شکر ہے کہ دھماکا ہوا…
اگر میڈیا پر عام آدمی کی راہنمائی کی جائے تو عام آدمی کی زندگی کے کئی معاملات میں آسانیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔
عام حالات میں سارے ٹیلی وژن چینل یوں ہی دیکھتے ہیں جیسے پی ٹی وی کا قدیمی چینل ہوتا تھا، اینکر اور خبریں پڑھنے والوں کے چہرے بجھے بجھے سے ہوتے ہیں... یکایک ٹون بدل جاتی ہے... بریکنگ نیوز کی پٹی چلتی ہے، فلاں جگہ دھماکا سنا گیا ہے، کافی دیر تک '' ڈز ڈز '' کی آوازوں کے ساتھ سنسنی پھیلا دی جاتی ہے، اگر بعد ازاں علم ہو کہ دھماکا کسی کریکر، پٹاخے یا غبارے کا تھا تو غبارے سے ہوا نکل جاتی ہے، ٹیلی وژن کی اسکرین کے پار کے چہروں پر پھر وہی مایوسی چھا جاتی ہے اور ان کا '' مورال'' گرا گرا سا لگتا ہے، ایسے میں اگر واقعی دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہو جائے جو کہ آج کل تقریبا ہر روز ہی ایک سے زائد بھی ہو جاتے ہیں تو ان چہروں کی چمک دیدنی ہوتی ہے گویا کہہ رہے ہوں، '' شکر ہے کہ دھماکا ہوا!!!''
کسی بجلی کے کھمبے پر چڑھ کر کوئی خود کشی کی دھمکی دے رہا ہو یا کسی عمارت کی تیسری منزل پر پلنے والی گائے کو کرین کے ذریعے نیچے اتارا جا رہا ہو... ایسی خبریں اتنی اہم خبر بن جاتی ہیں کہ انھیں '' بریکنگ نیوز'' کے طور پر دکھایا جاتا ہے اور بار بار دکھایا جاتا ہے... سارے چینلز کے کیمروں کی گاڑیاں وہاں پہنچ جاتی ہیں اور ہر کوئی بریکنگ نیوز کو مختلف زاویوں سے دکھانے کی کوشش کرتا ہے۔ پچھلے دس پندرہ برسوں میں تو اتنے چینل کھمبیوں کی طرح اگ آئے ہیں کہ ان کا کوئی شمار نہیں۔ خبروں کے، ڈراموں کے، کھانے پکانے کے ، کھیل، فیشن، مذہب، موسیقی، تاریخ اور جغرافیہ... غرض کوئی شعبہ زندگی ایسا نہیں جس کا احاطہ نہ کیا جا رہا ہو... بعض ڈراموں اور دیگر پروگراموں کے باعث ہمارے معاشرے میں بد اخلاقی، احساس کمتری، منفی اقدار، جرائم بڑھ رہے ہیں۔ ڈراموں میں استعمال ہونے والے ملبوسات جانے کس ملک کی تہذیب کی عکاسی کرتے ہیں... یہ سوچے بغیر کہ ہمارا ڈرامہ دنیا بھر میں دیکھا جاتا ہے، خبریں سنی جاتی اور ان کی بنیاد پر ملک کے بارے میں منفی رائے قائم کی جاتی ہے۔
کھیلوں کے چینل ہیں تو ان میں بھی سٹے بازی کی خبریں اور کھیلوں میں سیاست دیکھنے کو ملتی ہے۔
کھانا پکانے کے پروگراموں کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ فیشن شو ہے، کسی میک اپ آرٹسٹ کا اشتہار یا کوئی موسیقی کا پروگرام...
