محض چند نمبر

یہ کیس بہت اچھلا اور اس میں شامل کئی افسران کو بھی تحقیق و تفتیش کے بعد سزاؤں سے نوازا گیا۔

سوال نمبر چھ میں دوکی تعریف بمعہ شعری امثال کے تھیں، اس کے ساتھ ''یا'' بھی تحریر تھا جو نہایت دلچسپ تھا، لکھا تھا ''شامل نصاب غزلیات میں سے دو شعرا کے دو، دو اشعار تحریر کیجیے جو پرچے میں شامل نہ ہوں۔''

یہ دو ہزار اٹھارہ میں گیارہویں جماعت کے سائنس گروپ کا اردو کا پرچہ تھا اس قدر آسانی اور روانی تھی اس ''یا'' میں کیونکہ ہمارے زمانے میں اس قدر سہل نہ تھا اردو کا پرچہ پر اس دور میں ایسا کیوں؟

ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا ، جب ایک پروفیسر کو اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ کراچی کی انتظامیہ نے ایک طالب علم کو اردو کے پرچے میں خلاف ضابطہ چار نمبر دے کر پاس کرنے کے جرم میں دس برسوں کے لیے بورڈ کے امتحانی امور کے لیے نااہل قرار دینے کی سزا کا اعلان کیا ۔ مذکورہ پروفیسر ایک نجی تعلیمی ادارے میں اپنی خدمات انجام دیتے تھے۔

یہ کیس بہت اچھلا اور اس میں شامل کئی افسران کو بھی تحقیق و تفتیش کے بعد سزاؤں سے نوازا گیا۔ یہ چار نمبر یقینا اس طالب علم کے لیے اس لیے ضروری تھے کہ اس طرح اس کا سال برباد ہونے سے بچ جاتا ویسے بھی طالب علموں کی نظروں میں اردو جیسا مضمون جس کے کل نمبر سو فیصد ہوتے ہیں محنت کرنے کی حد سے باہر محسوس ہوتے ہیں ۔ اس کے مقابلے میں کیمیا، طبیعات، ریاضی یا پھر حیوانیات اور نباتیات جیسے مضامین جن کے لیکچرار اور پروفیسر موٹی موٹی فیسیں لے کر انھیں مستفید کرتے ہیں زیادہ اہم محسوس ہوتے ہیں، آخر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے بچے کسی نہج پر نکلتے جا رہے ہیں جہاں وہ اردو جیسی آسان، پیاری اور زرخیز زبان کو غیر اہم سمجھ کر نہ صرف اپنے مستقبل سے کھیل رہے ہیں ، بلکہ روزمرہ کی زندگی میں بھی اپنی کم علمی کی بدولت اپنی زبان خراب کر رہے ہیں ۔

اس مشہور کیس کی جس قدر چھان پھٹک ہوئی لیکن اس کا نتیجہ کیا رہا ،کیا اس بارہویں جماعت کے بچے کے نمبروں کی فیصد پر فرق پڑا ،کیا ان پروفیسر صاحب سے کسی نے پوچھا کہ محض چار نمبر بڑھانے اور ہمسایہ داری نبھانے کے جرم میں انھیں کس کرب و اذیت سے گزرنا پڑا کہ چند ہی دنوں میں وہ اس دنیائے فانی سے ہی کوچ کرگئے؟ یہ درست ہے کہ موت کا ایک دن معین ہوتا ہے لیکن ایک معزز انسان جس تکلیف و شرمندگی سے گزرا کہ اس کی اخیر ان کی موت پر ہوئی، لیکن ان تمام الزامات کو محض ایک طالب علم اور پروفیسر کے سر پر ڈال کر ہم سب بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔ اس چیختے دھاڑتے سوشل میڈیا کے دور میں ہمارے بچے بہتے بہتے کدھرکو چلے ہیں ذرا دیکھیے تو۔

وہ ایک مہنگی فیس وصول کرنے والا اسکول تھا جو ننھے منے بچوں کو پڑھانے میں اس علاقے میں مشہور ہو رہا ہے، جسے قائم ہوئے ابھی چند برس ہی ہوئے ہیں ۔ ہمارے ایک عزیزکی بچی اسی اسکول میں پڑھتی ہے جس کی اردو کی کاپی پر ان کی استانی صاحبہ نے سرخ رنگ کی روشنائی سے بڑے واضح الفاظ میں لکھا تھا ''کام سفائی سے کریں۔''


