مہنگی سے مہنگی ہوتی ہوئی تعلیم
ریاست تعلیم پر اربوں روپے سالانہ خرچ تو کر رہی ہے مگر وہ ضایع ہو رہے ہیں جس کا سب کو پتا ہے مگر سب خاموش ہیں۔
TEHRAN:
چیف جسٹس پاکستان آصف سعید خان کھوسہ نے کہا ہے کہ تعلیم کی فراہمی ریاست کی ذمے داری ہے اور اس حکومتی ناکامی پر لوگ نجی اسکولوں میں اپنے بچوں کو تعلیم دلانے پر مجبور ہیں۔ اس موقعے پر جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیے کہ ریاست کا کام ہے کہ وہ نجی اسکولوں کو ریگولیٹ کرے۔ جسٹس اعجاز الحسن کا یہ بھی کہنا تھا کہ لوگ اپنی مالی حیثیت کے مطابق اپنے بچوں کے لیے اسکولوں کا انتخاب کرتے ہیں اور انھیں تعلیم دلاتے ہیں۔
علاوہ ازیں سندھ ہائی کورٹ نے نجی اسکولوں کو چھٹیوں کی دو ماہ کی فیس وصول کرنے سے روک دیا ہے اور ایسا کرنے والے اسکولوں کو حکم دیا ہے کہ وہ ایک ماہ کی فیس واپس کریں ورنہ ان کے خلاف توہین عدالت کے تحت کارروائی کی جائے گی۔
ملک میں نجی اسکولوں نے تعلیم کو مہنگے سے مہنگا کرنے، من مانیوں اور بے بس والدین کو لوٹنے کا جو تعلیمی کاروبار عروج پر پہنچا رکھا ہے ،اس کی سو فیصد ذمے داری ہماری تمام حکومتوں پر عائد ہوتی ہے ، جن کی اس سلسلے میں نااہلی کے باعث نجی اسکولوں کا فیسوں کا مسئلہ بھی اعلیٰ عدلیہ تک پہنچ گیا ہے اور اب عدلیہ ہی کو قانونی تشریح کرنی ہے۔ یہ ریمارکس بھی چیف جسٹس سپریم کورٹ نے دیے ہیں اور اب لوگوں کو عدلیہ کی قانونی تشریح کا انتظار کرنا ہے جس کے بعد ہی پوزیشن واضح ہوگی۔
ملک بھر میں مفت تعلیم کی فراہمی کی ذمے دار حکومت ہے اور ملک بھر میں حکومتوں نے لاکھوں سرکاری اسکول بنا رکھے ہیں اور ہزاروں کالج اور یونیورسٹیاں بھی وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے بنا رکھے ہیں جب کہ متعدد بلدیاتی اداروں نے بھی اپنی اپنی مالی طاقت کے مطابق پرائمری اسکول بنائے ہوئے ہیں مگر یہ بات سو فیصد حقیقت ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں کی اکثریت اپنی ناقص کارکردگی کے باعث عوام میں اپنا اعتماد کھو چکے ہیں اور ملک بھر میں گنتی کے سرکاری تعلیمی ادارے ایسے ہوں گے جہاں تعلیمی معیار بہترین تو نہیں بہتر ضرور ہے۔
سرکاری اسکولوں کا جال یوں تو ملک بھر میں بچھا ہوا ہے اور دیہی علاقوں میں بھی سرکاری اسکول موجود ہیں مگر ان کی حالت زار پر توجہ دینے کے لیے حکومتوں اور ایجوکیشن افسروں کے پاس وقت نہیں ہے اور انھی کی غیر ذمے داری اور نااہلی کے باعث تمام سرکاری ادارے ناکام اور تباہ حالی کا شکار چلے آرہے ہیں جس کے ذمے دار اعلیٰ تعلیمی افسران اور متعلقہ اسکولوں کے سربراہ اور اساتذہ ہیں ہر صوبے میں ہزاروں کی تعداد میں گھوسٹ سرکاری اسکول موجود ہیں۔ بڑی تعداد میں اسکولوں میں داخل طلبا کی تعداد برائے نام، اساتذہ غیر حاضر رہتے ہیں جس کی وجہ سے اسکول بند یا خالی ہونے کی وجہ سے جانوروں کے اصطبل بنا دیے گئے ہیں اور ان اسکولوں کے اساتذہ محکمہ تعلیم کے بدعنوان افسروں کی ملی بھگت سے گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کر رہے ہیں اور سینئر اساتذہ کی ہر سال تنخواہیں بڑھتی گئیں اور اسکولوں کی کارکردگی تباہ ہوتی گئی۔
سرکاری اسکولوں کے مقابلے میں نجی اسکولوں کی تعداد حیرت انگیز طور پر بڑھی ہے کیونکہ نجی اسکولوں کی وجہ سے تعلیم اب منفعت بخش کاروبار بن چکی ہے اور بہت کم نجی تعلیمی ادارے ایسے ہیں جن کا مشن واقعی معیار تعلیم کی بہتری اور تعلیم کا فروغ ہے جب کہ اکثر نجی اسکول صرف کمانے کے لیے کھولے گئے ہیں اور ان کے نزدیک تعلیم فروشی کامیاب کاروبار، مال بنانے اور تعلیمی اداروں کی تعداد بڑھانا ان کی زندگی کا مقصد ہے اور انھیں تعلیم کے فروغ یا تعلیمی معیار کی بہتری سے نہیں بلکہ اپنے تعلیمی اداروں کے معیار سے زیادہ سروکار ہے نہ کہ وہ تعلیمی میدان میں فخریہ یہ بتا سکیں کہ انھوں نے کتنے سالوں میں اتنی حیرت انگیز ترقی کرکے دولت کمائی ہے۔ بعض تعلیم فروشوں کے اسکولوں اور کیمپس کی تعداد ہر سال بڑھتی آرہی ہے جب کہ ملک بھر میں سرکاری اسکولوں میں طلبا کی تعداد کم سے کم اور معیار تعلیم عنقا ہوچکا ہے۔ سرکاری اسکولوں میں پڑھانے والوں کی اکثریت کو صرف اپنی تنخواہوں اور سرکاری مراعات سے دلچسپی ہے۔
سیکڑوں تعلیمی افسران، اسکولوں کے ہیڈ ماسٹروں اور ٹیچروں نے سرکاری حیثیت کا فائدہ اٹھاکر اپنی بیگمات اور عزیزوں کے نام پر نجی اسکول کھول رکھے ہیں۔ معاشرے میں اہم مقام رکھنے والوں اور سماجی اور سیاسی رہنماؤں نے بھی اپنے تعلیمی ادارے قائم کر رکھے ہیں اور انھیں تحفظ دینے کے لیے وہ میڈیا میں بھی داخل ہوچکے ہیں جس کے باعث میڈیا والے ان کا خیال رکھتے ہیں اور ان کی تعلیمی من مانیوں، ہر سال مرضی کی فیسیں بڑھانے، طلبا سے آئے دن مختلف بہانوں سے رقمیں بٹورنے والوں کے آگے محکمہ تعلیم بے بس ہے کیونکہ اعلیٰ تعلیمی کاروبار کرنے والوں کو محکمہ تعلیم کے ان افسروں کا مکمل پتا ہے جو نجی اسکول چلا رہے ہیں۔ محکمہ تعلیم کو بھی پتا ہے کہ ان کے کون سے افسران نجی اسکولوں کا غیر قانونی کاروبار کر رہے ہیں مگر وہ اپنی خامیوں کے باعث ان کے خلاف کارروائی نہیں کر رہے۔
