سب کے وزیر اعظم

بے شک نظام درست کرنے کے لیے کچھ قربانی تو دینا پڑتی ہے مگر پہلے عوامی بہبود کے منصوبے بنانے پڑتے ہیں۔

najmalam.jafri@gmail.com

گزشتہ دنوں وزیر اعظم مختصر دورے پر کراچی تشریف لائے۔ دوران انتخابات کراچی والوں سے کئی وعدے کیے گئے تھے اور کراچی والے ان وعدوں سے اس قدر متاثر ہوئے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں غیر متوقع طور پر خاصی نشستیں پی ٹی آئی کی جھولی میں آ گریں۔ جب کہ اس سے قبل کے(2013) انتخابات سے کراچی سے صرف ایک نشست وہ بھی باقی تمام سیاسی جماعتوں کے بائیکاٹ کے باعث ورنہ جتنے ووٹ علوی صاحب نے حاصل کیے اتنے تو کئی حلقوں میں انتخاب مکمل نہ ہونے کے باوجود خوش بخت صاحبہ حاصل کر ہی چکی تھیں۔

بہرحال اس بار تو ماشا اللہ پورا نقشہ ہی بدل گیا اور پی ٹی آئی نے بڑی تعداد میں کامیابی حاصل کی اپنی اہلیت کے باعث یا ان سنہری وعدوں کے باعث؟ خیر اب تو یہ قصہ پارینہ ہے مگر جو صورتحال ہے وہ یہ کہ کراچی کسی گاؤں، گوٹھ کا منظر پیش کر رہا ہے جو کبھی بین الاقوامی شہر تھا ۔

وزیر اعظم جن کی نظر اگلے انتخابات پر نہیں بلکہ قومی ترقی اور ملکی مفاد پر ہے، اس شہر ناپرساں کی کس مپرسی پر متوجہ ہوئے بغیر نہ رہ سکے، اور کراچی والوں کے شکرگزار ہونے کے بجائے ان کے مددگار کے طور پر کراچی کے حالات درست کرنے کی خاطر 162 ارب کے ترقیاتی پیکیج کے ساتھ اپنے محسن شہر تشریف لائے، بظاہر یہ اچھا خاصا بڑا پیکیج ہے مگر کراچی کے مسائل شاید اس سے بھی زیادہ ہیں۔ اس امدادی پیکیج کو پیش کرتے ہوئے اس تقریب میں سندھ کے وزیر اعلیٰ کو مدعو ہی نہیں کیا گیا اور نہ حکومت سندھ سے کوئی رائے یا مشورہ کیا گیا بلکہ گورنر سندھ نے فرمایا کہ وزیر اعلیٰ کو از خود ( بن بلائے مہمان کی طرح ) اس تقریب میں آنا چاہیے تھا۔

اس طرز عمل پر ہمارے چھوٹے سے دماغ میں خیال آیا کہ کیا یہ ہم سب کے وزیر اعظم ہیں؟ کیا انھوں نے پاکستان (پورے ملک سے) وفاداری کا حلف نہیں اٹھایا؟ ضرور اٹھایا ہے مگر ان کے اپنے ہم خیال، طرفدار اور وفادار ہی شاید پاکستانی ہیں، مخالفین یا دوسرا سیاسی نظریہ رکھنے والے پاکستانی نہیں؟ جب کہ کہا تو یہ جا رہا تھا کہ ہم سب کی ترقی کے خواہاں ہیں، ہم پورا پاکستان ''نیا'' بنانے کے لیے اقتدار میں آنا چاہتے ہیں، سندھ میں کیونکہ پی پی پی کی حکومت ہے تو کراچی سے متعلق فیصلوں میں سندھ کے وزیر اعلیٰ کو شامل فیصلہ نہ کرنا اس کا ثبوت ہے کہ آپ مخالفین کے نہیں صرف اپنے اپنوں کے وزیر اعظم ہیں، معمولی سی اکثریت وہ بھی اتحادیوں کے بل بوتے پر اتنی بے نیازی، بقول برق صاحب ''ہے سے تھے'' ہونے میں کیا دیر لگتی ہے؟

