حامد کرزئی کے دورہ پاکستان کے دوران ملا برادر سمیت کئی افغان طالبان کی رہائی کا امکان
قیدیوں کی حتمی فہرست افغان صدر حامدکرزئی کو دورہ پاکستان میں پیش کی جائے گی، ذرائع
افغان امن عمل کی کامیابی کیلیے افغان حکومت کی درخواست پر امکان ہے کہ پاکستان مزید طالبان قیدیوں کو رہا کرے گا جن میں جنگجوئوں کے مرکزی رہنما ملا عبدالغنی برادر بھی شامل ہیں، اس سلسلے میں تیاریاں شروع کردی گئی ہیں۔
حکومتی ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر''ایکسپریس ٹریبیون'' سے گفتگو میں اس بات کی تصدیق کی کہ رہا کیے جانے والے مزید طالبان قیدیوں کی حتمی فہرست افغان صدر کرزئی کے متوقع دورہ پاکستان میں پیش کی جائیگی۔ طالبان قیدیوں کا معاملہ افغان صدر کے دورہ اسلام آباد کے ایجنڈے میں شامل کیا جائے گا۔ ذرائع نے رہا کیے جانے والے طالبان قیدیوں کی تعداد اور ان کے ناموں کے حوالے سے کچھ نہیں بتایا۔ افغان صدر حامد کرزئی رواں ماہ کے آخر میں پاکستان آئیں گے، ملک میں ن لیگ کے برسراقتدارآنے کے بعد صدر کرزئی کا یہ پہلا دورہ اسلام آباد ہوگا۔ صدر کرزئی کے ساتھ افغان امن کونسل کے اہم ارکان بھی ہوں گے، اس کونسل کو طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کا اختیار حاصل ہے۔
دوسری جانب رابطہ کرنے پر ترجمان دفتر خارجہ اعزاز چوہدری نے کہا کہ پاکستان مفاہمتی عمل کیلیے وہ تمام ممکنہ مثبت اقدامات کرے گا جو ہم سمجھتے ہیں کہ امن عمل کیلیے موثر ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس سوال پر کہ کیا صدر کرزئی کے دورے میں طالبان قیدیوں کی رہائی کا معاملہ بھی اٹھایا جائے گا؟، ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ ہمیں صدر کرزئی کے دورہ پاکستان کا انتظار ہے اور ان سے باہمی مفادات کے تمام امور پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ سفارتی ذرائع کے مطابق کرزئی کے دورے میں پاکستان اور افغانستان طالبان کے سیاسی دفتر کی قطر سے منتقلی اور اسے سعودی عرب یا ترکی منتقل کرنے کے معاملے پر بھی غور کریں گے۔ گذشتہ ہفتے کابل کے حکام نے تصدیق کی تھی کہ وہ طالبان کے سیاسی دفتر کی قطر سے منتقلی کی حمایت کریں گے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان تنازع کے تمام فریقین کیلیے مذاکرات کی بہترین جگہ ثابت ہوسکتی ہے۔ یاد رہے کہ گذشتہ سال نومبر میں پاکستان نے افغان امن عمل میں تیزی لانے کیلیے طالبان قیدیوں کی رہائی کا سلسلہ شروع کیا تھا اور26 قیدیوں کو رہائی ملی تھی جن میں کئی اہم رہنما بھی شامل تھے تاہم کچھ عرصہ قبل کابل اور اسلام آباد کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے پاکستانی حکومت نے مزید طالبان قیدیوں کی رہائی کا سلسلہ روک دیا تھا۔ خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ رہا کیے گئے طالبان قیدیوں میں سے بعض افراد طالبان جنگجوئوں کو مذاکرات کی میز پر لانے اور دوحہ میں طالبان کا سیاسی دفتر قائم کرنے میں کافی سرگرم رہے ہیں۔ دوسری جانب کابل تمام طالبان قیدیوں کی رہائی چاہتا ہے جن میں جنگجوئوں کے مرکزی رہنما ملا عبدالغنی برادر بھی شامل ہیں۔
حکومتی ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر''ایکسپریس ٹریبیون'' سے گفتگو میں اس بات کی تصدیق کی کہ رہا کیے جانے والے مزید طالبان قیدیوں کی حتمی فہرست افغان صدر کرزئی کے متوقع دورہ پاکستان میں پیش کی جائیگی۔ طالبان قیدیوں کا معاملہ افغان صدر کے دورہ اسلام آباد کے ایجنڈے میں شامل کیا جائے گا۔ ذرائع نے رہا کیے جانے والے طالبان قیدیوں کی تعداد اور ان کے ناموں کے حوالے سے کچھ نہیں بتایا۔ افغان صدر حامد کرزئی رواں ماہ کے آخر میں پاکستان آئیں گے، ملک میں ن لیگ کے برسراقتدارآنے کے بعد صدر کرزئی کا یہ پہلا دورہ اسلام آباد ہوگا۔ صدر کرزئی کے ساتھ افغان امن کونسل کے اہم ارکان بھی ہوں گے، اس کونسل کو طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کا اختیار حاصل ہے۔
دوسری جانب رابطہ کرنے پر ترجمان دفتر خارجہ اعزاز چوہدری نے کہا کہ پاکستان مفاہمتی عمل کیلیے وہ تمام ممکنہ مثبت اقدامات کرے گا جو ہم سمجھتے ہیں کہ امن عمل کیلیے موثر ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس سوال پر کہ کیا صدر کرزئی کے دورے میں طالبان قیدیوں کی رہائی کا معاملہ بھی اٹھایا جائے گا؟، ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ ہمیں صدر کرزئی کے دورہ پاکستان کا انتظار ہے اور ان سے باہمی مفادات کے تمام امور پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ سفارتی ذرائع کے مطابق کرزئی کے دورے میں پاکستان اور افغانستان طالبان کے سیاسی دفتر کی قطر سے منتقلی اور اسے سعودی عرب یا ترکی منتقل کرنے کے معاملے پر بھی غور کریں گے۔ گذشتہ ہفتے کابل کے حکام نے تصدیق کی تھی کہ وہ طالبان کے سیاسی دفتر کی قطر سے منتقلی کی حمایت کریں گے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان تنازع کے تمام فریقین کیلیے مذاکرات کی بہترین جگہ ثابت ہوسکتی ہے۔ یاد رہے کہ گذشتہ سال نومبر میں پاکستان نے افغان امن عمل میں تیزی لانے کیلیے طالبان قیدیوں کی رہائی کا سلسلہ شروع کیا تھا اور26 قیدیوں کو رہائی ملی تھی جن میں کئی اہم رہنما بھی شامل تھے تاہم کچھ عرصہ قبل کابل اور اسلام آباد کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے پاکستانی حکومت نے مزید طالبان قیدیوں کی رہائی کا سلسلہ روک دیا تھا۔ خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ رہا کیے گئے طالبان قیدیوں میں سے بعض افراد طالبان جنگجوئوں کو مذاکرات کی میز پر لانے اور دوحہ میں طالبان کا سیاسی دفتر قائم کرنے میں کافی سرگرم رہے ہیں۔ دوسری جانب کابل تمام طالبان قیدیوں کی رہائی چاہتا ہے جن میں جنگجوئوں کے مرکزی رہنما ملا عبدالغنی برادر بھی شامل ہیں۔