پاکستان ایک اسلامی ریاست
قیام پاکستان کی شدت کے ساتھ مخالفت اور مخالف قوتوں کی زبردست موجودگی کے باوجود پاکستان کا قیام یقیناً ایک معجزہ ہی ہے۔
راقم کے گزشتہ کالم ''پاکستان کے قیام کا مقصد'' قارئین کی بڑی تعداد نے پسند کیا تاہم ایک قاری نے ہمارے اس خیال سے قطعی اختلاف کیا کہ پاکستان اسلامی نقطہ نظر سے اﷲ تعالیٰ کا ایک انعام تھا۔ اختلاف رائے کا ہر ایک کو ضرور حق حاصل ہے تاہم راقم نے اپنے نقطہ نظر کے لیے ٹھوس دلائل دیے تھے اور یہ تو محض چند ایک دلائل تھے ورنہ تو حالات و واقعات اور دلائل کی ایک طویل فہرست بیان کی جاسکتی ہے۔
قیام پاکستان کی شدت کے ساتھ مخالفت اور پھر مخالفین کی قوتوں کی زبردست موجودگی کے باوجود پاکستان کا قیام یقیناً ایک معجزہ ہی ہے اور اﷲ تعالیٰ کا انعام بھی ہے مثلاً یہ دیکھیے کہ مہاتما گاندھی کہہ چکے تھے کہ پاکستان صرف ان کی لاش پر ہی بن سکتا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد گاندھی جی اور راجہ رام موہن رائے سے متاثر نظر آتے تھے۔ ایک بڑی قوت جمعیت علمائے ہند قیام پاکستان کے خلاف اور وطنی قومیت کی حامی تھی۔ پنجاب میں ''احرار'' ایک بڑی جماعت تھی یہ بھی قیام پاکستان کے خلاف تھی۔ سرحد میں سرحدی گاندھی کی خدائی خدمت گار تحریک ایک بڑی عوامی تحریک تھی، یہ بھی پاکستان کے قیام کی مخالف تھی۔ سب سے بڑھ کر قیام پاکستان کے وقت انگلستان میں لیبر پارٹی کی حکومت تھی جو اکھنڈ بھارت کی حامی تھی، مزید یہ کہ وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن گاندھی کا کلمہ پڑھتا تھا۔
ان تمام حقائق کے باوجود 1946 میں قائداعظم نے کیبنٹ مشن پلان قبول کرلیا تھا، جس کے تحت ہندوستان کو ایک وحدت کی شکل میں آزاد کرنا تھا مگر اس کو تین زون میں تقسیم کرنا تھا، منصوبے کے تحت دس سال بعد اگر کوئی زون علیحدہ ہونا چاہے تو الگ ہوسکتا تھا۔ (یقیناً قائداعظم نے 10 سال بعد علیحدگی کے اختیار کو غنیمت جانتے ہوئے اس مشن پلان کو قبول کیا مگر مخالفین نے پروپیگنڈا کیا کہ قائداعظم پاکستان کے مطالبے سے دستبردار ہو گئے) خیر خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا اسی لیے کانگریس کے صدر پنڈت جواہر لعل نہرو کے منہ سے یہ بات نکل گئی کہ ایک دفعہ ہندوستان ایک وحدت کی شکل میں آزاد ہوجائے اور مرکزی حکومت قائم ہوجائے تو پھر کون کسی کو علیحدہ ہونے دیتا ہے۔
قائداعظم نے فوراً نہرو کے دل کے اس کھوٹ کو پکڑ لیا اور مشن کو فوراً رد کردیا کہ جب نیت پہلے ہی خراب ہو تو بھلا اعتبار کیسے کیا جاسکتا ہے۔ یوں قدرت نے نہرو کے ایک جملے سے قیام پاکستان کو ایک مرتبہ پھر زندہ کرکے امر کردیا۔
بعض افراد نے قیام پاکستان کو تو تسلیم کیا مگر وہ یہ بات تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ قائداعظم اسے ایک اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے۔ ایک حلقہ قائداعظم کی صرف ایک تقریر کے کچھ الفاظ کو پیش کرکے ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ اس ملک کو ایک سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے، حالانکہ 1937 تا 1947 تک قائداعظم کے تقریباً ایک سو اقتباسات موجود ہیں، جن میں انھوں نے برملا کہا ہے کہ اس ملک کا نظام، قانون بلکہ ہر شے اسلام کے مطابق ہوگی۔ قیام پاکستان کے بعد کی مختلف تقاریر کے چالیس کے قریب اقتباسات ایسے ہیں کہ جن میں قائداعظم نے اسلام ہی کی بات کی۔
