معاشی گرداب سے نکلنے کی امیدیں
وزیراعظم نے ملک کے معاشی انجن سے جڑے ناکارہ ڈبے الگ کر دیے۔
اخباری اطلاعات کے مطابق وزیراعظم نے ملک کے معاشی انجن سے جڑے ناکارہ ڈبے الگ کر دیے جب کہ آزمودہ ٹیکنوکریٹس کی نئی بوگیاں اس کی جگہ لگائی ہیں تاکہ اقتصادی سفر سبک رفتار، نتیجہ خیزاور معاشی اہداف تک رسائی جلد ممکن ہو سکے۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے اقتصادی بحران سے نکلنے کے لیے حکومت کے موجودہ اقدامات کی بنیاد بھی ایڈہاک ازم اور اسٹیٹس کو کا جبر ہے جب کہ ملک کثیر جہتی اور انتہائی پیچیدہ معاشی مسائل کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔
دریں اثنا وزیراعظم عمران خان نے درپیش اقتصادی اور مالیاتی چیلنجز کے حوالہ سے کرکٹ ٹیم کی قیادت کے سیاسی تناظر میں کہا ہے کہ جو وزیر ملک کے لیے ٹھیک نہیں ہوگا اسے تبدیل کردیا جائے گا، ان کا کہنا تھاکہ کپتان کا مقصد ہر حال میں میچ جیتنا ہوتا ہے اور اس مقصد کے لیے وہ ضرورت پڑنے پراپنی ٹیم کے کھلاڑیوں کو بھی تبدیل کرتا اور ان کا بیٹنگ آرڈر بھی بدلتا ہے، وزیراعظم نے کہا پاکستان کے غریب اور پسے ہوئے طبقے کو اوپراٹھانا ان کا مقصد ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ فوج کے خلاف نعرے بازی سے ملک کا نقصان ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے جمعہ کے روز ضلع اورکزئی میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کیا، انھوں نے خصوصی طور پر وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا اور وزیر اعلیٰ پنجاب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ بھی اپنی صوبائی ٹیموں پر نظر رکھیں۔
ادھر مختلف تجزیہ کار اس بات کا عندیہ دے رہے ہیں کہ تبدیلیوں کا اگلا راؤنڈ پنجاب اور کے پی میں ہوگا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ آصف زرداری، نواز شریف اور شہباز شریف کے خاندانوں کو ڈر ہے کہ اگر عمران خان دو سال بھی وزیر اعظم رہا تو وہ جیلوں میں ہوں گے اور ان کا لوٹا ہوا پیسہ ملک کے خزانے میں واپس ہو گا اسی لیے وہ حکومت گرانے کی بات کر رہے ہیں۔
بلاشبہ پیداشدہ معاشی گھمبیرتا کے سیاق وسباق میں وفاقی کابینہ میں ردوبدل کے مضمرات پر ملک بھر کے سیاسی، سماجی، اقتصادی اور کاروباری حلقوں میں مختلف النوع آرا اور تجاویز کا شور برپا ہے، ماہرین معاشیات اب بھی خدشات اور خطرات کے ساتھ ساتھ توقعات اور امیدوں کے حسیں پل باندھ رہے ہیں، میڈیا میں ایک ''ایک خاموش صدارتی نظام'' کی چہ مگوئیاں بھی عروج پر ہیں، بعض وزراء اور تجزیہ کار صدارتی نظام کو ملک کے بہترین مفاد میں قراردے رہے ہیں، عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اسفندیار ولی خان نے خبردار کیا ہے کہ صدارتی نظام کی باز گشت حکومت کی جانب سے طبل جنگ ہے اور ہم یہ نظام کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔
اطلاع کے مطابق مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ دبئی سے پاکستان پہنچ گئے ہیں۔ انھوں نے ہفتہ کو اپنی اہم ذمے داریاں سنبھال لیں، نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے مشیر خزانہ نے اپنے ابتدائی بیان میں انھوں نے کہا کہ معاشی فیصلوں کے لیے اپنا روڈ میپ تیار کر لیا ہے، معاشی فیصلے جذباتیت سے نہیں، سوچ سمجھ کر کرنا ہونگے۔ اس معاملے میں ملک کا مفاد مقدم رکھنا ہوگا۔
