خوف زدہ رکھوالے
’’گھسا وہ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی ‘ ایک شخص ساری دنیا کو حیران کر گیا ‘‘ ۔ 15 اگست کو سہ پہر ۔۔۔
''گھسا وہ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی ' ایک شخص ساری دنیا کو حیران کر گیا '' ۔ 15 اگست کو سہ پہر کے وقت اسلام آباد کے بلیو ایریا میں گھسنے والا یہ شخص سکندر تھا ، جو خالی ہاتھ نہیں تھا ، اس کے دونوں ہاتھوں میں دو عدد گنیںتھیں ، اور اس کے ساتھ خود اس کے دو عدد بچے اور دو عدد بیویوں میں سے ایک عدد بیوی بھی تھی ۔ ساڑھے پانچ گھنٹے تک یہ سکندر ملکی اور غیر ملکی میڈیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا کر مسلسل یہ پیغام دیتا رہا کہ مقدرکا سکندر کسے کہا جاتا ہے اور کیسے بناجاتا ہے؟ مقدرکا سکندر''کسے''کہا جاتا ہے ؟ یہ تو سکندر نے بتایا لیکن مقدرکا سکندر '' کیسے '' بنایا جاتا ہے ؟ یہ ہمارے حکمرانوں نے دنیا کو بتا دیا ۔
ٹی وی چینلز پر چلنے والے اس لائیو ڈرامے کے دوران ، میں نے دیکھا کہ اس صورتحال سے نمٹنے کا پلان اور طریقہ کار ہر اس شخص کے پاس موجود تھا ، جس نے نہ تو کبھی گن دیکھی، نہ چلائی اور نہ ہی کبھی اس کا کسی کمانڈو ایکشن سے زندگی میں واسطہ پڑا ۔ ان افراد میں چھابڑی والا ، دودھ والا، پرچون فروش ، بس کنڈیکٹر ، پان والا ، ہوٹل کا ٹیبل مین اور وہ فقیر بھی شامل تھا جو بھیک میں ملے ہوئے ایک سکے کے عوض اس مسئلے کا حل سستے داموں بتا رہا تھا اور سب سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ فقیر سمیت ہر شخص کے پاس اس صورتحال سے نمٹنے کا جو بھی طریقہ کار موجود تھا وہ بالکل درست تھا ۔ اگر کسی کے پاس اس مسئلے کا حل موجود نہ تھا تو وہ تھی اسلام آباد کی پولیس اور اس پولیس کو کمانڈ کرنے والے اعلیٰ حکومتی عہدے دار ۔
آخر کار زمرد خان نے اپنی جان پر کھیل کر یہ ثابت کیا کہ '' مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی '' ۔ یوں اس ڈرامے کا ڈراپ سین ہوگیا ۔ لیکن اسلام آباد کے سیکیورٹی اہلکاروں نے ڈرامے کے ڈراپ سین میں اپنی انٹری دیتے ہوئے یہ ثابت کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی کہ وہ کتنے نا اہل اور کتنے بوکھلائے ہوئے ہیں ، انھوں نے اپنی نااہلیت پر مہر تصدیق اس عمل سے لگائی کہ ملزم کی ٹانگوں پر گولی مارنے کے ساتھ ساتھ ایک عدد گولی اس کے پیٹ میں بھی اتار دی ۔ جس کے باعث اب ملزم کی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں ۔ اور اگر سکندر پیٹ میں لگنے والی گولی کے باعث اس دنیا سے خالی ہاتھوں چلا گیا تو حکومت بھی اس سازش کی کڑیاں ملانے اور اس کی تہہ تک پہنچنے کے معاملے میں خالی ہاتھ رہ جائے گی ، لہذا اس اہلکار کو بھی شامل تفتیش کرنا ضروری ہے ، جس نے غیر ضروری طور پر ملزم کے پیٹ میں گولی ماری تھی ۔ ویسے تھی بڑی دلچسپ صورتحال ۔