آئیے 11 جنوری 1938 کو گیا ریلوے اسٹیشن بہار میں ایک بڑے مجمع سے خطاب کے الفاظ دیکھتے ہیں جن میں انھوں نے کہا کہ:
''آج اس عظیم الشان اجتماع میں آپ نے مجھے مسلم لیگ کا جھنڈا لہرانے کا اعزاز بخشا ہے۔ یہ جھنڈا اسلام کا جھنڈا ہے کیونکہ آپ مسلم لیگ کو اسلام سے علیحدہ نہیں کرسکتے۔۔۔۔۔ جب ہم اسلام کا نام لیتے ہیں تو ہم اسے ایک کامل لفظ کی حیثیت سے لیتے ہیں۔ ہمارا کوئی غلط مقصد نہیں بلکہ ہمارے اسلامی ضابطے کی بنیاد آزادی، عدل، مساوات اور اخوت ہے۔''
6 مارچ 1946 کو ایک جگہ فرماتے ہیں:
''ہمیں قرآن پاک، حدیث شریف اور اسلامی روایات کی طرف رجوع کرنا ہوگا جن میں ہمارے لیے مکمل رہنمائی ہے، اگر ہم ان کی صحیح ترجمانی کریں اور قرآن پاک پر عمل پیرا ہوں۔''
25 جنوری 1948 کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
''اسلامی اصول آج بھی ہماری زندگی کے لیے اسی طرح قابل عمل ہیں جس طرح تیرہ سو سال پہلے قابل عمل تھے، وہ یہ نہیں سمجھ سکے کہ لوگوں کا ایک گروہ جان بوجھ کر فتنہ اندازی سے یہ بات کیوں پھیلانا چاہتا ہے کہ پاکستان کا آئین شریعت کی بنیاد پر مدون نہیں کیا جائے گا۔''
اسی طرح 11 ستمبر 1988 کو پاکستان کے ایک بڑے روزنامے میں پروفیسر ڈاکٹر ریاض علی شاہ کے حوالے سے یہ بات شائع ہوئی کہ ان سے ایک ملاقات میں قائداعظم نے کہا کہ :''میرا ایمان ہے کہ یہ رسول خدا کا روحانی فیض ہے کہ پاکستان وجود میں آیا۔ اب یہ پاکستانیوں کا فرض ہے کہ وہ اسے خلافت راشدہ کا نمونہ بنائیں۔ خدا اپنا وعدہ پورا کرے اور مسلمانوں کو زمین کی بادشاہت دے''۔
آئیے اب تو غور کریں، فضول بحث ختم کرکے اس ملک کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔ اور یہ بحث ختم کردیں کہ قائداعظم پاکستان کو اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے یا سیکولر ریاست؟ جہاں تک ممکن ہو اسلامی قوانین کا عملی نفاذ کرنے کی بھرپور کوشش کریں۔ کم ازکم سود کے خاتمے کے لیے تو عملی کام کریں جس پر تمام مکاتب فکر کا اجماع بھی ہے۔
قیام پاکستان کی شدت کے ساتھ مخالفت اور پھر مخالفین کی قوتوں کی زبردست موجودگی کے باوجود پاکستان کا قیام یقیناً ایک معجزہ ہی ہے اور اﷲ تعالیٰ کا انعام بھی ہے مثلاً یہ دیکھیے کہ مہاتما گاندھی کہہ چکے تھے کہ پاکستان صرف ان کی لاش پر ہی بن سکتا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد گاندھی جی اور راجہ رام موہن رائے سے متاثر نظر آتے تھے۔ ایک بڑی قوت جمعیت علمائے ہند قیام پاکستان کے خلاف اور وطنی قومیت کی حامی تھی۔ پنجاب میں ''احرار'' ایک بڑی جماعت تھی یہ بھی قیام پاکستان کے خلاف تھی۔ سرحد میں سرحدی گاندھی کی خدائی خدمت گار تحریک ایک بڑی عوامی تحریک تھی، یہ بھی پاکستان کے قیام کی مخالف تھی۔ سب سے بڑھ کر قیام پاکستان کے وقت انگلستان میں لیبر پارٹی کی حکومت تھی جو اکھنڈ بھارت کی حامی تھی، مزید یہ کہ وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن گاندھی کا کلمہ پڑھتا تھا۔
ان تمام حقائق کے باوجود 1946 میں قائداعظم نے کیبنٹ مشن پلان قبول کرلیا تھا، جس کے تحت ہندوستان کو ایک وحدت کی شکل میں آزاد کرنا تھا مگر اس کو تین زون میں تقسیم کرنا تھا، منصوبے کے تحت دس سال بعد اگر کوئی زون علیحدہ ہونا چاہے تو الگ ہوسکتا تھا۔ (یقیناً قائداعظم نے 10 سال بعد علیحدگی کے اختیار کو غنیمت جانتے ہوئے اس مشن پلان کو قبول کیا مگر مخالفین نے پروپیگنڈا کیا کہ قائداعظم پاکستان کے مطالبے سے دستبردار ہو گئے) خیر خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا اسی لیے کانگریس کے صدر پنڈت جواہر لعل نہرو کے منہ سے یہ بات نکل گئی کہ ایک دفعہ ہندوستان ایک وحدت کی شکل میں آزاد ہوجائے اور مرکزی حکومت قائم ہوجائے تو پھر کون کسی کو علیحدہ ہونے دیتا ہے۔