ذرائع کے مطابق عالمی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف)نے بیل آؤٹ پیکیج کے لیے اپناوفد اسلام آباد بھیجنے سے پہلے پاکستان کے نئے اقتصادی مشیرعبدالحفیظ شیخ سے گفت وشنیدکافیصلہ کیا ہے، جن کا پہلابڑامتحان غور سے دیکھا جائے گا تاہم ان کے پاس اس ضمن میں انتہائی کم گنجائش ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر وزیراعظم عمران خان کے نئے مشیر ملاقات میں دیر کرتے ہیں تواس کے باعث آئی ایم ایف کا پروگرام اور وفاقی بجٹ تاخیرکا شکارہوسکتا ہے۔
وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے میڈیا پاکستان کے مثبت چہرے کوپروان چڑھانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ہم نے غیر یقینی کے عنصر کو ختم کرکے مثبت سمت میں آگے بڑھنا ہے۔ پی پی رہنما خورشید شاہ نے رائے دی کہ کہ پی ٹی آئی سیاسی جماعت نہیں ہے اسے لایا گیا ہے جو تمام سیاسی جماعتوں کے سابق ارکان کا ملغوبہ ہے۔ وہ کہتے ہیں اسد عمرکی ناکامیاں نظرآرہی تھیں،سکھر میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ پہلے ہی کہا تھا معاشی حالات خراب ہیں مل کر حل کرنا ہوگا کیونکہ جو حکومتیں معیشت کی وجہ سے ختم ہوتی ہیں وہاں انارکی کا خطرہ ہوتاہے۔البتہ اسٹاک مارکیٹ میں تیزی کی اطلاع ہے۔
وفاقی سطح پر اقتصادی ٹیم کی تبدیلی، کابینہ میں ردوبدل اور کمرشل بینکوں میں وفاق و صوبائی حکومتوں کے رکھے گئے فنڈز کی مرکزی بینک میں منتقلی کی اطلاعات پر اسٹیٹ بینک کی وضاحت جیسے عوامل کے باعث پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں جمعے کو مندی کے بادل چَھٹ گئے اور تیزی رونما ہوئی جس سے انڈیکس کی37200 پوائنٹس کی نفسیاتی حد بحال ہوگئی۔ تیزی کے سبب 72.15 فیصد حصص کی قیمتیں بڑھ گئیں جب کہ حصص کی مالیت میں 84 ارب 60 کروڑ 61 لاکھ 64 ہزار117 روپے کا اضافہ ہوگیا۔
چیئرمین سرمایہ کاری بورڈ ہارون شریف نے کہا ہے کہ بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور استحکام کے نتیجہ میں سرمایہ کار پاکستان کا رخ کر رہے ہیں، پاکستان مقامی و غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے پر کشش مارکیٹ ہے جو مشرق وسطیٰ اور مغربی چین کی طرف پھیل رہی ہے ان خیالات کا اظہار انھوں نے گزشتہ روز یہاں ملاقات کے لیے آئے ہوئے برطانیہ پاکستان ایوان صنعت و تجارت (یو کے پی سی سی آئی) کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
وزیر توانائی عمر ایوب نے کہا ہے کہ اکتوبر 2018 سے لے کر فروری 2019کے دوران پچھلے سال کے اس عرصہ کے مقابلہ میں واجبات کی وصولی میں 1.3 فیصد اضافہ ہوا ہے جو ریکارڈ سطح 96.3 فیصدپر پہنچ گئی ہے، دن رات چوری اور کرپشن کے خلاف ٹھوس مہم کی بدولت اکتوبر 2018 سے لے کر فروری 2019 میں پچھلے سال انھی مہینوں کی نسبت لائن لاسسز میں 2.4 فیصد کمی ہوئی ہے۔
جمعہ کو سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ایک بیان میں عمر ایوب نے کہا کہ ملک میں کل 8610 فیڈرز میں سے 6061 فیڈرز پر اس وقت کوئی لوڈشیڈنگ نہیں ہے۔ پاور ڈویژن کی ٹیم کی انتھک محنت کے ثمرات ملنے شروع ہوگئے ہیں، اعداد و شمار کے مطابق نومبر 2018سے فروری 2019 میں (چار مہینے) پچھلے سال کے اسی عرصہ کے مقابلے 51 ارب روپے کی اضافی وصولیاں ہوئیں ہیں جوکہ ایک ریکارڈ ہے۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ وزیراعظم اور ان کی ٹیم اپنے گزرے ایام کے تجربات کی روشنی میں فقط معاشی استحکام اور اپوزیشن سے محاذ آرائی کے بجائے رواداری پر توجہ دیں۔ 8 ماہ کی مسافت کو بھول جائیں اور آیندہ کے معاشی روڈ میپ کو عوام کی خوشحالی سے جوڑیں اسی میں حکومت اور ملک کا مشترکہ مفاد وابستہ ہے۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے اقتصادی بحران سے نکلنے کے لیے حکومت کے موجودہ اقدامات کی بنیاد بھی ایڈہاک ازم اور اسٹیٹس کو کا جبر ہے جب کہ ملک کثیر جہتی اور انتہائی پیچیدہ معاشی مسائل کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔
