بجلی کا بحران حقیقی یا مصنوعی…
بجلی انسانی و معاشرتی ارتقا کے لیے ایک بنیادی اور آفاقی ضرورت ہے، جو اسے ہر قیمت پر ملنا چاہیے۔
مسلم لیگ ن کے گزشتہ دور حکومت میں بیرونی قرضوں سے نجات اور مستقبل میں خود انحصاری کے عمل کے نفاذ کے لیے نجکاری پالیسی ترتیب دی گئی جس کے تحت ایک خود مختار ادارہ ''پرائیویٹائزیشن کمیشن'' کا عمل وجود میں آیا۔ قومی تحویل میں چلنے والے وہ تمام منافع بخش کاروباری اور غیر کاروباری ادارے، صنعتی یونٹس، کمرشل بینک، سرمایہ کار کمپنیاں بالخصوص وہ ادارے جن کا براہ راست تعلق عوامی خدمات سے تھا، ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ان اداروں میں کام کرنے والے ہنرمند ملازمین کے مالی تحفظ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فروخت کردیے گئے۔ ان ملازمین کی طرف سے ادارے کی فروخت میں ہونے والی دھاندلی اور مالی بے ضابطگیوں کے خلاف ملک کی مختلف اعلیٰ عدالتوں میں کیسز زیر سماعت ہیں جو ایک طویل عرصے سے التواء کا شکار ہیں۔ یوں تو فروخت شدہ اداروں کی ناقص کارکردگی، ہوس زر، منافع خوری کسی سے نہاں نہیں، مہنگائی، بے روزگاری، پٹرولیم مصنوعات اور گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ، دہشت گردی، زائد منافع خوری، بھتہ خوری کے عذاب سے دوچار یہ لاچار قوم ان نجی اداروں کی دہشت گردی تک سے محفوظ نہیں رہی۔
بجلی انسانی و معاشرتی ارتقا کے لیے ایک بنیادی اور آفاقی ضرورت ہے، جو اسے ہر قیمت پر ملنا چاہیے۔ بلاشبہ پانی کا بروقت حصول بجلی کے بغیر قطعی ناممکن ہے اور یہ دونوں قدرت کی عطا کردہ نعمتیں ایسی ہیں جس کا مستقبل قریب میں بھی کوئی نعم البدل نظر نہیں آتا۔ یوں سمجھ لیجیے کہ دونوں کا وجود انسانی زندگی کے لیے لازم و ملزوم ہے۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی اور ساحلی شہر ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کی آمدنی میں اضافے کا بہترین ذریعہ بھی ہے۔ اس شہر میں رہنے والی بیشتر آبادی متوسط اور غریب طبقے پر مشتمل ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں بسنے والے لوگ بھی روزگار کے حصول کے لیے اس شہر کا رخ کرتے ہیں۔ اس لیے اس شہر کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے یہاں کے بجلی فراہم کرنے پر مامور ادارہ ''کے ای ایس سی'' بھی اپنی کارکردگی کے لحاظ سے فعال ہو۔ مگر افسوس! کراچی میں واحد خود مختار، اجارہ دار اور اشرافیہ ادارے کی ناقص اور مایوس کن کارکردگی سے شہر کا ہر خاص و عام متاثر ہورہا ہے۔
اعلانیہ اور غیر اعلانیہ طویل لوڈشیڈنگ کا سلسلہ ہنوز ایک عرصے سے جاری ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 24 گھنٹے میں بہت مشکل سے اوسطاً 12 گھنٹے بجلی کی فراہمی ممکن ہوپاتی ہے، وہ بھی مطلوبہ وولٹیج کی قابل ذکر کمی کی وجہ سے گھر میں استعمال ہونے والی بجلی کی مصنوعات اپنی بہتر کارکردگی دکھانے سے قاصر ہوجاتی ہیں، جن کی بحالی کے لیے صارف کو اپنی محدود ماہانہ آمدنی کے علاوہ ایک خطیر اضافی رقم کا ظالمانہ بوجھ اٹھانے کے علاوہ زائد بلنگ (بھتہ پرچی) کااجراء صارف کو دہشت زدہ کردینے کے مترادف ہے۔ فیز سسٹم کی ذریعے بجلی کی فراہمی طویل اوقات کے لیے منقطع کرنا اس ادارے کی ایک مستحکم حکمت عملی ہے۔ تین یا چار فیزز میں سے کوئی بھی ایک فیز سے بجلی غائب کردی جاتی ہے تاکہ عوام ادارے کے خلاف متحد نہ ہوپائیں اور کسی قسم کا احتجاج بھی نہ ہوپائے۔
