کرکٹرز کا روزگار ختم نہیں کرنا چاہیے اعجاز فاروقی

کرکٹرز کا روزگار ختم ہوجائے گا تو کھیل میں یکسوئی کس طرح برقرار رکھ پائیں گے،سابق رکن پی سی بی گورننگ بورڈ

کرکٹرز کا روزگار ختم ہوجائے گا تو کھیل میں یکسوئی کس طرح برقرار رکھ پائیں گے،سابق رکن پی سی بی گورننگ بورڈ۔ فوٹو: فائل

سابق رکن پی سی بی گورننگ بورڈ اور سابق صدر کے سی سی اے پروفیسر اعجاز فاروقی کرکٹ کے معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں،تبدیلی کی لہر ڈومیسٹک ڈیپارٹمینٹل ٹیموں اور ان سے وابستہ کرکٹرز کا روزگار چھیننے والی ہے۔

ریجنز بھی غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہیں، ان سب مسائل کے حوالے سے پروفیسر اعجاز فاروقی کے ساتھ کی جانے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈیپارٹمنٹس کو ختم کرنے اور فرسٹ کلاس ٹیمیں 8 کے بجائے 6 کرنے جیسے فیصلوں کیلئے وقت دینا ہوگا، اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کا کرکٹ میں بے پناہ تجربہ ہے، وہ ملک کے وزیر اعظم اور ہمارے ہیرو بھی ہیں لیکن اس طرح کے فیصلے نہیں ہونا چاہئیں کہ آگے چل کر مسائل پیدا ہوں۔

ڈیپارٹمنٹس اور ریجنز کو الگ رکھا جا سکتا ہے، پہلے بھی ایسا ہو چکا ہے، عمران خان اور ورلڈکپ جیتنے والے کئی کرکٹرز اسی دور کی پیداوار ہیں، ڈیپارٹمنٹس کے پاس بھی کھلاڑی آتے تو ریجنز سے ہی ہیں لیکن وہاں انھیں مالی آسودگی حاصل ہوتی اور کھیل نکھارنے کا موقع ملتا ہے۔ ابھی حبیب بینک نے ٹیم ختم کی اور دیگر ادارے بھی ایسا ہی سوچ رہے ہیں۔

کرکٹرز کا روزگار ختم ہوجائے گا تو کھیل میں یکسوئی کس طرح برقرار رکھ پائیں گے، جہاں تک تنزلی کی بات ہے توگریڈ ٹو ٹیموں کی کوشش گریڈ ون تک رسائی حاصل کرنے کی ہوتی ہے۔ اگر ادارے نے ٹیم ہی ختم کردی تو کھلاڑیوں میں آگے بڑھنے کا جذبہ بھی ختم ہوجائے گا، دوسری بات یہ ہے کہ کسی بھی ریجن کا منتخب صدر کیوں کسی ڈیپارٹمنٹل سربراہ کے تحت کام کرنا پسند کرے گا، وزیراعظم کو ہی اس معاملے میں لچک دکھانا چاہیے۔


اعجاز فاروقی کا کہنا ہے کہ عمران خان کے دور میں کرکٹ اتنی زیادہ نہیں تھی، اب خیبرپختونخوا، کراچی، کوئٹہ اور ملک بھر سے ٹیلنٹ سامنے آرہا ہے۔ حیدرآباد جیسے شہروں سے بھی کرکٹرز ابھر رہے ہیں۔ فاٹا سے پہلے کبھی کھلاڑی نہیں ملتے تھے، اب تسلسل کے ساتھ سامنے آرہے ہیں، ٹیموں کی تعداد کم ہوگی تو ان پلیئرز کو صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع نہیں مل سکیں گے، مستحق کرکٹرز کی حق تلفی ہوگی، میرے خیال میں تو کلب اور ٹیمیں جتنی زیادہ ہوں بہتر ہوگا۔ ریجنل ٹیموں کی تعداد میں بھی اضافہ ہونا چاہیے۔ ریجنز کو بہتر انداز میں تب ہی چلایا جاسکتا ہے جب پی سی بی مداخلت نہ کرے، بہت سے لوگ اہلیت رکھتے ہیں۔ ایڈہاک اور مداخلت جیسے معاملات ہوں تو وہ پرفارم کس طرح کریں گے؟

اعجاز فاروقی نے کہا کہ ڈومیسٹک کرکٹ سمیت کسی معاملے کے بارے میں گورننگ بورڈ کے ارکان اگر کوئی رائے دے رہے ہیں تو اس کا احترام کیا جانا چاہیے، اگر تجاویز کو کوئی اہمیت ہی نہیں دینا تو بورڈ تشکیل دینے کا مقصد کیا ہے، اس کو ربڑ اسٹمپ بنانے سے کرکٹ کا بڑا نقصان ہوگا۔

گورننگ بورڈ کے کئی ارکان اپنے اداروں کوچلارہے ہیں۔ ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ریجنز سے بھی کوئی عہدیدار ایک دن میں منتخب ہوکر نہیں آجاتا، ان لوگوں کی بڑی خدمات ہیں، مینجنگ ڈائریکٹر وسیم خان کو وسیع اختیارات دینے کیلئے پی سی بی کے آئین میں تبدیلیاں درست نہیں۔ اگر ان کا تقرر کرنا بھی تھا تو کم از کم گورننگ بورڈ کے اختیارات ان کو دینے کی بات نہ کرتے، کسی کا اختیار چھن جائے تو اس کے تحفظات تو سامنے آئیں گے،وسیم خان کوگورننگ بورڈ کے فیصلوں کے تابع ہی رہنا چاہیے، کرکٹ بورڈ میں بھی جمہوریت ہونا چاہیے۔ بورڈ کا آئین جمہوری انداز میں چلانے والا ہے، ہم نے ایسا کرکے بھی دکھایا، کسی فیصلے پر ارکان میں اختلاف ہوتا تو مسترد کردیا جاتا۔

اعجاز فاروقی کا کہنا ہے کہ ہر فارمیٹ کیلئے موزوں قومی کرکٹرز کا انتخاب ہونا چاہیے، ٹیسٹ کیلئے مزاج اور تکنیک رکھنے والے کھلاڑیوں کو شامل کیا جائے۔ ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے کی الگ ٹیمیں ہونی چاہئیں اور اسپیشلسٹ زیادہ موزوں رہیں گے۔ کرکٹ میں سدھار لانے کیلئے انتظامی امور کے ساتھ سلیکشن میں بھی میرٹ کی پالیسی پر کاربند رہنا ضروری ہے۔

 
Load Next Story