دریں اثنا وزیراعظم عمران خان نے درپیش اقتصادی اور مالیاتی چیلنجز کے حوالہ سے کرکٹ ٹیم کی قیادت کے سیاسی تناظر میں کہا ہے کہ جو وزیر ملک کے لیے ٹھیک نہیں ہوگا اسے تبدیل کردیا جائے گا، ان کا کہنا تھاکہ کپتان کا مقصد ہر حال میں میچ جیتنا ہوتا ہے اور اس مقصد کے لیے وہ ضرورت پڑنے پراپنی ٹیم کے کھلاڑیوں کو بھی تبدیل کرتا اور ان کا بیٹنگ آرڈر بھی بدلتا ہے، وزیراعظم نے کہا پاکستان کے غریب اور پسے ہوئے طبقے کو اوپراٹھانا ان کا مقصد ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ فوج کے خلاف نعرے بازی سے ملک کا نقصان ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے جمعہ کے روز ضلع اورکزئی میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کیا، انھوں نے خصوصی طور پر وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا اور وزیر اعلیٰ پنجاب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ بھی اپنی صوبائی ٹیموں پر نظر رکھیں۔
ادھر مختلف تجزیہ کار اس بات کا عندیہ دے رہے ہیں کہ تبدیلیوں کا اگلا راؤنڈ پنجاب اور کے پی میں ہوگا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ آصف زرداری، نواز شریف اور شہباز شریف کے خاندانوں کو ڈر ہے کہ اگر عمران خان دو سال بھی وزیر اعظم رہا تو وہ جیلوں میں ہوں گے اور ان کا لوٹا ہوا پیسہ ملک کے خزانے میں واپس ہو گا اسی لیے وہ حکومت گرانے کی بات کر رہے ہیں۔
بلاشبہ پیداشدہ معاشی گھمبیرتا کے سیاق وسباق میں وفاقی کابینہ میں ردوبدل کے مضمرات پر ملک بھر کے سیاسی، سماجی، اقتصادی اور کاروباری حلقوں میں مختلف النوع آرا اور تجاویز کا شور برپا ہے، ماہرین معاشیات اب بھی خدشات اور خطرات کے ساتھ ساتھ توقعات اور امیدوں کے حسیں پل باندھ رہے ہیں، میڈیا میں ایک ''ایک خاموش صدارتی نظام'' کی چہ مگوئیاں بھی عروج پر ہیں، بعض وزراء اور تجزیہ کار صدارتی نظام کو ملک کے بہترین مفاد میں قراردے رہے ہیں، عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اسفندیار ولی خان نے خبردار کیا ہے کہ صدارتی نظام کی باز گشت حکومت کی جانب سے طبل جنگ ہے اور ہم یہ نظام کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔
اطلاع کے مطابق مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ دبئی سے پاکستان پہنچ گئے ہیں۔ انھوں نے ہفتہ کو اپنی اہم ذمے داریاں سنبھال لیں، نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے مشیر خزانہ نے اپنے ابتدائی بیان میں انھوں نے کہا کہ معاشی فیصلوں کے لیے اپنا روڈ میپ تیار کر لیا ہے، معاشی فیصلے جذباتیت سے نہیں، سوچ سمجھ کر کرنا ہونگے۔ اس معاملے میں ملک کا مفاد مقدم رکھنا ہوگا۔
