میں نجود علی ہوں
نجود اپنے بارے میں بتاتی ہے کہ وہ ہنستی، کھیلتی، کھلکھلاتی اور زقندیں لگاتی ہوئی بچی تھی۔
ان دنوں ہمارے یہاںکم عمری کی شادی پرگرما گرم مباحثہ ہو رہا ہے ۔ یہ بحث بیسویں صدی میں بھی بھر پورطور سے ہوتی رہی۔ اس تناظر میں محمد عامر رانا کے سہ ماہی مجلے ''تجزیات'' میں ایک یمنی بچی نجود علی کی دہشتناک زندگی کا معاملہ بیان کیا گیا ہے۔ نجود نے اپنی زندگی کی سرگزشت ایک ایرانی نژاد فرانسیسی خاتون صحافی ڈلفن مینوئے کو سنائی جس نے اسے کاغذ پر تحریرکیا، یہ کتاب دنیا کی تیس سے زیادہ زبانوں میں شائع ہوچکی ہے۔ اردو میں ابھی یہ قسطوں میں شائع ہورہی ہے۔ اسے پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
نجود اپنے بارے میں بتاتی ہے کہ وہ ہنستی، کھیلتی، کھلکھلاتی اور زقندیں لگاتی ہوئی بچی تھی۔ یمن کے ایک ایسے دور افتادہ گائوں میں رہتی تھی۔ جس کا نام بھی یمن کے نقشوں میں نہیں ملتا تھا ۔ اسے اسکول جانا، تصویریں بنانا اور ان میں رنگ بھرنا بہت محبوب تھا۔ دنیا کے دوسرے بچوں کی طرح وہ بھی اپنے بھائی، بہنوں اور پڑوس کے بچوں کے ساتھ اچھلتی کودتی پھرتی، لیکن اس روز نجود کی زندگی بدل گئی جب اس کے باپ نے زبردستی اس کی شادی تیس برس کے ایک ایسے مرد سے کردی جسے اس نے پہلے کبھی دیکھا بھی نہ تھا ۔
نجود کی ماں خوش نصیب تھی کہ اس کی شادی 16 برس میں ہوئی اور وہ 16 بچوں کی ماں بنی۔ جن میں سے کچھ پیدائش سے پہلے ہی مرگئے اور کچھ پیدائش کے بعد ختم ہوگئے۔ کسی مجبوری کے تحت اس کے باپ علی کو اپنا گائوں چھوڑنا پڑا۔ وہ گائوں میں تھا تو بھیڑ بکریاں چراتا تھا ۔ شہر صنعا پہنچا تو بیکار اور بیروزگار ہوا ۔ اتنے بہت سے بچوں کا پیٹ پالنا اس کے لیے مسئلہ بن چکا تھا۔ اسی لیے جب اس سے تیس برس کے فیض نے اس کی بیٹی کا ہاتھ مانگا تو اس نے کچھ سوچے سمجھے بغیر ''ہاں'' کردی۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ تھاکہ کھانے والا ایک منہ کم ہو رہا تھا اور فیض اسے کچھ رقم بھی دے رہا تھا۔ نجود کی ماں نے اپنے خاندان کی دوسری عورتوں کی طرح خاموشی اختیار کی۔ ''خاموشی'' جو ان علاقوں میں ''رضا مندی'' کا دوسرا نام ہے۔
دس سالہ نجود کے باپ نے فیض سے اپنی بیٹی کے دام وصول کرتے اور نکاح نامے پر دستخط کرتے ہوئے یہ وعدہ لیا تھاکہ وہ نجود کی بلوغت تک اسے اپنی زوجیت میں نہیں لے گا لیکن فیض نے پہلی رات ہی یہ وعدہ توڑ دیا اور دس سالہ نجود کو ایک ایسے عذاب سے گزرنا پڑا جو 30 دن تک مسلسل جاری رہا۔ نجود رات میں فیض کی بربریت کا نشانہ بنتی اور دن میں اس کی ساس نہ صرف اس سے گھر کے کام لیتی بلکہ اسے زدوکوب بھی کرتی۔ نجود کے لیے زندگی جہنم بن چکی تھی۔ وہ شادی سے پہلے ایک تتلی کی طرح اڑتی تھی، وہ اس صورتحال سے سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں تھی۔
