پیتل کے برتن باورچی خانے سے ڈرائنگ روم کی زینت بننے تک کی کہانی
اندرون لاہورمیں چند کاریگرایسے ہیں جو پیتل کے پرانے برتنوں پر نقش ونگار بناکران کوایک شاہکار اور نایاب پیس بنادیتے ہیں
پرانے وقتوں میں پیتل کے برتنوں کا استعمال عام تھا، لوگ پیتل سے بنے برتنوں میں کھانا تیار کرتے اور کھاتے تھے جبکہ جہیز میں بھی پیتل کے برتن دیئے جاتے تھے تاہم آج ان برتنوں پر نقش و نگار بنا کر انہیں ڈیکوریشن پیس کے طور پر ڈرائنگ روم میں سجایا جاتا ہے۔
اندرون لاہورمیں چند کاریگر ایسے ہیں جو پیتل کے پرانے برتنوں پر نقش ونگار بناکران کوایک شاہ کار اور نایاب پیس بنادیتے ہیں
لاہورکے لوہاری دروازہ کے قریب ہی ایک چھوٹے سے کارخانے میں چندکاریگرگزشتہ کئی برسوں سے پیتل کے برتنوں پرنقش ونگاربنانے کاکام کرتے آرہے ہیں۔ان میں رانا محمدجمیل بھی شامل ہیں جو گزشتہ 35 برس سے یہ کام کررہے ہیں۔ محمدجمیل کے مطابق قیام پاکستان کے بعدان کا خاندان اندرون لاہورکے علاقہ چڑی ماراں میں آکرآبادہوگیا اورآج بھی یہاں آبادہے۔محمدجمیل کے مطابق وہ پڑھ نہیں سکے اوراپنے تایازادبھائی سے پیتل کے برتنوں پرنقش نگاری کا کام سیکھا ۔۔جب یہ ہنرآگیا توپھراپنا اڈابنالیا اوراب یہاں دیگرکاریگروں کے ساتھ کام کررہے ہیں۔
رانا محمد جمیل نے بتایا کہ ان کے پاس پرانے برتنوں پرنقش و نگار بنوانے والے بھی آتے ہیں جبکہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جواپنی مرضی سے کوئی نیابرتن یا ڈیکوریشن پیس تیارکروانا چاہتے ہیں توہم اسی حساب سے پیس تیارکردیتے ہیں۔ ا سکام میں سب سے پہلے جس برتن پرنقش ونگاربناناہوں اس کے اندرایک مخصوص قسم کا مادہ بھراجاتا ہے جسے وہ اپنی زبان میں رال کہتے ہیں۔ پتھرنمارال میں سرسوں کا تیل شامل کرکے اسے آگ پرچڑھاکرمائع شکل میں تبدیل کردیاجاتا ہے اورپھریہ لیکوئیڈ سے اس برتن کوان سے بھردیاجاتا ہے۔خشک ہونے کے بعد اس برتن کی سطح پر مطلوبہ نقش ونگارکی ڈرائنگ بنائی جاتی ہے اورپھرمختلف قسم کے اوزاروں سے ڈرائنگ کی گئی لیکروں کے اوپرکھدائی شروع ہوتی ہے۔
کاریگر کے ماہرہاتھ جیسے جیسے ہتھوڑی اوراوزارچلاتے ہیں برتن کی سطح پرنقش ونگاربنتے جاتے ہیں۔۔۔محمدجمیل کے مطابق اگرایک عام صراحی کی بات کریں تواس پرنقش ونگاربنانے میں دوسے تین دن لگ سکتے ہیں۔اس کی مزدوری دوسے تین ہزار روپے بنتی ہے۔ نقش و نگار مکمل ہونے کے بعد برتن میں بھراگیا مادہ گرم کرکے دوبارہ نکال لیاجاتا ہے اورپھربرتن کو صاف کرکے اوراسے پالش کرکے مارکیٹ میں بھیج دیا جاتا ہے۔ جہاں اس کے خریداراسے پسندکرکے لے جاتے ہیں۔ محمد جمیل نے یہ بھی بتایا کہ برتنوں پرنقش نگاری کا تمام کام ہاتھوں سے ہوتا ہے تاہم پالش کے وقت تھوڑی بہت مشینوں کی مددلی جاتی ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگرکوئی پرانا برتن کہیں سے ٹوٹا چکا ہویا اس پرڈینٹ پڑے ہوں توپہلے وہ مرمت کی جاتی ہے اس کے بعد نقش ونگاری شروع ہوتی ہے۔