ذرائع کے مطابق عالمی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف)نے بیل آؤٹ پیکیج کے لیے اپناوفد اسلام آباد بھیجنے سے پہلے پاکستان کے نئے اقتصادی مشیرعبدالحفیظ شیخ سے گفت وشنیدکافیصلہ کیا ہے، جن کا پہلابڑامتحان غور سے دیکھا جائے گا تاہم ان کے پاس اس ضمن میں انتہائی کم گنجائش ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر وزیراعظم عمران خان کے نئے مشیر ملاقات میں دیر کرتے ہیں تواس کے باعث آئی ایم ایف کا پروگرام اور وفاقی بجٹ تاخیرکا شکارہوسکتا ہے۔
وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے میڈیا پاکستان کے مثبت چہرے کوپروان چڑھانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ہم نے غیر یقینی کے عنصر کو ختم کرکے مثبت سمت میں آگے بڑھنا ہے۔ پی پی رہنما خورشید شاہ نے رائے دی کہ کہ پی ٹی آئی سیاسی جماعت نہیں ہے اسے لایا گیا ہے جو تمام سیاسی جماعتوں کے سابق ارکان کا ملغوبہ ہے۔ وہ کہتے ہیں اسد عمرکی ناکامیاں نظرآرہی تھیں،سکھر میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ پہلے ہی کہا تھا معاشی حالات خراب ہیں مل کر حل کرنا ہوگا کیونکہ جو حکومتیں معیشت کی وجہ سے ختم ہوتی ہیں وہاں انارکی کا خطرہ ہوتاہے۔البتہ اسٹاک مارکیٹ میں تیزی کی اطلاع ہے۔
وفاقی سطح پر اقتصادی ٹیم کی تبدیلی، کابینہ میں ردوبدل اور کمرشل بینکوں میں وفاق و صوبائی حکومتوں کے رکھے گئے فنڈز کی مرکزی بینک میں منتقلی کی اطلاعات پر اسٹیٹ بینک کی وضاحت جیسے عوامل کے باعث پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں جمعے کو مندی کے بادل چَھٹ گئے اور تیزی رونما ہوئی جس سے انڈیکس کی37200 پوائنٹس کی نفسیاتی حد بحال ہوگئی۔ تیزی کے سبب 72.15 فیصد حصص کی قیمتیں بڑھ گئیں جب کہ حصص کی مالیت میں 84 ارب 60 کروڑ 61 لاکھ 64 ہزار117 روپے کا اضافہ ہوگیا۔
چیئرمین سرمایہ کاری بورڈ ہارون شریف نے کہا ہے کہ بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور استحکام کے نتیجہ میں سرمایہ کار پاکستان کا رخ کر رہے ہیں، پاکستان مقامی و غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے پر کشش مارکیٹ ہے جو مشرق وسطیٰ اور مغربی چین کی طرف پھیل رہی ہے ان خیالات کا اظہار انھوں نے گزشتہ روز یہاں ملاقات کے لیے آئے ہوئے برطانیہ پاکستان ایوان صنعت و تجارت (یو کے پی سی سی آئی) کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
وزیر توانائی عمر ایوب نے کہا ہے کہ اکتوبر 2018 سے لے کر فروری 2019کے دوران پچھلے سال کے اس عرصہ کے مقابلہ میں واجبات کی وصولی میں 1.3 فیصد اضافہ ہوا ہے جو ریکارڈ سطح 96.3 فیصدپر پہنچ گئی ہے، دن رات چوری اور کرپشن کے خلاف ٹھوس مہم کی بدولت اکتوبر 2018 سے لے کر فروری 2019 میں پچھلے سال انھی مہینوں کی نسبت لائن لاسسز میں 2.4 فیصد کمی ہوئی ہے۔
جمعہ کو سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ایک بیان میں عمر ایوب نے کہا کہ ملک میں کل 8610 فیڈرز میں سے 6061 فیڈرز پر اس وقت کوئی لوڈشیڈنگ نہیں ہے۔ پاور ڈویژن کی ٹیم کی انتھک محنت کے ثمرات ملنے شروع ہوگئے ہیں، اعداد و شمار کے مطابق نومبر 2018سے فروری 2019 میں (چار مہینے) پچھلے سال کے اسی عرصہ کے مقابلے 51 ارب روپے کی اضافی وصولیاں ہوئیں ہیں جوکہ ایک ریکارڈ ہے۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ وزیراعظم اور ان کی ٹیم اپنے گزرے ایام کے تجربات کی روشنی میں فقط معاشی استحکام اور اپوزیشن سے محاذ آرائی کے بجائے رواداری پر توجہ دیں۔ 8 ماہ کی مسافت کو بھول جائیں اور آیندہ کے معاشی روڈ میپ کو عوام کی خوشحالی سے جوڑیں اسی میں حکومت اور ملک کا مشترکہ مفاد وابستہ ہے۔