انسانی حقوق کی پامالی

حکومت اس جرم کے تدارک کے لیے بین الاقوامی کنونشنز پر دستخط کرنے پر تیار نہیں ہے۔

tauceeph@gmail.com

وفاقی یونٹوں کے حقوق اور مفادات کم کرنے کی کوشش ریاست کی ساکھ کو مجروح کردے گی۔ انسانی َحقوق کی پاسداری کے لیے تاریخی جدوجہد کرنے والی غیر سرکاری تنظیم انسانی حقوق کمیشن (H.R.C.P) کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جمہوری لوازمات میں ترمیم باعث تشویش ہے ۔

ایچ آر سی پی کی سالانہ رپورٹ کا اجراء گزشتہ اتوارکو لاہور میں ہوا۔ اس رپورٹ میں ملک کے سیاسی اداروں، معاشی صورتحال، مظلوم طبقات کے حقوق اور شہریوں کو حاصل بنیادی آزادیوں کا جائزہ لیتے ہوئے مجموعی طور پر انسانی حقوق کی صورتحال کو تشویش ناک قرار دیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے ماہرین کی مرتب کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں شراکتی جمہوریت کے لیے ضروری سمجھے جانے والے لوازمات میں ترمیم اور اکثریت کی شرکت پر مبنی ریاست (Majoritarian State) کے تصورکو ختم کرنے کے خلاف ہے۔

یہ رجحان بند ہونا چاہیے کیونکہ یہ تکثریت (Pluralism) کے دستور سے متصادم ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں سول سوسائٹی کی تنظیموں کے لیے جگہ تنگ کی جا رہی ہے۔ جب بھی اور جہاں بھی ریاست خدمات انجام نہیں دے پاتی ، وہاں سول سوسائٹی کی تنظیموں نے خدمات انجام دی ہیں۔ رپورٹ میں واضح کہا گیا ہے کہ تنظیم سازی کی آزادی بنیادی حق ہے، اس پرکسی قسم کی پابندی قابل قبول نہیں ہے۔اس رپورٹ میں آزادئ صحافت پر لگائی جانے والی پابندیوں پر بھی تشویش کا اظہارکیا گیا ہے۔ رپورٹ میںبتایا گیا ہے کہ صحافیوں کی ملازمتوں سے برطرفیوں اور متنوع یا مخالف آراء کا اظہارکرنے والے صحافیوں کو ہراساں کیے جانے کے واقعات کے ذریعے میڈیا زبردست دباؤ میں آچکا ہے۔

اسی طرح رپورٹ میں سندھ میں لڑکیوں کو جبراً مذہب تبدیل کرانے کے واقعات کو خطرناک قرار دیا گیا ہے۔ ایچ آر سی پی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کام منظم طریقے سے اور دانستہ طور پر ہو رہا ہے۔ اس طرح اس رپورٹ میں یہ مطالبہ بھی شامل ہے کہ پاکستان جبری گمشدگیوں کی روک تھام کے بین الاقوامی کنونشن کی توثیق کرے اورگلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کا جلد از جلد تعین ہونا چاہیے۔ پاکستان بنیادی طور پر وفاقیت کے اصولوں کے لیے قائم ہوا تھا۔

پاکستان کے قیام کے لیے 23 مارچ 1940 کو لاہور میں منظور کی جانے والی قرارداد میں مسلمانوں کی اکثریت والی ریاستوں کے کنفیڈریشن کے لیے جدوجہد کا اعادہ کیا گیا تھا مگر پھر ملک میں غیر سول حکومتوں کے غیر قانونی طور پر اقتدار پر قبضہ کرنے اور صوبائی خود مختاری کی اہمیت کو محسوس نہ کرنے کی بناء پر عوام کے ایک طبقے میں احساس محرومی پیدا ہوا ۔