ایسی صورتحال امریکا یا یورپ کے کسی ملک میں رونما ہوتی تو ساری دنیا دیکھتی کہ ان کے کمانڈوز کتنی مہارت سے دہشت پھیلانے والے فرد پر قابو پالیتے۔ ایک شخص نے پورے اسلام آباد میں عجیب صورتحال پیدا کر دی اس سے پولیس اور انتظامیہ کی کمزوری سب کے سامنے آ گئی۔اب ضرورت اس بات کی ہے کہ پولیس کی تربیت کا انداز بدلا جائے۔
لیکن میں مسز سکندر کی مسلسل آنیاں جانیاں دیکھ کر جب کافی بور ہوگیا تو محلے کے ایک ایسے ہوٹل میں چائے پینے چلا گیا جہاں بڑی اسکرین کا ایک ٹی وی لگا ہوا ہے ۔ ٹیبل مین کہنے لگا '' صاحب یہ ایس پی صاحب اس کی بیوی کو واپس ہی کیوں جانے دیتے ہیں ؟ اسے لیڈی پولیس کے ہاتھوں پکڑوا کر تھانے کیوں نہیں روانہ کردیتے ؟'' میں نے شانے ہلا کر کہا '' اس کا جواب تو ایس ایس پی صاحب ہی دے سکتے ہیں ۔'' ایک دوسرے صاحب بولے'' بھائی پولیس والے عوام کو دور ہٹا کر گاڑی کے دو عدد ٹائروں پر دور سے فائر کر کے گاڑی کو بیکار کیوں نہیں کردیتے ؟'' میں نے کہا '' پولیس کے پاس دور مار رائفل نہ ہوگی '' میرا جواب سن کر ان صاحب نے اتنا برا منہ بنایا کہ مجھے ایک کپ چائے مزید منگوانی پڑی ۔ تھوڑی دیر بعد پان والا میرے پاس آکر بولا '' آخر مسئلہ کیا ہے ؟ یہ شخص اپنے ہی بچوں کو تو گولی مارنے سے رہا ۔ اس کی بیوی پولیس کے پاس کھڑی ہوئی بات کر رہی ہے ، یہ دروازہ کھول کر مزے سے کولڈ ڈرنک پی رہا ہے ۔
جب ٹی وی کا کیمرا اسے اتنے کلوز میں دکھا رہا ہے تو میں نے انگلش فلموں میں جو دوربین والی رائفل دیکھی ہے ، اس کے ذریعے اس کی ٹانگوں پر فائر کیوں نہیں کیا جاتا '' ؟ میں نے اسے چڑانے کی غرض سے جواب دیا '' پولیس کے پاس تمہاری جیسی عقل نہ ہوگی ۔'' اس پر اس نے مسکرا کر کہا '' پھر مجھے پولیس میں بھرتی کروائیے اور پولیس کو پان بیچنے کا کام سونپ دیجیے۔ '' میں نے مایوسی سے سر ہلا کر جواب دیا '' یہ بھی نا ممکن ہے ، کیونکہ تم کسی سیاسی جماعت کے سرگرم اور قربانی دینے والے کارکن کبھی نہیں رہے،اس لیے کسی بھی قسم کی سرکاری نوکری کے لیے نا اہل ہو۔ '' وہ ہنستا ہوا واپس چلا گیا ۔تھوڑی دیر بعد ایک صاحب نے ہانک لگائی '' آخر پولیس کے کمانڈوز ہیں کدھر؟'' اس سوال کا کسی جانب سے ترنت ہی جواب آیا '' وہ آئی جی صاحب اور دیگر وزیروں کی حفاظت کے لیے مستعد کھڑے ہیں اور انھیں اپنی جگہ سے ہلنے کی بھی اجازت نہیں ہے '' اور میرے نزدیک یہی اس سارے فساد کی اصل جڑ تھی۔
ہم نے اپنی جان و مال کی حفاظت کا ذمہ ایسے رکھوالوں کو سونپ رکھا ہے ، جو خود خوفزدہ ہیں ، زمرد خان جیسی بہادری انھیں چھو کر بھی نہیں گزری ۔ اور ان خوفزدہ رکھوالوں کی حفاظت پر جو اہلکار تعینات ہیں وہ اس کام میں تو بڑے ماہر ہیں کہ ان رکھوالوں سے عوام کو تو دور رکھیں ، جو نہتے ہیں ، لیکن کسی ہتھیار بند یا مسلح شخص سے ان کا واسطہ پڑ جائے تو یہ بغلیں جھانکتے رہ جاتے ہیں ۔ ان رکھوالوں کی گزرگاہ پر یہ کسی چڑیا کو بھی پر مارنے کی اجازت نہیں دیتے ، خواہ رکشے میں ہی کسی بچے کی ولادت ہوجائے ۔ لیکن اسلحہ برداروں کو دیکھ کر یہ خود اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا اسلحہ چلانا بھی بھول جاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ پورے ملک میں مسلح دہشت گرد جگہ جگہ حکومت کی رٹ کو چیلنج کرتے پھر رہے ہیں ۔ اور حکمران میڈیا پر یہ شکوہ کرتے نظر آتے ہیںکہ '' قومی سلامتی کی پالیسی پچھلے تیرہ برسوں میں کسی نے نہیں بنائی تو انھیں تو کوئی کچھ نہیں کہتا ، لیکن ہم پر دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ فوری پالیسی بناؤ ۔ پالیسی بنانے میں کچھ وقت تو لگتا ہی ہے ، ہمیں وہ وقت دیا جائے۔ ''
حکمرانوں کی خدمت میں عرض ہے کہ کتنا وقت ؟ عوام کے پاس تو اب مرنے کے لیے بھی بالکل وقت نہیں ہے ۔ روزانہ درجنوں عوام '' بے وقت '' کی موت مارے جارہے ہیں اور آپ وقت مانگ رہے ہیں ۔ یہ جواز بھی خوب ہے کہ دوسرے چور کو نہیں پکڑا جاتا ، لیکن ہماری نقل و حرکت پر نظر رکھی جاتی ہے ۔ اگر کوئی شخص چوری کرے تو دوسروں کے لیے چوری جائز نہیں ہوجاتی ۔ تیرہ سال سے اگر پالیسی نہیں بنی تو آپ بنائیے ۔ اس ملک کے نہتے ووٹرز سے دور رہ کر اور حفاظتی بینکروں میں بیٹھ کر وقت مانگنا بہت ہی آسان ہے ۔ لیکن گن پوائنٹ پر بھتہ دے کر اور اغوا ہو کر تاوان ادا کرنے کے بعد زندگی کا کچھ وقت مزید خریدنا بہت مشکل ہے ۔ بم دھماکے اور ٹارگٹ کلنگز تو بالکل ہی وقت دینے پر تیار نظر نہیں آتیں۔ بات صرف عوام تک ہی محدود نہ رہے گی ۔ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو اس آگ کے شعلے ان خوفزدہ رکھوالوں تک پہنچنے میں بالکل وقت نہیں لگائیں گے ۔ غضب خدا کا دس ہزار میں سے آٹھ ہزار پولیس اہلکار ان رکھوالوں کی حفاظت پر مامور ہیں اور باقی دو ہزار کی نفری پر پورا شہر چھوڑا ہوا ہے ۔ ایسے میں اگر صرف ایک شخص پورے دارالحکومت کو یرغمال بنا لیتا ہے تو اس پر حیرت کیسی ؟ جو چرواھا خود خوفزدہ ہو ، وہ اپنے ریوڑ کی حفاظت کیسے کر سکتا ہے ؟
ٹی وی چینلز پر چلنے والے اس لائیو ڈرامے کے دوران ، میں نے دیکھا کہ اس صورتحال سے نمٹنے کا پلان اور طریقہ کار ہر اس شخص کے پاس موجود تھا ، جس نے نہ تو کبھی گن دیکھی، نہ چلائی اور نہ ہی کبھی اس کا کسی کمانڈو ایکشن سے زندگی میں واسطہ پڑا ۔ ان افراد میں چھابڑی والا ، دودھ والا، پرچون فروش ، بس کنڈیکٹر ، پان والا ، ہوٹل کا ٹیبل مین اور وہ فقیر بھی شامل تھا جو بھیک میں ملے ہوئے ایک سکے کے عوض اس مسئلے کا حل سستے داموں بتا رہا تھا اور سب سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ فقیر سمیت ہر شخص کے پاس اس صورتحال سے نمٹنے کا جو بھی طریقہ کار موجود تھا وہ بالکل درست تھا ۔ اگر کسی کے پاس اس مسئلے کا حل موجود نہ تھا تو وہ تھی اسلام آباد کی پولیس اور اس پولیس کو کمانڈ کرنے والے اعلیٰ حکومتی عہدے دار ۔