ان کاریگروں کے مطابق یہ کام بہت زیادہ تونہیں ہے لیکن اس کے باوجود ان کی روزی روٹی چل رہی ہے کیونکہ آج بھی ان برتنوں کے شوقین موجودہیں جبکہ بڑے ہوٹلوں میں یہ برتن استعمال کئے جاتے ہیں۔ اس وجہ سے ان کاکام چل رہا ہے۔ برتنوں پرنقش نگاری کا کام مغلوں کے دورسے ہوتا آرہا ہے۔ رنگ محل لاہور کی برتن مارکیٹ میں ہیری ٹیج کے نام سے ایک بڑی دکان ہے جس میں داخل ہوں توایسے لگتا ہے جیسے مغلیہ دورمیں آگئے ہوں ۔ یہ دکان پیتل کے انمول شاہکاروں سے بھری بڑی ہے۔ کہیں بڑی بڑی صراحیاں پڑی ہیں تو کہیں حمام، لوٹے، پان دان ،گلاس، چائے دانی ، کپ اورپلیٹیں۔ ان برتنوں پر بنے نقش ونگاراوران کی چمک دمک دیکھنے والوں کو اپنے سحرمیں جکڑلیتی ہے، یہ برتن کافی وزنی ہوتے ہیں۔
ہیری ٹیج کے مالک ہارون حیات نے بتایا کہ وہ لوگ کئی برسوں سے یہ کام کررہے ہیں ۔ یہ دکان ان کے والد کی ہے اور وہ خود بھی ان کے ساتھ اس کام کو دیکھ رہے ہیں۔ پرانے وقتوں میں لوگ پیتل کے بنے برتنوں میں کھانا پکاتے تھے، پیتل کے برتنوں میں ہی کھانا کھایا جاتا تھا، لوگ اپنی بہنوں، بیٹیوں کو جہیزمیں پیتل کے برتن دیتے تھے۔لیکن آج یہ سلسلہ ختم ہوچکا ہے۔ ہم نے پیتل کے صحت مندبرتن چھوڑکرپلاسٹک کی بیماریاں پیداکرنے والے برتنوں کا انتخاب کرلیا ہے یا پھراسٹیل کے برتن ہیں۔ انہوں نے جہاں پیتل کی برتنوں کی تاریخ بتائی وہیں ان کے فوائدپربھی روشنی ڈالی، ہارون حیات نے بتایا کہ پیتل کے برتنوں پرقلعی کی جاتی ہے جوانسانی صحت کے لیے انتہائی مفیدہے۔آج ڈاکٹراورطبی ماہرین مختلف بیماریوں کا شکارمریضوں کو پیتل کے برتنوں میں کھانا پکانے اور ان ہی برتنوں میں کھانا کھانے کا مشورہ دیتے ہیں۔
ہارون حیات کہتے ہیں ان کے پاس آج بھی کسی نہ کسی گاؤں سے کوئی پیتل کا پرانا برتن بیچنے آجاتا ہے اوراس ایک برتن کے عوض وہ اسٹیل کے درجنوں برتن خرید لیتا ہے۔ ہم لوگ ان عام برتنوں پر نقش ونگار بنواتے ہیں، ان کی مرمت کرواتے اوران پرپالش کرواتے ہیں جس کے بعد یہ عام سے برتن ایک شاہکار کی شکل اختیارکرلیتے ہیں۔ یہ برتن اب زیادہ تربڑے بڑے ہوٹلوں میں اوربڑے گھروں کے ڈرائنگ رومزمیں سجاوٹ کے طورپررکھے جاتے ہیں۔تاہم کئی روایتی خاندانی لوگ ایسے بھی ہیں جن کے گھروں میں آج بھی یہ برتن استعمال ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ فلم اورٹی وی ڈراموں والے بھی یہ برتن کرایہ پرلے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا کام چلتا رہتا ہے.
ہارون حیات نے یہ بھی بتایا کہ پیتل کے عام استعمال کے برتنوں کی قیمت تواس کے وزن کے حساب سے طے ہوتی ہے جبکہ جن پرنقش نگاری کی جاتی ہے اس کی ڈیکوریشن پیس کی قیمت کا تعین اس کے سائزاوراس پرہوئے کام کے مطابق ہوتی ہے جو دوتین ہزار روپے سے لیکرلاکھوں روپے تک ہوسکتی ہے. پیتل کے یہ برتن ہماری ثقافت اورروایات کا حصہ بھی ہیں ، گزرت وقت کے ساتھ یہ روایت دم توڑتی جارہی ہے تاہم آج بھی کچھ کاریگر ایسے ہیں جن کے ماہرہاتھ پیتل کے ان عام برتنوں پراس قدر محنت اورمہارت سے نقش ونگاربناتے ہیں کہ ان برتنوں کی قدروقیمت بدل جاتی ہے جس کے بعد یہ شاہکار اورنایاب برتن ڈیکوریشن پیش کے طورپراستعمال ہونا شروع ہوجاتے ہیں.