1973 کے آئین میں دی گئی صوبائی خود مختاری پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ پیپلز پارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو اور مسلم لیگ کے قائد میاں نواز شریف صوبائی خود مختاری پر متفق ہوئے اور میثاق جمہوریت ہوا ۔ اس کی بناء پر آئین میں 18ویں ترمیم ہوئی۔ تحریک انصاف صوبوں کو حقوق دینے کے تصورکے خلاف ہے۔ وزیر اعظم عمران خان مسلسل یہ فرماتے ہیں کہ18ویں ترمیم کی بناء پر وفاق کا خزانہ خالی ہوگیا ہے۔ انھوں نے کراچی کی ترقی کے لیے اربوں روپوں کے پیکیج کا اعلان فرمایا مگر سندھ کی حکومت کو اس بارے میں اعتماد میں نہیں لیا ۔ اب تحریک انصاف حکومت کی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ سے تعلق رکھنے والے وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم نے وزیر اعظم کو مشورہ دیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 149 کے تحت سندھ میں مداخلت کی جائے۔

وزیر قانون کے اس مشورے کی عملی صورت یہ ہے کہ سندھ کی منتخب حکومت کو معطل یا برطرف کیا جائے اور مرکز براہ راست سندھ کا نظام حکومت چلائے۔ ایسی ہی صورتحال ملک میں کئی دفعہ ہوئی۔ جب 50ء کی دھائی میں مشرقی پاکستان میں انتخابات میں جگتو فرنٹ نے اکثریت حاصل کی اور جگتو فرنٹ کو حکومت قائم کرنے کا موقع ملا مگر اس وقت کے دارالحکومت کراچی سے مرکزی حکومت نے ملک دشمنی کا الزام لگا کر جگتو فرنٹ کی حکومت کو برطرف کر دیا اور صوبہ کا انتظام کراچی سے چلایا جانے لگا مگر اس فیصلے سے بنگال کے عوام میں اس تاثر نے تقویت پائی کہ ان کی اس ملک میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔


1974 میں پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کی منتخب حکومت کو برطرف کیا جس کی بنیاد پر بلوچستان میں آپریشن ہوا ، اس آپریشن کے نتائج خطرناک نکلے۔ بلوچستان میں گزشتہ 18سال سے ہونے والی کشمکش کا ایک سرا 1974 میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت کی برطرفی سے منسلک ہوتا ہے۔ ایچ آر سی پی کی اس رپورٹ میں ملک کی تاریخ اور سیاسی تنازعات کا تجزیہ کرتے ہوئے انتہائی مناسب وقت پر ریاستی اداروں کو انتباہ کیا گیا ہے کہ اگر صوبائی خود مختاری ختم کی گئی اور غیر سول حکومتوں کی طرح ایک دفعہ پھر وحدانی طرز حکومت کی روایت پر عملدرآمد کیاگیا اور دوبارہ ون یونٹ بنانے کی کوشش کی گئی تو 70 سال بعد صوبوں میں جو اعتماد پیدا ہوا ہے وہ ختم ہوجائے گا۔

ملک میں سول سوسائٹی کی تنظیموں نے بنیادی انسانی حقوق کی آگہی اور انسانی حقوق کی پاسداری کے لیے قانون سازی پر مظلوم طبقات کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سول سوسائٹی کی تنظیموں کی تحقیق اور جستجو کی بناء پر پارلیمنٹ نے قانون سازی کی ہے اور ملک کی اعلیٰ عدالتوں نے ان تنظیموں کی رپورٹوں کی بنیاد پر بہت سے بے گناہوں کی داد رسی کی ہے۔ سول سوسائٹی کی تنظیموں خاص طور پر ایچ آر سی پی کے کارکنوں نے مذہبی انتہاپسندی کے خلاف آگہی کی جدوجہد اور متنازعہ قوانین کی بناء پر معتوب ہونے والے افراد کی داد رسی کے لیے تاریخی جدوجہد کی ہے۔ اس جدوجہد کے دوران ایچ آر سی پی کے کئی کارکن شہید کردیے گئے۔

سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے دور سے سول سوسائٹی کی تنظیموں پر مختلف نوعیت کی قدغن لگانے کا ایک سلسلہ شروع ہوا اور موجودہ حکومت نے اس بارے میں پالیسی کو مزید سخت کردیا۔ اب سول سوسائٹی کی تنظیموں کی رجسٹریشن ان کے بینک اکاؤنٹ کھولنے ، ان اکاؤنٹ کو استعمال کرنے اور عطیات کی وصولی پر اتنی زیادہ پابندیاں عائد کردی ہیں کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت سول سوسائٹی کی تنظیموں اور کالعدم جہادی تنظیموں میں فرق محسوس نہیں کرتی ۔ یہی وجہ ہے کہ کئی بین الاقوامی تنظیمیںجو تعلیم، صحت اور سیاسی تعلیم کے شعبے میں اہم خدمات انجام دیتی تھیں نے اپنا کام بند کرنے اور ملک سے جانے پر مجبور ہوگئی ہیں۔

آزادئ صحافت پر تحقیق کرنے والے ڈاکٹر عرفان عزیز سول سوسائٹی پر عائد پابندیوں کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سول سوسائٹی کے کمزور ہونے سے انسانی حقوق کی تحریک متاثر ہوگی ۔ ایچ آر سی پی نے ایک دفعہ پھر توجہ دلائی ہے کہ خاص طور پر سندھ میں ہندو لڑکیوں کی جبری مذہب تبدیلی اور ان کی زبردستی شادیوں کا سلسلہ شدت اختیار کرگیا ہے۔ ہندو برادری میں سماجی کام کرنے والے کارکنوں کا کہنا ہے کہ ہر سال ایک ہزار کے قریب لڑکیوں کو مذہب کی تبدیلی اور زبردستی شادیوں پر مجبورکیا جاتا ہے۔

سندھ کی اقلیتی برادری خوف و ہراس کا شکار ہے اور ماضی میں جب مذہب کی جبری تبدیلی اور ہندو تاجروں اور افسروں وغیرہ کے اغواء برائے تاوان کی وارداتیں بڑھی تھیں توکئی خاندان ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے۔ بعض کارکنوں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اب اس برادری میں پھر ملک چھوڑنے کے بارے میں غور ہورہا ہے اور شاید چند خاندانوں نے اس بارے میں فیصلہ بھی کیا ہے کہ یہ صورتحال ملک کے مفاد کے خلاف ہے اور اس سے پاکستان کا بین الاقوامی فورمز پر مؤقف کمزور ہوتا ہے۔

ایچ آر سی پی نے ایک دفعہ پھر شہریوں کی جبری گمشدگی کے واقعات کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے۔ اگرچہ موجودہ حکومت کے قیام کے بعد بلوچستان میں برسوں سے لاپتہ کئی سیاسی کارکن اپنے گھروں کو پہنچ سکے مگر اب بھی ملک کے مختلف علاقوں سے شہریوں کے لاپتہ ہونے کی خبریں آتی ہیں۔

انسانی حقوق کی وفاقی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا تھا کہ حکومت شہریوں کو لاپتہ کرنے کے جرم کو فوجداری جرم قرار دینے کے لیے قانون سازی کرے گی، مگر اس بارے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی اور حکومت اس جرم کے تدارک کے لیے بین الاقوامی کنونشنز پر دستخط کرنے پر تیار نہیں ہے، یوں یہ انسانی حقوق کی پامالی کا معاملہ مزید گھمبیر ہوتا جارہا ہے۔ یورپی یونین تجارتی تعلقات کے لیے متعلقہ ممالک میں انسانی حقوق کی صورتحال کو بنیادی اہمیت دیتی ہے۔

اقوام متحدہ کے کنونشنز کی توثیق نہ ہونے کا نقصان ہی مختلف ممالک کے تجارتی تعلقات پر ہوتا ہے، یوں پھر شہریوں کے ریاست پر اعتماد مجروح ہونے سے مخصوص مفادات رکھنے والے گروہوں کی پرورش کا موقع میسر آتا ہے۔ ایچ آر سی پی کی یہ رپورٹ ریاستی اداروں کے لیے ایک انتباہ ہے اور اس رپورٹ پر اگر پارلیمنٹ میں بحث کی جائے تو بہتری کے امکانات ہوسکتے ہیں۔
Load Next Story