اس نے ریز گاری اکٹھی کرنا شروع کی اور جیسے ہی اس کے پاس چند روپے اکٹھے ہوگئے ، وہ موقع ملتے ہی گھر سے فرار ہوگئی اور ایک ٹیکسی پکڑی۔ ہوسکتا ہے آپ سمجھیں کہ اس نے ٹیکسی ڈرائیورکو اپنے گھر کا پتہ بتایا ہوگا۔ لیکن وہ عذاب کے دنوں میں یہ جان چکی تھی کہ یہ صرف عدالت ہے جو اسے نجات دلاسکتی ہے۔ وہ عدالت کے احاطے میں جا بیٹھی۔ اس کم عمر اور دہشت زدہ بچی کو دیکھ کر ایک خاتون وکیل اس کی طرف متوجہ ہوئی اور یوں اس مقدمے کا آغاز ہوا جس نے یمن کی نجود علی کو دنیا بھر میں مشہور کردیا۔
یہ 2008 کی بات ہے جب وہ کمرہ عدالت میں تھی اور جج سے مطالبہ کر رہی تھی کہ اسے طلاق دلا دی جائے۔ جج نے اس کے چہرے سے اس کی عمر کا اندازہ کیا، اس کے مطالبے نے فاضل جج کو پریشان کردیا۔اس کے بعد کا قصہ نجود علی سے سنیے۔ وہ فاضل عدالت سے بات کرتے ہوئے ایک مرتبہ بھی نہیں روئی۔ شاید اس کے آنسوئوں کا ذخیرہ ختم ہوچکا تھا۔اس نے جج سے کہا۔ جی ہاں میں اس جہنم سے خلاصی چاہتی ہوں۔
لیکن تم تو بہت چھوٹی اور انتہائی نازک ہو۔ جج نے کہا۔ میں نے سرہلاتے ہوئے ان کی طرف دیکھا۔ وہ نروس تھے۔ میرے لیے یہی کافی تھا کہ وہ میری مدد کرنے پر راضی ہوجائیں۔ کیونکہ وہ تو جج ہیں اور یہ بات یقینی ہے کہ ان کے پاس بہت سے اختیارات ہیں۔
تم کیوں طلاق لینا چاہتی ہو۔ انھوں نے ضرورت سے زیادہ فطری انداز میں اگلا سوال کردیا۔ جیسے وہ اپنی حیرت چھپانا چاہتے ہوں۔
میں نے فوراً ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔ اس لیے کہ میرا شوہر مجھ پر ہاتھ اٹھاتا ہے۔ یہ جواب ان کے لیے ایسا تھا گویا میں نے ان کے منہ پر زور کا تھپڑ رسید کردیا ہو۔ ان کا چہرہ پھر جامد ہوگیا وہ سمجھ گئے کہ میرے ساتھ کوئی بڑا واقعہ پیش آیا ہے۔ اور میرے پاس ان کے سامنے جھوٹ بولنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ انھوں نے گھما پھرا کر بات کرنے کے بجائے مجھ سے سیدھے لفظوں میں ایک اہم سوال پوچھ لیا۔
کیا تم ابھی تک کنواری ہو؟
جی نہیں۔ میرا جواب تھا۔
مجھے محسوس ہوا کہ انھیں صدمہ پہنچا ہے۔ ایک دم سے ان کی اعصاب پر قابو پانے کی طاقت جواب دے گئی۔ جس سے ان کی حیرت عیاں ہوگئی۔ اور میں نے صاف دیکھ لیا کہ وہ اپنی یہ حیرت چھپانا چاہتے ہیں۔ انھوں نے اگلی بات کہنے سے پہلے گہرا سانس لیا اور بولے۔ میں ضرور تمہاری مدد کروں گا۔
