کلامِ اقبال کی روشن علامتیں
اقبالؔ نے پروانے اور جگنو کی رمزوں کو کلاسیکی پیمانوں کے برعکس نسبتاً وسیع اور نئے تناظر میں پیش کیا ہے۔
پروانہ اور جگنو کلامِ اقبالؔ میں وہ کلیدی کردار ہیں جو ان کے فلسفۂ خودی اور تصورِ عشق کی بڑی مؤثر ترجمانی کرتے ہیں۔ ان کی متعین خصوصیات کی بنا پر علامہ نے انھیں ''کرمکِ ناداں'' اور ''کرمکِ شب تاب'' سے بھی موسوم کیا ہے۔ دونوں میں وصفِ مشترک 'روشنی' ہے کہ جس سے جگنو کا وجود عبارت ہے اور پروانے کو بھی اسی کی لپک ہے۔
اقبالؔ نے پروانے اور جگنو کی رمزوں کو کلاسیکی پیمانوں کے برعکس نسبتاً وسیع اور نئے تناظر میں پیش کیا ہے۔ مروج شعری روایت میں پروانہ، عاشقِ شمع کے روپ میںنظر آتا ہے اور خود کو اس کے عشق میں جلا کر خاکستر کر ڈالتا ہے اور جگنو سے ہم ایک روشن کیڑے کے طور پر متعارف ہوتے ہیں جو حسن و دلکشی کی علامت ہے۔ اقبالؔ اپنے مخصوص شعری و فکری نظام کے تحت دونوں کی علامتی معنویت میں تبدیلی کرتے ہیں اور مختلف تدریجی مراحل سے گزر کر پروانہ اور جگنو منفرد اور جدت آمیز علامتوں میں ڈھل جاتے ہیں۔
بات یہ ہے کہ علامہ چونکہ تحرک و حرارت پر مبنی مظاہر کو پسند کرتے ہیں اس لیے پروانے کی روشنی کے لیے طلب اور جگنو کا سراپا روشنی بن کر اپنے متحرک وجود سے دوسروں کو عمل و حرکت کا پیغام دینا انھیں بہت بھلا لگتا ہے۔ ان رمزوں سے انھوں نے اپنے فلسفۂ خودی کی بھرپور توضیح و صراحت کی ہے اور ان کے کلام میں پروانے کی طلب بلند تر مقاصد کی سچی لگن کی علامت بن گئی ہے۔ اسی طرح جگنو کا اپنی روشنی پر قناعت کرکے دوسروں کی دریوزہ گری سے اجتناب کرنے کا رویہ فقر و استغناکی رمز کے طور پر پیش ہوتا ہے۔ یوں پروانہ و جگنو کے علائم اقبالؔ کے بنیادی موضوعات کی ترسیل و تفہیم میںمؤثر کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں اور اسی بنا پر انھیں اقبالؔ کی کلیدی رمزیں تصورکیا جاتا ہے۔
روایتی معنوں میں پروانے کے عشق کو بلبل کے عشق سے فروتر گردانا گیا ہے کہ یہ کم حوصلہ ہے اور جل مرنے کو ہی محبت کا حاصل سمجھتا ہے۔ اقبالؔ پتنگے کے جل کر خاکستر ہو جانے کو تمنائے روشنی، خودسپردگی اور سیمابیت پر محمول کرتے ہوئے نظر ستایش سے دیکھتے ہیں۔ پروانے کے اضطرارواضطراب، ذوقِ تماشاے روشنی، استعجاب و استفسار اور خاکستر ہو کر سراپا نور ہو جانے جیسے مؤثر اوصاف کی شعری تحسین کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
واں بھی جل مرتا ہے سوزِ شمع پر پروانہ کیا؟
اس چمن میں بھی گل و بلبل کا ہے افسانہ کیا؟
_____________
پروانہ تجھ سے کرتا ہے اے شمع! پیار کیوں؟
یہ جانِ بے قرار ہے تجھ پر نثار کیوں؟
_____________
پروانہ، اور ذوقِ تماشائے روشنی
کیڑا ذرا سا اور تمنّائے روشنی!
_____________
جلانا دل کا ہے گویا سراپا نور ہو جانا
یہ پروانہ جو سوزاں ہو تو شمعِ انجمن بھی ہے
_____________
کیسی حیرانی ہے یہ اے طفلکِ پروانہ خُو!
