ایک اپیل
ایک اپیل
ملک میں مہنگائی کا طوفان آ چکا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ پاکستان میں پہلی بار مہنگائی ہوئی ہے۔ لیکن اس سے پہلے حکومتیں عوام کی قابل برداشت حد کے اندر مہنگائی کرتی تھیں۔ ایک دم اتنی مہنگائی نہیں کی جاتی تھی کہ عوام کی برداشت سے باہر ہو جائے۔ ضرورت کی اشیا مہنگی ہوتی رہتی ہیں۔یہ معمول ہے۔ اس حکومت کا صرف اتنا قصور ہے کہ اس نے یہ کام غیر معمولی کر دیا ہے۔ شاید پٹرول گیس مہنگا کرنا بھی اتنا بڑا مسلہ نہیں ہے جتنا بڑا ادویات کو مہنگا کرنا ہے۔ ادویات کی قیمتوں میں اتنی بے رحمی سے اضافہ کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہے۔ کیا اس حکومت کو اندازہ نہیں تھا کہ ادویات میں اس قدر اضافہ سے لوگوں کا زندہ رہنے کے ساتھ ساتھ مرنا بھی مشکل ہو جائے گا۔
مجھے زیادہ افسوس اس بات پر بھی ہے کہ حکومت ادویات کے اضافے کے معاملے پر بھی سیاست کر رہی ہے۔ وزیر اعظم کا یہ اعلان کہ 72گھنٹوں میں قیمتیں واپس کی جائیں اس بات کا عکاس ہے کہ وزیر اعظم کو حقائق کا پوری طرح علم نہیں ہے ۔ جب حکومت نے ادویات کی قیمتیں خود بڑھا ئی ہیں تو کم کیسے ہوںگی۔ لیکن یہ اس حکومت کا انداز حکمرانی ہے۔ آپ سانحہ ساہیوال دیکھ لیں۔ ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کے اعلانات کیے گئے اور پھر کچھ نہ ہوا۔
یہ درست ہے یہ حکومت ہیلتھ انشورنس کی ایک اسکیم لے کر چل رہی ہے۔ لیکن وہ بہت غریب لوگوں کے لیے ہے۔ عام آدمی، مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کے لیے زندگی مشکل سے مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ جو زکوۃ نہیں لیتا وہ کیا کرے۔ کیا پورا ملک زکوۃ پر لگا دینا ہے۔ مجھے اپر دیر سے ایک ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر جہانزیب نے خط لکھا ہے۔ میں خط کے مندرجات کالم میں اس لیے شامل کر رہا ہوں تا کہ عوام کی مشکلات کا احساس ہو سکے۔
محمدجہانزیب خان لکھتے ہیں کہ میں ایک ریٹائرڈ پرنسپل ہوں۔ مجھے امیدہے کہ آپ میری اس اپیل کو اپنے کالم میں ضرورشایع کریں گے ۔ تھکے ہوئے، غیرمحفوظ معاشروں میں بیٹے باپ کے بڑھاپے کا سہاراہوتے ہیں،مگر جہاں اجتماعی موت بانٹنا متوازی معیشت بن چکی ہو،جہاں گم گشتہ جنت کی تلاش میں بھٹکنے والے بچوں کے جسموں پرموت کے کھلونے باندھ د یئے جاتے ہوں،وہاں کون کسی پررحم کھائے اوراپنی پس انداز کی ہوئی پونجی سے کسی کے بیماربیٹے کاعلاج کرائے۔میرے پڑوسی سعیدالرحمن نے جب سے اپنے بیماربیٹے کی بیماری کی بات کی ہے تب سے میں عجیب شش وپنج میں مبتلاہوں۔