اب شاذ و نادر ہی ایسے سرکاری اسکول موجود رہ گئے ہیں جہاں تعلیم کے فروغ اور معیار پر توجہ دیے جانے سے ان کے اسکولوں کو امتحانات میں پوزیشن مل جاتی ہے۔ ایسے اسکول پنجاب کے سوا کسی اور صوبے میں موجود نہیں جب کہ ہر جگہ بڑے تعلیمی ادارے تعلیمی بورڈ سے امتحانی پوزیشنیں خرید لیتے ہیں اور پوزیشن حاصل کرنے والے طلبا کی تصویریں نمایاں کرکے اپنے اداروں کے باہر لگاتے ہیں اور داخلے بڑھاتے ہیں۔
گھروں پر ٹیوشن پڑھانا پرانا رواج ہے جہاں اپنے پیشے سے مخلص اساتذہ کمزور بچوں کو معمولی فیس یا مفت میں ٹیوشن پڑھا دیا کرتے تھے مگر اب باقاعدہ ٹیوشن سینٹر قائم ہیں اور مختلف مضامین کے ماہر اساتذہ کی ٹیوشن سینٹروں نے خدمات حاصل کر رکھی ہیں۔ سرکاری اسکولوں میں تعلیم پر عدم توجہی اور نجی اسکولوں اور تعلیمی افسروں کی باہمی ملی بھگت نے نجی اسکولوں کو امیروں کا شوق اور متوسط طبقے کی مجبوری بنا رکھا ہے۔
ریاست تعلیم پر اربوں روپے سالانہ خرچ تو کر رہی ہے مگر وہ ضایع ہو رہے ہیں جس کا سب کو پتا ہے مگر سب خاموش ہیں اور نجی تعلیمی ادارے پھل پھول کر مافیا کی شکل اختیار کرچکے ہیں نجی اسکولوں کی حیرت انگیز ترقی کا واضح ثبوت یہ ہے کہ 1982 میں ایک علاقے میں ایک نجی اسکول کے مالک کے اب 28 کیمپس اس علاقے کے بعد گلشن اقبال تک پھیل چکے ہیں اور ایک انٹر کالج بھی چل رہا ہے اور مالک اب یونیورسٹی بنانے کا خواہش مند ہے۔ سرکاری اسکولوں کی تباہی میں حکومتوں اور محکمہ تعلیم کا اہم کردار ہے جنھیں اب سپریم کورٹ پوچھے گی تو حقائق آشکار ہوں گے۔
چیف جسٹس پاکستان آصف سعید خان کھوسہ نے کہا ہے کہ تعلیم کی فراہمی ریاست کی ذمے داری ہے اور اس حکومتی ناکامی پر لوگ نجی اسکولوں میں اپنے بچوں کو تعلیم دلانے پر مجبور ہیں۔ اس موقعے پر جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیے کہ ریاست کا کام ہے کہ وہ نجی اسکولوں کو ریگولیٹ کرے۔ جسٹس اعجاز الحسن کا یہ بھی کہنا تھا کہ لوگ اپنی مالی حیثیت کے مطابق اپنے بچوں کے لیے اسکولوں کا انتخاب کرتے ہیں اور انھیں تعلیم دلاتے ہیں۔
علاوہ ازیں سندھ ہائی کورٹ نے نجی اسکولوں کو چھٹیوں کی دو ماہ کی فیس وصول کرنے سے روک دیا ہے اور ایسا کرنے والے اسکولوں کو حکم دیا ہے کہ وہ ایک ماہ کی فیس واپس کریں ورنہ ان کے خلاف توہین عدالت کے تحت کارروائی کی جائے گی۔
ملک میں نجی اسکولوں نے تعلیم کو مہنگے سے مہنگا کرنے، من مانیوں اور بے بس والدین کو لوٹنے کا جو تعلیمی کاروبار عروج پر پہنچا رکھا ہے ،اس کی سو فیصد ذمے داری ہماری تمام حکومتوں پر عائد ہوتی ہے ، جن کی اس سلسلے میں نااہلی کے باعث نجی اسکولوں کا فیسوں کا مسئلہ بھی اعلیٰ عدلیہ تک پہنچ گیا ہے اور اب عدلیہ ہی کو قانونی تشریح کرنی ہے۔ یہ ریمارکس بھی چیف جسٹس سپریم کورٹ نے دیے ہیں اور اب لوگوں کو عدلیہ کی قانونی تشریح کا انتظار کرنا ہے جس کے بعد ہی پوزیشن واضح ہوگی۔