مارننگ شو ہیں تو وہ انتہائی حد کو چھوتے ہوئے... شادیاں بپا کی جاتی ہیں، ایسی ایسی رسوم و رواج دکھائی جاتی ہیں جو ہماری معاشرتی روایات سے تضاد رکھتی ہیں۔
مذہب کے نام پر جو پروگرام دکھائے جاتے ہیں ان میں بھی عام آدمی کے لیے ابہام ہی پیدا کیا جاتا ہے، رمضان میں مذہبی پروگراموں کے نام پر جو پروگرام دکھائے جاتے رہے ہیں انھوں نے ہمارا کیا تاثر چھوڑا ہے؟
نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایسی حرکات کرتے ہیں جو عام حالات میں کوئی بھی مہذب شخص نہیں کرتا ... ہم کیا کرنا چاہتے ہیںنوجوان نسل کے ساتھ؟
ٹاک شو کے لیے... سیاستدانوں کو کھلی چھوٹ اور اینکرز لمبی من مانی گفتگو کرتے ہیں اور پھر اسٹوڈیو اکھاڑے میں بدل جاتے ہیں، گالی گلوچ تک کا تبادلہ ہوتا اور نہ صرف ملکی عوام بلکہ دنیا بھر کے ناظرین کے لیے تماشہ بن جاتا ہے۔جس طرح ہمارے ہاں جہالت اور کم علمی ہے، یہاں تو اس امر کی ضرورت انتہائی زیادہ ہے کہ ہمارا میڈیا لوگوں کے لیے فروغ تعلیم کے لیے کام کرے... اس سے مراد ہر گز یہ نہیں کہ تعلیمی پروگرام پیش کیے جائیں مگر میڈیا کی طاقت کو لوگوں میں شعور، آگہی ، حقوق اور فرائض سے آگاہی دلا سکتا ہے۔ اس کے لیے چھوٹے چھوٹے سے کلپ تیار کیے جا سکتے ہیں۔ ہمارے روز مرہ کے کئی مسائل ایسے ہیں جن سے پالا پڑتا ہے تو وہ بڑے بڑے مسائل محسوس ہوتے ہیں، اگر میڈیا پر عام آدمی کی راہنمائی کی جائے تو عام آدمی کی زندگی کے کئی معاملات میں آسانیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔
ان میں بینک میں اکاؤنٹ کھلوانا، لائسنس کا حصول، شناختی کارڈ یا پاسپورٹ کی درخواست تیار کرنا اور اس کے حصول کے لیے مطلوبہ دستاویزات کی فہرست، بلوں کے جمع کروانے کا طریقہء کار، اے ٹی ایم مشین کے استعمال کا طریقہء کار، وسائل کے زیاں کو روکنے کی تجاویز، بیماریوں کے خلاف مدافعتی اقدامات، اپنی گاڑیوں کی بنیادی دیکھ ریکھ... بنیادی اخلاقیات، اچھی عادات و صفات... شہریوں کے حقوق و فرائض، ٹیکسوں کی ادائیگی کے طریقہء کار، اہم قانونی کارروائیوں کے طریقہء کار، آبادی میں اضافے سے بڑھتے ہوئے مسائل...تاریخی حقائق اور تاریخی کہانیوں پر مبنی ڈرامے ... اور دیگر ایسی ہی چیزوں کی ضرورت ہے۔
جب ہم نے اپنے بچوں کی تربیت کی ذمے داری ٹیلی وژن پر عائد کر دی ہے اور اس کے بعد اس فکر سے آزاد ہو گئے ہیں کہ وہ کیا دیکھ رہے ہیں یا انھیں کیا دکھایا جا رہا ہے۔ چھوٹے بچوں کو کارٹون لگا کر بٹھا دیا جاتا ہے، یہ سوچے بغیر کہ ان میں کیا زبان استعمال ہو رہی ہے اور کیا کہانی دکھائی جا رہی ہے۔ باپ کمانے میں اور ماں کمانے یا گھر بنانے میں اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ ان کے پاس سب سے کم وقت اپنے بچوں کے لیے ہوتا ہے، نتیجتاً ایک وقت آتا ہے جب ان کا کیا دھرا ان کے سامنے آتا ہے تو بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے، بچے ہاتھوں سے نکل چکے ہوتے ہیں ، نہ ادھر کے اور نہ ادھر کے... بٹی ہوئے ذہنوں اور دوغلی شخصیتوں کے مالک۔
کسی نے بھی اس امر کو محسوس نہیں کیا کہ ہم کدھر جا رہے ہیں... جس ملک میں مسائل کے گٹھر ہوں ، تکالیف کے انبار ہوں ، سانس بھی کھل کر لینا دشوارہو... جہاں ٹیلی وژن پر کبھی کوئی اچھی خبر دیکھنے کو نہ ملتی ہو... میڈیا عوام اور حکومت کے درمیان خلیج پیدا کرنے کو کوشاں ہو... میڈیا کو خود بھی اندازہ ہے کہ وہ اپنی کوریج سے ایک سکندر کو سکندر اعظم بنا سکتا ہے... ایک دن زمرد خان ہیرو ہوتا ہے اور اگلے دن وہ زیرو بن جاتا ہے...