سعیدالرحمن کے تین بیٹیاں اورایک بیٹاہے۔ بیٹے کی عمر دس سال ہے جو دل کے مرض میں مبتلا ہے۔ برادرم مزمل :میری بیٹی ثناء کوبھی چوتھے درجے کا کینسر ہے۔ وہ دوماہ سے اسپتال میں داخل ہے۔ ڈاکٹروں نے بڑ ی امیدیں دلائی ہیں کہ وہ ٹھیک ہوجائے گی مگر میرابھروسہ اﷲ پر ہے اورمیں دعاکی طاقت پریقین رکھتاہوں۔میں ایک باپ ہوں اوراس ناتے سے آپ سے ملتمس ہوں کہ آ پ میری بیٹی کے لیے دعا کریں۔ اﷲ آپ کی دعاؤں کوقبول کرے۔ میںآپ کو یہ خط اپنی بیٹی کے لیے نہیں بلکہ اپنے پڑوسی سعیدالرحمن جو اپر دیرکارہنے والاہے کے بیٹے کے لیے لکھ رہاہوں۔ سعیدالرحمن کے بیٹے کودعاؤں کے ساتھ دواؤں کی ضرورت ہے۔اس کا بیٹا دل کے مرض میں مبتلاہے۔
جس ہائی اسکول سے میں بطور پرنسپل ریٹائرڈہواہوں اس اسکول کے سامنے سعیدالرحمن چنے بیچ کر سوڈیڑھ سوروپے کماتاتھا مگربیٹے کی بیماری نے اسے چنے بیچنے کے قابل بھی نہیں رکھا۔وہ بیٹے کے علاج کے لیے ادھارمانگ مانگ کر تھک چکاہے۔ مشکل وقت میں سایہ بھی ساتھ چھوڑ دیتاہے۔ ایسے حالات میں تورشتے داربھی ساتھ نہیں چلتے۔ ڈاکٹروں نے بچے کا آپریشن تجویز کیا ہے، اس پر بھاری اخراجات آئیں گے۔ ڈاکٹروں کاکہناہے کہ آپریشن کے ذریعے بچہ تندرست ہوجائے گا۔ میں امید رکھتا ہوں کہ آپ انسانی ہمدردی کے تحت کچھ نہ کچھ مدد ضرورکریں گے۔
میں جو لکھا ہے، وہ ہمارے معاشرہ کی ایک کہانی ہے۔ معاشرہ میں ایسی ہزاروں لاکھوں نہیں کروڑوں کہانیاں ہیں۔ ہر محلے ، ہر علاقہ میں ایسی کہانیاں موجود ہیں۔ لیکن ہم بھی بے حس ہوچکے ہیں۔ جیسے یہ حکومت بے حس ہو چکی ہے۔ اب شائد ایسی کہانیاں ہمارے بے حس دل اور ضمیر کو نہیں جھنجھوڑتی ہیں۔
ایک طرف حکومت رونا رو رہی ہے کہ خزانہ خالی ہے۔ دوسری طرف ارکان اسمبلی کی تنخواہیں بڑھائی جا رہی ہیں۔ ایک طرف وزیر اعظم ہاؤس کی بھینسیں بیچنے کا ڈرامہ کیا جا رہا ہے دوسری طرف ارکان اسمبلی کو فنڈز کی بھرمار کی جا رہی ہے۔ قرض پر قرض لیا جا رہا ہے۔ لیکن کسی کو سوال کرنے کی ہمت نہیں ہے۔
یہ دلیل اور منطق تو سمجھ آتی ہے کہ بجلی مہنگی ہو گئی ہے تو استعمال نہ کریں۔ لوگ تب بھی تو زندہ رہتے تھے جب بجلی نہیں تھی۔ یہ منطق بھی سمجھ آتی ہے کہ گیس مہنگی ہو گئی ہے تو گیس بھی استعمال نہ کریں۔ یہ منطق بھی سمجھ آتی ہے کہ گوشت مہنگا ہو گیا تو گوشت نہ کھائیں۔ سبزیاں دالیں مہنگی ہو گئی ہیں تو وہ بھی نہ کھائیں۔ محترم اسپیکر کے پی نے کہا ہے کہ دو نہیں ایک روٹی کھائیں۔ دو وقت نہیں ایک وقت کھائیں۔ لیکن جب دوائیاں مہنگی ہو جائیں تو کیا کریں۔ دوائیاں نہ کھائیں، علاج نہ کروائیں تو مر جائیں۔
