کراچی سرکلر ریلوے کا ’’ریڈ سگنل‘‘ کب ’’گرین ‘‘ ہوگا
شہری علاقے میں سڑک پر چلنے والی ٹریفک کے درمیان یا ساتھ ساتھ ریل گاڑی بھی چل رہی ہو تو وہ منظر ہی بہت دلکش ہوتا ہے۔
٭ شہرکراچی سے ملک کے مختلف شہروں کا بذریعہ ریل گاڑی سفرکرنے والے جب سفر شروع کرتے ہیں تو سٹی اسٹیشن، کینٹ اسٹیشن، ڈرگ روڈ، لانڈھی، بن قاسم اور دیگر اسٹیشنوں سے گزرتے وقت شہرکی عمارتیں، سڑکیں، کچھ بازار اور دیگر نظارے بھی اُن کے ہمسفر ہوتے ہیں۔ ریل کی پٹڑی کے ساتھ ساتھ سڑک پر چلنے و الی گاڑیاں، گھروں اور رہائشی علاقوں میں ریل کا نظارہ کرتے لوگ، پھاٹک بند ہونے کی وجہ سے جمع افراد اور دیگر مناظر بہت اچھے لگتے ہیں۔ جب گاڑی شہری علاقے سے باہر نکل جاتی ہے تو میدان، کھیت، دریا، پہاڑ رہ جاتے ہیں۔
شہری علاقے میں سڑک پر چلنے والی ٹریفک کے درمیان یا ساتھ ساتھ ریل گاڑی بھی چل رہی ہو تو وہ منظر ہی بہت دلکش ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو ایسے مناظر عام ہیں لیکن ہمارے شہر کراچی میں بھی لوگوں نے برسوں ''کراچی سرکلر ریلوے'' کے ذریعے ان مناظرکو دیکھا ہے اور اُن سے محظوظ ہوئے ہیں لیکن بد قسمتی کہیں یا المیہ کہ نئی نسل کے لیے کراچی سرکلر ریلوے صرف افسانوی بات بن چکی ہے یا کتابوں میں اس کا ذکر ملتا ہے۔ اس کے علاوہ شہر کے مختلف علاقوں میں مکانات اور بازاروں میں چُھپے یا تجاوزات میں دبے ٹریک کی نشانیاں بتاتی ہیں کہ پہلے کسی زمانے میں یہاں سے مسافر ٹرین گزری ہو گی۔
میں خود کو اُن خوش نصیب لوگوں میں سے ایک سمجھتا ہوں جنہوں نے ایک شہر سے دوسرے شہر جانے والی ریل گاڑیوں کے علاوہ اپنے شہر کراچی میں لوکل ٹرین بھی چلتے دیکھی ہے اور اس میں سفر بھی کیا ہے۔
گو کہ سب گاڑیوں میں ریل گاڑی سب سے طویل ہوتی ہے لیکن شہر کراچی میں سرکلر ریلوے کا سفر زیادہ طویل ثابت نہیں ہُوا۔ اگر یہ کہوں تو غلط نہ ہو گا کہ انتظامی کوتاہیوں، سیاسی مفادات کی جنگ، بدعنوانی، قبضہ مافیا کی خواہشات اور عوام اور ان کی خواہشات کو نظر انداز کرنے کی پالیسیوں کے تسلسل نے شہر قائد کے باسیوں سے ایک سستی سواری چھین لی۔
اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آج کراچی کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک سفر کرنے والے لاکھوں شہری کم از کم 100 روپے روزانہ کرایوں کی مد میں خرچ کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر چنگچی رکشوں میں نارتھ کراچی، سرجانی ٹاؤن سے صدر اور ٹاور جایا جائے، کورنگی، لانڈھی سے صدر یا نارتھ کراچی کا سفر کریں یا صدر سے ملیر، قائد آباد جائیں یا آئیں تو یکطرفہ کرایہ کم از کم 60 اور 70 روپے وصول کیا جاتا ہے۔ اسی طرح منی بسیں 30 روپے اور 40 روپے وصول کرتی ہیں جب کہ کہیں کہیں تو یہ کرایہ 50 روپے تک بھی پہنچ جاتا ہے۔ اب ذرا سوچیں کہ شہر کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک کا یہی سفر اگر ریل گاڑی میںہو گا تو کرایہ اس سے کہیں کم دینا پڑے گا۔ اس سے عوام کو ایک پُرسکون اور آرام دہ سفر کا ذریعہ بھی میسر آ سکتا ہے تو دوسری جانب جیب پر مسلسل پڑنے والا بوجھ بھی کم ہو گا لیکن ایسا لگتا ہے کہ ابھی یہ منزل دُور ہے۔