استاد کو ہمارے یہاں روحانی والدین قرار دیا جاتا ہے جو بچوں کی تربیت میں نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں، ہمارے اسکول میں ایک استانی اردو پڑھاتے پڑھاتے ایسی کام کی باتیں کر جاتیں جو آج بھی دل پر نقش ہیں۔ زیر زبر اور صحیح تلفظ پر بہت توجہ دیتیں۔ اس وقت تو جو سمجھ میں آیا محسوس ہوتا تھا کہ سب کچھ سر سے گزر گیا لیکن آج بھی ان کی ہدایات پر خودبخود عمل ہوتا جاتا ہے، لیکن اگر استاد ''س'' سے ''سفائی'' لکھوانے لگے، ''ک'' سے ''قلب'' اور اسی طرح کی غلطیاں کورس میں شامل کرتے گئے تو خدا خیرکرے۔

ایک زمانہ تھا کہ طالب علم اردو کے نام پر بڑی کوفت سے منہ بناتے تھے جیسے بہت بڑی برائی یا فیشن کے برخلاف بات ہوگئی ہو، غالباً اسی بات کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے بہت سے پرانے اعلیٰ درجے کے اسکولوں میں اردو زبان کو تلفظ اور لکھنے پر توجہ دی جا رہی ہے۔ امتحانات کے حوالے سے یہ اس لیے اہم ہے کہ بچے اگر اردو پر ذرا توجہ دیں تو سو نمبروں کے اس پرچے میں جتنے زیادہ نمبر حاصل کیے جائیں گے ان کے ٹوٹل فیصد میں اسی قدر اضافہ ہوگا۔

صرف اردو ہی نہیں بلکہ اسلامیات کا پرچہ بھی اسی حوالے سے اہم ہے کیونکہ دونوں اردو زبان میں ہی تحریر کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح سے بچوں کے لیے انگریزی اور سندھی کے پرچے بھی ٹوٹل فیصد بڑھانے میں نہایت معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ پر بات پھر وہی اہمیت اور توجہ کی ہے جسے ہمارے بچے سارا سال محض چند مضامین پڑھنے میں ضایع کردیتے ہیں۔ آخر امتحانی پرچہ بنانے والے اساتذہ کس حد تک طالب علموں کے لیے آسانی فراہم کریں لہٰذا بات نصاب کے دو شعرا کے دو دو اشعار تک آ پہنچی ہے۔

مجلہ نذر تابش جو تابش دہلوی مرحوم کو ان کے تمغہ امتیاز (صدارتی اعزاز) ملنے پر کل پاکستان حلقہ ادب کی جانب سے پیش کیا گیا تھا، نامی گرامی شعرا، لکھاری اور محققین نے ان کی ادبی اور نجی زندگی کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار نہایت خوبصورتی سے کیا، ڈاکٹر اسلم فرخی نے ان کی والدہ مرحومہ کے بارے میں کچھ اس انداز سے ذکر کیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گھر اور اس کے مکین ایک بچے کی تربیت پر کس طرح اثرانداز ہوتے ہیں ، لکھتے ہیں:

''وہ سراپا محبت تھیں سب پر جان چھڑکتی تھیں مگر غلط لفظ کی سہار نہیں ادھر آپ نے کوئی غلط لفظ کہا اور انھوں نے ٹوکا۔ ایک بار گفتگو کے دوران رنگ کے حوالے سے ''پیلا'' کا لفظ استعمال کیا۔ تابش صاحب کی والدہ نے فوراً ٹوکا ''اے میاں! یہ پیلا کیا ہوتا ہے؟ زرد کہو، رنگ زرد ہوتا ہے۔'' میں تو کیا چیز ہوں کوئی اور بھی یہ جملہ سنتا تو چہرے پر زرد کی پھنڈ جاتی، زبان کا یہ عرفان اور ملکہ تابش صاحب کو ورثے میں ملا ہے۔''

غیر ملکی ادھوری، ٹوٹی پھوٹی اردو میں جتنی فلمیں اور سوشل میڈیا پر چلتے پھرتے ادھر ادھر کے فضول چینلز پر برستی لغو اور گھٹیا مذاق پر مبنی گفتگو، خاکے اور لطیفے دیکھ دیکھ کر ہمارے بچے اسی زبان کے عادی ہوتے جا رہے ہیں یہ زبان زہر بن کر نہ صرف ہماری روز مرہ کی گفتگو کو آلودہ کر رہی ہے بلکہ بچے اسی انداز سے لکھ کر اپنے امتحانی پرچوں کو ہوّا بنا کر رکھ دیتے ہیں جس کے نتیجے میں ذہین بچے بھی تمام مضامین میں اے گریڈ جب کہ اردو اور اسلامیات میں بمشکل پاس ہوتے ہیں یا کبھی ایسا کیس بھی بن جاتے ہیں جو کسی کے مستقبل اور زندگی کا وبال بن جاتے ہیں محض چند، دو چار نمبروں کی خاطر۔
Load Next Story