ملزمان کی پشت پناہی کا الزام وی سی اور رجسٹرار سندھ یونیورسٹی سے جواب طلب
وائس چانسلر اس کا جواب بھی دیں کہ سپریم کورٹ کی جانب سے طلب کیے جانے کے باوجود مقدمے کی سماعت سے۔۔۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے جرائم پیشہ عناصر کی پشت پناہی کے الزام میں سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور رجسٹرار سے جواب طلب کرلیا ہے ، اس کے علاوہ وائس چانسلر اس کا جواب بھی دیں کہ سپریم کورٹ کی جانب سے طلب کیے جانے کے باوجود اگست کے مہینے میں مقدمے کی سماعت سے قبل رجسٹرار کا تبادلہ کیوں کیا گیا ۔
جبکہ رجسٹرار محمدنواز ناریجو کی عدالت میں ذاتی طور پر پیشی کے بارے میں خصوصی ہدایات تھیں، جسٹس انورظہیر جمالی کی سربراہی میں جسٹس خلجی عارف حسین اور جسٹس امیرہانی مسلم پر مشتمل تین رکنی بینچ نے ہفتہ کو مسمات امیرزادی کی درخواست کی سماعت کی ، عدالت کے حکم کی تعمیل میں ہفتے کو وائس چانسلر سندھ یونیورسٹی ڈاکٹرنذیر مغل اور رجسٹرار محمدن نواز ناریجو پیش ہوئے،انھوں نے موقف اختیار کیا کہ وہ انہیں عدالتی احکامات بروقت موصول نہیں ہوسکے تھے اس لیے بعض غلط فہمیاں پیدا ہوئیں ، انھوں نے کہا کہ یونیورسٹی میں تمام تقرریاں میرٹ پر ہوئی ہیں جن میں ملزمان کے بیٹے کی تقرری بھی شامل ہے ، جسٹس امیرہانی مسلم نے انکے موقف کو کھوکھلا قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ طویل معاملہ ہے ، کاغذی کارروائیاں کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
جامشورو کو کچھ افراد نے اپنی جاگیر سمجھ لیا ہے ، انھوںنے کہا کہ 80/80سال کی عمر میں بھی لوگوں کو تقرریاں دی جارہی ہیں اس کا بھی جائزہ لیا جانا چاہیے ، ہرمعاملے میں عدالتوں کی مداخلت ضروری نہیں ، انھوں نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو ہدایت کی کہ وہ سروسز سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلوں کے جامعات کے وائس چانسلروں اور پروفیسروں پراطلاق کے بارے میں بھی جائزہ لیں ، فاضل بینچ نے مدعیہ اور اسکے بیٹے کو ناریجو قبیلے کی جانب سے جان کے خوف پر مبنی درخواست کو ریکارڈ کا حصہ بناتے ہوئے ایڈووکیٹ جنرل سندھ اور متعلقہ پولیس افسران کو انہیں تحفظ فراہم کرنے کی ہدایت کی ،واضح رہے کہ جمعہ کو سندھ یونیورسٹی کی جانب سے پیروی کے سلسلے میں سندھ یونیورسٹی کی جانب سے غلام محمد بھٹو نامی افسر پیش ہوئے اور دعوی کیا کہ وہ سندھ یونیورسٹی کے رجسٹرار ہیں جبکہ پہلے رجسٹرار محمد نواز ناریجو کو 3اگست کو جامعہ کا مشیر پلاننگ مقرر کردیا گیا ہے جنہیں عدالت نے طلب کیا تھا۔