حکومتی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان ریلویز نے 1969ء میں کراچی سرکلر ریلوے کا آغاز کیا جس کا مقصد شہریوں کو آرام دہ سفری سہولت مہیا کرنا تھا۔ کراچی سرکلر ریلوے لائن ڈرگ روڈ ریلوے اسٹیشن سے شروع ہو کر لیاقت آباد سے ہوتی ہوئی سٹی اسٹیشن پر ختم ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ پاکستان ریلویز کی مرکزی لائن پر بھی لوکل ٹرینیں چلائی جاتی تھیں۔ یہ سروس کراچی والوں میں بے حد مقبول تھی اور لوگ سرکلر ریلوے سے بھرپور استفادہ حٓصل کرتے تھے۔
لوگ بتاتے ہیں کہ 1970ء اور 1980ء کی دہائی میں کراچی سرکلر ریلوے عروج پر تھی اور روزانہ 100 سے زائد ٹرینیں شہر کے مختلف علاقوں میں چلتی تھیں لیکن پھر ''مفاد پرستوں'' کو یہ ٹرین اپنے مفادات پر گزرتی نظر آئی اور مختلف اقدامات، سازشوں، کارروائیوں، تاخیری حربوں اور حکومتوں کی نااہلی کی وجہ سے کراچی سرکلر ریلوے تباہ ہوتی چلی گئی۔ 1994ء میں کراچی سرکلر ریلوے کی بہت سی ٹرینیں خسارے کی وجہ سے بند کر دی گئیں جب کہ 1999ء میں کراچی سرکلر ریلوے کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا۔
گزشتہ دنوں وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید نے دورہ کراچی کے دوران کہا کہ ''اگر کراچی سرکلر ریلوے وزیر اعظم عمران خان کی حکومت میں نہ بنا تو پھر کبھی نہیں بنے گا۔ ابھی تو اس کی فزیبلٹی رپورٹ بھی تیار نہیں'' وفاقی وزیر کی جانب سے یہ بات بہت اہم ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ حکومتی سطح پر کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کی خواہش ضرور ہو گی لیکن اس اربوں روپے مالیت کے اہم منصوبے کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے بہت کٹھن سفر طے کرنا ہو گا۔ سرکلر ریلوے ٹریک کی مجموعی لمبائی تقریباً 50 کلومیٹر بتائی جاتی ہے لیکن اگر آپ اس کے ٹریک پر سفر شروع کریں، اس کا جائزہ لیں تو آپ کو چند کلومیٹر پر ہی ریلوے لائن نظر آئے گی، باقی کچھ رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ حکومت سندھ کو سرکلر ریلوے منصوبے کے لیے 360 ایکڑ زمین درکار ہے جس میں سے 70 ایکڑ پر قبضہ ہے، لوگوں نے ریلوے ٹریک اور اسٹیشنوں کی جگہ اپنے گھروں اور دیگر تعمیرات کے لیے ''وقف'' کی ہوئی ہے۔ سب سے بڑا مرحلہ اور مسئلہ تو ریلوے اسٹیشنوں اور ریلوے لائنوں پر موجود تجاوزات کو ختم کرنا ہے اور ان کے درمیان ''دفن'' ریلوے ٹریک'' کو بازیاب کرانا ہے۔