شمع کے شعلوں کو گھڑیوں دیکھتا رہتا ہے تو
پروانے کے یہی اوصاف ہیںجو بالآخر شعرِ اقبالؔ میں علامتی معانی پر منتج ہوتے ہیں۔ اب پروانہ، افرادِ ملت کی علامت ہے جن کے سینوں میں اقبالؔ مقاصد کی حقیقی تڑپ دیکھنے کے متمنی ہیں۔وہ ان میں 'ذوقِ خود افروزی 'پیدا کرنے کے خواہاں ہیں جو 'جگر سوزی' کے باعث ہی ممکن ہے۔ وہ مردِ مسلمان میں 'شعلہ آشامی' کا وصف ابھارنے کے لیے کبھی یاس و حسرت کا پیرایۂ بیان اپناتے ہیں تو کہیں تلقینی و تنبیہی انداز میں اصلاحِ احوال کا فریضہ انجام دینا چاہتے ہیں۔ بعینہٖ وہ''چراغِ حرم'' کو ملتِ اسلامیہ کی رمزی حیثیت عطا کرکے اس سے پتنگ (ملت اسلامیہ کے فرد)کے لیے ایسی طرزِ طواف کے طلبگار ہوتے ہیں جو اس میں ''سرشتِ سمندری'' پیدا کر دے۔ اس ضمن میں چند شعر:
دکھا وہ حسنِ عالم سوز اپنی چشمِ پُرنم کو
جو تڑپاتا ہے پروانے کو، رلواتا ہے شبنم کو
_____________
اپنے پروانوں کو پھر ذوقِ خود افروزی دے
برقِ دیرینہ کو فرمانِ جگر سوزی دے
_____________
وہ جگر سوزی نہیں، وہ شعلہ آشامی نہیں
فایدہ پھر کیا جو گردِ شمع پروانے رہے
_____________
کوئی ایسی طرزِ طواف تو مجھے اے چراغِ حرم بتا!
کہ ترے پتنگ کو پھر عطا ہو وہی سرشتِ سمندری
پروانے کی علامتی معنویت اس وقت مزید نکھر جاتی ہے جب اقبالؔ عہد حاضر کے منظرنامے پر اس کا اطلاق کرکے طنز کی کاٹ کو گہرا کرنے کے لیے برتتے ہیں، جیسے:
شمع کو بھی ہو ذرا معلوم انجامِ ستم
صرفِ تعمیرِ سحر خاکسترِ پروانہ کر
_____________
یہ راز ہم سے چھپایا ہے میرِ واعظ نے
کہ خود حرم ہے چراغِ حرم کا پروانہ
شعرِ اقبالؔ میںپروانے کے مقابلے میں جگنو کی علامت زیادہ معنی خیز ابعاد رکھتی ہے۔ اقبالؔ، جگنو کو ''کرمکِ شب تاب'' قرار دیتے ہوئے پتنگے پر فائق ٹھہراتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ روشن کیڑا پروانے کے برعکس دوسروں کا محتاج نہیں بلکہ خود انحصار، خودشناس اور خودنگر ہے جبکہ پروانہ، طورِ شمع کا کلیم (کچھ اس میںجوشِ عاشقِ حسنِ قدیم ہے+چھوٹا سا طور تو یہ ذرا سا کلیم ہے) ہونے کے باوجود غیر کی روشنی کا محتاج ہے۔
بانگِ درا کی نظموں ''ہمدردی''،''جگنو'' اور ''ایک پرندہ اور جگنو'' میں اقبالؔ نے جگنو کے ظاہری اوصاف گنواے ہیں جن کو پیشِ نظر رکھ کر وہ بعدازاں اسے ایک علامت کے طور پر برتتے ہیں، مثلاً ''ہمدردی'' میں بلبل کی آہ و زاری سن کر جگنو کی زبانی ان خیالات کا اظہار کرایا گیا ہے:
حاضر ہوں مدد کو جان و دل سے
کیڑا ہوں اگرچہ میَں ذرا سا
کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری
میں راہ میں روشنی کروں گا
اللہ نے دی ہے مجھ کو مشعل
چمکا کے مجھے دیا بنایا
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے
اسی طرح نظم ''جگنو'' کا ابتدائی حصہ دیکھئے جس میں بڑی نادر تمثالوں سے اس کیڑے کی صفات گنوائی گئی ہیں:
جگنو کی روشنی ہے کاشانۂ چمن میں
