اقبال۔۔۔۔ پیامبرِ فطرت
شاعرمشرق کے شاعرانہ تخیل سے جنم لیتی فطرت کے کچھ جھلکیاں
ڈاکٹر محمد اقبال اگر ایک طرف مصورپاکستان ہیں، فلسفہ خودی و مرد مومن کے داعی اور اسلام کے پیغام اخوت کے عظیم مبلغ ہیں تو دوسری طرف ان کا شاعرانہ تخیل فطرت کی رعنائیوں پر بھی غزل سرا رہا ہے، حسن فطرت کی جھلکیاں ان کی شاعری میں جابجا نظر آتی ہیں۔
کبھی وہ ''ہمالیہ'' کے سلسلہ ہائے کوہ میں خیمہ زن کالی گھٹاؤں کو داد دیتے ہیں اور پہاڑوں کی بلندیوں سے آتی ندیوں کی گنگناہٹ اپنے قاری تک پہنچاتے ہیں اور کبھی خود دنیا کی محفلوں سے اکتا کر دامن کوہ میں ایک چھوٹا سا جھونپڑا بنانے کی ''آرزو'' کرتے ہیں لیکن اقبال کا بلند اقبال تخیل فطرت کے حسن سے لطف اندوز ہونے اور اسے صرف داد دینے تک محدود نہیں رہتا ہے۔ کلام اقبال پڑھتے ہوئے یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ وہ مناظر فطرت میں پوشیدہ حقیقی پیغام ربانی کی ترجمانی کرنے کی بھی بھرپور صلاحیت رکھتے تھے، جیساکہ وہ اپنے قاری کو بھی تلقین کرتے ہیں:
خدا اگر دلِ فطرت شناس دے تجھ کو
سکوتِ لالۂ و گل سے کلام پیدا کر
میں شاخِ تاک ہوں' میری غزل ہے میرا ثمر
مِرے ثمر سے مئے لالہ فام پیدا کر
ایک اور جگہ وہ کہتے ہیں:
گلزارِ ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ
ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ
کھولی ہیں ذوقِ دید نے آنکھیں تری اگر
ہر رہ گزر میں نقشِ کفِ پائے یار دیکھ
درحقیقت اقبال کے فلسفے کو جاننے کی جستجو کرنے والا ہر شخص اس بات کو محسوس کیے بغیر نہیں رہے گا کہ اقبال خالصتاً شاعرانہ انداز میں حسنِ فطرت کی جھلکیاں تو اپنے قاری کو دکھا ہی دیتے تھے لیکن مناظرِ فطرت کی زبان بن کر ان کے اصل پیغام کو انسانوں تک پہنچانے میں بھی کسی سے کم نہ تھے۔ اگر انھیں اردو زبان کے ایسے عظیم شاعر کا لقب دیا جائے جو بجا طور پر ''پیامبرِ فطرت'' بھی تھا تو کچھ غلط نہ ہوگا۔
اقبال کی کتاب ''بانگِ درا'' میں بالخصوص ایسی نظمیں اور اشعار جابجا نظر آتے ہیں جو مظاہرفطرت کی خوش نما عکاسی کرتے ہیں۔ بانگ دراِ کی پہلی نظم ''ہمالہ'' ہی اس امر کی ایک خوب صورت مثال ہے۔
اے ہمالہ! اے فصیل ِ کشورِ ہندوستاں
چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں
تجھ میں کچھ پیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشاں
تو جواں ہے گردشِ شام و سحر کے درمیاں
اس نسبتاً طویل نظم کا ایک اور بند درج کرنا برمحل ہوگا جس میں شاعر اقبال کا دل فطرت کی گنگناہٹوں کو سن کر جھوم اٹھتا ہے۔ وہ کہتے ہیں:
آتی ہے ندی فرازِ کوہ سے گاتی ہوئی
کوثر و تسنیم کی موجوں کو شرماتی ہوئی
آئینہ سا شاہد قدرت کو دکھلاتی ہوئی
سنگِ رہ سے گاہ بجتی' گاہ ٹکراتی ہوئی
