خود اذیتی۔۔۔۔۔۔ایک نفسیاتی عارضہ

علاج میں تاخیر خودکشی پر بھی مائل کر سکتی ہے

سدرہ کی موت بلکہ خود کشی کی خبر سن کر انس کی دل گرفتگی میں اضافہ ہو گیا۔ فوٹو: فائل

KARACHI:
سدرہ کی موت بلکہ خود کشی کی خبر سن کر انس کی دل گرفتگی میں اضافہ ہو گیا۔

وہ انس کے ماموں کی بیٹی اور ایک دراز قد حسین لڑکی تھی۔ عام طور پر اتنی زندہ دل کہ اس کے قہقہے فلک شگاف ہوتے تھے۔ اس قدر حاضر جواب اور مسخرہ طبیعت کہ اس کی بذلہ سنجی سامع کو لوٹ پوٹ ہونے پر مجبورکر دیتی تھی۔ مگرجب اس کی ''خود اذیت پسندی'' کا پہلو انس کے سامنے آیا تو وہ ششدر رہ گیا کہ زندگی سے اس قدر بھرپور شخصیت کے خمیر میں اذیت پسندی بھی شامل ہے۔ ہوا یوں کہ زرین امریکا سے اپنی شادی کے سلسلہ میں آئی ہوئی تھی اور دونوں بہنیں انس کے گھر ہی رہائش پذیر تھیں۔ دونوں بہنوں میں ازحد پیار تھا جبکہ بعض اوقات دونوں ایک دوسرے کو دیکھنے کی روادار بھی نہ ہوتیں۔ شادی میں چند روز ہی باقی تھے کہ ایک دن زرین نے انس کو سوتے میں جھنجوڑ کر اٹھایا اور بوکھلائے ہوئے انداز میں کہا ''بھائی دیکھیں سدرہ نے مجھ سے لڑ کر خود کو باتھ روم میں بند کر لیا ہے،وہ بلیڈ بھی ساتھ لے گئی ہے اور مجھے خطرہ ہے کہ کہیں وہ خود کو کوئی سنگین نقصان نہ پہنچا بیٹھے''۔

انس ہڑبڑا کر اٹھا اور باتھ روم کے دروازے پر جا کر سدرہ کو نرمی سے پکارا مگر رونے کی آواز کے علاوہ کوئی جواب نہ آیا ، پھر انس نے غصے سے گرج کر اسے دروازہ کھولنے کا کہا تو اس نے ڈر کر دروازہ کھول دیا۔ دروازہ کھلتے ہی جو منظر دیکھا وہ انس کو حواس باختہ کرنے کیلئے کافی تھا۔ باتھ روم کے فرش پر خون بکھرا ہوا تھا اور سدرہ کے دونوں بازو زخمی تھے۔اس نے بازوئوں پر کٹ لگائے ہوئے تھے جن سے خون رس رہا تھا۔ انس نے اسے فوراً ڈاکٹر کے پاس لے جانے کی کوشش کی تو اس نے یہ کہہ کر رد کر دی کہ ''انس بھائی یہ تو معمولی زخم ہیں،خود ہی بھر جائیں گے۔'' مگر انس اس کی مرہم پٹی کروا کر لایا اور سمجھانے پر اس نے وعدہ کیا کہ آئندہ وہ ایسا نہیں کرے گی مگر شادی سے ایک دن قبل اس نے پھر یہی حرکت کی ۔ سدرہ اور زریں دو بہنیں اور ایک بھائی تھے۔ بڑے ماموں کے ہاں کوئی اولاد نہ تھی چناچہ چھوٹے ماموں یعنی سدرہ کے والد نے اپنی چھوٹی بیٹی زرین پیدا ہوتے ہی بڑے ماموں کے حوالے کر دی اور وہ اسے امریکا لے گئے۔

سدرہ کے والد سدا کے غیر ذمہ دار اور لا ابالی طبیعت کے مالک تھے جبکہ بڑے ماموں اتنے ہی ذمہ دار،فیملی کاخیال رکھنے والے اور حقیقت پسند تھے۔ باپ کی لا پرواہ طبیعت کی وجہ سے سدرہ حساس طبع بن گئی تھی۔ پھر جب اسے نوجوانی میں اس حقیقت کا ادراک ہوا کہ زرین اس کی بہن ہے تو وہ اس کی قربت کیلئے تڑپنے لگی۔ اس کو بھی امریکا بھیجنے کی کوشش کی گئی مگر عمر کی حد پار ہو جانے کی وجہ سے اس کی امیگریشن نہ ہو سکی جس کو اس نے دل کا روگ بنا لیا ۔ پھر اس کی شادی کر دی گئی جو طلاق پر منتج ہوئی،مگر اس کے باوجود وہ انس کو جب بھی ملی زیادہ تر ہنس مکھ ہی لگی اور پھر انس کو یہ اندوہناک خبر ملی کہ سدرہ نے زیادہ مقدار میں نیند کی گولیاں کھا کر خود کشی کر لی ہے اور اس اقدام سے پہلے اس کی اذیت پسندی میں حد درجہ اضافہ ہو گیا تھا۔ اس میڈیکل کیس نے سب کو سوچنے پر مجبور کیا کہ آخر انسان ایسی حرکت کیوں کرتا ہے اور اس کے کیا محرکات ہوتے ہیں؟