یا شمع جل رہی ہے پھولوں کی انجمن میں
آیا ہے آسماں سے اُڑ کر کوئی ستارہ
یا جان پڑ گئی ہے مہتاب کی کرن میں
یا شب کی سلطنت میں صبح کا سفیر آیا
غربت میں آ کے چمکا، گمنام تھا وطن میں
تُکمہ کوئی گرا ہے مہتاب کی قبا کا
ذرّہ ہے یا نمایاں سورج کے پیرہن میں
حسنِ قدیم کی یہ پوشیدہ اک جھلک تھی
لے آئی جس کو قدرت خلوت سے انجمن میں
چھوٹے سے چاند میں ہے ظلمت بھی روشنی بھی
نکلا کبھی گہن سے، آیا کبھی گہن میں
''ایک پرندہ اور جگنو'' میں ایک مرغِ نوا پیرا (جو بلبل بھی ہو سکتا ہے!) سے مکالمے کے دوران جگنو قدرتِ حق کی ودیعت کردہ صلاحیتوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اپنی چمک کو ''فردوسِ نظر'' قرار دیتا ہے۔ وہ باور کراتا ہے کہ قدرت نے اس کے پروں کو ضیا بخشی ہے، اسے گلزار کی مشعل بنایا اور سوز سے نوازا ہے۔وہ یہاں تک کہتا ہے کہ:
لباسِ نور میں مستور ہوں میں
پتنگوں کے جہاں کا طور ہوں میں
جگنو کے ان ظاہری اوصاف سے اقبالؔ پر جو باطنی خوبیاں مترشح ہوتی ہے، وہ انھیں بے مثل علامتی آہنگ میں ڈھال دیتے ہیں۔ دیکھیے ابیات ذیل میں جگنو کی علامت کا اطلاق اس کی ہمدردانہ فطرت، جلائے قلبی اور چمک دمک کے پیش نظر بڑے پُرتاثیر انداز میں ہوا ہے:
وادیِ ہستی میں کوئی ہم سفر تک بھی نہ ہو
جادہ دکھلانے کو جگنو کا شرر تک بھی نہ ہو
_____________
کیا ذرّے کو جگنو، دے کے تابِ مستعار اس نے
کوئی دیکھے تو شوخی آفتابِ جلوہ فرما کی
_____________
مجھے عشق کے پر لگا کے اُڑا
مری خاک جگنو بنا کے اُڑا
یہاں پہلے شعر میں جگنو رہنمائی کی علامت ہے جس کے نور کا ایک شرر بھی جادہ دکھانے کے لیے کافی ہے۔ دوسرے شعر میں ذرّہ، مسلمان کی علامت ہے جسے آفتابِ جلوہ فرما (فرنگ) کی شوخی نے تابِ مستعار (تہذیبِ حاضر) دے کر جگنو بنا دیا ہے جو چمک دمک کا سمبل ہے، جبکہ آخری شعر میں جگنو جذبۂ عشق کی حدت کی رمز کے طور پر متعارف ہوا ہے۔ یوں جگنو کے ظاہری اوصاف بڑے قرینے سے علامتی معنویت پر منتج ہو جاتے ہیں۔
پروانے اور جگنو کے علائم تضاد و تقابل کی صورت میں زیادہ نکھر کر سامنے آتے ہیں۔ اقبالؔ یہ موازنہ کرتے ہیں اور اس کا مقصد جگنو کا پروانے پر تفوق ثابت کرنا ہے۔یاد رہے کہ جگنو اور پروانے کے مابین تفاوت کو ظاہر کرنے کے لیے اقبالؔ بظاہر دونوں کی خصوصیات کو بالمقابل لاتے ہیں مگر بباطن ان کا مقصد ان کی وساطت سے اپنے کلام کی علامتی جہتوں کو روشن کرنا ہے، جیسے:
پروانہ اک پتنگا، جگنو بھی اک پتنگا
وہ روشنی کا طالب، یہ روشنی سراپا
اسی طرح انھوں نے بالِ جبریل کی نظم ''پروانہ اور جگنو'' میں صرف دو شعروں میں مکالمت و مخاطبت کی ڈرامائی فضا میں دونوں رموز کا فرق آئینہ کر دیا ہے۔ یہاں پروانہ ایسی اقوام کی علامت ہے جو پرائی آگ کا طواف کرتی ہیں جبکہ جگنو خودداری کی رمز بلیغ ہونے کے ناتے حاکم اقوال و ملل کی دریوزہ گری سے ہر آن گریزاں ہے، یہ مختصر نظم دیکھیے:
پروانہ:
پروانے کی منزل بہت دُور ہے جگنو
کیوں آتشِ بے سوز پہ مغرور ہے جگنو
جگنو:
اللہ کا سو شکر کہ پروانہ نہیں میں
دریوزہ گرِ آتشِ بیگانہ نہیں میں
یوں دیکھا جائے تو پروانہ و جگنو کی علامتوں کے سلسلے میں علامہ کے ہاں ایک تدریجی ارتقا ملتا ہے جس کے تحت اوّل اوّل تو وہ ان دونوں کی الگ الگ صفات سے آشنا کرتے ہیں، بعدازاں انھیں برابر کی اہمیت دیتے ہیں___ اور پھر بالآخر دونوں کا موازنہ کرتے ہوئے جگنو کی پروانے پر فوقیت ثابت کر دیتے ہیں۔
اقبالؔ نے پروانے اور جگنو کی رمزوں کو کلاسیکی پیمانوں کے برعکس نسبتاً وسیع اور نئے تناظر میں پیش کیا ہے۔ مروج شعری روایت میں پروانہ، عاشقِ شمع کے روپ میںنظر آتا ہے اور خود کو اس کے عشق میں جلا کر خاکستر کر ڈالتا ہے اور جگنو سے ہم ایک روشن کیڑے کے طور پر متعارف ہوتے ہیں جو حسن و دلکشی کی علامت ہے۔ اقبالؔ اپنے مخصوص شعری و فکری نظام کے تحت دونوں کی علامتی معنویت میں تبدیلی کرتے ہیں اور مختلف تدریجی مراحل سے گزر کر پروانہ اور جگنو منفرد اور جدت آمیز علامتوں میں ڈھل جاتے ہیں۔
بات یہ ہے کہ علامہ چونکہ تحرک و حرارت پر مبنی مظاہر کو پسند کرتے ہیں اس لیے پروانے کی روشنی کے لیے طلب اور جگنو کا سراپا روشنی بن کر اپنے متحرک وجود سے دوسروں کو عمل و حرکت کا پیغام دینا انھیں بہت بھلا لگتا ہے۔ ان رمزوں سے انھوں نے اپنے فلسفۂ خودی کی بھرپور توضیح و صراحت کی ہے اور ان کے کلام میں پروانے کی طلب بلند تر مقاصد کی سچی لگن کی علامت بن گئی ہے۔ اسی طرح جگنو کا اپنی روشنی پر قناعت کرکے دوسروں کی دریوزہ گری سے اجتناب کرنے کا رویہ فقر و استغناکی رمز کے طور پر پیش ہوتا ہے۔ یوں پروانہ و جگنو کے علائم اقبالؔ کے بنیادی موضوعات کی ترسیل و تفہیم میںمؤثر کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں اور اسی بنا پر انھیں اقبالؔ کی کلیدی رمزیں تصورکیا جاتا ہے۔
روایتی معنوں میں پروانے کے عشق کو بلبل کے عشق سے فروتر گردانا گیا ہے کہ یہ کم حوصلہ ہے اور جل مرنے کو ہی محبت کا حاصل سمجھتا ہے۔ اقبالؔ پتنگے کے جل کر خاکستر ہو جانے کو تمنائے روشنی، خودسپردگی اور سیمابیت پر محمول کرتے ہوئے نظر ستایش سے دیکھتے ہیں۔ پروانے کے اضطرارواضطراب، ذوقِ تماشاے روشنی، استعجاب و استفسار اور خاکستر ہو کر سراپا نور ہو جانے جیسے مؤثر اوصاف کی شعری تحسین کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
واں بھی جل مرتا ہے سوزِ شمع پر پروانہ کیا؟
اس چمن میں بھی گل و بلبل کا ہے افسانہ کیا؟
_____________
پروانہ تجھ سے کرتا ہے اے شمع! پیار کیوں؟
یہ جانِ بے قرار ہے تجھ پر نثار کیوں؟
_____________
پروانہ، اور ذوقِ تماشائے روشنی
کیڑا ذرا سا اور تمنّائے روشنی!
_____________
جلانا دل کا ہے گویا سراپا نور ہو جانا
یہ پروانہ جو سوزاں ہو تو شمعِ انجمن بھی ہے
_____________
کیسی حیرانی ہے یہ اے طفلکِ پروانہ خُو!