آخر کار زمرد خان نے اپنی جان پر کھیل کر یہ ثابت کیا کہ '' مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی '' ۔ یوں اس ڈرامے کا ڈراپ سین ہوگیا ۔ لیکن اسلام آباد کے سیکیورٹی اہلکاروں نے ڈرامے کے ڈراپ سین میں اپنی انٹری دیتے ہوئے یہ ثابت کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی کہ وہ کتنے نا اہل اور کتنے بوکھلائے ہوئے ہیں ، انھوں نے اپنی نااہلیت پر مہر تصدیق اس عمل سے لگائی کہ ملزم کی ٹانگوں پر گولی مارنے کے ساتھ ساتھ ایک عدد گولی اس کے پیٹ میں بھی اتار دی ۔ جس کے باعث اب ملزم کی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں ۔ اور اگر سکندر پیٹ میں لگنے والی گولی کے باعث اس دنیا سے خالی ہاتھوں چلا گیا تو حکومت بھی اس سازش کی کڑیاں ملانے اور اس کی تہہ تک پہنچنے کے معاملے میں خالی ہاتھ رہ جائے گی ، لہذا اس اہلکار کو بھی شامل تفتیش کرنا ضروری ہے ، جس نے غیر ضروری طور پر ملزم کے پیٹ میں گولی ماری تھی ۔ ویسے تھی بڑی دلچسپ صورتحال ۔
ایسی صورتحال امریکا یا یورپ کے کسی ملک میں رونما ہوتی تو ساری دنیا دیکھتی کہ ان کے کمانڈوز کتنی مہارت سے دہشت پھیلانے والے فرد پر قابو پالیتے۔ ایک شخص نے پورے اسلام آباد میں عجیب صورتحال پیدا کر دی اس سے پولیس اور انتظامیہ کی کمزوری سب کے سامنے آ گئی۔اب ضرورت اس بات کی ہے کہ پولیس کی تربیت کا انداز بدلا جائے۔
لیکن میں مسز سکندر کی مسلسل آنیاں جانیاں دیکھ کر جب کافی بور ہوگیا تو محلے کے ایک ایسے ہوٹل میں چائے پینے چلا گیا جہاں بڑی اسکرین کا ایک ٹی وی لگا ہوا ہے ۔ ٹیبل مین کہنے لگا '' صاحب یہ ایس پی صاحب اس کی بیوی کو واپس ہی کیوں جانے دیتے ہیں ؟ اسے لیڈی پولیس کے ہاتھوں پکڑوا کر تھانے کیوں نہیں روانہ کردیتے ؟'' میں نے شانے ہلا کر کہا '' اس کا جواب تو ایس ایس پی صاحب ہی دے سکتے ہیں ۔'' ایک دوسرے صاحب بولے'' بھائی پولیس والے عوام کو دور ہٹا کر گاڑی کے دو عدد ٹائروں پر دور سے فائر کر کے گاڑی کو بیکار کیوں نہیں کردیتے ؟'' میں نے کہا '' پولیس کے پاس دور مار رائفل نہ ہوگی '' میرا جواب سن کر ان صاحب نے اتنا برا منہ بنایا کہ مجھے ایک کپ چائے مزید منگوانی پڑی ۔ تھوڑی دیر بعد پان والا میرے پاس آکر بولا '' آخر مسئلہ کیا ہے ؟ یہ شخص اپنے ہی بچوں کو تو گولی مارنے سے رہا ۔ اس کی بیوی پولیس کے پاس کھڑی ہوئی بات کر رہی ہے ، یہ دروازہ کھول کر مزے سے کولڈ ڈرنک پی رہا ہے ۔
جب ٹی وی کا کیمرا اسے اتنے کلوز میں دکھا رہا ہے تو میں نے انگلش فلموں میں جو دوربین والی رائفل دیکھی ہے ، اس کے ذریعے اس کی ٹانگوں پر فائر کیوں نہیں کیا جاتا '' ؟ میں نے اسے چڑانے کی غرض سے جواب دیا '' پولیس کے پاس تمہاری جیسی عقل نہ ہوگی ۔'' اس پر اس نے مسکرا کر کہا '' پھر مجھے پولیس میں بھرتی کروائیے اور پولیس کو پان بیچنے کا کام سونپ دیجیے۔ '' میں نے مایوسی سے سر ہلا کر جواب دیا '' یہ بھی نا ممکن ہے ، کیونکہ تم کسی سیاسی جماعت کے سرگرم اور قربانی دینے والے کارکن کبھی نہیں رہے،اس لیے کسی بھی قسم کی سرکاری نوکری کے لیے نا اہل ہو۔ '' وہ ہنستا ہوا واپس چلا گیا ۔تھوڑی دیر بعد ایک صاحب نے ہانک لگائی '' آخر پولیس کے کمانڈوز ہیں کدھر؟'' اس سوال کا کسی جانب سے ترنت ہی جواب آیا '' وہ آئی جی صاحب اور دیگر وزیروں کی حفاظت کے لیے مستعد کھڑے ہیں اور انھیں اپنی جگہ سے ہلنے کی بھی اجازت نہیں ہے '' اور میرے نزدیک یہی اس سارے فساد کی اصل جڑ تھی۔