مجھے امید ہے کہ یہ کالم پڑھ کر کوئی درد دل رکھنے والا سعید الرحمٰن کے بچے کے علاج کا انتظام ضرور کر دے گا۔ میرے پاس خط موجود ہے، جس میں اس کا پتہ اور رابطہ نمبر موجود ہے، مجھے ای میل کرکے پتہ حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ غریب لوگوں کو علاج کے لیے در بدر کی ٹھوکریں کیوں کھانی پڑ رہی ہیں۔ ہمیں بتایا جاتا تھا کہ گزشتہ حکومت انڈر پاس بناتی تھی۔ پل بناتی تھی۔ میٹرو بناتی تھی۔ اس لیے صحت پر پیسے نہیں خرچ ہوتے تھے۔صحت اور تعلیم کے پیسے میگا پراجیکٹس کھا جاتے تھے۔ لیکن اب تو یہ حکومت کوئی میگا پراجیکٹ بھی نہیں بنا رہی ہے۔ پورے ملک میں ایک پشاور بی آر ٹی کا ہی شور ہے۔ باقی تو کہیں کچھ کام نہیں ہو رہا ۔ پھر پیسے کہاں جا رہے ہیں۔
مجھے زیادہ افسوس اس بات پر بھی ہے کہ حکومت ادویات کے اضافے کے معاملے پر بھی سیاست کر رہی ہے۔ وزیر اعظم کا یہ اعلان کہ 72گھنٹوں میں قیمتیں واپس کی جائیں اس بات کا عکاس ہے کہ وزیر اعظم کو حقائق کا پوری طرح علم نہیں ہے ۔ جب حکومت نے ادویات کی قیمتیں خود بڑھا ئی ہیں تو کم کیسے ہوںگی۔ لیکن یہ اس حکومت کا انداز حکمرانی ہے۔ آپ سانحہ ساہیوال دیکھ لیں۔ ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کے اعلانات کیے گئے اور پھر کچھ نہ ہوا۔
یہ درست ہے یہ حکومت ہیلتھ انشورنس کی ایک اسکیم لے کر چل رہی ہے۔ لیکن وہ بہت غریب لوگوں کے لیے ہے۔ عام آدمی، مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کے لیے زندگی مشکل سے مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ جو زکوۃ نہیں لیتا وہ کیا کرے۔ کیا پورا ملک زکوۃ پر لگا دینا ہے۔ مجھے اپر دیر سے ایک ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر جہانزیب نے خط لکھا ہے۔ میں خط کے مندرجات کالم میں اس لیے شامل کر رہا ہوں تا کہ عوام کی مشکلات کا احساس ہو سکے۔
محمدجہانزیب خان لکھتے ہیں کہ میں ایک ریٹائرڈ پرنسپل ہوں۔ مجھے امیدہے کہ آپ میری اس اپیل کو اپنے کالم میں ضرورشایع کریں گے ۔ تھکے ہوئے، غیرمحفوظ معاشروں میں بیٹے باپ کے بڑھاپے کا سہاراہوتے ہیں،مگر جہاں اجتماعی موت بانٹنا متوازی معیشت بن چکی ہو،جہاں گم گشتہ جنت کی تلاش میں بھٹکنے والے بچوں کے جسموں پرموت کے کھلونے باندھ د یئے جاتے ہوں،وہاں کون کسی پررحم کھائے اوراپنی پس انداز کی ہوئی پونجی سے کسی کے بیماربیٹے کاعلاج کرائے۔میرے پڑوسی سعیدالرحمن نے جب سے اپنے بیماربیٹے کی بیماری کی بات کی ہے تب سے میں عجیب شش وپنج میں مبتلاہوں۔
سعیدالرحمن کے تین بیٹیاں اورایک بیٹاہے۔ بیٹے کی عمر دس سال ہے جو دل کے مرض میں مبتلا ہے۔ برادرم مزمل :میری بیٹی ثناء کوبھی چوتھے درجے کا کینسر ہے۔ وہ دوماہ سے اسپتال میں داخل ہے۔ ڈاکٹروں نے بڑ ی امیدیں دلائی ہیں کہ وہ ٹھیک ہوجائے گی مگر میرابھروسہ اﷲ پر ہے اورمیں دعاکی طاقت پریقین رکھتاہوں۔میں ایک باپ ہوں اوراس ناتے سے آپ سے ملتمس ہوں کہ آ پ میری بیٹی کے لیے دعا کریں۔ اﷲ آپ کی دعاؤں کوقبول کرے۔ میںآپ کو یہ خط اپنی بیٹی کے لیے نہیں بلکہ اپنے پڑوسی سعیدالرحمن جو اپر دیرکارہنے والاہے کے بیٹے کے لیے لکھ رہاہوں۔ سعیدالرحمن کے بیٹے کودعاؤں کے ساتھ دواؤں کی ضرورت ہے۔اس کا بیٹا دل کے مرض میں مبتلاہے۔
