عسکریت پسند کی راہ اختیارکرنے والوں کو مذاکرات کی دعوت دیتا ہوں وزیراعظم
حکومت کی 5 سالہ آئینی مدت میں ملک کو بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے نجات دلادیں گے، وزیراعظم
MADRID:
وزیراعظم نوازشریف نے کہا ہے کہ وہ ہر روز اپنے بچوں کے جنازے نہیں اٹھاسکتے، دہشتگردی کے خاتمے کے لئے طاقت کا استعمال کیا جاسکتا ہے لیکن وہ عسکریت پسندی کی راہ اختیار کرنے والوں کو مذاکرات کی دعوت دیتے ہیں۔
وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد قوم سے اپنے پہلے خطاب میں انہوں نے کہا کہ انہوں نے ماہ جون کے آغاز میں وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا تھا۔ پاکستان کو اس وقت سنگین بحرانوں کا سامنا ہے۔ تمام ادارے تباہی اور بربادی کی آّخری حدوں کو چھو رہے ہیں، قومی ادارے سالانہ ملک کو 500 ارب کا نقصان پہنچا رہے ہیں، یہ سارا پیسہ عوام کا ہے، اس رقم سے ایک نئی پی آئی اے اور ریلوے کھڑی ہوسکتی تھی، عوام کےلئے20 لاکھ سے زائد گھر بنائے جاسکتے تھے۔ پاکستان بھر کے دیہاتوں کو صاف پانی مہیا کیا جاسکتا تھا، اتنی رقم سے بجلی کی بحران پر ہمیشیہ کے لئے قابو پایا جاسکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ جون 1999 مں پاکستان کے مجموعی قرضے 3ہزار ارب روپے تھے جو اب بڑھ کر 14 ہزار 500 ارب یوچکے تھے، اس قرض کی قسطیں ادا کرنے کےلئے ہم مزید قرض لینے پر مجبور ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ ملکی خزانے کی ابتر صورتحال کے باوجود پاکستان کی ترقی اور عوام کی سہپولت کو سامنے رکھتے ہوئے موجودہ حکومت نے توانائی کے شعبے میں گردشی قرضوں کی مد میں 480 ارب روپے ادا کئے جس کے نتیجے میں بجلی کی پیداوار میں 1700 میگاواٹ کا اضافہ ہوا۔ لوٹ مار کا کلچر اب ختم ہوگیا ہے۔ انتہائی محنت و مشقت سے تمام صوبوں کے ساتھ مل کر توانائی پالیسی تشکیل دی جاچکی ہے۔ وفاقی اور تمام صوبے بجلی بحران کے حل کے لئے یکسو ہے۔ سرکلر ڈیبٹ کی ادائیگی، بجلی چوری کے سدباب کے باوجود بحران کا خاتمہ ممکن نہیں، حکومت نے اس سلسلے میں کئی ہنگامی فیصلے کرلئے ہیں جلد ہی وہ گڈانی اور تھر میں کوئلے کے ذریعے بجلی کی پیداوار کے منصوبوں کے آغاز کریں گے اور وہ امید کرتے ہیں کہ عوام کی دعاؤں سے اپنی آئینی مدت کے دوران ہی بحران پر مکمل قابو پالیں گے۔
وزیراعظم نے کہا کہ دہشتگردی کی موجودہ صورتحال بھی ناقص پالیسیوں کا نتیجہ ہے، آج ملک کے کئی علاقوں میں خواتین تعلیم گاہوں کا رخ نہیں کرسکتیں، ہمارے میدانوں میں غیر ملکی کھلاڑی کھیلنے نہیں آتے۔ زیارت میں ہمارے قائد کی یادگار کو بموں سے اڑا دیا گیا، ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنا چاہئے کہ دہشتگردوں کے گروہ شاہراہوں پر معصوم انسانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگنے کے بعد اپنی پناہ گاہوں میں چھپ جاتے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ ہم سیاہ کو سیاہ اور سفید کو سفید کہنے کا حوصلہ پیدا کریں۔ ان سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم مجرموں کا ہاتھ بھی نہیں روک پارہے ہمارا نظام اس پر قابو پانے میں ناکام ہوگیا۔ پاکستان اس صورتحال کا مزید متحمل نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے انتخابات کے بعد کھلے دل کے ساتھ سیاسی جماعتوں کو حکومت کے ساتھ بیٹھ کر کام کرنے کی دعوت دی، یہ دعوت صرف سیاسی جماعتوں تک نہیں وہ ان کو بھی مذاکرات کی دعوت دیتے ہیں جو عسکریت پسندی کی راہ اختیار کرچکے ہیں،پاکستان کا وزیر اعظم ہونے کی حیثیت سے وہ ہر روز اپنے ہاتھوں سے اپنے بچوں کے جنازے نہیں اٹھا سکتے وہ آگ و خون کے اس کھیل کا خاتمہ چاہتے ہیں اس کے لئے ہر پاکستان کے تمام ادارے اس مقصد کے حصول کے لئے متحد ہیِں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنا ہوگا جس کے بغیر ہم اپنے وسائل عوام کی خوشحالی کےلئے صرف نہیں کرسکتے۔ کشمیر پاکستان کی شہ رگ اور ہمارا قومی مسئلہ ہے، ہمیں اس حقیقت کو ہر لمحہ پیش نظر رکھنا ہوگا کہ ملک کو معاشی طور پر مستحکم کئے بغیر کوئی بھی ہدف حاصل نہیں کیا جاسکتا، ہم بھارت سمیت تمام ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کےلئے پر عزم ہیں۔ دونوں ممالک کو احساس ہونا چاہئے کہ ہمیں اپنی توانائی جنگوں کے بجائے غربت اور جہالت کے خاتمے پر صرف کرنی چاہئے۔ ہمیں ایک ایسی حکمت عملی بنانا ہوگی جس سے پاکستان دنیا میں ایک نئے چہرے سے پہچانا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ڈرون حملے پاکستان کی حاکمیت اعلیٰ کی کھلی خلاف ورزی ہے اور یہ بات امریکی وزیر خارجہ کو بھی کہی تھی اس سلسلے میں اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری سے ملاقات میں بھی اس مسئلے کو اٹھایا ہے۔
وزیر اعظم نے مزید کہا کہ بلوچستان میں انسانی خون سے ہاتھ رنگنے والے قاتل جو بھی ہیں لیکن ان کا نشانہ بننے والے معصوم پاکستانی ہی ہیں۔ بے حسی اور لاتعلقی کا دور ختم ہوچکا بلوچستان کو نظر انداز کئے جانے کے دن گزر گئے حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں لیکن پاکستان کو ہمیشہ قائم رہنا ہے، وفاقی حکومت صوبے کی منتخب حکومت کو وہ تمام تعاون مہیا کرے گی جو دہشتگردی کے خاتمے کے لئے ضروری ہے، کراچی امن و روشنیوں کا شہر رہا ہے اور اس کا یہ تشخص برقرار رہنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی خوشحالی مضبوط معیشت کے بغیر ممکن نہیں، اس مقصد کے لئے اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری میں خاطر خواہ اضافہ ضروری ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ وہ عوام کو غربت اور پسماندگی کے شکنجے سے نکالنا چاہتے ہیں، اس سلسلے میں کم آمدنی والے خاندانوں کے لئے سستے گھروں کی فراہمی کا منصوبہ بنایا ہے جس پر عمل درآمد سے پاکستان کے تمام صوبوں کے لاکھوں بے گھر اور کم وسیلہ افراد زندگی کی جدید سہولتوں سے آراستہ گھر کے مالک ہوجائیں گے۔ قومی امور میں حکومت کی فکر لوڈ شیڈنگ اور دہشتگردی تک محدود نہیں، انہیں صحت، تعلیم اور دیگرمسائل کا بھی اندازہ ہے۔ انہیں ان مسائل کے حل کے لئے عوام کی تجاویز اور مشورے درکار ہیں، وہ پوری قوم سے اپیل کرتے ہیں سیلاب زدہ بھائیوں کی مدد کے لئے آگے بڑھیں۔ صرف خواب دیکھنے سے صحراؤں کے پھول نہیں کھلا کرتے، ترقی اور خوشحالی کی جانب سے جانے والے راستے قربانی اور ایثار مانگتے ہیں اور انہیں یقین ہے کہ ہم وہ پاکستان تعمیر کرسکتے ہیں جو ہمارے دلوں میں آباد ہے۔
