پیارے کپتان قول و فعل میں تضاد کیوں
کل تک آپ کا قول جسے دشمن مانتا تھا آج نامساعد اور سرحدی کشیدگی کے باوجود، آپ کا فعل اس کے برعکس کیوں ہوگیا؟
بھارت میں پاکستان مخالفت کارڈ کھیلتے ہوئے جس طرح عوام کو بے وقوف بنایا جاتا ہے، اس کا عملی مظاہرہ موجودہ بھارتی انتخابی مہم میں دیکھا جاسکتا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ موجودہ وزیراعظم مودی کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ نہ وہ اپنے بے روزگار نوجوانوں کو ملازمتیں دے پائے ہیں، نہ عوام کا معیار زندگی بلند کرنے کے جو دعوے وہ پچھلے انتخابات سے پہلے کرتے تھے، وہ کر پائے ہیں۔
ٹوائلٹ ایشو تو اب ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ غربت کے شکار افراد کی تعداد بھی ہر نئے دن کے ساتھ وہاں بڑھتی جارہی ہے۔ بھارت کی مختلف ریاستوں میں علیحدگی پسند تحریکیں بھی زوروں پر ہیں۔ ان سے نمٹنا بھی خام خیالی ہی ثابت ہوا ہے۔ ملک کی معیشت نے بھی مودی کے دور میں کوئی حیران کن جست نہیں لگائی۔ ڈیزل و پٹرول کی قیمتیں بھی مودی دور حکومت میں بلندی کی طرف رہیں۔ کسانوں میں بڑھتا ہوا خودکشی کا رجحان مودی حکومت پر ایک دھبے کی صورت ہے۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ ہر گزرتے دن کے ساتھ جھوٹ ثابت ہوتا گیا۔ ہندواتوا کی ترویج مودی حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ بنا رہا ہے، جس کی وجہ سے بھارت کے سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعوے کی قلعی بھی کھل گئی۔
مودی سرکار میں اقلیتوں پہ حالات زندگی تنگ کیے جاتے رہے ہیں۔ بالخصوص مسلمانوں پر عرصہ حیات نہ صرف تنگ کیا جاتا رہا ہے بلکہ پرتشدد کارروائیوں میں کئی مسلمان شہید بھی کردیے گئے۔ ان سب مسائل کے بعد مودی سرکار کے پاس کیا بچ جاتا ہے، جس کی بنیاد پر وہ انتخابات میں جائیں اور کامیاب بھی ہوجائیں۔ پاکستان دشمنی! جی ہاں پاکستان دشمنی ایک ایسا انتخابی نعرہ ہے، جس سے کچھ بعید نہیں کہ مودی دوبارہ جیت سکتے ہیں۔ اور ایسا ہونا ناممکن اس لیے بھی نہیں ہے کہ حکومتی سطح کے علاوہ مودی دور حکومت میں عوام میں بھی ہندواتوا کی ایسے ترویج کی گئی ہے کہ اولاً وہ مسلمانوں کو دیکھنا گوارا نہیں کرتے (اپنے ملک میں بھی)، ثانیاً پاکستان کے خلاف ان کے جذبات کو ایسے ابھارا گیا ہے کہ پاکستان کے حق میں کوئی بیان دینے کی جرأت تو کرے اس کا تیاپانچا کردیا جاتا ہے۔
ان حالات میں مودی بالاکوٹ کی فرضی سرجیکل اسٹرائیک پر انتخابی مہم پلان کیے بیٹھے تھے کہ دو طیارے گنوا بیٹھے۔ اب اندازہ لگائیے کہ دو طیارے گنوا بیٹھنے کے بعد بھی وہ خاموش نہیں ہوئے۔ پاکستان کے F-16 گرانے کا قضیہ گھڑا گیا۔ جھوٹ ثابت ہونے پر بھی وہ اس دعوے پر قائم ہیں (عالمی سطح پر یہ دعویٰ جھوٹ ثابت ہورہا ہے)۔ اس کے علاوہ وہ مزید محاذ آرائی کا منصوبہ بھی بنائے بیٹھے ہیں۔ (شاہ محمود قریشی خدشے کا اظہار کر چکے ہیں)۔ اور جائزے بھی بتاتے ہیں کہ مودی جتنا پاکستان دشمنی میں بولتے ہیں اتنا ان کی مقبولیت کا گراف بڑھتا ہے۔
