متحدہ اپوزیشن کی اسمبلی اجلاس میں حکومت پر شدید تنقید
حزب اختلاف کے ارکان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت کا یہ رویہ غیر جمہوری اور اخلاقی روایات کے بھی منافی ہے۔
متحدہ اپوزیشن کی درخواست پر بلایا گیا بلوچستان اسمبلی کا اجلاس بھی دو دن متواتر جاری رہنے کے بعد اختتام پذیر ہوگیا۔ تاہم اپوزیشن نے دوبارہ اجلاس بلانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ حکومت کو بھاگنے نہیں دے گی۔
متحدہ اپوزیشن اجلاس میں پی ایس ڈی پی2018-19ء اور صوبائی مخلوط حکومت کی9 ماہ کی کارکردگی کو زیر بحث لانا چاہتی تھی۔ اجلاس کے پہلے روز ہی اپوزیشن نے اپنی توپوں کا رخ صوبائی مخلوط حکومت کی طرف موڑتے ہوئے اُسے زبردست تنقید کا نشانہ بنایا۔ متحدہ اپوزیشن نے ایک مرتبہ پھر ایوان میں اسپیکر کی سربراہی میں پی ایس ڈی پی2018-19ء کا جائزہ لینے کیلئے کمیٹی قائم کرنے کا مطالبہ دہرایا۔
اپوزیشن کے آزاد رکن نواب اسلم رئیسانی نے کمیٹی کے قیام کا مطالبہ کرتے ہوئے اسپیکر کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ اگر یہ کمیٹی قائم نہیں کرسکتے تو پھر واضح طور پر ایوان میں کہہ دیں کیونکہ ہم بارہ سال بھی اس پی ایس ڈی پی پر بحث کریں تو یہ لاحاصل رہے گی لہٰذا اس پر کمیٹی بنانے کی اشد ضرورت ہے۔
قائد حزب اختلاف ملک سکندر ایڈووکیٹ نے بھی حکومت کی جانب سے ترقیاتی منصوبوں میں حزب اختلاف کو نظر انداز کئے جانے پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ پی ایس ڈی پی میں شامل منصوبوں کی تفصیلات ایوان میں لائی جائیں۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ صوبائی حکومت کو دس ماہ ہو چکے ہیں لیکن بلوچستان میں ترقی کا پہیہ رکا ہوا ہے گیارہ گھنٹے اور طویل ترین کابینہ کے اجلاسوں کا نتیجہ صفر ہے۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ موجودہ حکومت بلوچستان میں خامیوں کا ذمہ دار سابقہ حکومت کو ٹھہرا رہی ہے لیکن اُس کی اپنی کارکردگی صفر ہے۔
حکومتی رکن اور صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران کا کہنا تھا کہ حکومت اپوزیشن کو یہ یقین دہانی کرا چکی ہے کہ پی ایس ڈی پی 2018-19ء میں کسی بھی رکن اسمبلی کے ساتھ زیادتی نہیں کی جائے گی پھر معلوم نہیں اپوزیشن پی ایس ڈی پی کی جان کیوں نہیں چھوڑ رہی۔ اپوزیشن حکومتی یقین دہانی پر پی ایس ڈی پی کی جان چھوڑ کر ایوان میں امن و امان اور بارشوں سے ہونے والے نقصانات سمیت دیگر اُمور کو زیر بحث لائے۔
اسمبلی اجلاس میں حکومتی ارکان کی عدم دلچسپی پر بھی اپوزیشن نے سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اجلاس کے غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کئے جانے پر اپنے ردعمل میں کہا کہ اپوزیشن کی جانب سے درخواست دے کر بلائے جانے والے اجلاس کو حکومت کے پیغام پر بلڈوز کیا گیا۔ حکومت اپوزیشن کو فیس نہیں کر سکتی ہم حکومت کو بھاگنے نہیں دیں گے دوبارہ اجلاس بلائیں گے، اگر ہمیں اجلاس میں بولنے نہیں دیا گیا تو باہر اسمبلی لگائیں گے۔
حزب اختلاف کے ارکان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت کا یہ رویہ غیر جمہوری اور اخلاقی روایات کے بھی منافی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ افسوسناک بات ہے کہ امن و امان کے حوالے سے ہم بات کرنا چاہتے تھے لیکن وزیراعلیٰ اور وزیر داخلہ دونوں ہی ایوان میں نہیں آئے حکومت کے اس رویئے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عوام کے مفادات کے خلاف جا رہی ہے۔
دوسری جانب بلوچستان کی مخلوط حکومت میں شامل تمام اتحادی جماعتوں کے مشترکہ پارلیمانی گروپ کے اجلاس میں وزیراعلیٰ جام کمال کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اس پر اتفاق کیا گیا کہ صوبے کے اہم اُمور پر قانون سازی کے عمل کو تیز کیا جائے گا۔ اجلاس میں اپوزیشن کو بھی ساتھ لے کر چلنے کا عزم کیا گیا۔ اجلاس میں اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ آئندہ بجٹ کی تیاری کے مراحل میں تمام اضلاع کی ترقیاتی ضروریات کو پورا کرنے اور نچلی سطح پر عوام کو تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی ضروریات کی فراہمی کے منصوبے تیار کئے جائیں گے۔