چھیڑتی جا اس عراقِ دلنشیں کے ساز کو
اے مسافر دل سمجھتا ہے تری آواز کو
اپنی ایک اور نظم میں اقبال ''ابرِ کوہسار'' کی زبان بن کر کہتے ہیں:
ہے بلندی سے فلک بوس نشیمن میرا
ابرِ کوہسار ہوں گل پاش ہے دامن میرا
اسی نظم کا ایک شعر انسانی احساسات کی ترجمانی کرتا ہے:
دور سے دیدۂ امید کو ترساتا ہوں
کسی بستی سے جو خاموش گزر جاتا ہوں
اپنی ایک اور نظم ''آفتابِ صبح'' میں وہ کرنیں بکھیرتے سورج سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں:
حسن تیرا جب ہوا بامِ فلک سے جلوہ گر
آنکھ سے اڑتا ہے یکدم خواب کی مے کا اثر
نور سے معمور ہو جاتا ہے دامانِ نظر
کھولتی ہے چشمِ ظاہر کو ضیا تیری مگر
نظم کے اسی بند میں آگے وہ اپنے حقیقی مقصود کو مدنظر رکھتے ہوئے کہتے ہیں:
ڈھونڈتی ہیں جس کو آنکھیں وہ تماشا چاہیے
چشم باطن جس سے کھل جائے وہ جلوہ چاہیے
فلسفی اقبال جب دقیق فلسفیانہ گتھیوں اور کائنات کے ان پوشیدہ رازوں کی کھوج لگاتے ہوئے تھک جاتا ہے، جن کو بقول خود سینا و فارابی بھی نہ سمجھ پائے تو بے اختیار کہہ اٹھتا ہے:
مرتا ہوں خاشی پر' یہ آرزو ہے میری
دامن میں کوہ کے اک چھوٹا سا جھونپڑا ہو
صف باندھے دونوں جانب بوٹے ہرے ہرے ہوں
ندی کا صاف پانی تصویر لے رہا ہو
ہو دلفریب ایسا کہسار کا نظارہ
پانی بھی موج بن کر اٹھ اٹھ کے دیکھتا ہو
آغوش میں زمیں کی سویا ہوا ہو سبزہ
پھر پھر کے جھاڑیوں میں پانی چمک رہا ہو
پانی کو چھو رہی ہو جُھک جُھک کے گل کی ٹہنی
جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو
یہ سچ ہے کہ شاعری انسانی احساسات کی ترجمان ہوتی ہے اور سچا شاعر وہی ہوسکتا ہے جو تنوع انسانی جذبات کی ہی نہیں بلکہ فطرت کے مختلف مظاہر کی بھی درست تصویر کشی کرسکے، چناںچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اقبال صرف نغمۂ بو و گل کی بات نہیں کرتے بلکہ ''گل پس مردہ'' کا نوحہ بھی بیان کرتے ہوئے چلتے ہیں۔ تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ اقبال کا مجموعی پیغام زندگی، حرکت، روانی اور مثبت سوچ سے عبارت ہے۔ اسی لیے ان کی شاعری کے مرکزی استعارے گل ولعل، رواں دواں دریا، چمکتے ہوئے چاند ستارے، صبح کا پھیلتا اجالا، سبزہ، شبنم اور جگنو ہی ہیں۔ اسی لیے یہ بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ فلسفہ خودی و شاہین ہو، مردِ مومن کا تذکرہ ہو یا نیرنگئی فطرت کا بیان۔ اقبال کا لہجہ بھرپور اعتماد اور روشن امید کا مظہر رہا ہے۔ مثلاً اپنے قاری تک ''پیام صبح '' پہنچاتے ہوئے وہ کہتے ہیں:
نسیمِ زندگی پیغام لائی صبح خنداں کا
جگایا بلبلِ رنگین نوا کو آشیانے میں
کنارے کھیت کے شانہ ہلایا اس نے دہقاں کا
دیا یہ حکم صحرا میں' چلو اے قافلے والو!