اب یہاں ایک لمحہ رکیے! اور رک کر صرف ایک لمحہ ہی سوچیے کہ ان خیالات کا حامل ملک، ان خیالات کو پروان چڑھانے والا مودی، کیا پاکستان کے لیے بہتر ہوسکتا ہے؟ کیا آپ امید رکھ سکتے ہیں کہ مودی کسی بھی صورت پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات چاہے گا؟
اگر حقیقت پسندانہ طور پہ حالات و واقعات پر غور کرتے ہوئے اس سوال کا جواب تلاش کیا جائے تو پھر شاید ہی کوئی فرد ہو جو اس پر مودی کے حق میں جواب اثبات میں دے گا۔ معدودے چند بہت پرامید اور ہمیشہ مثبت انداز سے سوچنے والے چند افراد شاید ایسے سرپھرے ہوں بھی جو مودی کو پاکستان کا دوست بنتے دیکھنے سے اب بھی انکاری نہ ہوں۔
دوسری جانب کانگریس، جو بی جے پی کے برعکس بھارت کی قدرے سیکولر جماعت ہے۔ کانگریس کے رہنما ہوں یا ان کے ووٹرز، وہ شدت پسندانہ جذبات کو ترجیح دیتے نظر نہیں آتے۔ پاکستان دشمنی کا کارڈ اگر ان کی طرف سے استعمال بھی کیا جاتا ہے تو اس کی شدت شاید وہ نہ ہو جو ہندواتوا کی بنیاد پر چلنے والی بی جے پی کی ہے۔
بابری مسجد کی شہادت ہو یا پھر گجرات میں مسلم کش فسادات، بی جے پی نے تو آج تک اپنے ہندو شدت پسند رجحانات کو چھپانا تک گوارا نہیں کیا اور علی الاعلان اس کا پرچار کیا۔ بابری مسجد کے بعد رام مندر کی تعمیر کے مطالبات اور اقدات آپ کے سامنے ہیں۔ اس کے برعکس کانگریس کا بطور مجوعی رویہ ترقی پسند، لبرل ازم، سیکولرزم لیے ہوئے رہا ہے (بے شک بظاہر ہی، مگر رہا ہے)۔ اور وہ انتخابات میں بھی مذہبی شدت پسندی کو ہتھیار بناتے کم ہی دیکھے گئے ہیں۔
ان تمام حالات کو سامنے رکھیے۔ اور اب وزیراعظم پاکستان کے بیان کا جائزہ لیجیے۔ کوئی معقول وجہ؟ کوئی مثبت رویہ؟ کوئی تعمیری حوالہ؟ کوئی مسکراتا بیان؟ کوئی روشن امید؟ جو ہمیں مودی کے حوالے سے نظر آتی ہو؟ جو وزیراعظم کے اس بیان کی وجہ بنی ہو؟ سوال کا جواب اپنے دل و دماغ دونوں سے پوچھیے۔
دل کہتا ہے جو مسلم دشمنی میں اپنا ثانی نہ رکھتا ہو، جو پاکستان دشمنی کا کارڈ کھیلنے کا ماہر ہو، وہ ہمارا مخلص کیسے ہوسکتا ہے۔ دماغ تانے بانے ملاتا ہے مگر اسے بھی کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ وہ کشمیر میں ہر نئے گزرتے دن کے ساتھ بڑھتے ہوئے ظلم، کالے قوانین وادی میں نافذ کرنے والے شخص سے بہتری کی امید باندھ لے۔ لیکن ہمارے وزیراعظم بھی بہت دور اندیش ہیں، ہوسکتا ہے انہیں شمع امید کی کوئی پھڑپھڑاتی لو نظر آگئی ہو، جو وہ مودی سے مثبت سوچ کی توقع کیے بیٹھے ہیں کہ شاید مودی کشمیر جیسے دیرینہ مسئلے کو حل کرنے کا سبب بن جائیں۔
مودی کا رویہ پاکستان مخالف تو رہا ہے لیکن کشمیر کے حوالے سے ان کی پالیسیوں میں بھی کسی حوالے سے کبھی یہ عندیہ نہیں دیا گیا کہ وہ کشمیر کا مسئلہ حل کرنا تو درکنار، اسے متنازعہ خطہ تک ماننے پر تیار ہوں۔ اس کے باوجود مودی سے بہتری کی امید رکھنا یا بی جے پی جیسی شدت پسندی کی جانب مائل جماعت سے یہ توقع رکھنا کہ اس کے دور اقتدار میں مسئلہ کشمیر حل ہوگا، سمجھ سے بالاتر ہے۔
