنے کی ضرورت ہمیشہ رہنی چاہیے۔