کسی بجلی کے کھمبے پر چڑھ کر کوئی خود کشی کی دھمکی دے رہا ہو یا کسی عمارت کی تیسری منزل پر پلنے والی گائے کو کرین کے ذریعے نیچے اتارا جا رہا ہو... ایسی خبریں اتنی اہم خبر بن جاتی ہیں کہ انھیں '' بریکنگ نیوز'' کے طور پر دکھایا جاتا ہے اور بار بار دکھایا جاتا ہے... سارے چینلز کے کیمروں کی گاڑیاں وہاں پہنچ جاتی ہیں اور ہر کوئی بریکنگ نیوز کو مختلف زاویوں سے دکھانے کی کوشش کرتا ہے۔ پچھلے دس پندرہ برسوں میں تو اتنے چینل کھمبیوں کی طرح اگ آئے ہیں کہ ان کا کوئی شمار نہیں۔ خبروں کے، ڈراموں کے، کھانے پکانے کے ، کھیل، فیشن، مذہب، موسیقی، تاریخ اور جغرافیہ... غرض کوئی شعبہ زندگی ایسا نہیں جس کا احاطہ نہ کیا جا رہا ہو... بعض ڈراموں اور دیگر پروگراموں کے باعث ہمارے معاشرے میں بد اخلاقی، احساس کمتری، منفی اقدار، جرائم بڑھ رہے ہیں۔ ڈراموں میں استعمال ہونے والے ملبوسات جانے کس ملک کی تہذیب کی عکاسی کرتے ہیں... یہ سوچے بغیر کہ ہمارا ڈرامہ دنیا بھر میں دیکھا جاتا ہے، خبریں سنی جاتی اور ان کی بنیاد پر ملک کے بارے میں منفی رائے قائم کی جاتی ہے۔
کھیلوں کے چینل ہیں تو ان میں بھی سٹے بازی کی خبریں اور کھیلوں میں سیاست دیکھنے کو ملتی ہے۔
کھانا پکانے کے پروگراموں کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ فیشن شو ہے، کسی میک اپ آرٹسٹ کا اشتہار یا کوئی موسیقی کا پروگرام...