کل تک جب سرحدوں پر تناؤ بھی نہیں تھا، اس کے باوجود مودی کے دورۂ لاہور پر عمران خان ''مودی کا یار'' کا طعنہ اپنے سیاسی مخالف کو دیا کرتے تھے۔ اور آج جب کہ سرحدی جھڑپ میں بھارت دو جنگی طیارے گنوا چکا ہے، پاکستان دشمنی انتخابی مہم کا اہم ہتھیار ہے، اور ہمارے وزیر خارجہ بھارت کی جانب سے مہم جوئی کے دن تک اندازاً بتا چکے ہیں، تو ایسے حالات میں مودی سے یا بی جے پی سے کیسے یہ امید رکھی جاسکتی ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل میں مثبت کردار ادا کریں گے؟
کپتان کے بیان سے بی جے پی کا رویہ بدلے گا یا نہیں، اس خیال پر بھی امید رکھنا فی الحال معروضی حالات میں ممکن نہیں ہے۔ اس کے برعکس اس بیان سے بھارت میں موجود ایسے حلقے جو مودی حکومت کے شدت پسندانہ رویوں کے مخالف رہے ہیں، کے دل میں بھی خدشات جنم لے سکتے ہیں۔ بھارت کے روشن خیال قلوب و اذہان جو کسی نہ کسی حوالے سے پاکستان کو دشمن گرداننے کے بجائے دوستی پر زور دیتے آئے ہیں، وہ ہمارے اس بیان سے غیر یقینی صورت حال کا ضرور شکار ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان میں بسنے والے بھی اپنے کپتان کے اس بیان پر اختلاف تو نہیں مگر کم از کم وجوہات ضرور جاننا چاہ رہے ہیں کہ اگر کوئی بنیاد ایسی امید کی ہے کہ بی جے پی جیسی شدت پسند جماعت سے بہتری کی توقع رکھ لی گئی ہے تو ان کے علم میں آجائے تو کوئی حرج نہیں۔ اور ایسی وجوہات یقینی طور پر سامنے آنی بھی چاہئیں کہ کل تک آپ کا قول جسے دشمن مانتا تھا اور آج نامساعد اور سرحدی کشیدگی کے باوجود، جب کہ آپ بااختیار بھی ہیں، تو آپ کا فعل اس کے برعکس کیوں ہوگیا؟
دل سے دعا ہے کہ کپتان کا یہ بیان بی جے پی کا رویہ بھی بدل ڈالے۔ اگر بی جے پی مسئلہ کشمیر حل کرنے میں سنجیدہ ہو گئی تو پاکستان کا ہر فرد اس جماعت کو سراہے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ٹوائلٹ ایشو تو اب ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ غربت کے شکار افراد کی تعداد بھی ہر نئے دن کے ساتھ وہاں بڑھتی جارہی ہے۔ بھارت کی مختلف ریاستوں میں علیحدگی پسند تحریکیں بھی زوروں پر ہیں۔ ان سے نمٹنا بھی خام خیالی ہی ثابت ہوا ہے۔ ملک کی معیشت نے بھی مودی کے دور میں کوئی حیران کن جست نہیں لگائی۔ ڈیزل و پٹرول کی قیمتیں بھی مودی دور حکومت میں بلندی کی طرف رہیں۔ کسانوں میں بڑھتا ہوا خودکشی کا رجحان مودی حکومت پر ایک دھبے کی صورت ہے۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ ہر گزرتے دن کے ساتھ جھوٹ ثابت ہوتا گیا۔ ہندواتوا کی ترویج مودی حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ بنا رہا ہے، جس کی وجہ سے بھارت کے سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعوے کی قلعی بھی کھل گئی۔
