تیل گیس سمندر ڈرلنگ اور حقیقت
معلوم نہیں کہ وزیراعظم کو بریفنگ کون دے رہا ہے، لیکن جو بھی بریفنگ دے رہا ہے وہ غلط دے رہا ہے
ISLAMABAD:
کہتے تو بہت کچھ ہیں، اب کیا بتائیں اور کیا کیا لکھیں۔ لیکن یہ بات اصولی ہے کہ بڑے جو بھی کہتے ہیں وہ اپنے تجربے کی بنیاد پر ٹھیک کہتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ بڑی بڑی نہیں ہانکنی چاہیے، یا پہلے تولو پھر بولو، یا بولنے سے پہلے سوچ لو وغیرہ۔ لیکن شاید کچھ لوگوں کی فطرت ہوتی ہے کہ وہ ایسی باتوں کو خاطر میں نہیں لاتے۔ شاید یہی حال وزیراعظم پاکستان کا ہے۔ ایک معروف صحافی اپنے انٹرویو میں حکومت کو یہ مشورہ دے چکے ہیں کہ وہ کام چاہے جیسے بھی کرے لیکن بولے کم۔ کیا اس مشورے پر عمل ہوا؟ نہیں۔ اس کی حالیہ مثال لیجیے۔ وزیراعظم پاکستان نے تیل اور گیس کے حوالے سے فرما دیا کہ ہم ایشیا کے سب سے بڑے ذخائر دریافت کرنے والے ہیں۔ کیا ایسا ہے؟ تکنیکی طور پر کہنا بہت مشکل ہے۔ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو آپ سعودی عرب سے بھی اوپر آجائیں گے؟ ایران کو کراس مار دیں گے؟ ایسا بظاہر ناممکن ہے۔
حقیقت کیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ کئی سال یا ایک دہائی سے زائد عرصہ سے پاکستان کی کمپنیاں سمندر کی گہرائیوں میں تیل اور گیس تلاش کررہی ہیں۔ اس سارے عمل میں بین الاقوامی معیار کا سامان بھی استعمال ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ خرچہ ڈالروں میں آتا ہے۔ اس ضمن میں معروف ماہرِ ارضیات مسعود ابدالی صاحب سے معاونت لی گئی جو غالباً امریکا میں مقیم ہیں۔ آپ کا اس شعبے میں وسیع تجربہ ہے۔
کہتے ہیں کہ اب جس جگہ پر یہ کھدائیاں جاری ہیں (اسے کیکڑا 1 کہہ لیجیے)، تکنیکی طور پر اس جگہ چونے کا پتھر یعنی ''لائم اسٹون'' (Limestone) اور ریت کا ہونا ازحد ضروری ہے۔ ان دونوں کی موجودگی میں تیل اور گیس یہاں پر جمع رہیں گے۔ تیل، گیس اور پانی زیر زمین چٹانوں کے اندر کچھ ایسے جمع رہتے ہیں جیسے اسفنج یا فوم میں پانی ہوتا ہے۔ اس جگہ پر کھدائی جاری ہے۔ مسام دار چٹانوں سے اوپر بھی ایک پرت (layer) کا ہونا ضروری ہے جو اس جگہ پر کسی ڈھکنے کا کام کرے، اسے ''کیپ راک'' (cap rock) کہتے ہیں۔ یہ ایک غیر مسام دار چٹان ہوتی ہے۔ اس چٹان سے تیل یا گیس اندر موجود رہتے ہیں؛ اور اگر یہ نہ ہوتو رساؤ (لیکیج) کے امکانات بڑھتے جاتے ہیں۔ تیسری سب سے اہم چیز یہ ہے کہ اس جگہ کی بناوٹ (ساخت) ایسی ہو کہ ہر جگہ سے تیل اور گیس اُس مقام پر اکٹھے ہوتے ہوں۔ یعنی یہ اُس جگہ پر، جہاں پر کھدائی کی جارہی ہے، وہاں پر تیل و گیس سمٹ کر اکھٹے ہونے چاہئیں۔