پھر جو لوگ قبضہ کیے ہوئے یا انھوں نے وہ جگہ سرکاری اداروں یا افسران کی ملی بھگت اور حمایت سے حاصل کی ہے، انھیں وہاں سے ہٹانا اور کسی دوسری جگہ پر آباد کرنا بھی بڑا کام ہو گا۔ یہ بات طے ہے کہ سرکاری اداروں کی پشت پناہی کے بغیر کوئی شہر میں ایک فٹ کی جگہ پر بھی قبضہ نہیں کر سکتا۔ اُن ذمے داروں کو بھی عوام کے سامنے لانا چاہیے جنہوں نے شہریوں سے ''سرکلر ریلوے'' چھین لی۔ اُن کے چہرے بھی بے نقاب ہونے کا وقت آ گیا ہے جن کے مفادات کو کراچی سرکلر ریلوے سے نقصان پہنچ رہا تھا اور انھوں نے اس کی تباہی میں بھرپور کردار ادا کیا۔ یہ کیسے ہو گا؟ یہ کام حکومتی ماہرین نے شہری حلقوں کے ساتھ مل کر ہی انجام دینا ہے۔
شہر کراچی کی ''خستہ حالی'' کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ یہاں ہر کام ''سیاسی'' ہو جاتا ہے۔ ہر جماعت اپنے اپنے مفادات اور پالیسیوں کے تحت ہر منصوبے پر بیان بازی بھی کرتی ہے، برسراقتدار جماعتیں اپنی سوچ کے مطابق کام کرتی ہیں تو حزب اختلاف میں بیٹھے لوگ اپنے منشور کی تقلید کرتے ہیں۔ اس کشمکش میں اور کچھ ہو یا نہ ہو، شہریوں کا کام نہیں ہوتا۔ کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کا بیڑہ اٹھانے والوں کو بھی یہ بات ذہن میں رکھنی ہو گی۔
گو کہ سپریم کورٹ کے احکام پر سرکلر ریلوے کی جگہ پر بنی املاک اور تجاوزات کو ختم کرنے کے لیے آپریشن بھی ہُوا لیکن یہ کام بہت سمجھداری، بُردباری، بغیر کسی جانبداری کے کرنے کا ہے۔
کراچی سرکلر ریلوے کے سفر میں ''ریڈ سگنل'' بہت زیادہ ہیں، ہمیں ''گرین سگنل'' چاہیے تاکہ کراچی والوں کی پسندیدہ سواری ٹریک پر بھرپور رفتار سے دوڑ سکے۔
شہری علاقے میں سڑک پر چلنے والی ٹریفک کے درمیان یا ساتھ ساتھ ریل گاڑی بھی چل رہی ہو تو وہ منظر ہی بہت دلکش ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو ایسے مناظر عام ہیں لیکن ہمارے شہر کراچی میں بھی لوگوں نے برسوں ''کراچی سرکلر ریلوے'' کے ذریعے ان مناظرکو دیکھا ہے اور اُن سے محظوظ ہوئے ہیں لیکن بد قسمتی کہیں یا المیہ کہ نئی نسل کے لیے کراچی سرکلر ریلوے صرف افسانوی بات بن چکی ہے یا کتابوں میں اس کا ذکر ملتا ہے۔ اس کے علاوہ شہر کے مختلف علاقوں میں مکانات اور بازاروں میں چُھپے یا تجاوزات میں دبے ٹریک کی نشانیاں بتاتی ہیں کہ پہلے کسی زمانے میں یہاں سے مسافر ٹرین گزری ہو گی۔
میں خود کو اُن خوش نصیب لوگوں میں سے ایک سمجھتا ہوں جنہوں نے ایک شہر سے دوسرے شہر جانے والی ریل گاڑیوں کے علاوہ اپنے شہر کراچی میں لوکل ٹرین بھی چلتے دیکھی ہے اور اس میں سفر بھی کیا ہے۔