مودی سرکار میں اقلیتوں پہ حالات زندگی تنگ کیے جاتے رہے ہیں۔ بالخصوص مسلمانوں پر عرصہ حیات نہ صرف تنگ کیا جاتا رہا ہے بلکہ پرتشدد کارروائیوں میں کئی مسلمان شہید بھی کردیے گئے۔ ان سب مسائل کے بعد مودی سرکار کے پاس کیا بچ جاتا ہے، جس کی بنیاد پر وہ انتخابات میں جائیں اور کامیاب بھی ہوجائیں۔ پاکستان دشمنی! جی ہاں پاکستان دشمنی ایک ایسا انتخابی نعرہ ہے، جس سے کچھ بعید نہیں کہ مودی دوبارہ جیت سکتے ہیں۔ اور ایسا ہونا ناممکن اس لیے بھی نہیں ہے کہ حکومتی سطح کے علاوہ مودی دور حکومت میں عوام میں بھی ہندواتوا کی ایسے ترویج کی گئی ہے کہ اولاً وہ مسلمانوں کو دیکھنا گوارا نہیں کرتے (اپنے ملک میں بھی)، ثانیاً پاکستان کے خلاف ان کے جذبات کو ایسے ابھارا گیا ہے کہ پاکستان کے حق میں کوئی بیان دینے کی جرأت تو کرے اس کا تیاپانچا کردیا جاتا ہے۔
ان حالات میں مودی بالاکوٹ کی فرضی سرجیکل اسٹرائیک پر انتخابی مہم پلان کیے بیٹھے تھے کہ دو طیارے گنوا بیٹھے۔ اب اندازہ لگائیے کہ دو طیارے گنوا بیٹھنے کے بعد بھی وہ خاموش نہیں ہوئے۔ پاکستان کے F-16 گرانے کا قضیہ گھڑا گیا۔ جھوٹ ثابت ہونے پر بھی وہ اس دعوے پر قائم ہیں (عالمی سطح پر یہ دعویٰ جھوٹ ثابت ہورہا ہے)۔ اس کے علاوہ وہ مزید محاذ آرائی کا منصوبہ بھی بنائے بیٹھے ہیں۔ (شاہ محمود قریشی خدشے کا اظہار کر چکے ہیں)۔ اور جائزے بھی بتاتے ہیں کہ مودی جتنا پاکستان دشمنی میں بولتے ہیں اتنا ان کی مقبولیت کا گراف بڑھتا ہے۔
اب یہاں ایک لمحہ رکیے! اور رک کر صرف ایک لمحہ ہی سوچیے کہ ان خیالات کا حامل ملک، ان خیالات کو پروان چڑھانے والا مودی، کیا پاکستان کے لیے بہتر ہوسکتا ہے؟ کیا آپ امید رکھ سکتے ہیں کہ مودی کسی بھی صورت پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات چاہے گا؟
اگر حقیقت پسندانہ طور پہ حالات و واقعات پر غور کرتے ہوئے اس سوال کا جواب تلاش کیا جائے تو پھر شاید ہی کوئی فرد ہو جو اس پر مودی کے حق میں جواب اثبات میں دے گا۔ معدودے چند بہت پرامید اور ہمیشہ مثبت انداز سے سوچنے والے چند افراد شاید ایسے سرپھرے ہوں بھی جو مودی کو پاکستان کا دوست بنتے دیکھنے سے اب بھی انکاری نہ ہوں۔
دوسری جانب کانگریس، جو بی جے پی کے برعکس بھارت کی قدرے سیکولر جماعت ہے۔ کانگریس کے رہنما ہوں یا ان کے ووٹرز، وہ شدت پسندانہ جذبات کو ترجیح دیتے نظر نہیں آتے۔ پاکستان دشمنی کا کارڈ اگر ان کی طرف سے استعمال بھی کیا جاتا ہے تو اس کی شدت شاید وہ نہ ہو جو ہندواتوا کی بنیاد پر چلنے والی بی جے پی کی ہے۔
بابری مسجد کی شہادت ہو یا پھر گجرات میں مسلم کش فسادات، بی جے پی نے تو آج تک اپنے ہندو شدت پسند رجحانات کو چھپانا تک گوارا نہیں کیا اور علی الاعلان اس کا پرچار کیا۔ بابری مسجد کے بعد رام مندر کی تعمیر کے مطالبات اور اقدات آپ کے سامنے ہیں۔ اس کے برعکس کانگریس کا بطور مجوعی رویہ ترقی پسند، لبرل ازم، سیکولرزم لیے ہوئے رہا ہے (بے شک بظاہر ہی، مگر رہا ہے)۔ اور وہ انتخابات میں بھی مذہبی شدت پسندی کو ہتھیار بناتے کم ہی دیکھے گئے ہیں۔
ان تمام حالات کو سامنے رکھیے۔ اور اب وزیراعظم پاکستان کے بیان کا جائزہ لیجیے۔ کوئی معقول وجہ؟ کوئی مثبت رویہ؟ کوئی تعمیری حوالہ؟ کوئی مسکراتا بیان؟ کوئی روشن امید؟ جو ہمیں مودی کے حوالے سے نظر آتی ہو؟ جو وزیراعظم کے اس بیان کی وجہ بنی ہو؟ سوال کا جواب اپنے دل و دماغ دونوں سے پوچھیے۔