بینچ نے سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے رویے پر انتہائی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے بارہا محمد نواز ناریجو کی طلبی کے احکامات جاری کیے لیکن وہ ہر بارکوئی نہ کوئی بہانہ کرکے عدالت پیش ہونے سے گریزاں رہے ،اب بھی عدالت کو بتایا جارہا ہے کہ عدالت عظمی کے حکم کے باوجود وائس چانسلر نے انکا تبادلہ کردیا ہے ،جبکہ صورتحال یہ ہے کہ مدعی فریق نے رجسٹرار محمد نواز ناریجو پر انتہائی سنگین الزامات عائد کیے ہیں کہ وہ غلام رسول ناریجو جیسے جرائم پیشہ عناصر کی سرپرستی کررہے ہیں جو اغواء کے مقدمے میں ملوث ہے اس کے علاوہ اسی مقدمے میں ملوث جامعہ کے دو ملازمین محمد حق نواز ناریجو اور رب نواز ناریجو کے خلاف بھی کوئی کاروائی نہیں کی ، حالانکہ وہ مہینوں عدالت سے مفرور اور اپنے دفاتر سے غیر حاضر رہے ،سپریم کورٹ کی مداخلت پر22اپریل 2013کو اس وقت کے رجسٹرار محمد نواز ناریجو کوملازمت سے برطرف کیا گیا، بعدازاں ملزمان کی گرفتاری عمل میں آئی اورانہیں عدالت سے سزا بھی ہوئی ۔
مدعی فریق نے الزام عائد کیا ہے عدالت سے سزا ہونیوالے ملزم رب نواز ناریجو کے بیٹے کو رجسٹرار کے ایماء پر ملازمت دی گئی ، انھوں نے الزام عائد کیا کہ یونیورسٹی انتظامیہ ناریجو برادری سے تعلق رکھنے والے ملزمان کو بچانے کی کوشش کررہی ہے ، شارع نورجہاں پولیس اسٹیشن کی حدود میں رہائشی مسمات امیرزادی نے درخواست دائر کی ہے کہ اس کے بیٹے اسراراحمد نے فخرالنساء ناریجو سے پسند کی شادی کی تھی، جس کے بعد 4جون2009کو فخرالنساء کے اہل خانہ علی اکبر،اصغرعلی،رب نواز ناریجو،حق نوز ناویجواور عبدالطیف ناریجو وغیرہ نے اغواء کرلیا تھا وہ تاحال لاپتا ہیں۔پولیس نے عدالت کو بتایا تھا کہ کچھ ملزمان گرفتار ہوچکے ہیں جبکہ غلام رسول اور ممتاز علی ناریجو تاحال مفرور ہیں،مفرور ملزمان حق نواز اور رب نوازناریجو سندھ یونیورسٹی کے ملازم ہیں۔
جبکہ رجسٹرار محمدنواز ناریجو کی عدالت میں ذاتی طور پر پیشی کے بارے میں خصوصی ہدایات تھیں، جسٹس انورظہیر جمالی کی سربراہی میں جسٹس خلجی عارف حسین اور جسٹس امیرہانی مسلم پر مشتمل تین رکنی بینچ نے ہفتہ کو مسمات امیرزادی کی درخواست کی سماعت کی ، عدالت کے حکم کی تعمیل میں ہفتے کو وائس چانسلر سندھ یونیورسٹی ڈاکٹرنذیر مغل اور رجسٹرار محمدن نواز ناریجو پیش ہوئے،انھوں نے موقف اختیار کیا کہ وہ انہیں عدالتی احکامات بروقت موصول نہیں ہوسکے تھے اس لیے بعض غلط فہمیاں پیدا ہوئیں ، انھوں نے کہا کہ یونیورسٹی میں تمام تقرریاں میرٹ پر ہوئی ہیں جن میں ملزمان کے بیٹے کی تقرری بھی شامل ہے ، جسٹس امیرہانی مسلم نے انکے موقف کو کھوکھلا قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ طویل معاملہ ہے ، کاغذی کارروائیاں کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