اب ان تینوں نکات کا کیسے علم ہوتا ہے کہ کہاں پر کیا ہے؟ اس کا علم کھدائی کے بعد ہوتا ہے۔ تاہم کھدائی بھی یوں ہی منہ اُٹھا کر نہیں شروع کی جاتی ہے بلکہ سب سے پہلے اُس جگہ کا ارضیاتی تجزیہ کیا جاتا ہے۔ یہ تجزیہ انتہائی اعلیٰ سائنسی بنیادوں پر کیا جاتا ہے۔ سمندر کے پانی، اُس جگہ کی ریت، پھر غالباً سو فٹ کی کھدائی اور اُس کی ریت، پھر کھدائی کی مٹی اور نہ جانے کیا کچھ کے مکمل تجزیے ہوتے ہیں۔ اِن کی رپورٹس تیار کی جاتی ہیں۔ اس کے بعد بڑی مشینری کی تنصیب اور باضابطہ کھدائی شروع ہوتی ہے۔ تاہم، کوئی بھی چیز یقینی اور حتمی نہیں ہوتی۔
تفصیلی پیمائش و آزمائش (logging and testing) کے بعد امید کا قائم ہونا ایک الگ بات ہے تاہم مکرر عرض ہے کہ امید قائم کرلینا مناسب نہیں۔
اس کے بعد ''پریشر ککس'' (pressure kicks) کی آوازیں بھی سننے میں آرہی ہیں۔ یہ کیا ہوتی ہیں؟ درحقیقت جب زیر زمین تیل و گیس کا غیر معمولی دباؤ سامنے آتا ہے تو ایک عمل ہوتا ہے۔ سمندر کی تہہ میں چار پانچ ہزار میٹر یعنی تیرہ سے سولہ ہزار فٹ کی گہرائی میں یہ مائعات اور گیسیں گویا پھنسے ہوتے ہیں۔ کھدائی کے دوران جیسے جیسے ڈرلنگ گہری ہوتی جاتی ہے، ویسے ویسے زمین کی پرتیں کھلتی جاتی ہیں۔ زمین کی اوپری پرتوں کا اپنا دباؤ ہوتا ہے جو بتدریج کم ہوتا جاتا ہے۔ اس دباؤ کو مناسب رکھنے کےلیے پانی میں مختلف کیمیکلز ملا کر اُسے نیچے کی طرف پمپ کیا جاتا ہے جسے ''گاد'' کہتے ہیں۔ اس گاد کو بھاری کرنے کےلیے اِس میں ایک اور کیمیکل ملایا جاتا ہے۔ کیچڑ سے زیر زمین پڑنے والے دباؤ کو ''آب ساکن دباؤ'' (hydrostatic pressure) کہا جاتا ہے جبکہ زیر زمین سے اوپر کی جانب پڑنے والا دباؤ ''پرت کا دباؤ'' (formation pressure) کہلاتا ہے۔ کوشش یہ ہوتی ہے کہ ہائیڈرو اسٹیٹک پریشر اتنا زیادہ نہ ہو کہ چٹانوں میں جو مائع ہے، وہ اوپر کی جانب سفر نہ کرسکے۔ اسی طرح سے یہ احتیاط بھی کی جاتی ہے کہ دباؤ (ہائیڈرو اسٹیٹک پریشر) اتنا زیادہ بھی نہ ہو کہ نیچے موجود چٹانیں ٹوٹ جائیں یا بکھر جائیں۔
زیر زمین موجود تخمینے میں بعض اوقات غلطی بھی ہوجاتی ہے، اس کے بعد پریشر ککس کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ کیکڑا1 میں جن ککس کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ہوسکتا ہے کہ وہ پانی کی ککس ہو۔
یہ سب کچھ کہنے کا مقصد مایوسی پھیلانا نہیں بلکہ یہ بتانا ہے کہ ہمیں کس حد تک کام کرنا ہے اور اِس کے بعد ہی کوئی دعویٰ کیا جاسکتا ہے۔ اللہ کرے کہ پاکستان کو ایسے ذخائر ملیں، اللہ کرے کہ ہم اُن سے فائدہ لے سکیں۔ اللہ کرے کہ اِن کا حال ریکوڈک، ساہیوال، چنیوٹ اور تھر کے ذخائر جیسا نہ ہو۔
مجھے معلوم نہیں کہ وزیراعظم کو بریفنگ کون دے رہا ہے، لیکن جو بھی بریفنگ دے رہا ہے وہ غلط دے رہا ہے۔ وزیراعظم پہلے بھی ایک تقریر میں یہ اشارہ دے چکے ہیں کہ ہم گہرے سمندر میں ڈرلنگ کرنا چاہ رہے ہیں لیکن خطرہ ہے کہ کہیں گیس لیک نہ ہوجائے۔ گہرائی میں دیکھیں تو وزیراعظم کی بات درست ہے، لیکن سوشل میڈیا پر اس بیان کا ٹھیک ٹھاک تمسخر اڑایا گیا۔ کیوں؟ کیونکہ یہ باتیں عام لوگوں کے سامنے کرنے کی ہیں ہی نہیں۔ یہ گہری باتیں ہیں جو وقت آنے پر الفاظ تبدیل کرکے کی جاتی ہیں۔ ایسے تو پھر مذاق ہی بنے گا۔ اس بارے میں بھی سوچ لیجیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کہتے تو بہت کچھ ہیں، اب کیا بتائیں اور کیا کیا لکھیں۔ لیکن یہ بات اصولی ہے کہ بڑے جو بھی کہتے ہیں وہ اپنے تجربے کی بنیاد پر ٹھیک کہتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ بڑی بڑی نہیں ہانکنی چاہیے، یا پہلے تولو پھر بولو، یا بولنے سے پہلے سوچ لو وغیرہ۔ لیکن شاید کچھ لوگوں کی فطرت ہوتی ہے کہ وہ ایسی باتوں کو خاطر میں نہیں لاتے۔ شاید یہی حال وزیراعظم پاکستان کا ہے۔ ایک معروف صحافی اپنے انٹرویو میں حکومت کو یہ مشورہ دے چکے ہیں کہ وہ کام چاہے جیسے بھی کرے لیکن بولے کم۔ کیا اس مشورے پر عمل ہوا؟ نہیں۔ اس کی حالیہ مثال لیجیے۔ وزیراعظم پاکستان نے تیل اور گیس کے حوالے سے فرما دیا کہ ہم ایشیا کے سب سے بڑے ذخائر دریافت کرنے والے ہیں۔ کیا ایسا ہے؟ تکنیکی طور پر کہنا بہت مشکل ہے۔ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو آپ سعودی عرب سے بھی اوپر آجائیں گے؟ ایران کو کراس مار دیں گے؟ ایسا بظاہر ناممکن ہے۔
حقیقت کیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ کئی سال یا ایک دہائی سے زائد عرصہ سے پاکستان کی کمپنیاں سمندر کی گہرائیوں میں تیل اور گیس تلاش کررہی ہیں۔ اس سارے عمل میں بین الاقوامی معیار کا سامان بھی استعمال ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ خرچہ ڈالروں میں آتا ہے۔ اس ضمن میں معروف ماہرِ ارضیات مسعود ابدالی صاحب سے معاونت لی گئی جو غالباً امریکا میں مقیم ہیں۔ آپ کا اس شعبے میں وسیع تجربہ ہے۔
کہتے ہیں کہ اب جس جگہ پر یہ کھدائیاں جاری ہیں (اسے کیکڑا 1 کہہ لیجیے)، تکنیکی طور پر اس جگہ چونے کا پتھر یعنی ''لائم اسٹون'' (Limestone) اور ریت کا ہونا ازحد ضروری ہے۔ ان دونوں کی موجودگی میں تیل اور گیس یہاں پر جمع رہیں گے۔ تیل، گیس اور پانی زیر زمین چٹانوں کے اندر کچھ ایسے جمع رہتے ہیں جیسے اسفنج یا فوم میں پانی ہوتا ہے۔ اس جگہ پر کھدائی جاری ہے۔ مسام دار چٹانوں سے اوپر بھی ایک پرت (layer) کا ہونا ضروری ہے جو اس جگہ پر کسی ڈھکنے کا کام کرے، اسے ''کیپ راک'' (cap rock) کہتے ہیں۔ یہ ایک غیر مسام دار چٹان ہوتی ہے۔ اس چٹان سے تیل یا گیس اندر موجود رہتے ہیں؛ اور اگر یہ نہ ہوتو رساؤ (لیکیج) کے امکانات بڑھتے جاتے ہیں۔ تیسری سب سے اہم چیز یہ ہے کہ اس جگہ کی بناوٹ (ساخت) ایسی ہو کہ ہر جگہ سے تیل اور گیس اُس مقام پر اکٹھے ہوتے ہوں۔ یعنی یہ اُس جگہ پر، جہاں پر کھدائی کی جارہی ہے، وہاں پر تیل و گیس سمٹ کر اکھٹے ہونے چاہئیں۔
اب ان تینوں نکات کا کیسے علم ہوتا ہے کہ کہاں پر کیا ہے؟ اس کا علم کھدائی کے بعد ہوتا ہے۔ تاہم کھدائی بھی یوں ہی منہ اُٹھا کر نہیں شروع کی جاتی ہے بلکہ سب سے پہلے اُس جگہ کا ارضیاتی تجزیہ کیا جاتا ہے۔ یہ تجزیہ انتہائی اعلیٰ سائنسی بنیادوں پر کیا جاتا ہے۔ سمندر کے پانی، اُس جگہ کی ریت، پھر غالباً سو فٹ کی کھدائی اور اُس کی ریت، پھر کھدائی کی مٹی اور نہ جانے کیا کچھ کے مکمل تجزیے ہوتے ہیں۔ اِن کی رپورٹس تیار کی جاتی ہیں۔ اس کے بعد بڑی مشینری کی تنصیب اور باضابطہ کھدائی شروع ہوتی ہے۔ تاہم، کوئی بھی چیز یقینی اور حتمی نہیں ہوتی۔
