محبوب آپ کے قدموں میں
کیا بات ہے صاحب! ویسے شنید ہے کہ وہم کا علاج آپ کے پاس بھی نہ تھا۔ وہم، گمان، ذہنی پراگندگی، یہ سب ایسی چیزیں ہیں جو ہمارے یہاں تھوک کے حساب سے ہر جگہ، ہر شعبہ ہائے زندگی، ہر نوعیت کے افراد میں دستیاب یا پائی جاتی ہیں۔
وطن عزیز کی دیواروں پر لکھی ہوئی تحریریں اور دیواروں پر چسپاں اشتہارات برائے عاملین و کاملین اس بات کی دلیل ہیں کہ ہم کتنے وہمی واقع ہوئے ہیں۔ ہمارے عامل باباؤں کا روز افزوں کاروبار اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم بہ سبب جہالت و غربت نہ صرف وہمی ہوگئے ہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر پراگندہ ذہنی کا شکار ہوگئے ہیں۔ ہمارے جعلی پروفیشنل عاملوں نے اس رویّے کو بڑھاوا دینے میں مزید کردار ادا کیا ہے۔ اور کیوں نہ کریں؟ ان کی روزی روٹی ہی اس سے وابستہ ہے۔ جتنے زیادہ جاہل اور وہمی ہم ہوں گے، اتنا ہی ان باباؤں کا، عاملوں اور خودساختہ کاملوں کا کاروبار چمکے گا۔ اور بھیا پاکستان و ہندوستان دو ایسے ملک ہیں جہاں یہ بابا، سنت، سادھو، عامل اپنے عروج پر نظر آتے ہیں۔ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں واقعات ان مہان بہروپیوں، ان عاملوں کاملوں کے ہم سنتے اور پڑھتے ہی رہتے ہیں۔
ہم بھی بڑے عجیب لوگ ہیں، ہمیشہ شارٹ کٹ کی تلاش میں رہتے ہیں۔ کوئی شارٹ کٹ وظیفہ، کوئی بابا، کوئی عامل کامل، کوئی جادو چھومنتر ایسا مل جائے کہ سارے معاملے آسان ہوجائیں، دشمن زیر ہوجائیں، محبوب قدموں میں آجائے، مال و دولت گویا برسنے لگے اور بابا کی کرپا سے گویا بیڑہ ہی پار ہوجائے۔ اس چکر میں بسا اوقات تو عزت سادات بھی گنوا بیٹھتے ہیں.
اس ضمن میں علامہ اقبال کا ایک واقعہ پیش ہے جو غالباً اردو ڈائجسٹ میں کبھی نظر سے گزرا ''حضرت علامہ اقبال اپنے ایک دوست کے پاس تشریف فرما تھے جو ایک بڑے گدی نشین اور پیر تھے۔ ایک غریب مرید حاضر ہوا، پیر صاحب کی قدم بوسی کی اور درخواست کی کہ حضرت! دعا فرما دیں، بہت پریشان ہوں، سو روپے کا مقروض ہوگیا ہوں، قرضہ ادا ہوجائے۔ پیر صاحب نے سوجے ہوئے منہ سے سر ہلادیا. مرید ادب سے پیچھے ہٹا، پانچ روپے پیر صاحب کی نذر کرکے دست بوسی کی اور الٹے قدموں واپس جانے لگا۔ علامہ نے، جو یہ منظر خاموشی سے دیکھ رہے تھے دفعتاً اسے بلایا۔ وہ ادب سے ہاتھ جوڑ کر آگے آیا۔ علامہ نے پیر صاحب کی جانب مسکرا کر دیکھا اور اس مرید سے فرمایا؛ پہلے تم سو روپے کے مقروض تھے اب ایک سو پانچ کے ہوگئے ہو۔ مرید تو جانے کیا سمجھا؟ یا نہ سمجھا، ادب سے الٹے پاؤں واپس چلا گیا، مگر پیر صاحب بڑے جزبز ہوئے اور فرمانے لگے علامہ! آپ میرے مریدوں کو خراب کررہے ہیں۔''