خود اذیتی ایک ذہنی و نفسیاتی عارضہ ہے۔ یہ دراصل اپنے ان جذبات واحساسات کو سکون دینے کی ایک کوشش ہے کہ جن کو خود اذیت پسند لوگ معاشرے کے دیگر افراد کے ساتھ بانٹ نہیں سکتے یا پھر کسی ڈر یا خوف کی بنا پر وہ اسے دوسرے افراد پر ظاہر کرنے سے گھبراتے ہیں۔ یہ عارضہ عام طور پر ان لوگوں کو لاحق ہوتا ہے کہ جن کے ماضی کسی کربناک صورتحال سے دوچار ہوتے ہیں مثلاً شدید محبت میں ناکامی، خانگی زندگی کی تلخیاں یا ناکامی، محرومیاں، جنسی زیادتی، کسی پیارے کا بچھڑ جانا وغیرہ۔ آپ اسے ایسا ہی سمجھ لیں کہ جس طرح کسی دکھ یا غم میں ہم زاروقطار رو کر اپنی بھڑاس نکالتے ہیں اور ہمارا ذہنی و نفسیاتی توازن دوبارہ متوازن ہو جاتا ہے' اسی طرح خود اذیت پسند افراد رونے کی بجائے خود کو اذیت دے کر یہ توازن حاصل کرتے ہیں۔

کچھ افراد کو اتنا غصہ آتا ہے یا وہ اتنے جارح ہو جاتے ہیں کہ ان کو خود سے ہی خوف محسوس ہونے لگتا ہے کہ وہ اس انتہائی حالت میں کسی کو کوئی بڑا نقصان نہ پہنچا دیں اور اسی وجہ سے وہ اس حد سے بڑھے ہوئے غصے یا جارحانہ پن کا رخ اپنی ذات کی طرف موڑ لیتے ہیں جس کا نتیجہ خود اذیتی کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ خود اذیت پسند افراد کے بارے میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ وہ یہ افعال دوسروں کی توجہ کے حصول کی خاطر کرتے ہیں جبکہ خود اذیت پسندی کا شکار افراد کے خیال میں یہی وہ واحد طریقہ ہے کہ جس کے ذریعے وہ اپنی پریشانیوں اور مسائل کو کم کر سکتے ہیں، جبکہ بعض افراد کو اپنے لاشعور میں دبے اس مسئلے کا بھی ادراک نہیں ہوتا اور وہ نہیں جانتے کہ وہ خود کو کیوں اور کس لئے اذیت دے رہے ہیں۔

خود اذیتی پہلے پہل محرومی' ناکامی یا مایوسی وغیرہ میں غیر ارادی طور پر سر زد ہوتی ہے یا ہو سکتی ہے اور بعد ازاں ذاتی سکون کے حصول کی خاطر یہ ایک عادت میں تبدیل ہو جاتی ہے یا ہو سکتی ہے مگر ضروری نہیں کہ ہر بار خود اذیتی کی شدت نفسیاتی مسئلہ کی شدت سے ہم آہنگ ہو ۔ عام طور پر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایسے افراد خود اذیتی کے اتنے عادی ہو جاتے ہیں کہ جب تک وہ یہ عمل نہیں دوہراتے انہیں سکون کا وہ معیار حاصل نہیں ہوتا جس کے وہ متلاشی ہوتے ہیں اور اس سکون کے حصول کیلئے وہ بار بار اس عمل کو دوہراتے ہیں اور بعض اوقات اس عمل کے خوفناک نتائج گہرے زخم' شدید انفیکشن یا مستقل معذوری کی صورت میں بھی سامنے آتے ہیں۔