یعنی ظلم بھی سہو آنسو ایک نہ نکلے۔ دوسری صورت میں گنجان آبادیوں پر مشتمل وہ علاقے جو مصروف ترین شاہراہوں پر واقع ہیں، عیارانہ منصوبے کے تحت طویل غیر اعلانیہ بجلی کا شارٹ فال دکھا کر وہاں کے رہائشیوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ سڑکوں پر نکل کر ہنگامہ آرائی اور توڑپھوڑ کا لامتناہی سلسلہ شروع کردیں۔ گرمی کے سخت موسم میں بھی بجلی کی عدم فراہمی اور خاص طور سے اس وقت جب پورے کراچی میں بچوں کے امتحانات کا انعقاد جاری ہو۔ ہم نے بچوں کو کمرہ امتحان میں شدید گرمی کی حالت میں امتحان دیتے ہوئے دیکھا ہے، شہر میں آباد چھوٹے سائز کے فلیٹ میں رہائش پذیر جن میں ہوا کا گزر بھی نہ ہو زیادہ اذیت کا شکار ہوتے ہیں۔
شہر کی گلی گلی، محلے محلے میں لٹکتے ہوئے بے ہنگم، ناقص اور برہنہ تار کسی چھت کا منظر پیش کررہے ہوتے ہیں۔ قدیمی پی ایم ٹیز اور قدیمی بجلی کے پولز پر نصب جمپرز اپنی میعاد ختم ہونے کی وجہ سے ناقابل استعمال ہوچکے ہیں۔ گھٹیا کوالٹی کی کوپر وائرز کا استعمال ہوس زر میں مبتلا ادارے کا معمول بن چکا ہے جو تھوڑی ہوا چل جانے یا بارش کی صورت میں ٹوٹ کر سڑکوں پر گر جاتے ہیں جس سے انسانی جانوں کے ضیاع کا احتمال بڑھ جاتا ہے۔ شکایتی نمبر 118 پر ڈیوٹی پر مامور اہلکار اپنی ایک مخصوص رٹی ہوئی لفاظی کا بے اثر جادو دکھی شکایت کنندہ صارف پر دکھانے کی ناکام سعی کرتے ہیں۔ شکایت کنندہ کے دس پندرہ منٹ 1 دبائیے، 2 دبائیے، 3 دبائیے یعنی دس سے پندرہ منٹ دبانے کی مشق میں گزر جاتے ہیں، یوں تادیر موبائل کے استعمال سے صارف کا قابل ذکر بیلنس برباد ہوجاتا ہے۔
بجلی کے مصنوعی بحران کا راگ الاپ کر کے ای ایس سی کی اعلیٰ انتظامیہ میں شامل بعض افسران روپے کی خورد برد اور لوٹ مار کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔ قدرتی وسائل سے مالا مال اس سرزمین میں قلت ہے تو صرف اور صرف ایماندار، مخلص اور سادہ صفت افسران کی ایک ٹیم کی۔ ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ پانی کی قلت بجلی کی پیداوار میں کمی کا سبب ضرور بن سکتی ہے لیکن اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ہمارے پڑوسی ممالک بھارت، چین اور ایران نے بھی پاکستان کو سستے داموں بجلی کی فروخت کا عندیہ دیا ہے۔ اخباری اطلاع کے مطابق پاکستان میں متعین ایرانی قونصل جنرل نے بجلی کی پیداوار میں کمی کے سبب ہنگامی اور ترجیحی بنیادوں پر ایک ہزار میگاواٹ بجلی سستے داموں فروخت کی پیشکش کی ہے تاکہ اس کمی کو جلد از جلد پورا کیا جاسکے۔ گزشتہ دنوں بھی سندھ کے وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ نے رشین فیڈریشن کے قونصل جنرل سے ایک ملاقات میں انکشاف کیا کہ صوبہ سندھ میں کوئلے کے 171 بلین ٹن کے موجود ذخائر کی مدد سے ہزاروں میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ اور تھر کا کوئلہ کوالٹی کے لحاظ سے بھی بہترین ہے جس کی تصدیق جرمنی کے شہر برلن میں منعقدہ کول کانفرنس میں بھی کی گئی تھی۔ آسٹریلیا دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو کوئلے کے بہترین ذخائر رکھتا ہے، اسی حوالے سے ان کی ایک کمپنی صوبہ سندھ کے ریگستانی شہر ''تھر'' میں کام بھی کررہی ہے۔