تفصیلی پیمائش و آزمائش (logging and testing) کے بعد امید کا قائم ہونا ایک الگ بات ہے تاہم مکرر عرض ہے کہ امید قائم کرلینا مناسب نہیں۔
اس کے بعد ''پریشر ککس'' (pressure kicks) کی آوازیں بھی سننے میں آرہی ہیں۔ یہ کیا ہوتی ہیں؟ درحقیقت جب زیر زمین تیل و گیس کا غیر معمولی دباؤ سامنے آتا ہے تو ایک عمل ہوتا ہے۔ سمندر کی تہہ میں چار پانچ ہزار میٹر یعنی تیرہ سے سولہ ہزار فٹ کی گہرائی میں یہ مائعات اور گیسیں گویا پھنسے ہوتے ہیں۔ کھدائی کے دوران جیسے جیسے ڈرلنگ گہری ہوتی جاتی ہے، ویسے ویسے زمین کی پرتیں کھلتی جاتی ہیں۔ زمین کی اوپری پرتوں کا اپنا دباؤ ہوتا ہے جو بتدریج کم ہوتا جاتا ہے۔ اس دباؤ کو مناسب رکھنے کےلیے پانی میں مختلف کیمیکلز ملا کر اُسے نیچے کی طرف پمپ کیا جاتا ہے جسے ''گاد'' کہتے ہیں۔ اس گاد کو بھاری کرنے کےلیے اِس میں ایک اور کیمیکل ملایا جاتا ہے۔ کیچڑ سے زیر زمین پڑنے والے دباؤ کو ''آب ساکن دباؤ'' (hydrostatic pressure) کہا جاتا ہے جبکہ زیر زمین سے اوپر کی جانب پڑنے والا دباؤ ''پرت کا دباؤ'' (formation pressure) کہلاتا ہے۔ کوشش یہ ہوتی ہے کہ ہائیڈرو اسٹیٹک پریشر اتنا زیادہ نہ ہو کہ چٹانوں میں جو مائع ہے، وہ اوپر کی جانب سفر نہ کرسکے۔ اسی طرح سے یہ احتیاط بھی کی جاتی ہے کہ دباؤ (ہائیڈرو اسٹیٹک پریشر) اتنا زیادہ بھی نہ ہو کہ نیچے موجود چٹانیں ٹوٹ جائیں یا بکھر جائیں۔
زیر زمین موجود تخمینے میں بعض اوقات غلطی بھی ہوجاتی ہے، اس کے بعد پریشر ککس کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ کیکڑا1 میں جن ککس کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ہوسکتا ہے کہ وہ پانی کی ککس ہو۔
یہ سب کچھ کہنے کا مقصد مایوسی پھیلانا نہیں بلکہ یہ بتانا ہے کہ ہمیں کس حد تک کام کرنا ہے اور اِس کے بعد ہی کوئی دعویٰ کیا جاسکتا ہے۔ اللہ کرے کہ پاکستان کو ایسے ذخائر ملیں، اللہ کرے کہ ہم اُن سے فائدہ لے سکیں۔ اللہ کرے کہ اِن کا حال ریکوڈک، ساہیوال، چنیوٹ اور تھر کے ذخائر جیسا نہ ہو۔
مجھے معلوم نہیں کہ وزیراعظم کو بریفنگ کون دے رہا ہے، لیکن جو بھی بریفنگ دے رہا ہے وہ غلط دے رہا ہے۔ وزیراعظم پہلے بھی ایک تقریر میں یہ اشارہ دے چکے ہیں کہ ہم گہرے سمندر میں ڈرلنگ کرنا چاہ رہے ہیں لیکن خطرہ ہے کہ کہیں گیس لیک نہ ہوجائے۔ گہرائی میں دیکھیں تو وزیراعظم کی بات درست ہے، لیکن سوشل میڈیا پر اس بیان کا ٹھیک ٹھاک تمسخر اڑایا گیا۔ کیوں؟ کیونکہ یہ باتیں عام لوگوں کے سامنے کرنے کی ہیں ہی نہیں۔ یہ گہری باتیں ہیں جو وقت آنے پر الفاظ تبدیل کرکے کی جاتی ہیں۔ ایسے تو پھر مذاق ہی بنے گا۔ اس بارے میں بھی سوچ لیجیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