خود اذیتی کے عام طریقوں میں بازوئوں ،ہاتھوں، ٹانگوں اور بعض اوقات چہرے' پیٹ' چھاتی حتی کہ اعضائے تولید کو تیز دھار آلات مثلا بلیڈ' چھری،شیشہ یا قینچی وغیرہ سے کٹ لگانا شامل ہے۔ کچھ افراد خود کو جلا کر، جسم کو ناخنوں سے کھرچ کر، خود کومکے اور تھپڑ مار کر یا دروازوں اور دیواروں وغیرہ سے ٹکریں مار کر سکون حاصل کرتے ہیں جبکہ دانتوں سے جسم کو کاٹنا جلد میں تیز دھار آلات کھبونا اور ضرر رساں اشیا نگل جانا خود اذیتی کی دیگر اقسام ہیں۔ خود اذیتی کے کچھ طریقے مثلاً بال نوچنا' پلکیں اور بھنویں اکھیڑنا اور جسم پر چٹکیاں کاٹنا ایسے افعال ہیں کہ جن میں طبی امداد کی ضرورت نہیں پڑتی۔



ایک سروے کے مطابق ہسپتالوں میں داخل ہونے والے 10 فیصد افراد خود اذیتی کی وجہ سے ہسپتال پہنچتے ہیں۔ عورتیں عام طور پر 15 سے 25 سال کے درمیان جبکہ مرد 20سے 30 سال کے درمیان اس عارضہ میں مبتلا ہوتے ہیں۔ مگر ضروری نہیں کہ تمام مرد و عورتیں اسی عمر میں خود اذیتی میں مبتلا ہوں۔ اس نفسیاتی عارضہ میں مبتلا عورتوں کی تعداد مردوں کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ منشیات اور الکوحل کا زیادہ مقدار میں استعمال بھی خود اذیتی کی ایک شاخ ہے اور اس میں لازماً طبی امداد کی ضرورت پڑتی ہے۔ حد سے زیادہ سگریٹ نوشی بھی اسی زمرے میں آتی ہے مگر سگریٹ نوش افراد کا مقصد خود کو نقصان پہنچانا نہیں ہوتا مگر اس کے ذیلی اثرات و نقصانات سے صرف نظر ممکن نہیں جبکہ جسمانی خود اذیتی کے عادی افراد کا مقصد ہی خود کو نقصان پہنچانا یا زخمی کرنا ہوتا ہے۔ اس قسم کے افراد خود کو باقاعدگی سے زخمی کر کے یا نقصان پہنچا کر سکون حاصل کرتے ہیں۔ ان لوگوں نے اپنے مسائل کو چھپانے کے طریقے ڈھونڈ رکھے ہوتے ہیں اور جب کبھی یہ خود کو حد سے زیادہ نقصان پہنچا دیتے ہیں اور ان کو طبی امداد کی ضرورت پڑتی ہے تو اپنے شدت اور اذیت پسندانہ افعال کو چھپانے کیلئے ان کے پاس گھڑی گھڑائی کہانیاں موجود ہوتی ہیں یا پھر وہ راز کے افشاء ہونے کے خوف کے زیر اثر طبی امداد ہی حاصل نہیں کرتے جس کے خوف ناک نتائج بھی برآمد ہوسکتے ہیں۔

ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ خود اذیتی اور خود کشی کی کوشش، دونوں افعال میں ایک بنیادی فرق ہے۔ عام طور پر جو افراد خود اذیتی کا شکار ہوتے ہیں ان کی غالب تعداد خود کشی کی جانب مائل ہوجاتی ہے، مگر خود کشی یعنی زہر پینا، چوہے مار گولیاں یا نیند کی گولیاں زیادہ مقدار میں کھا لینا، جراثیم کش ادویات پی لینا ایسے افعال ہیں کہ جن کے براہ راست اثرات جسم پر ظاہر نہیں ہوتے اور خود کشی کی وجوہات جاننے کے لیے پوسٹ مارٹم کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ خود اذیتی کے آثار ونشانات جسم پر صاف ظاہر ہوتے ہیں۔


لوگ خود اذیتی کا شکار کیوں ہوتے ہیں؟ کے جواب میں مختلف آراء اور تھیوریاں پیش کی جاتی ہیں مگر اس کو مکمل طور پر سمجھنا اور بیان کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے کیونکہ مختلف لوگ مختلف وجوہات کی بنا پراس عارضے کا شکار ہوتے ہیں۔ ایک رائے تو یہ ہے کہ خود اذیتی کسی بھی شخص کے لاشعور میں دبے کسی ایسے مسئلہ یا خوف کا رد عمل ہوتی ہے کہ جس کو وہ بیرون دنیا سے تو چھپانا چاہتا ہے مگر اس کا باطن اس قدر مضبوط نہیں ہوتا کہ وہ اس کو خود میں جذب کرسکے اور نتیجہ خود اذیتی کی صورت میں نمودار ہوتا ہے۔ ایک اور تھیوری کے مطابق بیشتر افراد کے مطابق انہوں نے خود اذیتی کی عادت بچپن سے ہی شروع کردی تھی اور اس کی روشنی میں ماہرین یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ بچپن کی کوئی محرومی مثلًا نفرت، نظر انداز ہونا، اہمیت نہ ملنااور جنسی استحصال وغیرہ ایسے عوامل ہیں کہ جو انسان کو خود اذیتی کی طرف مائل کرتے ہیں کیونکہ ایسی چیزیں انسان دوسروں کے ساتھ شیئر کرنے سے گھبراتا ہے اور ایسی حرکتیں کرتا ہے کہ لوگ اس کی جانب متوجہ ہوں اور اس کے غم کی گہرائی کو محسوس کرکے ہمدردی کریں۔