چمکنے کو ہے جگنو بن کے ہر ذرّہ بیاباں کا
اسی طرح جب کسی اداس لمحے کے ظلمت کدے میں ''جگنو'' کی روشنی پہنچتی ہے تو وہ بے اختیار پوچھ بیٹھتے ہیں:
جگنو کی روشنی ہے کاشانۂ چمن میں
یا شمع جل رہی ہے پھولوں کی انجمن میں؟
آیا ہے آسماں سے اڑ کر کوئی ستارہ
یا جان پڑ گئی ہے مہتاب کی کرن میں؟
یا شب کی سلطنت میں دن کا سفیر آیا
غربت میں آکے چمکا گمنام تھا وطن میں؟
اقبال اپنے دائمی پیغامات اپنے قاری تک پہنچانے کے لیے بڑی خوب صورتی سے مظاہر فطرت کو بطور استعارہ استعمال کرنے کا ہنر رکھتے تھے اور یہ انداز تعلیم انھوں نے غالباً قرآن کریم سے بھی مستعار لیا تھا جو بار بار نیرنگیٔ فطرت اور تخلیق کائنات کا حوالہ دے کر انسانوں کو سوچنے سمجھنے اور حقیقت ازلی تک پہنچنے کی دعوت دیتا ہے۔ ایک جگہ وہ کہتے ہیں:
کھول آنکھ' زمیں دیکھ' فلک دیکھ' فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
اس جلوۂ بے پردہ کو پردوں میں چھپا دیکھ
ایامِ جدائی کے ستم دیکھ' جفا دیکھ
بے تاب نہ ہو معرکۂ بیم و رجا دیکھ
ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل، یہ گھٹائیں
یہ گنبدِ افلاک' یہ خاموش فضائیں
یہ کوہ' یہ صحرا' یہ سمندر' یہ ہوائیں
تھیں پیش نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں
آئینہ ایام میں آج اپنی ادا دیکھ
چناںچہ ان کی شاعری شدت سے اس امر پر گواہ ہے کہ وہ مظاہر فطرت کو دیکھتے، سمجھتے اور بیان کرتے ہوئے اخذ کردہ سبق بھی بڑی خوب صورتی سے قاری تک پہنچا دیا کرتے تھے۔
اپنی ایک نظم میں موسمِ خزاں میں شجر سے ٹوٹ جانے والی شاخ کا حوالہ دیتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ ایک بار ٹوٹنے کے بعد اب موسمِ بہار میں بھی یہ شاخ ہری نہیں ہوسکے گی اور خزاں کی رُت اس کا مقدر ہوچلی ہے، چناںچہ وہ اپنے عہد کے مسلمانوں کو جن پر یقیناً عہدِخزاں چھایا ہوا تھا نصیحت کرتے ہیں:
ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ
اسی بات کو انھوں نے ایک اور انداز میں یوں کہا تھا:
فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
اپنی ایک نظم ''پھول'' میں وہ کہتے ہیں:
تجھے کیوں فکر ہے اے گلِ دل صد چاک بلبل کی
تو اپنے پیرہن کے چاک تو پہلے رفو کرلے
تمنا آبرو کی ہو اگر گلزارِ ہستی میں
تو کانٹوں میں الجھ کر زندگی کرنے کی خو کرلے
صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے' پا بہ گل بھی ہے
انھیں پابندیوں میں حاصل آزادی کو خو کرلے
اردو زبان میں بلاشبہ ایسے بڑے بڑے شعرا کے نام گنوائے جاسکتے ہیں جن کی خوب صورت شاعری مظاہر فطرت کی دل فریب عکاس رہی ہے۔ تاہم مناظر فطرت سے ہم کلام ہونا، ان کی زبان بن جانا اور پندونصائح کی شکل میں اسے عام آدمی تک پہنچانا علامہ اقبال کا ہی خاصہ نظر آتا ہے۔ اس نتیجے تک پہنچنے کی بنیاد ان کی ایک دو نظمیں نہیں بلکہ یہ ہنر ان کے تمام کلام میں ہی جابجا نمایاں ہے۔ اقبال کو اللہ تعالیٰ نے دیکھنے والی آنکھ، محسوس کرنے والا دل اور فطرت کی ترجمانی کرنے والی زبان بخشی تھی اور انھوں نے مشاہدہ کرنے، محسوس کرنے اور بیان کرنے کا حق اس طرح ادا کیا کہ آج نہ صرف پاکستان میں یا محض عالم اسلام میں بلکہ دنیا بھر میں ان کے چاہنے والے انھیں پڑھ کر لطف اندوز ہو رہے ہیں تو کبھی ان کا کلام گا کر فن کا لوہا منوا رہے ہیں اور بے شمار افراد جامعات میں کلام اقبال کے مختلف گوشوں پر تحقیق کرکے اپنے اور دوسروں کے علم میں اضافہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