جامشورو کو کچھ افراد نے اپنی جاگیر سمجھ لیا ہے ، انھوںنے کہا کہ 80/80سال کی عمر میں بھی لوگوں کو تقرریاں دی جارہی ہیں اس کا بھی جائزہ لیا جانا چاہیے ، ہرمعاملے میں عدالتوں کی مداخلت ضروری نہیں ، انھوں نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو ہدایت کی کہ وہ سروسز سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلوں کے جامعات کے وائس چانسلروں اور پروفیسروں پراطلاق کے بارے میں بھی جائزہ لیں ، فاضل بینچ نے مدعیہ اور اسکے بیٹے کو ناریجو قبیلے کی جانب سے جان کے خوف پر مبنی درخواست کو ریکارڈ کا حصہ بناتے ہوئے ایڈووکیٹ جنرل سندھ اور متعلقہ پولیس افسران کو انہیں تحفظ فراہم کرنے کی ہدایت کی ،واضح رہے کہ جمعہ کو سندھ یونیورسٹی کی جانب سے پیروی کے سلسلے میں سندھ یونیورسٹی کی جانب سے غلام محمد بھٹو نامی افسر پیش ہوئے اور دعوی کیا کہ وہ سندھ یونیورسٹی کے رجسٹرار ہیں جبکہ پہلے رجسٹرار محمد نواز ناریجو کو 3اگست کو جامعہ کا مشیر پلاننگ مقرر کردیا گیا ہے جنہیں عدالت نے طلب کیا تھا۔
بینچ نے سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے رویے پر انتہائی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے بارہا محمد نواز ناریجو کی طلبی کے احکامات جاری کیے لیکن وہ ہر بارکوئی نہ کوئی بہانہ کرکے عدالت پیش ہونے سے گریزاں رہے ،اب بھی عدالت کو بتایا جارہا ہے کہ عدالت عظمی کے حکم کے باوجود وائس چانسلر نے انکا تبادلہ کردیا ہے ،جبکہ صورتحال یہ ہے کہ مدعی فریق نے رجسٹرار محمد نواز ناریجو پر انتہائی سنگین الزامات عائد کیے ہیں کہ وہ غلام رسول ناریجو جیسے جرائم پیشہ عناصر کی سرپرستی کررہے ہیں جو اغواء کے مقدمے میں ملوث ہے اس کے علاوہ اسی مقدمے میں ملوث جامعہ کے دو ملازمین محمد حق نواز ناریجو اور رب نواز ناریجو کے خلاف بھی کوئی کاروائی نہیں کی ، حالانکہ وہ مہینوں عدالت سے مفرور اور اپنے دفاتر سے غیر حاضر رہے ،سپریم کورٹ کی مداخلت پر22اپریل 2013کو اس وقت کے رجسٹرار محمد نواز ناریجو کوملازمت سے برطرف کیا گیا، بعدازاں ملزمان کی گرفتاری عمل میں آئی اورانہیں عدالت سے سزا بھی ہوئی ۔
مدعی فریق نے الزام عائد کیا ہے عدالت سے سزا ہونیوالے ملزم رب نواز ناریجو کے بیٹے کو رجسٹرار کے ایماء پر ملازمت دی گئی ، انھوں نے الزام عائد کیا کہ یونیورسٹی انتظامیہ ناریجو برادری سے تعلق رکھنے والے ملزمان کو بچانے کی کوشش کررہی ہے ، شارع نورجہاں پولیس اسٹیشن کی حدود میں رہائشی مسمات امیرزادی نے درخواست دائر کی ہے کہ اس کے بیٹے اسراراحمد نے فخرالنساء ناریجو سے پسند کی شادی کی تھی، جس کے بعد 4جون2009کو فخرالنساء کے اہل خانہ علی اکبر،اصغرعلی،رب نواز ناریجو،حق نوز ناویجواور عبدالطیف ناریجو وغیرہ نے اغواء کرلیا تھا وہ تاحال لاپتا ہیں۔پولیس نے عدالت کو بتایا تھا کہ کچھ ملزمان گرفتار ہوچکے ہیں جبکہ غلام رسول اور ممتاز علی ناریجو تاحال مفرور ہیں،مفرور ملزمان حق نواز اور رب نوازناریجو سندھ یونیورسٹی کے ملازم ہیں۔