سیاسی حلقوں کے مطابق متحدہ اپوزیشن جام حکومت کو ٹف ٹائم دینے کیلئے پی ایس ڈی پی اور حکومتی کارکردگی کے معاملے کو طول دینا چاہتی ہے اسی لئے اپوزیشن جماعتوں نے ایک مرتبہ پھر اسمبلی کے اجلاس کیلئے ریکوزیشن دینے کا اعلان کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اگر انہیں اس بار اسمبلی میں بولنے نہیں دیا گیا تو پھر وہ باہر اسمبلی لگائیں گے جس سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ اپوزیشن نے حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے اور اب دوسرے مرحلے میں وہ عوام سے بھی رجوع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس کیلئے حکومت کے خلاف ریلیاں اور جلسے بھی منعقد کئے جا سکتے ہیں۔
ان حلقوں کے مطابق اپوزیشن اس بات پر غور کر رہی ہے کہ عید الفطر کے بعد عوام سے رجوع کیا جائے اس سے قبل اسمبلی میں حکومت کو ٹف ٹائم دیا جائے کیونکہ رمضان کی آمد آمد ہے عید کے بعد عوامی ریلیاں اور جلسے کئے جائیں جس میں حکومت کی کارکردگی کو بھرپور تنقید کا نشانہ بنایا جائے۔ ان سیاسی حلقوں کے مطابق صوبے میں بگڑتی ہوئی امن و امان کی صورتحال بھی موجودہ جام حکومت کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے۔
لورالائی، سنجاوی، مکران ڈویژن میں پیش آنے والے ناخوشگوار واقعات کے بعد ہزار گنجی کے افسوسناک واقعے نے حکومت کو ہلا کر رکھ دیا ہے یکے بعد دیگرے افسوسناک واقعات حکومتی رٹ پر سوالیہ نشان اور لمحہ فکریہ ہیں کیونکہ بلوچستان میں بڑی مشکل سے امن و امان قائم ہوا ہے جس میں تیزی سے بہتری آرہی تھی صوبے کی قوم پرست، مذہبی اور دیگر جماعتوں سمیت تمام مکتبہ فکر کے افراد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ صوبے میں قیام امن کیلئے اپنا مثبت اور کلیدی کردار ادا کریں تاکہ جو بیرونی ہاتھ امن کو تباہ کرنے کیلئے کار فرما ہے اُس کو کاٹ پھینکا جائے جس کیلئے متحد ہونے کی ضرورت ہے۔
متحدہ اپوزیشن اجلاس میں پی ایس ڈی پی2018-19ء اور صوبائی مخلوط حکومت کی9 ماہ کی کارکردگی کو زیر بحث لانا چاہتی تھی۔ اجلاس کے پہلے روز ہی اپوزیشن نے اپنی توپوں کا رخ صوبائی مخلوط حکومت کی طرف موڑتے ہوئے اُسے زبردست تنقید کا نشانہ بنایا۔ متحدہ اپوزیشن نے ایک مرتبہ پھر ایوان میں اسپیکر کی سربراہی میں پی ایس ڈی پی2018-19ء کا جائزہ لینے کیلئے کمیٹی قائم کرنے کا مطالبہ دہرایا۔
اپوزیشن کے آزاد رکن نواب اسلم رئیسانی نے کمیٹی کے قیام کا مطالبہ کرتے ہوئے اسپیکر کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ اگر یہ کمیٹی قائم نہیں کرسکتے تو پھر واضح طور پر ایوان میں کہہ دیں کیونکہ ہم بارہ سال بھی اس پی ایس ڈی پی پر بحث کریں تو یہ لاحاصل رہے گی لہٰذا اس پر کمیٹی بنانے کی اشد ضرورت ہے۔
قائد حزب اختلاف ملک سکندر ایڈووکیٹ نے بھی حکومت کی جانب سے ترقیاتی منصوبوں میں حزب اختلاف کو نظر انداز کئے جانے پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ پی ایس ڈی پی میں شامل منصوبوں کی تفصیلات ایوان میں لائی جائیں۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ صوبائی حکومت کو دس ماہ ہو چکے ہیں لیکن بلوچستان میں ترقی کا پہیہ رکا ہوا ہے گیارہ گھنٹے اور طویل ترین کابینہ کے اجلاسوں کا نتیجہ صفر ہے۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ موجودہ حکومت بلوچستان میں خامیوں کا ذمہ دار سابقہ حکومت کو ٹھہرا رہی ہے لیکن اُس کی اپنی کارکردگی صفر ہے۔