بہ حیثیت مجموعی کلام اقبال کو مختلف ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے، تاہم ان کے موضوعات کو بھی مختلف حصوں میں بانٹا جاسکتا ہے۔ بطور پیامبر فطرت ان کے کلام پر نسبتاً کم بات کی جاتی ہے لیکن اگر صرف اسی موضوع کو اقبال پر تحقیق کا موضوع بنایا جائے تو شاید ان کے کلام میں موجود فطرت کے بہت سارے پیغامات تک بہتر رسائی حاصل کی جاسکے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اقبال کے متنوع موضوعات درحقیقت ایک ہی سبق دیتے ہیں جفاکشی، قناعت، خودداری، یقین محکم اور پابندی نظم و نسق۔ یہ پیغامات اپنی پوری شدت کے ساتھ ان کے فلسفہ خودی، مرد مومن اور شاہین میں عیاں ہیں، مگر مخصوص ماحولیاوتی پس منظر میں بھی وہ انھی پیغامات کی ترسیل و تکمیل دیکھتے ہیں:
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندۂ صحرائی یا مردِ کوہستانی
تاہم خوداری، جفاکشی اور قناعت پسندی پر ان کا یقین صرف صحرائی یا کوہستانی ماحول میں نمود نہیں پاتا بلکہ سرسبز لالہ زاروں میں بھی انھیں خود انحصاری اور خدا کی دی ہوئی نعمتوں پر شکر گزاری کا اشارہ ملتا ہے جسے وہ اپنے قاری تک پہنچاتے ہوئے گویا سورۂ رحمٰن کی اس آیت کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہوں کہ ''اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔'' ملاحظہ فرمائیے بالِ جبریل سے ایک خوب صورت اقتباس جو یقیناً بطور ''پیامبر فطرت'' اقبال کی حیثیت کو مزید مستحکم کرتا ہے:
پھر چراغ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن
مجھ کو پھر نعمتوں پہ اکسانے لگا مرغ چمن
پھول ہیں صحرا میں یا پریاں قطار اندر قطار
اودے اودے' نیلے نیلے' پیلے پیلے پیرہن
مرگِ گل پر رکھ گئی شبنم کا موتی بادِ صبح
اور چمکاتی ہے اس موتی کو سورج کی کرن
حسن بے پروا کو اپنی بے نقابی کے لیے
ہوں اگر شہروں سے بن پیارے تو شہر اچھے کہ بن
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
من کی دنیا میں نہ پایا میں نے افرنگی کا راج
من کی دنیا میں نہ دیکھے میں نے شیخ و برہمن
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے' نہ من تیرا نہ تن
کبھی وہ ''ہمالیہ'' کے سلسلہ ہائے کوہ میں خیمہ زن کالی گھٹاؤں کو داد دیتے ہیں اور پہاڑوں کی بلندیوں سے آتی ندیوں کی گنگناہٹ اپنے قاری تک پہنچاتے ہیں اور کبھی خود دنیا کی محفلوں سے اکتا کر دامن کوہ میں ایک چھوٹا سا جھونپڑا بنانے کی ''آرزو'' کرتے ہیں لیکن اقبال کا بلند اقبال تخیل فطرت کے حسن سے لطف اندوز ہونے اور اسے صرف داد دینے تک محدود نہیں رہتا ہے۔ کلام اقبال پڑھتے ہوئے یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ وہ مناظر فطرت میں پوشیدہ حقیقی پیغام ربانی کی ترجمانی کرنے کی بھی بھرپور صلاحیت رکھتے تھے، جیساکہ وہ اپنے قاری کو بھی تلقین کرتے ہیں:
خدا اگر دلِ فطرت شناس دے تجھ کو
سکوتِ لالۂ و گل سے کلام پیدا کر
میں شاخِ تاک ہوں' میری غزل ہے میرا ثمر
مِرے ثمر سے مئے لالہ فام پیدا کر
ایک اور جگہ وہ کہتے ہیں:
گلزارِ ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ
ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ
کھولی ہیں ذوقِ دید نے آنکھیں تری اگر
ہر رہ گزر میں نقشِ کفِ پائے یار دیکھ
درحقیقت اقبال کے فلسفے کو جاننے کی جستجو کرنے والا ہر شخص اس بات کو محسوس کیے بغیر نہیں رہے گا کہ اقبال خالصتاً شاعرانہ انداز میں حسنِ فطرت کی جھلکیاں تو اپنے قاری کو دکھا ہی دیتے تھے لیکن مناظرِ فطرت کی زبان بن کر ان کے اصل پیغام کو انسانوں تک پہنچانے میں بھی کسی سے کم نہ تھے۔ اگر انھیں اردو زبان کے ایسے عظیم شاعر کا لقب دیا جائے جو بجا طور پر ''پیامبرِ فطرت'' بھی تھا تو کچھ غلط نہ ہوگا۔