وزیراعظم نوازشریف نے کہا ہے کہ وہ ہر روز اپنے بچوں کے جنازے نہیں اٹھاسکتے، دہشتگردی کے خاتمے کے لئے طاقت کا استعمال کیا جاسکتا ہے لیکن وہ عسکریت پسندی کی راہ اختیار کرنے والوں کو مذاکرات کی دعوت دیتے ہیں۔
وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد قوم سے اپنے پہلے خطاب میں انہوں نے کہا کہ انہوں نے ماہ جون کے آغاز میں وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا تھا۔ پاکستان کو اس وقت سنگین بحرانوں کا سامنا ہے۔ تمام ادارے تباہی اور بربادی کی آّخری حدوں کو چھو رہے ہیں، قومی ادارے سالانہ ملک کو 500 ارب کا نقصان پہنچا رہے ہیں، یہ سارا پیسہ عوام کا ہے، اس رقم سے ایک نئی پی آئی اے اور ریلوے کھڑی ہوسکتی تھی، عوام کےلئے20 لاکھ سے زائد گھر بنائے جاسکتے تھے۔ پاکستان بھر کے دیہاتوں کو صاف پانی مہیا کیا جاسکتا تھا، اتنی رقم سے بجلی کی بحران پر ہمیشیہ کے لئے قابو پایا جاسکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ جون 1999 مں پاکستان کے مجموعی قرضے 3ہزار ارب روپے تھے جو اب بڑھ کر 14 ہزار 500 ارب یوچکے تھے، اس قرض کی قسطیں ادا کرنے کےلئے ہم مزید قرض لینے پر مجبور ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ ملکی خزانے کی ابتر صورتحال کے باوجود پاکستان کی ترقی اور عوام کی سہپولت کو سامنے رکھتے ہوئے موجودہ حکومت نے توانائی کے شعبے میں گردشی قرضوں کی مد میں 480 ارب روپے ادا کئے جس کے نتیجے میں بجلی کی پیداوار میں 1700 میگاواٹ کا اضافہ ہوا۔ لوٹ مار کا کلچر اب ختم ہوگیا ہے۔ انتہائی محنت و مشقت سے تمام صوبوں کے ساتھ مل کر توانائی پالیسی تشکیل دی جاچکی ہے۔ وفاقی اور تمام صوبے بجلی بحران کے حل کے لئے یکسو ہے۔ سرکلر ڈیبٹ کی ادائیگی، بجلی چوری کے سدباب کے باوجود بحران کا خاتمہ ممکن نہیں، حکومت نے اس سلسلے میں کئی ہنگامی فیصلے کرلئے ہیں جلد ہی وہ گڈانی اور تھر میں کوئلے کے ذریعے بجلی کی پیداوار کے منصوبوں کے آغاز کریں گے اور وہ امید کرتے ہیں کہ عوام کی دعاؤں سے اپنی آئینی مدت کے دوران ہی بحران پر مکمل قابو پالیں گے۔
وزیراعظم نے کہا کہ دہشتگردی کی موجودہ صورتحال بھی ناقص پالیسیوں کا نتیجہ ہے، آج ملک کے کئی علاقوں میں خواتین تعلیم گاہوں کا رخ نہیں کرسکتیں، ہمارے میدانوں میں غیر ملکی کھلاڑی کھیلنے نہیں آتے۔ زیارت میں ہمارے قائد کی یادگار کو بموں سے اڑا دیا گیا، ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنا چاہئے کہ دہشتگردوں کے گروہ شاہراہوں پر معصوم انسانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگنے کے بعد اپنی پناہ گاہوں میں چھپ جاتے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ ہم سیاہ کو سیاہ اور سفید کو سفید کہنے کا حوصلہ پیدا کریں۔ ان سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم مجرموں کا ہاتھ بھی نہیں روک پارہے ہمارا نظام اس پر قابو پانے میں ناکام ہوگیا۔ پاکستان اس صورتحال کا مزید متحمل نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے انتخابات کے بعد کھلے دل کے ساتھ سیاسی جماعتوں کو حکومت کے ساتھ بیٹھ کر کام کرنے کی دعوت دی، یہ دعوت صرف سیاسی جماعتوں تک نہیں وہ ان کو بھی مذاکرات کی دعوت دیتے ہیں جو عسکریت پسندی کی راہ اختیار کرچکے ہیں،پاکستان کا وزیر اعظم ہونے کی حیثیت سے وہ ہر روز اپنے ہاتھوں سے اپنے بچوں کے جنازے نہیں اٹھا سکتے وہ آگ و خون کے اس کھیل کا خاتمہ چاہتے ہیں اس کے لئے ہر پاکستان کے تمام ادارے اس مقصد کے حصول کے لئے متحد ہیِں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنا ہوگا جس کے بغیر ہم اپنے وسائل عوام کی خوشحالی کےلئے صرف نہیں کرسکتے۔ کشمیر پاکستان کی شہ رگ اور ہمارا قومی مسئلہ ہے، ہمیں اس حقیقت کو ہر لمحہ پیش نظر رکھنا ہوگا کہ ملک کو معاشی طور پر مستحکم کئے بغیر کوئی بھی ہدف حاصل نہیں کیا جاسکتا، ہم بھارت سمیت تمام ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کےلئے پر عزم ہیں۔ دونوں ممالک کو احساس ہونا چاہئے کہ ہمیں اپنی توانائی جنگوں کے بجائے غربت اور جہالت کے خاتمے پر صرف کرنی چاہئے۔ ہمیں ایک ایسی حکمت عملی بنانا ہوگی جس سے پاکستان دنیا میں ایک نئے چہرے سے پہچانا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ڈرون حملے پاکستان کی حاکمیت اعلیٰ کی کھلی خلاف ورزی ہے اور یہ بات امریکی وزیر خارجہ کو بھی کہی تھی اس سلسلے میں اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری سے ملاقات میں بھی اس مسئلے کو اٹھایا ہے۔
وزیر اعظم نے مزید کہا کہ بلوچستان میں انسانی خون سے ہاتھ رنگنے والے قاتل جو بھی ہیں لیکن ان کا نشانہ بننے والے معصوم پاکستانی ہی ہیں۔ بے حسی اور لاتعلقی کا دور ختم ہوچکا بلوچستان کو نظر انداز کئے جانے کے دن گزر گئے حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں لیکن پاکستان کو ہمیشہ قائم رہنا ہے، وفاقی حکومت صوبے کی منتخب حکومت کو وہ تمام تعاون مہیا کرے گی جو دہشتگردی کے خاتمے کے لئے ضروری ہے، کراچی امن و روشنیوں کا شہر رہا ہے اور اس کا یہ تشخص برقرار رہنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی خوشحالی مضبوط معیشت کے بغیر ممکن نہیں، اس مقصد کے لئے اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری میں خاطر خواہ اضافہ ضروری ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ وہ عوام کو غربت اور پسماندگی کے شکنجے سے نکالنا چاہتے ہیں، اس سلسلے میں کم آمدنی والے خاندانوں کے لئے سستے گھروں کی فراہمی کا منصوبہ بنایا ہے جس پر عمل درآمد سے پاکستان کے تمام صوبوں کے لاکھوں بے گھر اور کم وسیلہ افراد زندگی کی جدید سہولتوں سے آراستہ گھر کے مالک ہوجائیں گے۔ قومی امور میں حکومت کی فکر لوڈ شیڈنگ اور دہشتگردی تک محدود نہیں، انہیں صحت، تعلیم اور دیگرمسائل کا بھی اندازہ ہے۔ انہیں ان مسائل کے حل کے لئے عوام کی تجاویز اور مشورے درکار ہیں، وہ پوری قوم سے اپیل کرتے ہیں سیلاب زدہ بھائیوں کی مدد کے لئے آگے بڑھیں۔ صرف خواب دیکھنے سے صحراؤں کے پھول نہیں کھلا کرتے، ترقی اور خوشحالی کی جانب سے جانے والے راستے قربانی اور ایثار مانگتے ہیں اور انہیں یقین ہے کہ ہم وہ پاکستان تعمیر کرسکتے ہیں جو ہمارے دلوں میں آباد ہے۔