اندرون لاہورمیں چند کاریگر ایسے ہیں جو پیتل کے پرانے برتنوں پر نقش ونگار بناکران کوایک شاہ کار اور نایاب پیس بنادیتے ہیں
لاہورکے لوہاری دروازہ کے قریب ہی ایک چھوٹے سے کارخانے میں چندکاریگرگزشتہ کئی برسوں سے پیتل کے برتنوں پرنقش ونگاربنانے کاکام کرتے آرہے ہیں۔ان میں رانا محمدجمیل بھی شامل ہیں جو گزشتہ 35 برس سے یہ کام کررہے ہیں۔ محمدجمیل کے مطابق قیام پاکستان کے بعدان کا خاندان اندرون لاہورکے علاقہ چڑی ماراں میں آکرآبادہوگیا اورآج بھی یہاں آبادہے۔محمدجمیل کے مطابق وہ پڑھ نہیں سکے اوراپنے تایازادبھائی سے پیتل کے برتنوں پرنقش نگاری کا کام سیکھا ۔۔جب یہ ہنرآگیا توپھراپنا اڈابنالیا اوراب یہاں دیگرکاریگروں کے ساتھ کام کررہے ہیں۔
رانا محمد جمیل نے بتایا کہ ان کے پاس پرانے برتنوں پرنقش و نگار بنوانے والے بھی آتے ہیں جبکہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جواپنی مرضی سے کوئی نیابرتن یا ڈیکوریشن پیس تیارکروانا چاہتے ہیں توہم اسی حساب سے پیس تیارکردیتے ہیں۔ ا سکام میں سب سے پہلے جس برتن پرنقش ونگاربناناہوں اس کے اندرایک مخصوص قسم کا مادہ بھراجاتا ہے جسے وہ اپنی زبان میں رال کہتے ہیں۔ پتھرنمارال میں سرسوں کا تیل شامل کرکے اسے آگ پرچڑھاکرمائع شکل میں تبدیل کردیاجاتا ہے اورپھریہ لیکوئیڈ سے اس برتن کوان سے بھردیاجاتا ہے۔خشک ہونے کے بعد اس برتن کی سطح پر مطلوبہ نقش ونگارکی ڈرائنگ بنائی جاتی ہے اورپھرمختلف قسم کے اوزاروں سے ڈرائنگ کی گئی لیکروں کے اوپرکھدائی شروع ہوتی ہے۔
کاریگر کے ماہرہاتھ جیسے جیسے ہتھوڑی اوراوزارچلاتے ہیں برتن کی سطح پرنقش ونگاربنتے جاتے ہیں۔۔۔محمدجمیل کے مطابق اگرایک عام صراحی کی بات کریں تواس پرنقش ونگاربنانے میں دوسے تین دن لگ سکتے ہیں۔اس کی مزدوری دوسے تین ہزار روپے بنتی ہے۔ نقش و نگار مکمل ہونے کے بعد برتن میں بھراگیا مادہ گرم کرکے دوبارہ نکال لیاجاتا ہے اورپھربرتن کو صاف کرکے اوراسے پالش کرکے مارکیٹ میں بھیج دیا جاتا ہے۔ جہاں اس کے خریداراسے پسندکرکے لے جاتے ہیں۔ محمد جمیل نے یہ بھی بتایا کہ برتنوں پرنقش نگاری کا تمام کام ہاتھوں سے ہوتا ہے تاہم پالش کے وقت تھوڑی بہت مشینوں کی مددلی جاتی ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگرکوئی پرانا برتن کہیں سے ٹوٹا چکا ہویا اس پرڈینٹ پڑے ہوں توپہلے وہ مرمت کی جاتی ہے اس کے بعد نقش ونگاری شروع ہوتی ہے۔
ان کاریگروں کے مطابق یہ کام بہت زیادہ تونہیں ہے لیکن اس کے باوجود ان کی روزی روٹی چل رہی ہے کیونکہ آج بھی ان برتنوں کے شوقین موجودہیں جبکہ بڑے ہوٹلوں میں یہ برتن استعمال کئے جاتے ہیں۔ اس وجہ سے ان کاکام چل رہا ہے۔ برتنوں پرنقش نگاری کا کام مغلوں کے دورسے ہوتا آرہا ہے۔ رنگ محل لاہور کی برتن مارکیٹ میں ہیری ٹیج کے نام سے ایک بڑی دکان ہے جس میں داخل ہوں توایسے لگتا ہے جیسے مغلیہ دورمیں آگئے ہوں ۔ یہ دکان پیتل کے انمول شاہکاروں سے بھری بڑی ہے۔ کہیں بڑی بڑی صراحیاں پڑی ہیں تو کہیں حمام، لوٹے، پان دان ،گلاس، چائے دانی ، کپ اورپلیٹیں۔ ان برتنوں پر بنے نقش ونگاراوران کی چمک دمک دیکھنے والوں کو اپنے سحرمیں جکڑلیتی ہے، یہ برتن کافی وزنی ہوتے ہیں۔