آپ کو بطور وزیر اعظم ہر کسی کی مخالفت، اکڑ اور رویے کو برداشت کرتے ہوئے ''سب کا'' وزیر اعظم ثابت کرنا ہو گا مخالفت کو موافقت میں تبدیل کرنا ہی اعلیٰ ظرفی ہے۔ جو کام عدلیہ کا ہے وہ اس کو کرنے دیجیے کہ وہ کس کو چور لٹیرا، ڈاکو قرار دے کر اس کو حسب جرم کیا سزا دیتی ہے۔


ان غداران قوم کے لیے آپ بلاوجہ از خود فیصلے نہ کریں، فلاں کو نہیں چھوڑوں گا، فلاں کو کسی صورت معاف نہیں کروں گا، فلاں بہت جلد جیل میں ہو گا، کسی کو این آر او نہیں ملے گا، غرض یہ کہ کیوں سر منڈاتے ہی اولوں کی زد میں آ رہے ہیں؟ اپنی ذاتی مخالفت (جو کراچی کے دورے میں واضح ہو گئی ہے) کے بجائے قانونی تقاضوں پر ہی ''چور کو گھر تک پہنچائیں'' کیا ضرورت ہے کہ آپ اپنے ذاتی خیالات، ڈھکے چھپے نہیں بلکہ اعلانیہ چٹر پٹر کہنے کے انداز میں برملا اظہار کریں؟

اگر عدلیہ آزاد ہے اور نیب خود مختار ادارہ ہے تو پھر ان کو آزادی اور خود مختاری سے فیصلے کرنے دیجیے ۔ عین ممکن ہے کہ آپ کی حسب مرضی اور قومی توقع کے مطابق فیصلہ ہو اور چور، لٹیرے واقعی پس زنداں ہوں، مگر آپ برملا ان سب کو آڑے ہاتھوں لیتے رہیں گے تو آپ کی حسب خواہش قانونی فیصلے بھی لوگوں کو عدلیہ کے انصاف کی بجائے اقتدار کا دباؤ لگیں گے اور ملکی دولت لوٹنے والے لٹیرے انھیں بے گناہ کے بجائے معصوم نظر آئیں گے اور انصاف انتقام لے گا یوں وہ سزا کے بجائے لوگوں کی ہمدردی اور حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ان کی حمایت میں حکومت مخالف، مزاحمتی تحریکوں کو روکنا مشکل ہو گا۔ آپ ایک بردبار سنجیدہ اور محب وطن وزیر اعظم کا غیر جانبدار کردار ادا کیجیے، تا کہ لوگ آپ پر مکمل بھروسہ کریں۔

آپ کے منصوبوں، ملکی ترقی میں آپ کا ساتھ دیں۔ ابھی قدم تو جمائیے، کچھ کامیابی تو حاصل کر لیجیے، عوام کی کچھ تالیف قلب تو ہو، مہنگائی میں کچھ کمی کے بجائے اضافہ نہ ہو، ایک کروڑ نوکریوں کے بجائے صرف میرٹ پر حق داروں کو دس پچاس تو دیجیے پھر عوام آپ کے ساتھ ہوں گے، آپ کی اب تک کی کارروائیوں نے کئی لاکھ افراد کو مزید بے روزگاری کی آگ میں دھکیل دیا ہے۔

بے شک نظام درست کرنے کے لیے کچھ قربانی تو دینا پڑتی ہے مگر پہلے عوامی بہبود کے منصوبے بنانے پڑتے ہیں ناجائز کاموں پر گرفت بہتر نتائج کے علاوہ ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالتی ہے۔ اگر ببانگ دہل مہنگائی، بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہوتا رہے گا تو آپ جرائم پر کبھی بھی قابو نہیں پا سکیں گے۔ کیونکہ لوگ اپنے بچوں کو بھوک سے تڑپتا نہیں دیکھ سکتے۔ وہ چوری کریں گے، ڈاکے ڈالیں گے ، چند روپوں کی خاطر قتل کریں گے اور آخر میں تنگ آ کر خودکشی کریں گے۔

آخر میں عاجزانہ گزارش ہے کہ کراچی پیکیج کے لیے جس رقم کا اعلان کیا گیا ہے وہ حقیقتاً بروقت ملنی اور درست جگہ خرچ ہونے کی یقینی صورت بھی مد نظر رہنی چاہیے۔
Load Next Story