مارننگ شو ہیں تو وہ انتہائی حد کو چھوتے ہوئے... شادیاں بپا کی جاتی ہیں، ایسی ایسی رسوم و رواج دکھائی جاتی ہیں جو ہماری معاشرتی روایات سے تضاد رکھتی ہیں۔
مذہب کے نام پر جو پروگرام دکھائے جاتے ہیں ان میں بھی عام آدمی کے لیے ابہام ہی پیدا کیا جاتا ہے، رمضان میں مذہبی پروگراموں کے نام پر جو پروگرام دکھائے جاتے رہے ہیں انھوں نے ہمارا کیا تاثر چھوڑا ہے؟
نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایسی حرکات کرتے ہیں جو عام حالات میں کوئی بھی مہذب شخص نہیں کرتا ... ہم کیا کرنا چاہتے ہیںنوجوان نسل کے ساتھ؟
ٹاک شو کے لیے... سیاستدانوں کو کھلی چھوٹ اور اینکرز لمبی من مانی گفتگو کرتے ہیں اور پھر اسٹوڈیو اکھاڑے میں بدل جاتے ہیں، گالی گلوچ تک کا تبادلہ ہوتا اور نہ صرف ملکی عوام بلکہ دنیا بھر کے ناظرین کے لیے تماشہ بن جاتا ہے۔جس طرح ہمارے ہاں جہالت اور کم علمی ہے، یہاں تو اس امر کی ضرورت انتہائی زیادہ ہے کہ ہمارا میڈیا لوگوں کے لیے فروغ تعلیم کے لیے کام کرے... اس سے مراد ہر گز یہ نہیں کہ تعلیمی پروگرام پیش کیے جائیں مگر میڈیا کی طاقت کو لوگوں میں شعور، آگہی ، حقوق اور فرائض سے آگاہی دلا سکتا ہے۔ اس کے لیے چھوٹے چھوٹے سے کلپ تیار کیے جا سکتے ہیں۔ ہمارے روز مرہ کے کئی مسائل ایسے ہیں جن سے پالا پڑتا ہے تو وہ بڑے بڑے مسائل محسوس ہوتے ہیں، اگر میڈیا پر عام آدمی کی راہنمائی کی جائے تو عام آدمی کی زندگی کے کئی معاملات میں آسانیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔
ان میں بینک میں اکاؤنٹ کھلوانا، لائسنس کا حصول، شناختی کارڈ یا پاسپورٹ کی درخواست تیار کرنا اور اس کے حصول کے لیے مطلوبہ دستاویزات کی فہرست، بلوں کے جمع کروانے کا طریقہء کار، اے ٹی ایم مشین کے استعمال کا طریقہء کار، وسائل کے زیاں کو روکنے کی تجاویز، بیماریوں کے خلاف مدافعتی اقدامات، اپنی گاڑیوں کی بنیادی دیکھ ریکھ... بنیادی اخلاقیات، اچھی عادات و صفات... شہریوں کے حقوق و فرائض، ٹیکسوں کی ادائیگی کے طریقہء کار، اہم قانونی کارروائیوں کے طریقہء کار، آبادی میں اضافے سے بڑھتے ہوئے مسائل...تاریخی حقائق اور تاریخی کہانیوں پر مبنی ڈرامے ... اور دیگر ایسی ہی چیزوں کی ضرورت ہے۔
جب ہم نے اپنے بچوں کی تربیت کی ذمے داری ٹیلی وژن پر عائد کر دی ہے اور اس کے بعد اس فکر سے آزاد ہو گئے ہیں کہ وہ کیا دیکھ رہے ہیں یا انھیں کیا دکھایا جا رہا ہے۔ چھوٹے بچوں کو کارٹون لگا کر بٹھا دیا جاتا ہے، یہ سوچے بغیر کہ ان میں کیا زبان استعمال ہو رہی ہے اور کیا کہانی دکھائی جا رہی ہے۔ باپ کمانے میں اور ماں کمانے یا گھر بنانے میں اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ ان کے پاس سب سے کم وقت اپنے بچوں کے لیے ہوتا ہے، نتیجتاً ایک وقت آتا ہے جب ان کا کیا دھرا ان کے سامنے آتا ہے تو بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے، بچے ہاتھوں سے نکل چکے ہوتے ہیں ، نہ ادھر کے اور نہ ادھر کے... بٹی ہوئے ذہنوں اور دوغلی شخصیتوں کے مالک۔
کسی نے بھی اس امر کو محسوس نہیں کیا کہ ہم کدھر جا رہے ہیں... جس ملک میں مسائل کے گٹھر ہوں ، تکالیف کے انبار ہوں ، سانس بھی کھل کر لینا دشوارہو... جہاں ٹیلی وژن پر کبھی کوئی اچھی خبر دیکھنے کو نہ ملتی ہو... میڈیا عوام اور حکومت کے درمیان خلیج پیدا کرنے کو کوشاں ہو... میڈیا کو خود بھی اندازہ ہے کہ وہ اپنی کوریج سے ایک سکندر کو سکندر اعظم بنا سکتا ہے... ایک دن زمرد خان ہیرو ہوتا ہے اور اگلے دن وہ زیرو بن جاتا ہے...