جس ہائی اسکول سے میں بطور پرنسپل ریٹائرڈہواہوں اس اسکول کے سامنے سعیدالرحمن چنے بیچ کر سوڈیڑھ سوروپے کماتاتھا مگربیٹے کی بیماری نے اسے چنے بیچنے کے قابل بھی نہیں رکھا۔وہ بیٹے کے علاج کے لیے ادھارمانگ مانگ کر تھک چکاہے۔ مشکل وقت میں سایہ بھی ساتھ چھوڑ دیتاہے۔ ایسے حالات میں تورشتے داربھی ساتھ نہیں چلتے۔ ڈاکٹروں نے بچے کا آپریشن تجویز کیا ہے، اس پر بھاری اخراجات آئیں گے۔ ڈاکٹروں کاکہناہے کہ آپریشن کے ذریعے بچہ تندرست ہوجائے گا۔ میں امید رکھتا ہوں کہ آپ انسانی ہمدردی کے تحت کچھ نہ کچھ مدد ضرورکریں گے۔
میں جو لکھا ہے، وہ ہمارے معاشرہ کی ایک کہانی ہے۔ معاشرہ میں ایسی ہزاروں لاکھوں نہیں کروڑوں کہانیاں ہیں۔ ہر محلے ، ہر علاقہ میں ایسی کہانیاں موجود ہیں۔ لیکن ہم بھی بے حس ہوچکے ہیں۔ جیسے یہ حکومت بے حس ہو چکی ہے۔ اب شائد ایسی کہانیاں ہمارے بے حس دل اور ضمیر کو نہیں جھنجھوڑتی ہیں۔
ایک طرف حکومت رونا رو رہی ہے کہ خزانہ خالی ہے۔ دوسری طرف ارکان اسمبلی کی تنخواہیں بڑھائی جا رہی ہیں۔ ایک طرف وزیر اعظم ہاؤس کی بھینسیں بیچنے کا ڈرامہ کیا جا رہا ہے دوسری طرف ارکان اسمبلی کو فنڈز کی بھرمار کی جا رہی ہے۔ قرض پر قرض لیا جا رہا ہے۔ لیکن کسی کو سوال کرنے کی ہمت نہیں ہے۔
یہ دلیل اور منطق تو سمجھ آتی ہے کہ بجلی مہنگی ہو گئی ہے تو استعمال نہ کریں۔ لوگ تب بھی تو زندہ رہتے تھے جب بجلی نہیں تھی۔ یہ منطق بھی سمجھ آتی ہے کہ گیس مہنگی ہو گئی ہے تو گیس بھی استعمال نہ کریں۔ یہ منطق بھی سمجھ آتی ہے کہ گوشت مہنگا ہو گیا تو گوشت نہ کھائیں۔ سبزیاں دالیں مہنگی ہو گئی ہیں تو وہ بھی نہ کھائیں۔ محترم اسپیکر کے پی نے کہا ہے کہ دو نہیں ایک روٹی کھائیں۔ دو وقت نہیں ایک وقت کھائیں۔ لیکن جب دوائیاں مہنگی ہو جائیں تو کیا کریں۔ دوائیاں نہ کھائیں، علاج نہ کروائیں تو مر جائیں۔
مجھے امید ہے کہ یہ کالم پڑھ کر کوئی درد دل رکھنے والا سعید الرحمٰن کے بچے کے علاج کا انتظام ضرور کر دے گا۔ میرے پاس خط موجود ہے، جس میں اس کا پتہ اور رابطہ نمبر موجود ہے، مجھے ای میل کرکے پتہ حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ غریب لوگوں کو علاج کے لیے در بدر کی ٹھوکریں کیوں کھانی پڑ رہی ہیں۔ ہمیں بتایا جاتا تھا کہ گزشتہ حکومت انڈر پاس بناتی تھی۔ پل بناتی تھی۔ میٹرو بناتی تھی۔ اس لیے صحت پر پیسے نہیں خرچ ہوتے تھے۔صحت اور تعلیم کے پیسے میگا پراجیکٹس کھا جاتے تھے۔ لیکن اب تو یہ حکومت کوئی میگا پراجیکٹ بھی نہیں بنا رہی ہے۔ پورے ملک میں ایک پشاور بی آر ٹی کا ہی شور ہے۔ باقی تو کہیں کچھ کام نہیں ہو رہا ۔ پھر پیسے کہاں جا رہے ہیں۔