میری بچی! تمہیں شایدمعلوم نہیں کہ اس کے لیے تمہاری سوچ سے بھی زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔ معاملہ بڑا پرپیچ ہے اور میں تمہیں یہ بھی ضمانت نہیں دے سکتا کہ تم یہ کیس جیت جائو گی ۔ برآمدے میں ہمارے ساتھ شریک ہونے والے دوسرے جسٹس نے یہ کہہ کر میری امید کی عمارت دھڑام سے گرا دی۔ ان کا نام محمد الغازی تھا جو بدحواس لگ رہے تھے۔ جسٹس عبدہ نے بتایا کہ وہ چیف جسٹس ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنی پوری پیشہ ورانہ زندگی میں میرے جیسا کیس نہیں دیکھا۔ ان دونوں نے مجھے وضاحت سے بتایا کہ یمن میں پندرہ سال کی عمر سے قبل بچیوں کی شادی کروا دی جاتی ہے اور یہ ایک قدیم روایت ہے۔ جسٹس عبدہ نے بات مکمل کرتے ہوئے کہا کہ اس سب کے باوجود ان کے علم میں نہیں ہے کہ کم عمری کی ان تمام شادیوں میں کسی لڑکی نے کبھی طلاق کا لفظ اپنی زبان پر لایا ہو، کیونکہ اب تک کوئی بھی چھوٹی بچی عدالت میں پیش نہیں ہوئی ۔
ہم کوئی حل ڈھونڈ لیں گے۔ ہم مسئلہ حل کرلیں گے۔ محمد الغازی اپنی پگڑی درست کرتے ہوئے منہ ہی منہ میں بڑبڑائے۔
یہ اس واقعے کی شروعات تھی جس نے یمن، مشرق وسطیٰ کے دوسرے ملکوں اور مغربی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ کم عمر اور نابالغ لڑکیوں کی شادی کچھ بہت عجیب بات نہیں تھی لیکن ایسا پہلی مرتبہ ہوا کہ دس برس کی کوئی لڑکی عدالت میں جاکھڑی ہوئی ہو اور طلاق کی طلبگار ہو۔
نجود کے مقدمے میں کئی نام سامنے آتے ہیں۔ ان میں خاتون وکیل شادا ہے جس نے نجود کا مقدمہ لڑا، اس میں چیف جسٹس ہیں جو اسے ایک مہربان باپ جیسے محسوس ہوتے ہیں۔ وہ جج، ان کی بیگم اور ان کے بچے ہیں جو نجود کو اپنے گھر میں پناہ دیتے ہیں اور جہاں پہنچ کر اسے پہلی مرتبہ احساس ہوتا ہے کہ ''گھر'' کا کیا مطلب ہے۔ اور اس کی چار دیواری ہمیں کس طرح راحت اور تحفظ دیتی ہے۔
آخر کار نجود مقدمہ جیت گئی اور راتوں رات ایک مشہور شخصیت بن گئی۔ اسے یقین نہیں آتا تھا کہ یہ سب کچھ اس کے ساتھ ہورہا ہے۔ اس کی سرگزشت لکھنے کے لیے ایک خاتون صحافی نے رابطہ کیا پھر جس طرح ہماری مختاراں مائی نے اپنی زندگی کی کہانی بول کر لکھوائی تھی، اسی طرح نجود نے اپنی زندگی بیان کی۔ کتاب چھپ کر آئی تو ہاتھوں ہاتھ لی گئی اور اس کی رائلٹی نے نجود کو '' امیر'' بنا دیا۔ اس کے بعد اس نے اپنی پڑھائی پھر سے شروع کی ، اپنی بہنوں اور اپنے بھائی کو بھی اپنی خوش نصیبی میں شریک کر لیا۔
2010ء میں ''گلیمر'' میگزین نے اسے ہلیری کلنٹن اورکونڈا لیزا رائس کے ساتھ لاکھڑا کیا۔ اسے متعدد ایوارڈ دیے گئے۔ آج وہ یمن میں رہتی ہے اور اپنے بھائی بہنوں کے ساتھ خوشی اور خوشحالی کی زندگی بسر کرتی ہے۔