تیسری تھیوری کے مطابق مسلسل ناکامی ، محرومی اور منفی حالات وواقعات انسان میں خود اعتمادی کے فقدان کا باعث بنتے ہیں اور اس کمی پر قابو پانے کے لیے انسان خود اذیتی کا شکار ہوجاتا ہے۔ اسی طرح ایک رائے یہ بھی ہے کہ کٹ یا چوٹ وغیرہ لگنے سے جسم ایسے کیمیکل خارج کرتا ہے کہ جو درد کو کم کرنے میں مددگار ہوتے ہیں۔ اس لیے یہ فرض کیا گیا ہے کہ جس طرح جسم ہیروئن کا عادی ہوتا ہے تو ہیروئن پی کر ہی اسے سکون ملتا ہے، اسی طرح خود کو بار بار زخمی کرکے یہ افراد جسم سے مختلف ہارمونز اور کیمیکلز کے اخراج کے ذریعے سکون حاصل کرتے ہیں۔اس مرض کا بروقت علاج اور تدارک ضروری ہے تاکہ انتہائی اقدام سے بچا جاسکے تاکہ انتہائی اقدام سے بچا جا سکے۔۔

خود اذیتی سے چھٹکارا کیسے حاصل کیا جائے؟

ذیل میںخود اذیتی کے مرض میں مبتلا افراد کے لیے کچھ ہدایات درج ہیں کہ جن پر عمل پیرا ہو کروہ اس مہلک عادت پر قابو پا سکتے ہیں۔

1 ۔ اپنا تجزیہ کریں کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں اور پھر اس کا مناسب حل بھی تجویز کریں۔

2 ۔ بند کمرے میں یا کسی ویران جگہ پر جاکر اپنے نفسیاتی مسئلہ کو اونچی آواز میں بول کر بیان کردیں، آپ کا ذہنی دبائو یقینا کم ہوجائے گا۔

3۔ ذہنی دبائو کی حالت میں اپنے جسم کو ڈھیلا چھوڑ کر ناک کے ذریعے لمبی سانس لیں اور منہ کے ذریعے خارج کردیں۔

4 ۔ جب آپ کا اپنے جسم کو زخمی کرنے کو دل چاہے تو سرخ مارکر سے اپنے جسم پر نشان لگائیں بجائے اس کے کہ آپ تیز دھار آلات سے اپنے جسم کو چھیدتے اور کترتے رہیں۔

5 ۔ سینڈبیگ، گدے یا تکیے پر زور زور سے مکے مارتے رہیں حتی کہ آپ نارمل ہوجائیں۔

6۔ اپنے ہاتھوں کو برفیلے پانی میں ڈبوئیں مگر یہ عمل ایک حد سے نہ بڑھے۔

7۔ اپنے جسم کے جن حصوں پر آپ تشدد کرتے ہیں وہاں زخم لگانے کے بجائے برف لگائیں تو ایک مناسب وقفہ کے بعد آپ سکون محسوس کریں گے۔

بہرحال خود اذیتی میں مبتلا ہونے کے عوامل جو بھی ہوں یہ بات تو مسلمہ ہے کہ یہ ایک خوفناک مرض ہے جس کا اگر بروقت تدارک نہ کیا جائے تو یہ انسان کو خود کشی جیسے انتہائی اقدام کی طرف بھی مائل کرسکتا ہے اس لئے اپنے نفسیاتی وذاتی مسائل کو چھپا کر خود کو اذیت دینے کے بجائے اگر کسی ماہر نفسیات سے علاج کروایا جائے تو یقینا فائدہ ہوگا۔اگر آپ خود اذیتی سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں تو مندرجہ بالا ہدایات کی روشنی میں عمل پیرا ہوں، آپ کو یقینا افاقہ ہوگا۔مگر یاد رکھیں کہ افاقہ اسی صورت میں ہوگا جب کہ آپ خود کو علاج کی طرف مائل کریں اور خود اذیتی سے نجات پانا چاہیں۔
Load Next Story