ملک بھر میں مفت تعلیم کی فراہمی کی ذمے دار حکومت ہے اور ملک بھر میں حکومتوں نے لاکھوں سرکاری اسکول بنا رکھے ہیں اور ہزاروں کالج اور یونیورسٹیاں بھی وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے بنا رکھے ہیں جب کہ متعدد بلدیاتی اداروں نے بھی اپنی اپنی مالی طاقت کے مطابق پرائمری اسکول بنائے ہوئے ہیں مگر یہ بات سو فیصد حقیقت ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں کی اکثریت اپنی ناقص کارکردگی کے باعث عوام میں اپنا اعتماد کھو چکے ہیں اور ملک بھر میں گنتی کے سرکاری تعلیمی ادارے ایسے ہوں گے جہاں تعلیمی معیار بہترین تو نہیں بہتر ضرور ہے۔
سرکاری اسکولوں کا جال یوں تو ملک بھر میں بچھا ہوا ہے اور دیہی علاقوں میں بھی سرکاری اسکول موجود ہیں مگر ان کی حالت زار پر توجہ دینے کے لیے حکومتوں اور ایجوکیشن افسروں کے پاس وقت نہیں ہے اور انھی کی غیر ذمے داری اور نااہلی کے باعث تمام سرکاری ادارے ناکام اور تباہ حالی کا شکار چلے آرہے ہیں جس کے ذمے دار اعلیٰ تعلیمی افسران اور متعلقہ اسکولوں کے سربراہ اور اساتذہ ہیں ہر صوبے میں ہزاروں کی تعداد میں گھوسٹ سرکاری اسکول موجود ہیں۔ بڑی تعداد میں اسکولوں میں داخل طلبا کی تعداد برائے نام، اساتذہ غیر حاضر رہتے ہیں جس کی وجہ سے اسکول بند یا خالی ہونے کی وجہ سے جانوروں کے اصطبل بنا دیے گئے ہیں اور ان اسکولوں کے اساتذہ محکمہ تعلیم کے بدعنوان افسروں کی ملی بھگت سے گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کر رہے ہیں اور سینئر اساتذہ کی ہر سال تنخواہیں بڑھتی گئیں اور اسکولوں کی کارکردگی تباہ ہوتی گئی۔
سرکاری اسکولوں کے مقابلے میں نجی اسکولوں کی تعداد حیرت انگیز طور پر بڑھی ہے کیونکہ نجی اسکولوں کی وجہ سے تعلیم اب منفعت بخش کاروبار بن چکی ہے اور بہت کم نجی تعلیمی ادارے ایسے ہیں جن کا مشن واقعی معیار تعلیم کی بہتری اور تعلیم کا فروغ ہے جب کہ اکثر نجی اسکول صرف کمانے کے لیے کھولے گئے ہیں اور ان کے نزدیک تعلیم فروشی کامیاب کاروبار، مال بنانے اور تعلیمی اداروں کی تعداد بڑھانا ان کی زندگی کا مقصد ہے اور انھیں تعلیم کے فروغ یا تعلیمی معیار کی بہتری سے نہیں بلکہ اپنے تعلیمی اداروں کے معیار سے زیادہ سروکار ہے نہ کہ وہ تعلیمی میدان میں فخریہ یہ بتا سکیں کہ انھوں نے کتنے سالوں میں اتنی حیرت انگیز ترقی کرکے دولت کمائی ہے۔ بعض تعلیم فروشوں کے اسکولوں اور کیمپس کی تعداد ہر سال بڑھتی آرہی ہے جب کہ ملک بھر میں سرکاری اسکولوں میں طلبا کی تعداد کم سے کم اور معیار تعلیم عنقا ہوچکا ہے۔ سرکاری اسکولوں میں پڑھانے والوں کی اکثریت کو صرف اپنی تنخواہوں اور سرکاری مراعات سے دلچسپی ہے۔