اس کا اصل اثاثہ اس کی ہمت تھی، جس نے اسے عدالت کا راستہ دکھایا تھا اور وہ جج تھے جنہوں نے اس کے ساتھ واقعی انصاف کیا تھا۔
ہمارے یہاں بھی دیہاتوں میں کم عمری کی شادیاں لڑکیوں کو جیتے جی جہنم میں زندگی کرنے پر مجبور کردیتی ہیں۔ یمن کی طرح قوانین ہمارے یہاں بھی موجود ہیں لیکن ضرورت ایسے منصفوں کی ہے جو ان قوانین پر سختی سے عملدرآمد کراسکیں۔
نجود اپنے بارے میں بتاتی ہے کہ وہ ہنستی، کھیلتی، کھلکھلاتی اور زقندیں لگاتی ہوئی بچی تھی۔ یمن کے ایک ایسے دور افتادہ گائوں میں رہتی تھی۔ جس کا نام بھی یمن کے نقشوں میں نہیں ملتا تھا ۔ اسے اسکول جانا، تصویریں بنانا اور ان میں رنگ بھرنا بہت محبوب تھا۔ دنیا کے دوسرے بچوں کی طرح وہ بھی اپنے بھائی، بہنوں اور پڑوس کے بچوں کے ساتھ اچھلتی کودتی پھرتی، لیکن اس روز نجود کی زندگی بدل گئی جب اس کے باپ نے زبردستی اس کی شادی تیس برس کے ایک ایسے مرد سے کردی جسے اس نے پہلے کبھی دیکھا بھی نہ تھا ۔
نجود کی ماں خوش نصیب تھی کہ اس کی شادی 16 برس میں ہوئی اور وہ 16 بچوں کی ماں بنی۔ جن میں سے کچھ پیدائش سے پہلے ہی مرگئے اور کچھ پیدائش کے بعد ختم ہوگئے۔ کسی مجبوری کے تحت اس کے باپ علی کو اپنا گائوں چھوڑنا پڑا۔ وہ گائوں میں تھا تو بھیڑ بکریاں چراتا تھا ۔ شہر صنعا پہنچا تو بیکار اور بیروزگار ہوا ۔ اتنے بہت سے بچوں کا پیٹ پالنا اس کے لیے مسئلہ بن چکا تھا۔ اسی لیے جب اس سے تیس برس کے فیض نے اس کی بیٹی کا ہاتھ مانگا تو اس نے کچھ سوچے سمجھے بغیر ''ہاں'' کردی۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ تھاکہ کھانے والا ایک منہ کم ہو رہا تھا اور فیض اسے کچھ رقم بھی دے رہا تھا۔ نجود کی ماں نے اپنے خاندان کی دوسری عورتوں کی طرح خاموشی اختیار کی۔ ''خاموشی'' جو ان علاقوں میں ''رضا مندی'' کا دوسرا نام ہے۔
دس سالہ نجود کے باپ نے فیض سے اپنی بیٹی کے دام وصول کرتے اور نکاح نامے پر دستخط کرتے ہوئے یہ وعدہ لیا تھاکہ وہ نجود کی بلوغت تک اسے اپنی زوجیت میں نہیں لے گا لیکن فیض نے پہلی رات ہی یہ وعدہ توڑ دیا اور دس سالہ نجود کو ایک ایسے عذاب سے گزرنا پڑا جو 30 دن تک مسلسل جاری رہا۔ نجود رات میں فیض کی بربریت کا نشانہ بنتی اور دن میں اس کی ساس نہ صرف اس سے گھر کے کام لیتی بلکہ اسے زدوکوب بھی کرتی۔ نجود کے لیے زندگی جہنم بن چکی تھی۔ وہ شادی سے پہلے ایک تتلی کی طرح اڑتی تھی، وہ اس صورتحال سے سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں تھی۔
