سندھ اسمبلی میں لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 کثرت رائے سے منظور ایم کیوایم کی مخالفت
فنکشنل لیگ کی جانب سےغیرسیاسی بنیادوں پرانتخاب اورحدبندیوں کااختیارالیکشن کمیشن کودینے کی تجویز کو مسترد کردیا گیا۔
سندھ اسمبلی میں لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا تاہم بل کی شق وار منظوری کے دوران ایم کیو ایم کی جانب سے شدید مخالفت کی گئی۔
سینئیر صوبائی وزیر نثار احمد کھوڑو کی جانب سے بل کی شق وار منظوری کے دوران مسلم لیگ فنکشنل کی جانب سے غیر سیاسی بنیادوں پر انتخاب اور حد بندیوں کا اختیار الیکشن کمیشن کو دیئے جانے کی تجویز پیش کی جسے مسترد کردیا گیا۔
اس سے قبل اسپیکر آغا سراج درانی کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس کے دوران سینیئر وزیر نثار احمد کھوڑو نے بل ایوان میں پیش کیا۔ ایم کیو ایم کے ارکان کو بل کی کاپی نہ ملنے پر قائد حزب اختلاف سید فیصل سبزواری کا کہنا تھا کہ ایوان میں بیٹھے 10 فیصد ارکان کو بھی بل کی کاپی فراہم نہیں کی گئی، بل کی کاپی ہی نہیں تو اس کے بارے بحث بھی نہیں ہوسکتی۔ قائد حزب اختلاف کے اعتراض پر جواب دیتے ہوئے سینئر وزیر نثار کھوڑو نے کہا کہ بل کی کاپی ارکان کو فراہم کردی گئی ہیں اور اب بل کا مسودہ پہلے ہی ویب سائٹ پر جاری کردیا گیا تھا۔
متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما سید سردار احمد نے بل پر اعتراض کیا کہ اسمبلی میں پیش کئے جانے والے بل اور ہمیں ملنے والی بل کی کاپی مختلف ہے، بلدیاتی نظام کو آئین کی دفعہ 140 اے کے مطابق ہونا چاہئے،سید سردار احمد نے بلدیاتی نظام کے بل کو آئین سے متصادم قرار دیا ۔ انہوں نے کہا کہ اسے لوکل گورنمنٹ ایکٹ کا نام دیا گیا ہے لیکن درحقیقت یہ لوکل باڈی ایکٹ ہے اور یہ بل 1979 کے بلدیاتی نظام کا چربہ ہے اس میں تمام سفارشات 1979 سے لی گئی ہیں، اور 1979 کا بلدیاتی قانون ایک ایسے آمر کا تخلیق کردہ ہے، اس میں شہری اور دیہی علاقوں کی تقسیم کی گئی ہے جو نو آبادیاتی نظام کی مثال ہے۔ انہوں نے مثال دی کہ پنجاب اسمبلی میں پیش کئے گئے بل میں شہری اور دیہی علاقوں کو تقسیم نہیں کیا گیا۔
سینئر وزیر نثار کھوڑو نے سرداراحمد کے اعتراضات کے جواب میں کہا کہ جمہوریت میں اکثریت کو قانون سازی کا اختیار ہے لیکن اس کے باوجود ہم نے ہر ایک سیاسی جماعت سے مذاکرات کئے اور ان کی تجاویز پر عمل کرنے کی کوشش کی، وہ مانتے ہیں کہ اس بل میں 1979 کی کئی شقوں کو شامل کیا گیا ہے لیکن ہم جمہوری طریقے سے اسے اسمبلی میں لارہے ہیں، 1979 میں ایک جنرل نے عوام کو عام انتخابات سے دور رکھنے کے لئے غیر سیاسی بنیادوں پر بلدیاتی نظام رائج کیا، اس کے علاوہ 2001 میں بھی ایک جنرل نے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے مقامی حکومتی نظام نافذ کیا جس کا مقصد بھی عوام کو جمہوری نظام سے دور رکھنا تھا لیکن موجودہ بل کے تحت بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہورہے ہیں جو کسی بھی آمر کے بس کی بات نہیں تھی، انہوں نے کہا کہ 1972 میں شہید ذوالفقار بھٹو کے دور حکومت میں کراچی میونسپل کارپوریشن قائم کیا گیا حالانکہ اس وقت کراچی کی آبادی اس قدر زیادہ نہیں تھی، یہ ممکن ہے کہ موجودہ حکومت کے لائے گئے اس قانون میں کوئی ثقم ہو لیکن اسے اسمبلی کے ذریعے دور کیا جاسکتا ہے۔