بقول فیض صاحب یہ صدیوں پرانے تاریک بہیمانہ طلسمات، یہ جادو، سحر منتر، جھاڑ پھونک، وظیفوں سے کام نکالنا، سب زمانوں سے ہورہا ہے اور شاید قیامت تک ہوتا رہے گا۔ ہم تو چلیں تھرڈ ورلڈ کے غریب اور جاہل سے لوگ ہیں، مگر مغربی، مادہ و عقل پرست دنیا میں بھی، یہ کام خوب جاری و ساری ہے۔ بس ان کے عاملوں، باباؤں کا طریقۂ واردات ذرا مختلف ہے۔ مغربی دنیا کے لوگ جو بظاہر بڑے روشن خیال، توہمات سے دور نظر آتے ہیں، وہ بھی وچ کرافٹ، بلیک میجک، ووڈو وغیرہ کے بڑے قائل ہیں۔ وہاں کے جپسی ان کاموں کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ وہاں ہارر فلموں کی کامیابی کا تناسب دیگر موضوعات کی فلموں سے ہمیشہ زیادہ ہوتا ہے۔ وہاں کے بظاہر آزاد بلکہ بہت ہی آزادانہ طرز زندگی کی وجہ سے کیونکہ جذباتی اور نفسیاتی امراض بھی زیادہ ہوتے ہیں تو وہ بھی ایسے ہی شارٹ کٹ ڈھونڈتے نظر آتے ہیں۔ تو گویا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ توہمات اور افراد کا، چاہے مشرق ہو کہ مغرب، چولی دامن کا ساتھ ہے اور شاید یہ چیز نسل انسانی کے جینز میں ہی شامل ہے ۔
خیر ہم اپنے یہاں کی بات کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں یہ ایک ایسا بزنس ہے کہ جس میں انویسٹمنٹ تو بہت کم اور واپسی یعنی ریٹرن بہت زیادہ ہے۔ آپ کہیں بھی دکان کھول لیں، دو چار حالی موالی قسم کے چمچے، جنہیں عرف عام میں مرید کہا جاتا ہے، اپنے ساتھ پبلسٹی کے لیے لگالیں اور در و دیوار پر بذریعہ تحاریر و پوسٹر مشہوری کے طریقے اپنائیں۔ تھوڑا زیادہ انویسٹمنٹ کرنے کی اوقات ہو تو کوئی روحانی عملیاتی ٹائپ کتاب وغیرہ چھپوالیں یا پھر کسی مشہور رسالے یا ڈائجسٹ کے صفحات خرید کر خودساختہ خطوط چھپوانا شروع کردیں کہ جناب آپ کے بتائے عمل نے تو بیڑا پار کردیا وغیرہ وغیرہ۔ تو بس کاروبار چل نکلے گا اور چاروں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہونے والا محاورہ صادق آجائے گا۔ بس ذرا سا کچھ دین وایمان کا زیاں ہوجائے گا تو یہ ان جعلی عاملین کے لیے کوئی مسئلہ نہیں۔ بس ایک دفعہ گاڑی چل پڑی تو پھر تو وارے نیارے۔ صرف آپ کے ہی نہیں بلکہ نسلوں تک کا بندوبست پکا ہوجاتا ہے۔
تو جناب! قرار یہ پایا کہ جب تک دنیا میں بیوقوف زندہ ہیں عقلمند کبھی بھوکے نہیں مرسکتے۔ یہ ہمارے عامل کامل، جوگی سادھو، سنت، کالے علم کی کاٹ کے ماہر وغیرہ میرے ناقص خیال میں اپنے آپ میں شدید قسم کے نفسیاتی مریض ہوتے ہیں اور انہیں خود لمبے نفسیاتی علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر ہم جیسے وہمی اور پراگندہ ذہن کے لوگ انہیں نجات دہندہ سمجھنے کے وہم کا شکار ہوکر اللہ تعالیٰ پر اپنا یقین اور اپنا مال حتیٰ کہ بعض مرتبہ اپنی عزت بھی گنوا دیتے اور کھو بیٹھتے ہیں۔
یہ یاد رہے کہ میری مراد جعلی عاملوں، بہروپیوں، باباؤں سے ہے، وگرنہ اصل اہل اللہ، جن کی سب سے بڑی پہچان اتباع سنت ہوتی ہے، وہ تو خلق خدا کے لیے اللہ کی رحمت کا مظہر اور انسانیت کے لیے اللہ پاک کا انعام ہوتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