گو کہ سب گاڑیوں میں ریل گاڑی سب سے طویل ہوتی ہے لیکن شہر کراچی میں سرکلر ریلوے کا سفر زیادہ طویل ثابت نہیں ہُوا۔ اگر یہ کہوں تو غلط نہ ہو گا کہ انتظامی کوتاہیوں، سیاسی مفادات کی جنگ، بدعنوانی، قبضہ مافیا کی خواہشات اور عوام اور ان کی خواہشات کو نظر انداز کرنے کی پالیسیوں کے تسلسل نے شہر قائد کے باسیوں سے ایک سستی سواری چھین لی۔
اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آج کراچی کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک سفر کرنے والے لاکھوں شہری کم از کم 100 روپے روزانہ کرایوں کی مد میں خرچ کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر چنگچی رکشوں میں نارتھ کراچی، سرجانی ٹاؤن سے صدر اور ٹاور جایا جائے، کورنگی، لانڈھی سے صدر یا نارتھ کراچی کا سفر کریں یا صدر سے ملیر، قائد آباد جائیں یا آئیں تو یکطرفہ کرایہ کم از کم 60 اور 70 روپے وصول کیا جاتا ہے۔ اسی طرح منی بسیں 30 روپے اور 40 روپے وصول کرتی ہیں جب کہ کہیں کہیں تو یہ کرایہ 50 روپے تک بھی پہنچ جاتا ہے۔ اب ذرا سوچیں کہ شہر کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک کا یہی سفر اگر ریل گاڑی میںہو گا تو کرایہ اس سے کہیں کم دینا پڑے گا۔ اس سے عوام کو ایک پُرسکون اور آرام دہ سفر کا ذریعہ بھی میسر آ سکتا ہے تو دوسری جانب جیب پر مسلسل پڑنے والا بوجھ بھی کم ہو گا لیکن ایسا لگتا ہے کہ ابھی یہ منزل دُور ہے۔
حکومتی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان ریلویز نے 1969ء میں کراچی سرکلر ریلوے کا آغاز کیا جس کا مقصد شہریوں کو آرام دہ سفری سہولت مہیا کرنا تھا۔ کراچی سرکلر ریلوے لائن ڈرگ روڈ ریلوے اسٹیشن سے شروع ہو کر لیاقت آباد سے ہوتی ہوئی سٹی اسٹیشن پر ختم ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ پاکستان ریلویز کی مرکزی لائن پر بھی لوکل ٹرینیں چلائی جاتی تھیں۔ یہ سروس کراچی والوں میں بے حد مقبول تھی اور لوگ سرکلر ریلوے سے بھرپور استفادہ حٓصل کرتے تھے۔
لوگ بتاتے ہیں کہ 1970ء اور 1980ء کی دہائی میں کراچی سرکلر ریلوے عروج پر تھی اور روزانہ 100 سے زائد ٹرینیں شہر کے مختلف علاقوں میں چلتی تھیں لیکن پھر ''مفاد پرستوں'' کو یہ ٹرین اپنے مفادات پر گزرتی نظر آئی اور مختلف اقدامات، سازشوں، کارروائیوں، تاخیری حربوں اور حکومتوں کی نااہلی کی وجہ سے کراچی سرکلر ریلوے تباہ ہوتی چلی گئی۔ 1994ء میں کراچی سرکلر ریلوے کی بہت سی ٹرینیں خسارے کی وجہ سے بند کر دی گئیں جب کہ 1999ء میں کراچی سرکلر ریلوے کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا۔