باوثوق ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس اشرافیہ اور شاہ خرچ ادارے میں بدانتظامی اور خورد برد کی سب سے بڑی وجہ سیاسی قوتوں کا اثر و رسوخ کے علاوہ نام نہاد اور فرضی پروجیکٹس کے نام پر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے بھاری سود پر قرضوں کا فوری حصول بھی ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ادارے کے آپریشن کی تمام تر ذمے داری کمیشن کی بنیاد پر من پسند ٹھیکے داروں کو سونپی گئی ہے جو دن رات علاقوں میں بجلی کے چوروں کا سراغ لگانے میں مصروف عمل ہیں۔ بل کی عدم ادائیگی کی صورت میں بھی بجلی منقطع کرنے کا اختیار ان ہی ٹھیکیداروں کے کارکنان کو حاصل ہے۔ بجلی سے محرومی اور کثیر رقوم پر مشتمل ماہانہ بل کی بروقت ادائیگی کی دھمکیاں کسی دہشت گرد کے قبیح فعل سے کم نہیں، کیوں نہ ہو، قوم پہلے ہی دہشت گردی برائے خودکش بمباری، ریاستی دہشت گردی برائے ڈبل سواری کی پابندی، دہشت گردی برائے بھتہ خوری، ریاستی دہشت گردی برائے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بلاجواز اضافہ، ریاستی دہشت گردی برائے بے روزگاری اور مہنگائی جیسے موذی مسائل کا شکار ہیں۔
ویسے بھی بجلی کی چوری ایک طویل عرصے سے اخبارات، الیکٹرانک میڈیا اور بااثر حلقہ احباب میں موضوع بحث رہی ہے، جو اب قومی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ بجلی کی چوری کا سدباب جب ہی ممکن ہے جب ادارے کے ذمے داران اپنی کارکردگی بہتر بناکر بجلی کے اشرافیہ ڈکیت پر ہاتھ ڈالیں۔ اس ٹارگٹ کو سر کرنے کے لیے وفاقی حکومت کے ادارے ایف آئی اے کو کچھ مجسٹریٹی اختیارات سونپے گئے ہیں ۔کراچی کی کامیاب اور بروقت ترقیاتی کاموں کے حوالے سے سابقہ ناظم اعلیٰ کراچی مصطفیٰ کمال اور قائد تحریک ایم کیو ایم الطاف حسین اور ان کے مخلص کارکنوں کے تعاون سے بجلی کے بحران کو قابو میں لایا جاسکتا ہے۔ یا دوسری صورت میں اس ادارے کو نجی تحویل کے بجائے وفاقی یا صوبائی حکومتوں کے زیر انتظام چلایا جائے کیونکہ اس ادارے کو نجی ملکیت میں دینا کسی قیمت پر قوم کے مفاد میں نہیں ہے۔ بجلی کی ترسیل و تقسیم کا سلسلہ ہنگامی بنیادوں پر کیا جانا چاہیے تاکہ قوم کو اس عذاب سے جلد نجات حاصل ہوسکے۔
بجلی انسانی و معاشرتی ارتقا کے لیے ایک بنیادی اور آفاقی ضرورت ہے، جو اسے ہر قیمت پر ملنا چاہیے۔ بلاشبہ پانی کا بروقت حصول بجلی کے بغیر قطعی ناممکن ہے اور یہ دونوں قدرت کی عطا کردہ نعمتیں ایسی ہیں جس کا مستقبل قریب میں بھی کوئی نعم البدل نظر نہیں آتا۔ یوں سمجھ لیجیے کہ دونوں کا وجود انسانی زندگی کے لیے لازم و ملزوم ہے۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی اور ساحلی شہر ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کی آمدنی میں اضافے کا بہترین ذریعہ بھی ہے۔ اس شہر میں رہنے والی بیشتر آبادی متوسط اور غریب طبقے پر مشتمل ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں بسنے والے لوگ بھی روزگار کے حصول کے لیے اس شہر کا رخ کرتے ہیں۔ اس لیے اس شہر کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے یہاں کے بجلی فراہم کرنے پر مامور ادارہ ''کے ای ایس سی'' بھی اپنی کارکردگی کے لحاظ سے فعال ہو۔ مگر افسوس! کراچی میں واحد خود مختار، اجارہ دار اور اشرافیہ ادارے کی ناقص اور مایوس کن کارکردگی سے شہر کا ہر خاص و عام متاثر ہورہا ہے۔