ہم نے اپنی جان و مال کی حفاظت کا ذمہ ایسے رکھوالوں کو سونپ رکھا ہے ، جو خود خوفزدہ ہیں ، زمرد خان جیسی بہادری انھیں چھو کر بھی نہیں گزری ۔ اور ان خوفزدہ رکھوالوں کی حفاظت پر جو اہلکار تعینات ہیں وہ اس کام میں تو بڑے ماہر ہیں کہ ان رکھوالوں سے عوام کو تو دور رکھیں ، جو نہتے ہیں ، لیکن کسی ہتھیار بند یا مسلح شخص سے ان کا واسطہ پڑ جائے تو یہ بغلیں جھانکتے رہ جاتے ہیں ۔ ان رکھوالوں کی گزرگاہ پر یہ کسی چڑیا کو بھی پر مارنے کی اجازت نہیں دیتے ، خواہ رکشے میں ہی کسی بچے کی ولادت ہوجائے ۔ لیکن اسلحہ برداروں کو دیکھ کر یہ خود اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا اسلحہ چلانا بھی بھول جاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ پورے ملک میں مسلح دہشت گرد جگہ جگہ حکومت کی رٹ کو چیلنج کرتے پھر رہے ہیں ۔ اور حکمران میڈیا پر یہ شکوہ کرتے نظر آتے ہیںکہ '' قومی سلامتی کی پالیسی پچھلے تیرہ برسوں میں کسی نے نہیں بنائی تو انھیں تو کوئی کچھ نہیں کہتا ، لیکن ہم پر دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ فوری پالیسی بناؤ ۔ پالیسی بنانے میں کچھ وقت تو لگتا ہی ہے ، ہمیں وہ وقت دیا جائے۔ ''
حکمرانوں کی خدمت میں عرض ہے کہ کتنا وقت ؟ عوام کے پاس تو اب مرنے کے لیے بھی بالکل وقت نہیں ہے ۔ روزانہ درجنوں عوام '' بے وقت '' کی موت مارے جارہے ہیں اور آپ وقت مانگ رہے ہیں ۔ یہ جواز بھی خوب ہے کہ دوسرے چور کو نہیں پکڑا جاتا ، لیکن ہماری نقل و حرکت پر نظر رکھی جاتی ہے ۔ اگر کوئی شخص چوری کرے تو دوسروں کے لیے چوری جائز نہیں ہوجاتی ۔ تیرہ سال سے اگر پالیسی نہیں بنی تو آپ بنائیے ۔ اس ملک کے نہتے ووٹرز سے دور رہ کر اور حفاظتی بینکروں میں بیٹھ کر وقت مانگنا بہت ہی آسان ہے ۔ لیکن گن پوائنٹ پر بھتہ دے کر اور اغوا ہو کر تاوان ادا کرنے کے بعد زندگی کا کچھ وقت مزید خریدنا بہت مشکل ہے ۔ بم دھماکے اور ٹارگٹ کلنگز تو بالکل ہی وقت دینے پر تیار نظر نہیں آتیں۔ بات صرف عوام تک ہی محدود نہ رہے گی ۔ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو اس آگ کے شعلے ان خوفزدہ رکھوالوں تک پہنچنے میں بالکل وقت نہیں لگائیں گے ۔ غضب خدا کا دس ہزار میں سے آٹھ ہزار پولیس اہلکار ان رکھوالوں کی حفاظت پر مامور ہیں اور باقی دو ہزار کی نفری پر پورا شہر چھوڑا ہوا ہے ۔ ایسے میں اگر صرف ایک شخص پورے دارالحکومت کو یرغمال بنا لیتا ہے تو اس پر حیرت کیسی ؟ جو چرواھا خود خوفزدہ ہو ، وہ اپنے ریوڑ کی حفاظت کیسے کر سکتا ہے ؟