اس نے ریز گاری اکٹھی کرنا شروع کی اور جیسے ہی اس کے پاس چند روپے اکٹھے ہوگئے ، وہ موقع ملتے ہی گھر سے فرار ہوگئی اور ایک ٹیکسی پکڑی۔ ہوسکتا ہے آپ سمجھیں کہ اس نے ٹیکسی ڈرائیورکو اپنے گھر کا پتہ بتایا ہوگا۔ لیکن وہ عذاب کے دنوں میں یہ جان چکی تھی کہ یہ صرف عدالت ہے جو اسے نجات دلاسکتی ہے۔ وہ عدالت کے احاطے میں جا بیٹھی۔ اس کم عمر اور دہشت زدہ بچی کو دیکھ کر ایک خاتون وکیل اس کی طرف متوجہ ہوئی اور یوں اس مقدمے کا آغاز ہوا جس نے یمن کی نجود علی کو دنیا بھر میں مشہور کردیا۔
یہ 2008 کی بات ہے جب وہ کمرہ عدالت میں تھی اور جج سے مطالبہ کر رہی تھی کہ اسے طلاق دلا دی جائے۔ جج نے اس کے چہرے سے اس کی عمر کا اندازہ کیا، اس کے مطالبے نے فاضل جج کو پریشان کردیا۔اس کے بعد کا قصہ نجود علی سے سنیے۔ وہ فاضل عدالت سے بات کرتے ہوئے ایک مرتبہ بھی نہیں روئی۔ شاید اس کے آنسوئوں کا ذخیرہ ختم ہوچکا تھا۔اس نے جج سے کہا۔ جی ہاں میں اس جہنم سے خلاصی چاہتی ہوں۔
لیکن تم تو بہت چھوٹی اور انتہائی نازک ہو۔ جج نے کہا۔ میں نے سرہلاتے ہوئے ان کی طرف دیکھا۔ وہ نروس تھے۔ میرے لیے یہی کافی تھا کہ وہ میری مدد کرنے پر راضی ہوجائیں۔ کیونکہ وہ تو جج ہیں اور یہ بات یقینی ہے کہ ان کے پاس بہت سے اختیارات ہیں۔
تم کیوں طلاق لینا چاہتی ہو۔ انھوں نے ضرورت سے زیادہ فطری انداز میں اگلا سوال کردیا۔ جیسے وہ اپنی حیرت چھپانا چاہتے ہوں۔
میں نے فوراً ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔ اس لیے کہ میرا شوہر مجھ پر ہاتھ اٹھاتا ہے۔ یہ جواب ان کے لیے ایسا تھا گویا میں نے ان کے منہ پر زور کا تھپڑ رسید کردیا ہو۔ ان کا چہرہ پھر جامد ہوگیا وہ سمجھ گئے کہ میرے ساتھ کوئی بڑا واقعہ پیش آیا ہے۔ اور میرے پاس ان کے سامنے جھوٹ بولنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ انھوں نے گھما پھرا کر بات کرنے کے بجائے مجھ سے سیدھے لفظوں میں ایک اہم سوال پوچھ لیا۔
کیا تم ابھی تک کنواری ہو؟
جی نہیں۔ میرا جواب تھا۔
مجھے محسوس ہوا کہ انھیں صدمہ پہنچا ہے۔ ایک دم سے ان کی اعصاب پر قابو پانے کی طاقت جواب دے گئی۔ جس سے ان کی حیرت عیاں ہوگئی۔ اور میں نے صاف دیکھ لیا کہ وہ اپنی یہ حیرت چھپانا چاہتے ہیں۔ انھوں نے اگلی بات کہنے سے پہلے گہرا سانس لیا اور بولے۔ میں ضرور تمہاری مدد کروں گا۔
میری بچی! تمہیں شایدمعلوم نہیں کہ اس کے لیے تمہاری سوچ سے بھی زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔ معاملہ بڑا پرپیچ ہے اور میں تمہیں یہ بھی ضمانت نہیں دے سکتا کہ تم یہ کیس جیت جائو گی ۔ برآمدے میں ہمارے ساتھ شریک ہونے والے دوسرے جسٹس نے یہ کہہ کر میری امید کی عمارت دھڑام سے گرا دی۔ ان کا نام محمد الغازی تھا جو بدحواس لگ رہے تھے۔ جسٹس عبدہ نے بتایا کہ وہ چیف جسٹس ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنی پوری پیشہ ورانہ زندگی میں میرے جیسا کیس نہیں دیکھا۔ ان دونوں نے مجھے وضاحت سے بتایا کہ یمن میں پندرہ سال کی عمر سے قبل بچیوں کی شادی کروا دی جاتی ہے اور یہ ایک قدیم روایت ہے۔ جسٹس عبدہ نے بات مکمل کرتے ہوئے کہا کہ اس سب کے باوجود ان کے علم میں نہیں ہے کہ کم عمری کی ان تمام شادیوں میں کسی لڑکی نے کبھی طلاق کا لفظ اپنی زبان پر لایا ہو، کیونکہ اب تک کوئی بھی چھوٹی بچی عدالت میں پیش نہیں ہوئی ۔
ہم کوئی حل ڈھونڈ لیں گے۔ ہم مسئلہ حل کرلیں گے۔ محمد الغازی اپنی پگڑی درست کرتے ہوئے منہ ہی منہ میں بڑبڑائے۔
یہ اس واقعے کی شروعات تھی جس نے یمن، مشرق وسطیٰ کے دوسرے ملکوں اور مغربی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ کم عمر اور نابالغ لڑکیوں کی شادی کچھ بہت عجیب بات نہیں تھی لیکن ایسا پہلی مرتبہ ہوا کہ دس برس کی کوئی لڑکی عدالت میں جاکھڑی ہوئی ہو اور طلاق کی طلبگار ہو۔
نجود کے مقدمے میں کئی نام سامنے آتے ہیں۔ ان میں خاتون وکیل شادا ہے جس نے نجود کا مقدمہ لڑا، اس میں چیف جسٹس ہیں جو اسے ایک مہربان باپ جیسے محسوس ہوتے ہیں۔ وہ جج، ان کی بیگم اور ان کے بچے ہیں جو نجود کو اپنے گھر میں پناہ دیتے ہیں اور جہاں پہنچ کر اسے پہلی مرتبہ احساس ہوتا ہے کہ ''گھر'' کا کیا مطلب ہے۔ اور اس کی چار دیواری ہمیں کس طرح راحت اور تحفظ دیتی ہے۔
آخر کار نجود مقدمہ جیت گئی اور راتوں رات ایک مشہور شخصیت بن گئی۔ اسے یقین نہیں آتا تھا کہ یہ سب کچھ اس کے ساتھ ہورہا ہے۔ اس کی سرگزشت لکھنے کے لیے ایک خاتون صحافی نے رابطہ کیا پھر جس طرح ہماری مختاراں مائی نے اپنی زندگی کی کہانی بول کر لکھوائی تھی، اسی طرح نجود نے اپنی زندگی بیان کی۔ کتاب چھپ کر آئی تو ہاتھوں ہاتھ لی گئی اور اس کی رائلٹی نے نجود کو '' امیر'' بنا دیا۔ اس کے بعد اس نے اپنی پڑھائی پھر سے شروع کی ، اپنی بہنوں اور اپنے بھائی کو بھی اپنی خوش نصیبی میں شریک کر لیا۔
2010ء میں ''گلیمر'' میگزین نے اسے ہلیری کلنٹن اورکونڈا لیزا رائس کے ساتھ لاکھڑا کیا۔ اسے متعدد ایوارڈ دیے گئے۔ آج وہ یمن میں رہتی ہے اور اپنے بھائی بہنوں کے ساتھ خوشی اور خوشحالی کی زندگی بسر کرتی ہے۔
اس کا اصل اثاثہ اس کی ہمت تھی، جس نے اسے عدالت کا راستہ دکھایا تھا اور وہ جج تھے جنہوں نے اس کے ساتھ واقعی انصاف کیا تھا۔
ہمارے یہاں بھی دیہاتوں میں کم عمری کی شادیاں لڑکیوں کو جیتے جی جہنم میں زندگی کرنے پر مجبور کردیتی ہیں۔ یمن کی طرح قوانین ہمارے یہاں بھی موجود ہیں لیکن ضرورت ایسے منصفوں کی ہے جو ان قوانین پر سختی سے عملدرآمد کراسکیں۔