اقبال کی کتاب ''بانگِ درا'' میں بالخصوص ایسی نظمیں اور اشعار جابجا نظر آتے ہیں جو مظاہرفطرت کی خوش نما عکاسی کرتے ہیں۔ بانگ دراِ کی پہلی نظم ''ہمالہ'' ہی اس امر کی ایک خوب صورت مثال ہے۔
اے ہمالہ! اے فصیل ِ کشورِ ہندوستاں
چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں
تجھ میں کچھ پیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشاں
تو جواں ہے گردشِ شام و سحر کے درمیاں
اس نسبتاً طویل نظم کا ایک اور بند درج کرنا برمحل ہوگا جس میں شاعر اقبال کا دل فطرت کی گنگناہٹوں کو سن کر جھوم اٹھتا ہے۔ وہ کہتے ہیں:
آتی ہے ندی فرازِ کوہ سے گاتی ہوئی
کوثر و تسنیم کی موجوں کو شرماتی ہوئی
آئینہ سا شاہد قدرت کو دکھلاتی ہوئی
سنگِ رہ سے گاہ بجتی' گاہ ٹکراتی ہوئی
چھیڑتی جا اس عراقِ دلنشیں کے ساز کو
اے مسافر دل سمجھتا ہے تری آواز کو
اپنی ایک اور نظم میں اقبال ''ابرِ کوہسار'' کی زبان بن کر کہتے ہیں:
ہے بلندی سے فلک بوس نشیمن میرا
ابرِ کوہسار ہوں گل پاش ہے دامن میرا
اسی نظم کا ایک شعر انسانی احساسات کی ترجمانی کرتا ہے:
دور سے دیدۂ امید کو ترساتا ہوں
کسی بستی سے جو خاموش گزر جاتا ہوں
اپنی ایک اور نظم ''آفتابِ صبح'' میں وہ کرنیں بکھیرتے سورج سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں:
حسن تیرا جب ہوا بامِ فلک سے جلوہ گر
آنکھ سے اڑتا ہے یکدم خواب کی مے کا اثر
نور سے معمور ہو جاتا ہے دامانِ نظر
کھولتی ہے چشمِ ظاہر کو ضیا تیری مگر
نظم کے اسی بند میں آگے وہ اپنے حقیقی مقصود کو مدنظر رکھتے ہوئے کہتے ہیں:
ڈھونڈتی ہیں جس کو آنکھیں وہ تماشا چاہیے
چشم باطن جس سے کھل جائے وہ جلوہ چاہیے
فلسفی اقبال جب دقیق فلسفیانہ گتھیوں اور کائنات کے ان پوشیدہ رازوں کی کھوج لگاتے ہوئے تھک جاتا ہے، جن کو بقول خود سینا و فارابی بھی نہ سمجھ پائے تو بے اختیار کہہ اٹھتا ہے:
مرتا ہوں خاشی پر' یہ آرزو ہے میری
دامن میں کوہ کے اک چھوٹا سا جھونپڑا ہو
صف باندھے دونوں جانب بوٹے ہرے ہرے ہوں
ندی کا صاف پانی تصویر لے رہا ہو
ہو دلفریب ایسا کہسار کا نظارہ
پانی بھی موج بن کر اٹھ اٹھ کے دیکھتا ہو
آغوش میں زمیں کی سویا ہوا ہو سبزہ
پھر پھر کے جھاڑیوں میں پانی چمک رہا ہو
پانی کو چھو رہی ہو جُھک جُھک کے گل کی ٹہنی
جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو
یہ سچ ہے کہ شاعری انسانی احساسات کی ترجمان ہوتی ہے اور سچا شاعر وہی ہوسکتا ہے جو تنوع انسانی جذبات کی ہی نہیں بلکہ فطرت کے مختلف مظاہر کی بھی درست تصویر کشی کرسکے، چناںچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اقبال صرف نغمۂ بو و گل کی بات نہیں کرتے بلکہ ''گل پس مردہ'' کا نوحہ بھی بیان کرتے ہوئے چلتے ہیں۔ تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ اقبال کا مجموعی پیغام زندگی، حرکت، روانی اور مثبت سوچ سے عبارت ہے۔ اسی لیے ان کی شاعری کے مرکزی استعارے گل ولعل، رواں دواں دریا، چمکتے ہوئے چاند ستارے، صبح کا پھیلتا اجالا، سبزہ، شبنم اور جگنو ہی ہیں۔ اسی لیے یہ بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ فلسفہ خودی و شاہین ہو، مردِ مومن کا تذکرہ ہو یا نیرنگئی فطرت کا بیان۔ اقبال کا لہجہ بھرپور اعتماد اور روشن امید کا مظہر رہا ہے۔ مثلاً اپنے قاری تک ''پیام صبح '' پہنچاتے ہوئے وہ کہتے ہیں:
نسیمِ زندگی پیغام لائی صبح خنداں کا
جگایا بلبلِ رنگین نوا کو آشیانے میں
کنارے کھیت کے شانہ ہلایا اس نے دہقاں کا
دیا یہ حکم صحرا میں' چلو اے قافلے والو!