سیکڑوں تعلیمی افسران، اسکولوں کے ہیڈ ماسٹروں اور ٹیچروں نے سرکاری حیثیت کا فائدہ اٹھاکر اپنی بیگمات اور عزیزوں کے نام پر نجی اسکول کھول رکھے ہیں۔ معاشرے میں اہم مقام رکھنے والوں اور سماجی اور سیاسی رہنماؤں نے بھی اپنے تعلیمی ادارے قائم کر رکھے ہیں اور انھیں تحفظ دینے کے لیے وہ میڈیا میں بھی داخل ہوچکے ہیں جس کے باعث میڈیا والے ان کا خیال رکھتے ہیں اور ان کی تعلیمی من مانیوں، ہر سال مرضی کی فیسیں بڑھانے، طلبا سے آئے دن مختلف بہانوں سے رقمیں بٹورنے والوں کے آگے محکمہ تعلیم بے بس ہے کیونکہ اعلیٰ تعلیمی کاروبار کرنے والوں کو محکمہ تعلیم کے ان افسروں کا مکمل پتا ہے جو نجی اسکول چلا رہے ہیں۔ محکمہ تعلیم کو بھی پتا ہے کہ ان کے کون سے افسران نجی اسکولوں کا غیر قانونی کاروبار کر رہے ہیں مگر وہ اپنی خامیوں کے باعث ان کے خلاف کارروائی نہیں کر رہے۔
اب شاذ و نادر ہی ایسے سرکاری اسکول موجود رہ گئے ہیں جہاں تعلیم کے فروغ اور معیار پر توجہ دیے جانے سے ان کے اسکولوں کو امتحانات میں پوزیشن مل جاتی ہے۔ ایسے اسکول پنجاب کے سوا کسی اور صوبے میں موجود نہیں جب کہ ہر جگہ بڑے تعلیمی ادارے تعلیمی بورڈ سے امتحانی پوزیشنیں خرید لیتے ہیں اور پوزیشن حاصل کرنے والے طلبا کی تصویریں نمایاں کرکے اپنے اداروں کے باہر لگاتے ہیں اور داخلے بڑھاتے ہیں۔
گھروں پر ٹیوشن پڑھانا پرانا رواج ہے جہاں اپنے پیشے سے مخلص اساتذہ کمزور بچوں کو معمولی فیس یا مفت میں ٹیوشن پڑھا دیا کرتے تھے مگر اب باقاعدہ ٹیوشن سینٹر قائم ہیں اور مختلف مضامین کے ماہر اساتذہ کی ٹیوشن سینٹروں نے خدمات حاصل کر رکھی ہیں۔ سرکاری اسکولوں میں تعلیم پر عدم توجہی اور نجی اسکولوں اور تعلیمی افسروں کی باہمی ملی بھگت نے نجی اسکولوں کو امیروں کا شوق اور متوسط طبقے کی مجبوری بنا رکھا ہے۔
ریاست تعلیم پر اربوں روپے سالانہ خرچ تو کر رہی ہے مگر وہ ضایع ہو رہے ہیں جس کا سب کو پتا ہے مگر سب خاموش ہیں اور نجی تعلیمی ادارے پھل پھول کر مافیا کی شکل اختیار کرچکے ہیں نجی اسکولوں کی حیرت انگیز ترقی کا واضح ثبوت یہ ہے کہ 1982 میں ایک علاقے میں ایک نجی اسکول کے مالک کے اب 28 کیمپس اس علاقے کے بعد گلشن اقبال تک پھیل چکے ہیں اور ایک انٹر کالج بھی چل رہا ہے اور مالک اب یونیورسٹی بنانے کا خواہش مند ہے۔ سرکاری اسکولوں کی تباہی میں حکومتوں اور محکمہ تعلیم کا اہم کردار ہے جنھیں اب سپریم کورٹ پوچھے گی تو حقائق آشکار ہوں گے۔