سینئیر صوبائی وزیر نثار احمد کھوڑو کی جانب سے بل کی شق وار منظوری کے دوران مسلم لیگ فنکشنل کی جانب سے غیر سیاسی بنیادوں پر انتخاب اور حد بندیوں کا اختیار الیکشن کمیشن کو دیئے جانے کی تجویز پیش کی جسے مسترد کردیا گیا۔
اس سے قبل اسپیکر آغا سراج درانی کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس کے دوران سینیئر وزیر نثار احمد کھوڑو نے بل ایوان میں پیش کیا۔ ایم کیو ایم کے ارکان کو بل کی کاپی نہ ملنے پر قائد حزب اختلاف سید فیصل سبزواری کا کہنا تھا کہ ایوان میں بیٹھے 10 فیصد ارکان کو بھی بل کی کاپی فراہم نہیں کی گئی، بل کی کاپی ہی نہیں تو اس کے بارے بحث بھی نہیں ہوسکتی۔ قائد حزب اختلاف کے اعتراض پر جواب دیتے ہوئے سینئر وزیر نثار کھوڑو نے کہا کہ بل کی کاپی ارکان کو فراہم کردی گئی ہیں اور اب بل کا مسودہ پہلے ہی ویب سائٹ پر جاری کردیا گیا تھا۔
متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما سید سردار احمد نے بل پر اعتراض کیا کہ اسمبلی میں پیش کئے جانے والے بل اور ہمیں ملنے والی بل کی کاپی مختلف ہے، بلدیاتی نظام کو آئین کی دفعہ 140 اے کے مطابق ہونا چاہئے،سید سردار احمد نے بلدیاتی نظام کے بل کو آئین سے متصادم قرار دیا ۔ انہوں نے کہا کہ اسے لوکل گورنمنٹ ایکٹ کا نام دیا گیا ہے لیکن درحقیقت یہ لوکل باڈی ایکٹ ہے اور یہ بل 1979 کے بلدیاتی نظام کا چربہ ہے اس میں تمام سفارشات 1979 سے لی گئی ہیں، اور 1979 کا بلدیاتی قانون ایک ایسے آمر کا تخلیق کردہ ہے، اس میں شہری اور دیہی علاقوں کی تقسیم کی گئی ہے جو نو آبادیاتی نظام کی مثال ہے۔ انہوں نے مثال دی کہ پنجاب اسمبلی میں پیش کئے گئے بل میں شہری اور دیہی علاقوں کو تقسیم نہیں کیا گیا۔
سینئر وزیر نثار کھوڑو نے سرداراحمد کے اعتراضات کے جواب میں کہا کہ جمہوریت میں اکثریت کو قانون سازی کا اختیار ہے لیکن اس کے باوجود ہم نے ہر ایک سیاسی جماعت سے مذاکرات کئے اور ان کی تجاویز پر عمل کرنے کی کوشش کی، وہ مانتے ہیں کہ اس بل میں 1979 کی کئی شقوں کو شامل کیا گیا ہے لیکن ہم جمہوری طریقے سے اسے اسمبلی میں لارہے ہیں، 1979 میں ایک جنرل نے عوام کو عام انتخابات سے دور رکھنے کے لئے غیر سیاسی بنیادوں پر بلدیاتی نظام رائج کیا، اس کے علاوہ 2001 میں بھی ایک جنرل نے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے مقامی حکومتی نظام نافذ کیا جس کا مقصد بھی عوام کو جمہوری نظام سے دور رکھنا تھا لیکن موجودہ بل کے تحت بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہورہے ہیں جو کسی بھی آمر کے بس کی بات نہیں تھی، انہوں نے کہا کہ 1972 میں شہید ذوالفقار بھٹو کے دور حکومت میں کراچی میونسپل کارپوریشن قائم کیا گیا حالانکہ اس وقت کراچی کی آبادی اس قدر زیادہ نہیں تھی، یہ ممکن ہے کہ موجودہ حکومت کے لائے گئے اس قانون میں کوئی ثقم ہو لیکن اسے اسمبلی کے ذریعے دور کیا جاسکتا ہے۔