قائداعظم نے فوراً نہرو کے دل کے اس کھوٹ کو پکڑ لیا اور مشن کو فوراً رد کردیا کہ جب نیت پہلے ہی خراب ہو تو بھلا اعتبار کیسے کیا جاسکتا ہے۔ یوں قدرت نے نہرو کے ایک جملے سے قیام پاکستان کو ایک مرتبہ پھر زندہ کرکے امر کردیا۔
بعض افراد نے قیام پاکستان کو تو تسلیم کیا مگر وہ یہ بات تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ قائداعظم اسے ایک اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے۔ ایک حلقہ قائداعظم کی صرف ایک تقریر کے کچھ الفاظ کو پیش کرکے ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ اس ملک کو ایک سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے، حالانکہ 1937 تا 1947 تک قائداعظم کے تقریباً ایک سو اقتباسات موجود ہیں، جن میں انھوں نے برملا کہا ہے کہ اس ملک کا نظام، قانون بلکہ ہر شے اسلام کے مطابق ہوگی۔ قیام پاکستان کے بعد کی مختلف تقاریر کے چالیس کے قریب اقتباسات ایسے ہیں کہ جن میں قائداعظم نے اسلام ہی کی بات کی۔
آئیے 11 جنوری 1938 کو گیا ریلوے اسٹیشن بہار میں ایک بڑے مجمع سے خطاب کے الفاظ دیکھتے ہیں جن میں انھوں نے کہا کہ:
''آج اس عظیم الشان اجتماع میں آپ نے مجھے مسلم لیگ کا جھنڈا لہرانے کا اعزاز بخشا ہے۔ یہ جھنڈا اسلام کا جھنڈا ہے کیونکہ آپ مسلم لیگ کو اسلام سے علیحدہ نہیں کرسکتے۔۔۔۔۔ جب ہم اسلام کا نام لیتے ہیں تو ہم اسے ایک کامل لفظ کی حیثیت سے لیتے ہیں۔ ہمارا کوئی غلط مقصد نہیں بلکہ ہمارے اسلامی ضابطے کی بنیاد آزادی، عدل، مساوات اور اخوت ہے۔''
6 مارچ 1946 کو ایک جگہ فرماتے ہیں:
''ہمیں قرآن پاک، حدیث شریف اور اسلامی روایات کی طرف رجوع کرنا ہوگا جن میں ہمارے لیے مکمل رہنمائی ہے، اگر ہم ان کی صحیح ترجمانی کریں اور قرآن پاک پر عمل پیرا ہوں۔''
25 جنوری 1948 کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
''اسلامی اصول آج بھی ہماری زندگی کے لیے اسی طرح قابل عمل ہیں جس طرح تیرہ سو سال پہلے قابل عمل تھے، وہ یہ نہیں سمجھ سکے کہ لوگوں کا ایک گروہ جان بوجھ کر فتنہ اندازی سے یہ بات کیوں پھیلانا چاہتا ہے کہ پاکستان کا آئین شریعت کی بنیاد پر مدون نہیں کیا جائے گا۔''
اسی طرح 11 ستمبر 1988 کو پاکستان کے ایک بڑے روزنامے میں پروفیسر ڈاکٹر ریاض علی شاہ کے حوالے سے یہ بات شائع ہوئی کہ ان سے ایک ملاقات میں قائداعظم نے کہا کہ :''میرا ایمان ہے کہ یہ رسول خدا کا روحانی فیض ہے کہ پاکستان وجود میں آیا۔ اب یہ پاکستانیوں کا فرض ہے کہ وہ اسے خلافت راشدہ کا نمونہ بنائیں۔ خدا اپنا وعدہ پورا کرے اور مسلمانوں کو زمین کی بادشاہت دے''۔
آئیے اب تو غور کریں، فضول بحث ختم کرکے اس ملک کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔ اور یہ بحث ختم کردیں کہ قائداعظم پاکستان کو اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے یا سیکولر ریاست؟ جہاں تک ممکن ہو اسلامی قوانین کا عملی نفاذ کرنے کی بھرپور کوشش کریں۔ کم ازکم سود کے خاتمے کے لیے تو عملی کام کریں جس پر تمام مکاتب فکر کا اجماع بھی ہے۔