حکومتی رکن اور صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران کا کہنا تھا کہ حکومت اپوزیشن کو یہ یقین دہانی کرا چکی ہے کہ پی ایس ڈی پی 2018-19ء میں کسی بھی رکن اسمبلی کے ساتھ زیادتی نہیں کی جائے گی پھر معلوم نہیں اپوزیشن پی ایس ڈی پی کی جان کیوں نہیں چھوڑ رہی۔ اپوزیشن حکومتی یقین دہانی پر پی ایس ڈی پی کی جان چھوڑ کر ایوان میں امن و امان اور بارشوں سے ہونے والے نقصانات سمیت دیگر اُمور کو زیر بحث لائے۔
اسمبلی اجلاس میں حکومتی ارکان کی عدم دلچسپی پر بھی اپوزیشن نے سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اجلاس کے غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کئے جانے پر اپنے ردعمل میں کہا کہ اپوزیشن کی جانب سے درخواست دے کر بلائے جانے والے اجلاس کو حکومت کے پیغام پر بلڈوز کیا گیا۔ حکومت اپوزیشن کو فیس نہیں کر سکتی ہم حکومت کو بھاگنے نہیں دیں گے دوبارہ اجلاس بلائیں گے، اگر ہمیں اجلاس میں بولنے نہیں دیا گیا تو باہر اسمبلی لگائیں گے۔
حزب اختلاف کے ارکان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت کا یہ رویہ غیر جمہوری اور اخلاقی روایات کے بھی منافی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ افسوسناک بات ہے کہ امن و امان کے حوالے سے ہم بات کرنا چاہتے تھے لیکن وزیراعلیٰ اور وزیر داخلہ دونوں ہی ایوان میں نہیں آئے حکومت کے اس رویئے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عوام کے مفادات کے خلاف جا رہی ہے۔
دوسری جانب بلوچستان کی مخلوط حکومت میں شامل تمام اتحادی جماعتوں کے مشترکہ پارلیمانی گروپ کے اجلاس میں وزیراعلیٰ جام کمال کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اس پر اتفاق کیا گیا کہ صوبے کے اہم اُمور پر قانون سازی کے عمل کو تیز کیا جائے گا۔ اجلاس میں اپوزیشن کو بھی ساتھ لے کر چلنے کا عزم کیا گیا۔ اجلاس میں اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ آئندہ بجٹ کی تیاری کے مراحل میں تمام اضلاع کی ترقیاتی ضروریات کو پورا کرنے اور نچلی سطح پر عوام کو تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی ضروریات کی فراہمی کے منصوبے تیار کئے جائیں گے۔
سیاسی حلقوں کے مطابق متحدہ اپوزیشن جام حکومت کو ٹف ٹائم دینے کیلئے پی ایس ڈی پی اور حکومتی کارکردگی کے معاملے کو طول دینا چاہتی ہے اسی لئے اپوزیشن جماعتوں نے ایک مرتبہ پھر اسمبلی کے اجلاس کیلئے ریکوزیشن دینے کا اعلان کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اگر انہیں اس بار اسمبلی میں بولنے نہیں دیا گیا تو پھر وہ باہر اسمبلی لگائیں گے جس سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ اپوزیشن نے حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے اور اب دوسرے مرحلے میں وہ عوام سے بھی رجوع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس کیلئے حکومت کے خلاف ریلیاں اور جلسے بھی منعقد کئے جا سکتے ہیں۔
ان حلقوں کے مطابق اپوزیشن اس بات پر غور کر رہی ہے کہ عید الفطر کے بعد عوام سے رجوع کیا جائے اس سے قبل اسمبلی میں حکومت کو ٹف ٹائم دیا جائے کیونکہ رمضان کی آمد آمد ہے عید کے بعد عوامی ریلیاں اور جلسے کئے جائیں جس میں حکومت کی کارکردگی کو بھرپور تنقید کا نشانہ بنایا جائے۔ ان سیاسی حلقوں کے مطابق صوبے میں بگڑتی ہوئی امن و امان کی صورتحال بھی موجودہ جام حکومت کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے۔
لورالائی، سنجاوی، مکران ڈویژن میں پیش آنے والے ناخوشگوار واقعات کے بعد ہزار گنجی کے افسوسناک واقعے نے حکومت کو ہلا کر رکھ دیا ہے یکے بعد دیگرے افسوسناک واقعات حکومتی رٹ پر سوالیہ نشان اور لمحہ فکریہ ہیں کیونکہ بلوچستان میں بڑی مشکل سے امن و امان قائم ہوا ہے جس میں تیزی سے بہتری آرہی تھی صوبے کی قوم پرست، مذہبی اور دیگر جماعتوں سمیت تمام مکتبہ فکر کے افراد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ صوبے میں قیام امن کیلئے اپنا مثبت اور کلیدی کردار ادا کریں تاکہ جو بیرونی ہاتھ امن کو تباہ کرنے کیلئے کار فرما ہے اُس کو کاٹ پھینکا جائے جس کیلئے متحد ہونے کی ضرورت ہے۔