گزشتہ دنوں وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید نے دورہ کراچی کے دوران کہا کہ ''اگر کراچی سرکلر ریلوے وزیر اعظم عمران خان کی حکومت میں نہ بنا تو پھر کبھی نہیں بنے گا۔ ابھی تو اس کی فزیبلٹی رپورٹ بھی تیار نہیں'' وفاقی وزیر کی جانب سے یہ بات بہت اہم ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ حکومتی سطح پر کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کی خواہش ضرور ہو گی لیکن اس اربوں روپے مالیت کے اہم منصوبے کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے بہت کٹھن سفر طے کرنا ہو گا۔ سرکلر ریلوے ٹریک کی مجموعی لمبائی تقریباً 50 کلومیٹر بتائی جاتی ہے لیکن اگر آپ اس کے ٹریک پر سفر شروع کریں، اس کا جائزہ لیں تو آپ کو چند کلومیٹر پر ہی ریلوے لائن نظر آئے گی، باقی کچھ رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ حکومت سندھ کو سرکلر ریلوے منصوبے کے لیے 360 ایکڑ زمین درکار ہے جس میں سے 70 ایکڑ پر قبضہ ہے، لوگوں نے ریلوے ٹریک اور اسٹیشنوں کی جگہ اپنے گھروں اور دیگر تعمیرات کے لیے ''وقف'' کی ہوئی ہے۔ سب سے بڑا مرحلہ اور مسئلہ تو ریلوے اسٹیشنوں اور ریلوے لائنوں پر موجود تجاوزات کو ختم کرنا ہے اور ان کے درمیان ''دفن'' ریلوے ٹریک'' کو بازیاب کرانا ہے۔
پھر جو لوگ قبضہ کیے ہوئے یا انھوں نے وہ جگہ سرکاری اداروں یا افسران کی ملی بھگت اور حمایت سے حاصل کی ہے، انھیں وہاں سے ہٹانا اور کسی دوسری جگہ پر آباد کرنا بھی بڑا کام ہو گا۔ یہ بات طے ہے کہ سرکاری اداروں کی پشت پناہی کے بغیر کوئی شہر میں ایک فٹ کی جگہ پر بھی قبضہ نہیں کر سکتا۔ اُن ذمے داروں کو بھی عوام کے سامنے لانا چاہیے جنہوں نے شہریوں سے ''سرکلر ریلوے'' چھین لی۔ اُن کے چہرے بھی بے نقاب ہونے کا وقت آ گیا ہے جن کے مفادات کو کراچی سرکلر ریلوے سے نقصان پہنچ رہا تھا اور انھوں نے اس کی تباہی میں بھرپور کردار ادا کیا۔ یہ کیسے ہو گا؟ یہ کام حکومتی ماہرین نے شہری حلقوں کے ساتھ مل کر ہی انجام دینا ہے۔
شہر کراچی کی ''خستہ حالی'' کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ یہاں ہر کام ''سیاسی'' ہو جاتا ہے۔ ہر جماعت اپنے اپنے مفادات اور پالیسیوں کے تحت ہر منصوبے پر بیان بازی بھی کرتی ہے، برسراقتدار جماعتیں اپنی سوچ کے مطابق کام کرتی ہیں تو حزب اختلاف میں بیٹھے لوگ اپنے منشور کی تقلید کرتے ہیں۔ اس کشمکش میں اور کچھ ہو یا نہ ہو، شہریوں کا کام نہیں ہوتا۔ کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کا بیڑہ اٹھانے والوں کو بھی یہ بات ذہن میں رکھنی ہو گی۔
گو کہ سپریم کورٹ کے احکام پر سرکلر ریلوے کی جگہ پر بنی املاک اور تجاوزات کو ختم کرنے کے لیے آپریشن بھی ہُوا لیکن یہ کام بہت سمجھداری، بُردباری، بغیر کسی جانبداری کے کرنے کا ہے۔
کراچی سرکلر ریلوے کے سفر میں ''ریڈ سگنل'' بہت زیادہ ہیں، ہمیں ''گرین سگنل'' چاہیے تاکہ کراچی والوں کی پسندیدہ سواری ٹریک پر بھرپور رفتار سے دوڑ سکے۔