جلیانوالہ باغ کے المیے کی صد سالہ برسی
فائرنگ سے پہلے باغ سے نکلنے کے تمام راستے بند کر دیے گئے تھے۔
KARACHI:
ٹھیک سو سال قبل آج ہی کے دن 13 اپریل 1919 کو امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں برصغیر کی تاریخ کا ایک بھیانک سانحہ ہوا تھا،اس میں پانچ سے چھ سو کے قریب بے گناہ مقامی شہریوں کو برطانوی راج کے جرنیل ڈائر کے حکم پر مشین گن سے براہ راست گولیاں برسا کر قتل کر دیا گیا تھا۔
فائرنگ سے پہلے باغ سے نکلنے کے تمام راستے بند کر دیے گئے تھے۔ باغ کے وسط میں ایک کنواں تھا اور باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہ پا کر لوگوں نے جان بچانے کے لیے اندھا دھند کنویں میں چھلانگیں لگانا شروع کر دیں اور جب مشین گن کی تمام گولیاں ختم ہو گئیں تو باغ کا کنواں لاشوں سے بھر چکا تھا۔ بتایا گیا کہ 13اپریل 1919 کو پندرہ ہزار سے زیادہ لوگ جلیانوالہ باغ میں انگریزی راج کے خلاف اکٹھے ہوئے تھے جن میں خواتین بھی شامل تھیں۔
اب برسوں بعد برطانوی وزیر اعظم تھریسامے نے اس واقعے پر گہرے صدمے اور دکھ کا اظہار کیا ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح اور مہاتما گاندھی کی کوششوں سے ہندو مسلم اختلافات میں کمی آ رہی تھی مگر انگریز کو ان دونوں کے قریب آنے سے خطرہ لاحق ہو رہا تھا لہذا برطانوی حکومت اسی قسم کی کسی بھی کوشش کو نہایت سنگدلی سے کچلنے پر تلی ہوئی تھی۔
جلیانوالہ باغ کے قتل عام پر قائداعظم محمد علی جناح نے سیکریٹری آف اسٹیٹ آف انڈیا ایڈون مونٹیگو کے نام احتجاج کا ایک نہایت سخت مکتوب روانہ کیا تھا۔ سانحہ جلیانوالہ باغ کے ایک سو سال مکمل ہونے پر لوگوں نے بڑی تعداد میں ایک بار پھر برطانوی حکومت سے اس افسوسناک واقعہ پر باضابطہ معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے۔
برطانوی ذرائع کے مطابق جلیانوالہ باغ کے المیے میں ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد صرف 379 تھی تاہم دیگر ذرائع کم از کم ایک ہزار لوگوں کی ہلاکت کا اندازہ لگاتے ہیں جب کہ زخمی ہونے والوں کی تعداد اس سے دگنی تھی۔ قائداعظم نے برطانوی کونسل برائے ہند کے سیکریٹری آف اسٹیٹ کے نام جو احتجاجی مکتوب روانہ کیا اس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ اس مسئلہ کا انصاف کے ٹھوس اصولوں کے مطابق منصفانہ فیصلہ کیا جائے۔
ٹھیک سو سال قبل آج ہی کے دن 13 اپریل 1919 کو امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں برصغیر کی تاریخ کا ایک بھیانک سانحہ ہوا تھا،اس میں پانچ سے چھ سو کے قریب بے گناہ مقامی شہریوں کو برطانوی راج کے جرنیل ڈائر کے حکم پر مشین گن سے براہ راست گولیاں برسا کر قتل کر دیا گیا تھا۔
فائرنگ سے پہلے باغ سے نکلنے کے تمام راستے بند کر دیے گئے تھے۔ باغ کے وسط میں ایک کنواں تھا اور باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہ پا کر لوگوں نے جان بچانے کے لیے اندھا دھند کنویں میں چھلانگیں لگانا شروع کر دیں اور جب مشین گن کی تمام گولیاں ختم ہو گئیں تو باغ کا کنواں لاشوں سے بھر چکا تھا۔ بتایا گیا کہ 13اپریل 1919 کو پندرہ ہزار سے زیادہ لوگ جلیانوالہ باغ میں انگریزی راج کے خلاف اکٹھے ہوئے تھے جن میں خواتین بھی شامل تھیں۔
اب برسوں بعد برطانوی وزیر اعظم تھریسامے نے اس واقعے پر گہرے صدمے اور دکھ کا اظہار کیا ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح اور مہاتما گاندھی کی کوششوں سے ہندو مسلم اختلافات میں کمی آ رہی تھی مگر انگریز کو ان دونوں کے قریب آنے سے خطرہ لاحق ہو رہا تھا لہذا برطانوی حکومت اسی قسم کی کسی بھی کوشش کو نہایت سنگدلی سے کچلنے پر تلی ہوئی تھی۔
جلیانوالہ باغ کے قتل عام پر قائداعظم محمد علی جناح نے سیکریٹری آف اسٹیٹ آف انڈیا ایڈون مونٹیگو کے نام احتجاج کا ایک نہایت سخت مکتوب روانہ کیا تھا۔ سانحہ جلیانوالہ باغ کے ایک سو سال مکمل ہونے پر لوگوں نے بڑی تعداد میں ایک بار پھر برطانوی حکومت سے اس افسوسناک واقعہ پر باضابطہ معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے۔
برطانوی ذرائع کے مطابق جلیانوالہ باغ کے المیے میں ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد صرف 379 تھی تاہم دیگر ذرائع کم از کم ایک ہزار لوگوں کی ہلاکت کا اندازہ لگاتے ہیں جب کہ زخمی ہونے والوں کی تعداد اس سے دگنی تھی۔ قائداعظم نے برطانوی کونسل برائے ہند کے سیکریٹری آف اسٹیٹ کے نام جو احتجاجی مکتوب روانہ کیا اس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ اس مسئلہ کا انصاف کے ٹھوس اصولوں کے مطابق منصفانہ فیصلہ کیا جائے۔