پولیس اہلکار 15 ماہ کے دوران 9 شہریوں کے قاتل بن گئے

شہریوں کی جان لینے والے پولیس اہلکاروں کیخلاف کارروائی صرف معطلی یاکمزورترین مقدمے تک محدود

مقتولین میں ڈاکٹرنمرہ بیگ،مقصود،شیرخوار احسن،سجاد، بلال،10سالہ امل،نفیس بلوچ،مصعب،انتظار احمد شامل ہیں ۔فوٹو:ایکسپریس

کراچی میں گزشتہ سال 13جنوری سے لے کراب تک شہرکی سڑکوں پر9معصوم شہری مبینہ پولیس مقابلوں اورپولیس اہلکاروں کی سنگین غفلت ولاپروائی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔

شہر میں مبینہ پولیس مقابلوں کے دوران سنگین غفلت ولاپروائی کے باعث عام شہریوں کی ہلاکت کے واقعات بڑھ رہے ہیں، اب تک 2 بچوں اورمیڈیکل کی طالبہ سمیت 9 افراد مبینہ پولیس مقابلوں اورپولیس اہلکاروں کی سنگین غفلت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔

رواں سال 6 اپریل کو قائد آباد کے علاقے میں پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے12 سالہ سجاد جاں بحق جبکہ 10سالہ عمر زخمی ہوا تھا، 22 فروری کو نارتھ کراچی انڈا موڑکے قریب مبینہ پولیس مقابلے کے دوران فائرنگ سے رکشے میں سوار میڈیکل کی طالبہ اورمستقبل کی ڈاکٹر نمرہ بیگ جاں بحق ہو گئی تھی۔

گزشتہ برس25 اگست کی شام گڈاپ ٹاؤن میں پولیس اور منشیات فروشوں کے درمیان راہ گیر نوجوان طالب علم بلال جاں بحق ہوگیا تھا۔ 13اگست کی شب ڈیفنس میں اناڑی پولیس اہلکاروں نے ڈاکؤوں کو دیکھ کرایسی گولیاں برسائیں کہ کارسوار10 سالہ بچی امل بھی پولیس کی فائرنگ کی زد میں آکر زندگی ہار بیٹھی تھی۔

یکم اگست2018 کو بھی نارتھ کراچی میں پولیس اور موٹر سائیکل لفٹرز کے مابین مبینہ فائرنگ کے تبادلے میں بزرگ رکشہ ڈرائیورنفیس بلوچ جاں بحق ہوگیا تھا، 16 جون 2018 کی شام مبینہ ٹاؤن کے علاقے میں بھی ایس پی ہیڈ کوارٹر قمر عباس کے پانچ رکنی اسکواڈ نے ڈاکؤوں کو پکڑنے کی ایسی کوشش کی کہ ڈاکو صرف زخمی ہوا اور مصعب نامی شہری زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھا تھا۔

20 جنوری2018 کی صبح شارع فیصل پر پولیس نے ڈاکوؤں کا ایسا تعاقب کیا کہ فائرنگ کرکے رکشے میں سوار راہ گیر نوجوان مقصود کو ہی قتل کرڈالا،جو گھر کا واحد کفیل اور 5 بہنوںکا اکلوتا بھائی تھا،13جنوری2018کی شب ڈیفنس میں اینٹی کارلفٹنگ سیل کے اہلکاروں کی گولیوں کا نشانہ بن کر انتظار احمد نامی نوجوان زندگی ہار بیٹھا تھا جو اپنے بوڑھے ماں باپ کی اکلوتی اولاد اور واحد سہارا تھا۔


پولیس کی جانب سے سرعام شہریوں کو نشانہ بنانے کے کیسزمیں ملزمان گرفتار تو ہوجاتے ہیں لیکن تفتیشی حکام اپنے پیٹی بند بھائیوں کو بچانے کیلیے مختلف حربے استعمال کرتے ہیں جس کے باعث تاحال کوئی بھی کیس اپنے منتقی انجام تک نہیں پہنچ پایا۔

3سالگزر گئے ، پولیس فائرنگ سے ہلاک نوجوان کے اہلخانہ کوانصاف نہ مل سکا

گذری کے علاقے میں تین سال قبل پولیس کی مبینہ فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے شہریار کے بڑے بھائی اظہار نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ 17 جنوری 2016 کی رات گذری کے علاقے خیابان اتحاد فیز 6 کے قریب سی ویو گھومنے جانے والے میرے چھوٹے بھائی شہریار پولیس اہلکار کی مبینہ فائرنگ سے شدید زخمی ہوا تھا جسے اس کے ہمراہ دیگر دوستوں نے جناح اسپتال پہنچایا جہاں وہ اگلے روز 18 جنوری کی صبح زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گیا۔

اظہار نے بتایا کہ واقعے کے بعد پولیس بھی حرکت میں آئی اور شہریار کے ساتھ موجود دیگر دوستوں کے بیانات قلمبند کیے گئے جس میں انھوں نے پولیس گردی کا پول کھول دیا بعدازاں درج کیے جانے والے مقدمہ میں 302 کی دفعہ کو شامل کیا گیا اور فائرنگ کے کرنے والے پولیس اہلکار حمزہ کو گرفتار کرلیا گیا اور اس واقعے کو پیش آئے تقریباً 3 سال 4 ماہ گزر چکے ہیں اور وہ ہر پیشی پر عدالت میں موجود ہوتا ہوں جبکہ رواں ماہ بھی پیشی پر ہو کر آیا ہوں۔

اظہار نے بتایا کہ مختلف افراد کی جانب سے فون کالز اور رابطہ کیا گیا کہ وہ مقدمے سے دستبر دار ہو جائیں لیکن میرا عزم ہے کہ وہ اپنے بھائی کے قاتل کو کسی بھی صورت معاف نہیں کر سکتا ، مجھے تو صرف اپنے بھائی کی موت کا انصاف چاہیے، اس کے لیے چاہے مجھے کتنا ہی انتظار اور پیشیوں پر کیوں نہ جانا پڑے مجھے عدالت سے ضرور انصاف ملے گا اور وہ اسی امید پر اپنے بھائی کا مقدمہ لڑ رہے ہیں۔

اظہار نے بتایا کہ ان کا مقتول بھائی شہریار 4 بھائیوں اور 2 بہنوں میں سب سے چھوٹا اور مکینکل کا ڈپلومہ کر رہا تھا جو کہ اس کا آخری سال تھا ، انھوں نے بتایا کہ شہر میں پولیس فائرنگ سے شہریوں کی ہلاکت واقعات میں اضافہ ہوا ہے جبکہ ان واقعات کے مقدمات بھی درج کر کے پولیس اہلکاروں کو گرفتار کیا گیا ہے تاہم میں بھی 3 سال 4 ماہ گزرنے کے باوجود اب تک ہر پیشی پر عدالت میں حاضری لگاتا ہوں۔
Load Next Story