دل کہتا ہے جو مسلم دشمنی میں اپنا ثانی نہ رکھتا ہو، جو پاکستان دشمنی کا کارڈ کھیلنے کا ماہر ہو، وہ ہمارا مخلص کیسے ہوسکتا ہے۔ دماغ تانے بانے ملاتا ہے مگر اسے بھی کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ وہ کشمیر میں ہر نئے گزرتے دن کے ساتھ بڑھتے ہوئے ظلم، کالے قوانین وادی میں نافذ کرنے والے شخص سے بہتری کی امید باندھ لے۔ لیکن ہمارے وزیراعظم بھی بہت دور اندیش ہیں، ہوسکتا ہے انہیں شمع امید کی کوئی پھڑپھڑاتی لو نظر آگئی ہو، جو وہ مودی سے مثبت سوچ کی توقع کیے بیٹھے ہیں کہ شاید مودی کشمیر جیسے دیرینہ مسئلے کو حل کرنے کا سبب بن جائیں۔
مودی کا رویہ پاکستان مخالف تو رہا ہے لیکن کشمیر کے حوالے سے ان کی پالیسیوں میں بھی کسی حوالے سے کبھی یہ عندیہ نہیں دیا گیا کہ وہ کشمیر کا مسئلہ حل کرنا تو درکنار، اسے متنازعہ خطہ تک ماننے پر تیار ہوں۔ اس کے باوجود مودی سے بہتری کی امید رکھنا یا بی جے پی جیسی شدت پسندی کی جانب مائل جماعت سے یہ توقع رکھنا کہ اس کے دور اقتدار میں مسئلہ کشمیر حل ہوگا، سمجھ سے بالاتر ہے۔
کل تک جب سرحدوں پر تناؤ بھی نہیں تھا، اس کے باوجود مودی کے دورۂ لاہور پر عمران خان ''مودی کا یار'' کا طعنہ اپنے سیاسی مخالف کو دیا کرتے تھے۔ اور آج جب کہ سرحدی جھڑپ میں بھارت دو جنگی طیارے گنوا چکا ہے، پاکستان دشمنی انتخابی مہم کا اہم ہتھیار ہے، اور ہمارے وزیر خارجہ بھارت کی جانب سے مہم جوئی کے دن تک اندازاً بتا چکے ہیں، تو ایسے حالات میں مودی سے یا بی جے پی سے کیسے یہ امید رکھی جاسکتی ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل میں مثبت کردار ادا کریں گے؟
کپتان کے بیان سے بی جے پی کا رویہ بدلے گا یا نہیں، اس خیال پر بھی امید رکھنا فی الحال معروضی حالات میں ممکن نہیں ہے۔ اس کے برعکس اس بیان سے بھارت میں موجود ایسے حلقے جو مودی حکومت کے شدت پسندانہ رویوں کے مخالف رہے ہیں، کے دل میں بھی خدشات جنم لے سکتے ہیں۔ بھارت کے روشن خیال قلوب و اذہان جو کسی نہ کسی حوالے سے پاکستان کو دشمن گرداننے کے بجائے دوستی پر زور دیتے آئے ہیں، وہ ہمارے اس بیان سے غیر یقینی صورت حال کا ضرور شکار ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان میں بسنے والے بھی اپنے کپتان کے اس بیان پر اختلاف تو نہیں مگر کم از کم وجوہات ضرور جاننا چاہ رہے ہیں کہ اگر کوئی بنیاد ایسی امید کی ہے کہ بی جے پی جیسی شدت پسند جماعت سے بہتری کی توقع رکھ لی گئی ہے تو ان کے علم میں آجائے تو کوئی حرج نہیں۔ اور ایسی وجوہات یقینی طور پر سامنے آنی بھی چاہئیں کہ کل تک آپ کا قول جسے دشمن مانتا تھا اور آج نامساعد اور سرحدی کشیدگی کے باوجود، جب کہ آپ بااختیار بھی ہیں، تو آپ کا فعل اس کے برعکس کیوں ہوگیا؟
دل سے دعا ہے کہ کپتان کا یہ بیان بی جے پی کا رویہ بھی بدل ڈالے۔ اگر بی جے پی مسئلہ کشمیر حل کرنے میں سنجیدہ ہو گئی تو پاکستان کا ہر فرد اس جماعت کو سراہے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