چمکنے کو ہے جگنو بن کے ہر ذرّہ بیاباں کا
اسی طرح جب کسی اداس لمحے کے ظلمت کدے میں ''جگنو'' کی روشنی پہنچتی ہے تو وہ بے اختیار پوچھ بیٹھتے ہیں:
جگنو کی روشنی ہے کاشانۂ چمن میں
یا شمع جل رہی ہے پھولوں کی انجمن میں؟
آیا ہے آسماں سے اڑ کر کوئی ستارہ
یا جان پڑ گئی ہے مہتاب کی کرن میں؟
یا شب کی سلطنت میں دن کا سفیر آیا
غربت میں آکے چمکا گمنام تھا وطن میں؟
اقبال اپنے دائمی پیغامات اپنے قاری تک پہنچانے کے لیے بڑی خوب صورتی سے مظاہر فطرت کو بطور استعارہ استعمال کرنے کا ہنر رکھتے تھے اور یہ انداز تعلیم انھوں نے غالباً قرآن کریم سے بھی مستعار لیا تھا جو بار بار نیرنگیٔ فطرت اور تخلیق کائنات کا حوالہ دے کر انسانوں کو سوچنے سمجھنے اور حقیقت ازلی تک پہنچنے کی دعوت دیتا ہے۔ ایک جگہ وہ کہتے ہیں:
کھول آنکھ' زمیں دیکھ' فلک دیکھ' فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
اس جلوۂ بے پردہ کو پردوں میں چھپا دیکھ
ایامِ جدائی کے ستم دیکھ' جفا دیکھ
بے تاب نہ ہو معرکۂ بیم و رجا دیکھ
ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل، یہ گھٹائیں
یہ گنبدِ افلاک' یہ خاموش فضائیں
یہ کوہ' یہ صحرا' یہ سمندر' یہ ہوائیں
تھیں پیش نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں
آئینہ ایام میں آج اپنی ادا دیکھ
چناںچہ ان کی شاعری شدت سے اس امر پر گواہ ہے کہ وہ مظاہر فطرت کو دیکھتے، سمجھتے اور بیان کرتے ہوئے اخذ کردہ سبق بھی بڑی خوب صورتی سے قاری تک پہنچا دیا کرتے تھے۔
اپنی ایک نظم میں موسمِ خزاں میں شجر سے ٹوٹ جانے والی شاخ کا حوالہ دیتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ ایک بار ٹوٹنے کے بعد اب موسمِ بہار میں بھی یہ شاخ ہری نہیں ہوسکے گی اور خزاں کی رُت اس کا مقدر ہوچلی ہے، چناںچہ وہ اپنے عہد کے مسلمانوں کو جن پر یقیناً عہدِخزاں چھایا ہوا تھا نصیحت کرتے ہیں:
ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ
اسی بات کو انھوں نے ایک اور انداز میں یوں کہا تھا:
فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
اپنی ایک نظم ''پھول'' میں وہ کہتے ہیں:
تجھے کیوں فکر ہے اے گلِ دل صد چاک بلبل کی
تو اپنے پیرہن کے چاک تو پہلے رفو کرلے
تمنا آبرو کی ہو اگر گلزارِ ہستی میں
تو کانٹوں میں الجھ کر زندگی کرنے کی خو کرلے
صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے' پا بہ گل بھی ہے
انھیں پابندیوں میں حاصل آزادی کو خو کرلے