اعلانیہ اور غیر اعلانیہ طویل لوڈشیڈنگ کا سلسلہ ہنوز ایک عرصے سے جاری ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 24 گھنٹے میں بہت مشکل سے اوسطاً 12 گھنٹے بجلی کی فراہمی ممکن ہوپاتی ہے، وہ بھی مطلوبہ وولٹیج کی قابل ذکر کمی کی وجہ سے گھر میں استعمال ہونے والی بجلی کی مصنوعات اپنی بہتر کارکردگی دکھانے سے قاصر ہوجاتی ہیں، جن کی بحالی کے لیے صارف کو اپنی محدود ماہانہ آمدنی کے علاوہ ایک خطیر اضافی رقم کا ظالمانہ بوجھ اٹھانے کے علاوہ زائد بلنگ (بھتہ پرچی) کااجراء صارف کو دہشت زدہ کردینے کے مترادف ہے۔ فیز سسٹم کی ذریعے بجلی کی فراہمی طویل اوقات کے لیے منقطع کرنا اس ادارے کی ایک مستحکم حکمت عملی ہے۔ تین یا چار فیزز میں سے کوئی بھی ایک فیز سے بجلی غائب کردی جاتی ہے تاکہ عوام ادارے کے خلاف متحد نہ ہوپائیں اور کسی قسم کا احتجاج بھی نہ ہوپائے۔
یعنی ظلم بھی سہو آنسو ایک نہ نکلے۔ دوسری صورت میں گنجان آبادیوں پر مشتمل وہ علاقے جو مصروف ترین شاہراہوں پر واقع ہیں، عیارانہ منصوبے کے تحت طویل غیر اعلانیہ بجلی کا شارٹ فال دکھا کر وہاں کے رہائشیوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ سڑکوں پر نکل کر ہنگامہ آرائی اور توڑپھوڑ کا لامتناہی سلسلہ شروع کردیں۔ گرمی کے سخت موسم میں بھی بجلی کی عدم فراہمی اور خاص طور سے اس وقت جب پورے کراچی میں بچوں کے امتحانات کا انعقاد جاری ہو۔ ہم نے بچوں کو کمرہ امتحان میں شدید گرمی کی حالت میں امتحان دیتے ہوئے دیکھا ہے، شہر میں آباد چھوٹے سائز کے فلیٹ میں رہائش پذیر جن میں ہوا کا گزر بھی نہ ہو زیادہ اذیت کا شکار ہوتے ہیں۔
شہر کی گلی گلی، محلے محلے میں لٹکتے ہوئے بے ہنگم، ناقص اور برہنہ تار کسی چھت کا منظر پیش کررہے ہوتے ہیں۔ قدیمی پی ایم ٹیز اور قدیمی بجلی کے پولز پر نصب جمپرز اپنی میعاد ختم ہونے کی وجہ سے ناقابل استعمال ہوچکے ہیں۔ گھٹیا کوالٹی کی کوپر وائرز کا استعمال ہوس زر میں مبتلا ادارے کا معمول بن چکا ہے جو تھوڑی ہوا چل جانے یا بارش کی صورت میں ٹوٹ کر سڑکوں پر گر جاتے ہیں جس سے انسانی جانوں کے ضیاع کا احتمال بڑھ جاتا ہے۔ شکایتی نمبر 118 پر ڈیوٹی پر مامور اہلکار اپنی ایک مخصوص رٹی ہوئی لفاظی کا بے اثر جادو دکھی شکایت کنندہ صارف پر دکھانے کی ناکام سعی کرتے ہیں۔ شکایت کنندہ کے دس پندرہ منٹ 1 دبائیے، 2 دبائیے، 3 دبائیے یعنی دس سے پندرہ منٹ دبانے کی مشق میں گزر جاتے ہیں، یوں تادیر موبائل کے استعمال سے صارف کا قابل ذکر بیلنس برباد ہوجاتا ہے۔
بجلی کے مصنوعی بحران کا راگ الاپ کر کے ای ایس سی کی اعلیٰ انتظامیہ میں شامل بعض افسران روپے کی خورد برد اور لوٹ مار کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔ قدرتی وسائل سے مالا مال اس سرزمین میں قلت ہے تو صرف اور صرف ایماندار، مخلص اور سادہ صفت افسران کی ایک ٹیم کی۔ ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ پانی کی قلت بجلی کی پیداوار میں کمی کا سبب ضرور بن سکتی ہے لیکن اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ہمارے پڑوسی ممالک بھارت، چین اور ایران نے بھی پاکستان کو سستے داموں بجلی کی فروخت کا عندیہ دیا ہے۔ اخباری اطلاع کے مطابق پاکستان میں متعین ایرانی قونصل جنرل نے بجلی کی پیداوار میں کمی کے سبب ہنگامی اور ترجیحی بنیادوں پر ایک ہزار میگاواٹ بجلی سستے داموں فروخت کی پیشکش کی ہے تاکہ اس کمی کو جلد از جلد پورا کیا جاسکے۔ گزشتہ دنوں بھی سندھ کے وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ نے رشین فیڈریشن کے قونصل جنرل سے ایک ملاقات میں انکشاف کیا کہ صوبہ سندھ میں کوئلے کے 171 بلین ٹن کے موجود ذخائر کی مدد سے ہزاروں میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ اور تھر کا کوئلہ کوالٹی کے لحاظ سے بھی بہترین ہے جس کی تصدیق جرمنی کے شہر برلن میں منعقدہ کول کانفرنس میں بھی کی گئی تھی۔ آسٹریلیا دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو کوئلے کے بہترین ذخائر رکھتا ہے، اسی حوالے سے ان کی ایک کمپنی صوبہ سندھ کے ریگستانی شہر ''تھر'' میں کام بھی کررہی ہے۔
باوثوق ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس اشرافیہ اور شاہ خرچ ادارے میں بدانتظامی اور خورد برد کی سب سے بڑی وجہ سیاسی قوتوں کا اثر و رسوخ کے علاوہ نام نہاد اور فرضی پروجیکٹس کے نام پر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے بھاری سود پر قرضوں کا فوری حصول بھی ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ادارے کے آپریشن کی تمام تر ذمے داری کمیشن کی بنیاد پر من پسند ٹھیکے داروں کو سونپی گئی ہے جو دن رات علاقوں میں بجلی کے چوروں کا سراغ لگانے میں مصروف عمل ہیں۔ بل کی عدم ادائیگی کی صورت میں بھی بجلی منقطع کرنے کا اختیار ان ہی ٹھیکیداروں کے کارکنان کو حاصل ہے۔ بجلی سے محرومی اور کثیر رقوم پر مشتمل ماہانہ بل کی بروقت ادائیگی کی دھمکیاں کسی دہشت گرد کے قبیح فعل سے کم نہیں، کیوں نہ ہو، قوم پہلے ہی دہشت گردی برائے خودکش بمباری، ریاستی دہشت گردی برائے ڈبل سواری کی پابندی، دہشت گردی برائے بھتہ خوری، ریاستی دہشت گردی برائے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بلاجواز اضافہ، ریاستی دہشت گردی برائے بے روزگاری اور مہنگائی جیسے موذی مسائل کا شکار ہیں۔
ویسے بھی بجلی کی چوری ایک طویل عرصے سے اخبارات، الیکٹرانک میڈیا اور بااثر حلقہ احباب میں موضوع بحث رہی ہے، جو اب قومی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ بجلی کی چوری کا سدباب جب ہی ممکن ہے جب ادارے کے ذمے داران اپنی کارکردگی بہتر بناکر بجلی کے اشرافیہ ڈکیت پر ہاتھ ڈالیں۔ اس ٹارگٹ کو سر کرنے کے لیے وفاقی حکومت کے ادارے ایف آئی اے کو کچھ مجسٹریٹی اختیارات سونپے گئے ہیں ۔کراچی کی کامیاب اور بروقت ترقیاتی کاموں کے حوالے سے سابقہ ناظم اعلیٰ کراچی مصطفیٰ کمال اور قائد تحریک ایم کیو ایم الطاف حسین اور ان کے مخلص کارکنوں کے تعاون سے بجلی کے بحران کو قابو میں لایا جاسکتا ہے۔ یا دوسری صورت میں اس ادارے کو نجی تحویل کے بجائے وفاقی یا صوبائی حکومتوں کے زیر انتظام چلایا جائے کیونکہ اس ادارے کو نجی ملکیت میں دینا کسی قیمت پر قوم کے مفاد میں نہیں ہے۔ بجلی کی ترسیل و تقسیم کا سلسلہ ہنگامی بنیادوں پر کیا جانا چاہیے تاکہ قوم کو اس عذاب سے جلد نجات حاصل ہوسکے۔