’’کولاژ‘‘

اس وقت میرے سامنے یہ لفظ ایک ادبی رسالے کے نام کی شکل میں ہے جس کے مدیر اقبال نظر ہیں۔

Amjadislam@gmail.com

کہتے ہیں کہ تمام فنونِ لطیفہ اصل میں ایک ہی ماں کے بچھڑے ہوئے بچے ہیں جو اگرچہ ایک دوسرے سے دور اور ناواقف رہ کر مختلف ماحول میں پلتے ہیں لیکن ان کی شکل و صورت اور عادات و اطوار میں بے شمار چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو اُن جینیاتی اشتراک کا پتہ دیتی ہیں.

اب اس لفظ کولاژ کو ہی لیجیے جسے عام طور پر ''کولاج'' بھی کہا جاتا ہے کہ یہ اپنی اصل میں فن مصوری کی ایک اصطلاح ہے جو بہت زیادہ پرانی ہی نہیں اور میرے علم کے مطابق یہ مختلف لوگوں اور خطوط کے ملاپ سے بننے والی ایک ایسی تصویر ہے جس میں بہت سی تصویریں آپس میں گڈ مڈ کر دی جاتی ہیں اور اپنی آخری صورت میں یہ ایک ایسے منظر میں ڈھل جاتی ہیں جو کچھ کچھ مولانا روم کی اس مصرعے کی شکل اختیار کر جاتا ہے کہ ''صورت از بے صُورتی آید بروں''۔

اس وقت میرے سامنے یہ لفظ ایک ادبی رسالے کے نام کی شکل میں ہے جس کے مدیر اقبال نظر ہیں اور جو گزشتہ چند برسوں سے وقفے وقفے سے چھپتا اور ایک خوشگوار تاثر چھوڑ جاتا ہے کہ فی زمانہ ادبی رسائل کے مدیران ادبی تحریریں جمع کرکے شائع تو کرتے ہیں مگر بہت کم اُن کی اپنی ذات ، ذاتی پسند اور ادیبوں کی ممکنہ رسائی کے علاوہ اس مجموعے میں کوئی اور چیز قاری کو متوجہ کرتی ہے یعنی وہ ایک ذمے دار مدیر کے بجائے ایک ڈاکیئے کے رُوپ میں زیادہ نمایاں نظر آتے ہیں۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق اس طرح کے زیادہ تر مدیر گزشتہ تیس چالیس برسوں میں زیادہ عام ہوئے ہیں۔ نیاز فتح پوری، شاہد احمد دہلوی، محمد طفیل، احمد ندیم قاسمی، مشفق خواجہ، جمیل جالبی، نسیم درانی، صہبا لکھنوی اور ڈاکٹر وزیر آغا سمیت بیشتر صورتوں میں ہر ادبی پرچہ اپنے مدیر کے ہونے کی شہادت دیتا تھا ۔ عہد حاضر میں اس روائت کی پاسداری کرنے والے جو چند نام ذہن میں آتے ہیں بلاشبہ ان میں کولاژ کے ایڈیٹر اقبال نظر کا نام بھی شامل اور نمایاں ہے۔

انھوں نے ان تحریروں کے حصول اور انتخاب میں جو محنت کی ہے اس کی شہادت نہ صرف اس میں شامل ایک ایک ادب پارہ دے رہا ہے بلکہ یہ بات میرے ذاتی تجربے میں بھی ہے کہ جدید ادبی رویوں، عالمی تحریکات اور ہمارے ادب کے روائتی عناصر کو ایک جگہ جمع کرنے اور پھر انھیں ''کولاژ'' کی شکل میں ڈھالنے کے لیے وہ کس طرح ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔ فی زمانہ الحمرا ، بیاض ، تخلیق ، مکالمہ ، لوح ، تسطیر ،ـفنون ، جواز اور چند ایک ادبی اداروں کی طرف سے شائع ہونے والے رسائل سے قطع نظر سہ ماہی یا کتابی شکل میں شائع ہونے والے بیشتر ضخیم رسائل نہ صرف بہت بے ترتیبی سے شائع ہوتے ہیں بلکہ ان میں سے اکثر دو چار شماروں کے بعد سرے سے ہی غائب ہو جاتے ہیں۔

اقبال نظر کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے اس پرچے میں جدت اور روائت دونوں سے متعلق ہر اُس رنگ کو اہمیت دی ہے جس میں کسی نہ کسی حوالے سے رُوحِ عصر کی جھلک نظر آتی ہو اور یوں اس کولاژ (کولاج) میں وہ تمام رنگ ایک جگہ اور ایک قدرے نئی اور مختلف شکل میں جمع ہو گئے ہیں جنھیں زندگی کے رنگ کہا جا سکتا ہے، اس بات کی تصدیق کے لیے تازہ پرچے میں شامل چند لکھنے والوں کے نام دیکھیئے اور ہر نام کو ایک رنگ تصور کر کے اس عمومی تاثر کو محسوس کرنے کی کوشش کیجیے جن سے یہ کولاژ یا گلدستہ اپنی موجودہ صورت میں ڈھلا ہے۔

شمس الرحمن فاروقی، سید راشد اشرف، مسلم شمیم ، مرزا حامد بیگ، ڈاکٹر نجیب جمال، علی تنہا، اصغر ندیم سیّد ، سیّد محمد صغیر، خالد محمود درانی، سمیع آہوجہ، رشید امجد، اے خیام ، خالد فتح محمد، جیتندر بلّو، سیمیں کرن، رابعہ رحمن، اخلاق احمد ، عرفان جاوید ، ظفر اقبال، انور شعور، سلیم کوثر، باصر سلطان کاظمی ، محسن چنگیزی ، ڈاکٹر ظفر حسن گلزار، شاہین مفتی، جسٹس طارق الخیری، طاہرہ اقبال، اسد الواحدی، بختیار احمد، محمد احمد سبزواری، خواجہ رضی حیدر اور بہت سے دوسرے میری چار منظومات بھی اس پرچے میں شامل ہیں۔ اتفاق سے ان میں سے ایک غزل مجھے آج ہی کی کہی ہوئی لگ رہی ہے ۔ غزل کی صنف ایسی ہے کہ اسے اپنی جگہ پر ایک کولاژ سے تشبیہ دی جا سکتی ہے کہ اس میں بھی بہت سے مختلف رنگ مل کر ایک اجتماعی یا تصور یا تاثر تخلیق کرتے ہیں تو آیئے لفظوں کے اس کولاژ سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔

سوال کرتا ہے سورج سروں پہ آیا ہوا

کہیں ہے پیڑ کوئی آپ نے لگایا ہوا؟

اُنہی کو ملتی ہے منزل نئے جہانوں کی

جو چھوڑ سکتے ہیں رستہ بنا بنایا ہوا


نیا نیا سا ہی لگتا ہے سننے والوں کو

یہ گیت گرچہ کئی بار کا ہے گایا ہوا

یہ کاروبارِ محبت، وفا ہے جس کا نام

ہمارے ہاتھ لگا ہے چلا چلایا ہوا

یقین کیا نہیں تم کو حسابِ محشر کا

زمیں پہ کس لیے یہ حشر ہے اُٹھایا ہوا

نکال لیتا ہے ہر مسئلے کا حل، انصاف

یہ ایک نسخہ ہے سو بار آزمایا ہوا

سنائی دیتی نہیں آہ لُٹنے و الوں کی

کہ مل کے چوروں نے وہ شور ہے مچایا ہوا

رسائی اُس کی ہے امجد گماں سے آگے بھی

اور ایک ننھے سے دل میں بھی ہے سمایا ہوا
Load Next Story