اردو زبان میں بلاشبہ ایسے بڑے بڑے شعرا کے نام گنوائے جاسکتے ہیں جن کی خوب صورت شاعری مظاہر فطرت کی دل فریب عکاس رہی ہے۔ تاہم مناظر فطرت سے ہم کلام ہونا، ان کی زبان بن جانا اور پندونصائح کی شکل میں اسے عام آدمی تک پہنچانا علامہ اقبال کا ہی خاصہ نظر آتا ہے۔ اس نتیجے تک پہنچنے کی بنیاد ان کی ایک دو نظمیں نہیں بلکہ یہ ہنر ان کے تمام کلام میں ہی جابجا نمایاں ہے۔ اقبال کو اللہ تعالیٰ نے دیکھنے والی آنکھ، محسوس کرنے والا دل اور فطرت کی ترجمانی کرنے والی زبان بخشی تھی اور انھوں نے مشاہدہ کرنے، محسوس کرنے اور بیان کرنے کا حق اس طرح ادا کیا کہ آج نہ صرف پاکستان میں یا محض عالم اسلام میں بلکہ دنیا بھر میں ان کے چاہنے والے انھیں پڑھ کر لطف اندوز ہو رہے ہیں تو کبھی ان کا کلام گا کر فن کا لوہا منوا رہے ہیں اور بے شمار افراد جامعات میں کلام اقبال کے مختلف گوشوں پر تحقیق کرکے اپنے اور دوسروں کے علم میں اضافہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
بہ حیثیت مجموعی کلام اقبال کو مختلف ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے، تاہم ان کے موضوعات کو بھی مختلف حصوں میں بانٹا جاسکتا ہے۔ بطور پیامبر فطرت ان کے کلام پر نسبتاً کم بات کی جاتی ہے لیکن اگر صرف اسی موضوع کو اقبال پر تحقیق کا موضوع بنایا جائے تو شاید ان کے کلام میں موجود فطرت کے بہت سارے پیغامات تک بہتر رسائی حاصل کی جاسکے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اقبال کے متنوع موضوعات درحقیقت ایک ہی سبق دیتے ہیں جفاکشی، قناعت، خودداری، یقین محکم اور پابندی نظم و نسق۔ یہ پیغامات اپنی پوری شدت کے ساتھ ان کے فلسفہ خودی، مرد مومن اور شاہین میں عیاں ہیں، مگر مخصوص ماحولیاوتی پس منظر میں بھی وہ انھی پیغامات کی ترسیل و تکمیل دیکھتے ہیں:
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندۂ صحرائی یا مردِ کوہستانی
تاہم خوداری، جفاکشی اور قناعت پسندی پر ان کا یقین صرف صحرائی یا کوہستانی ماحول میں نمود نہیں پاتا بلکہ سرسبز لالہ زاروں میں بھی انھیں خود انحصاری اور خدا کی دی ہوئی نعمتوں پر شکر گزاری کا اشارہ ملتا ہے جسے وہ اپنے قاری تک پہنچاتے ہوئے گویا سورۂ رحمٰن کی اس آیت کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہوں کہ ''اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔'' ملاحظہ فرمائیے بالِ جبریل سے ایک خوب صورت اقتباس جو یقیناً بطور ''پیامبر فطرت'' اقبال کی حیثیت کو مزید مستحکم کرتا ہے:
پھر چراغ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن
مجھ کو پھر نعمتوں پہ اکسانے لگا مرغ چمن
پھول ہیں صحرا میں یا پریاں قطار اندر قطار
اودے اودے' نیلے نیلے' پیلے پیلے پیرہن
مرگِ گل پر رکھ گئی شبنم کا موتی بادِ صبح
اور چمکاتی ہے اس موتی کو سورج کی کرن
حسن بے پروا کو اپنی بے نقابی کے لیے
ہوں اگر شہروں سے بن پیارے تو شہر اچھے کہ بن
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
من کی دنیا میں نہ پایا میں نے افرنگی کا راج
من کی دنیا میں نہ دیکھے میں نے شیخ و برہمن
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے' نہ من تیرا نہ تن