ہیری ٹیج کے مالک ہارون حیات نے بتایا کہ وہ لوگ کئی برسوں سے یہ کام کررہے ہیں ۔ یہ دکان ان کے والد کی ہے اور وہ خود بھی ان کے ساتھ اس کام کو دیکھ رہے ہیں۔ پرانے وقتوں میں لوگ پیتل کے بنے برتنوں میں کھانا پکاتے تھے، پیتل کے برتنوں میں ہی کھانا کھایا جاتا تھا، لوگ اپنی بہنوں، بیٹیوں کو جہیزمیں پیتل کے برتن دیتے تھے۔لیکن آج یہ سلسلہ ختم ہوچکا ہے۔ ہم نے پیتل کے صحت مندبرتن چھوڑکرپلاسٹک کی بیماریاں پیداکرنے والے برتنوں کا انتخاب کرلیا ہے یا پھراسٹیل کے برتن ہیں۔ انہوں نے جہاں پیتل کی برتنوں کی تاریخ بتائی وہیں ان کے فوائدپربھی روشنی ڈالی، ہارون حیات نے بتایا کہ پیتل کے برتنوں پرقلعی کی جاتی ہے جوانسانی صحت کے لیے انتہائی مفیدہے۔آج ڈاکٹراورطبی ماہرین مختلف بیماریوں کا شکارمریضوں کو پیتل کے برتنوں میں کھانا پکانے اور ان ہی برتنوں میں کھانا کھانے کا مشورہ دیتے ہیں۔
ہارون حیات کہتے ہیں ان کے پاس آج بھی کسی نہ کسی گاؤں سے کوئی پیتل کا پرانا برتن بیچنے آجاتا ہے اوراس ایک برتن کے عوض وہ اسٹیل کے درجنوں برتن خرید لیتا ہے۔ ہم لوگ ان عام برتنوں پر نقش ونگار بنواتے ہیں، ان کی مرمت کرواتے اوران پرپالش کرواتے ہیں جس کے بعد یہ عام سے برتن ایک شاہکار کی شکل اختیارکرلیتے ہیں۔ یہ برتن اب زیادہ تربڑے بڑے ہوٹلوں میں اوربڑے گھروں کے ڈرائنگ رومزمیں سجاوٹ کے طورپررکھے جاتے ہیں۔تاہم کئی روایتی خاندانی لوگ ایسے بھی ہیں جن کے گھروں میں آج بھی یہ برتن استعمال ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ فلم اورٹی وی ڈراموں والے بھی یہ برتن کرایہ پرلے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا کام چلتا رہتا ہے.
ہارون حیات نے یہ بھی بتایا کہ پیتل کے عام استعمال کے برتنوں کی قیمت تواس کے وزن کے حساب سے طے ہوتی ہے جبکہ جن پرنقش نگاری کی جاتی ہے اس کی ڈیکوریشن پیس کی قیمت کا تعین اس کے سائزاوراس پرہوئے کام کے مطابق ہوتی ہے جو دوتین ہزار روپے سے لیکرلاکھوں روپے تک ہوسکتی ہے. پیتل کے یہ برتن ہماری ثقافت اورروایات کا حصہ بھی ہیں ، گزرت وقت کے ساتھ یہ روایت دم توڑتی جارہی ہے تاہم آج بھی کچھ کاریگر ایسے ہیں جن کے ماہرہاتھ پیتل کے ان عام برتنوں پراس قدر محنت اورمہارت سے نقش ونگاربناتے ہیں کہ ان برتنوں کی قدروقیمت بدل جاتی ہے جس کے بعد یہ شاہکار اورنایاب برتن ڈیکوریشن پیش کے طورپراستعمال ہونا شروع ہوجاتے ہیں.