شمع کے شعلوں کو گھڑیوں دیکھتا رہتا ہے تو
پروانے کے یہی اوصاف ہیںجو بالآخر شعرِ اقبالؔ میں علامتی معانی پر منتج ہوتے ہیں۔ اب پروانہ، افرادِ ملت کی علامت ہے جن کے سینوں میں اقبالؔ مقاصد کی حقیقی تڑپ دیکھنے کے متمنی ہیں۔وہ ان میں 'ذوقِ خود افروزی 'پیدا کرنے کے خواہاں ہیں جو 'جگر سوزی' کے باعث ہی ممکن ہے۔ وہ مردِ مسلمان میں 'شعلہ آشامی' کا وصف ابھارنے کے لیے کبھی یاس و حسرت کا پیرایۂ بیان اپناتے ہیں تو کہیں تلقینی و تنبیہی انداز میں اصلاحِ احوال کا فریضہ انجام دینا چاہتے ہیں۔ بعینہٖ وہ''چراغِ حرم'' کو ملتِ اسلامیہ کی رمزی حیثیت عطا کرکے اس سے پتنگ (ملت اسلامیہ کے فرد)کے لیے ایسی طرزِ طواف کے طلبگار ہوتے ہیں جو اس میں ''سرشتِ سمندری'' پیدا کر دے۔ اس ضمن میں چند شعر:
دکھا وہ حسنِ عالم سوز اپنی چشمِ پُرنم کو
جو تڑپاتا ہے پروانے کو، رلواتا ہے شبنم کو
_____________
اپنے پروانوں کو پھر ذوقِ خود افروزی دے
برقِ دیرینہ کو فرمانِ جگر سوزی دے
_____________
وہ جگر سوزی نہیں، وہ شعلہ آشامی نہیں
فایدہ پھر کیا جو گردِ شمع پروانے رہے
_____________
کوئی ایسی طرزِ طواف تو مجھے اے چراغِ حرم بتا!
کہ ترے پتنگ کو پھر عطا ہو وہی سرشتِ سمندری
پروانے کی علامتی معنویت اس وقت مزید نکھر جاتی ہے جب اقبالؔ عہد حاضر کے منظرنامے پر اس کا اطلاق کرکے طنز کی کاٹ کو گہرا کرنے کے لیے برتتے ہیں، جیسے:
شمع کو بھی ہو ذرا معلوم انجامِ ستم
صرفِ تعمیرِ سحر خاکسترِ پروانہ کر
_____________
یہ راز ہم سے چھپایا ہے میرِ واعظ نے
کہ خود حرم ہے چراغِ حرم کا پروانہ
شعرِ اقبالؔ میںپروانے کے مقابلے میں جگنو کی علامت زیادہ معنی خیز ابعاد رکھتی ہے۔ اقبالؔ، جگنو کو ''کرمکِ شب تاب'' قرار دیتے ہوئے پتنگے پر فائق ٹھہراتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ روشن کیڑا پروانے کے برعکس دوسروں کا محتاج نہیں بلکہ خود انحصار، خودشناس اور خودنگر ہے جبکہ پروانہ، طورِ شمع کا کلیم (کچھ اس میںجوشِ عاشقِ حسنِ قدیم ہے+چھوٹا سا طور تو یہ ذرا سا کلیم ہے) ہونے کے باوجود غیر کی روشنی کا محتاج ہے۔
بانگِ درا کی نظموں ''ہمدردی''،''جگنو'' اور ''ایک پرندہ اور جگنو'' میں اقبالؔ نے جگنو کے ظاہری اوصاف گنواے ہیں جن کو پیشِ نظر رکھ کر وہ بعدازاں اسے ایک علامت کے طور پر برتتے ہیں، مثلاً ''ہمدردی'' میں بلبل کی آہ و زاری سن کر جگنو کی زبانی ان خیالات کا اظہار کرایا گیا ہے:
حاضر ہوں مدد کو جان و دل سے
کیڑا ہوں اگرچہ میَں ذرا سا
کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری
میں راہ میں روشنی کروں گا
اللہ نے دی ہے مجھ کو مشعل
چمکا کے مجھے دیا بنایا
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے
اسی طرح نظم ''جگنو'' کا ابتدائی حصہ دیکھئے جس میں بڑی نادر تمثالوں سے اس کیڑے کی صفات گنوائی گئی ہیں:
جگنو کی روشنی ہے کاشانۂ چمن میں
یا شمع جل رہی ہے پھولوں کی انجمن میں
آیا ہے آسماں سے اُڑ کر کوئی ستارہ
یا جان پڑ گئی ہے مہتاب کی کرن میں
یا شب کی سلطنت میں صبح کا سفیر آیا
غربت میں آ کے چمکا، گمنام تھا وطن میں
تُکمہ کوئی گرا ہے مہتاب کی قبا کا
ذرّہ ہے یا نمایاں سورج کے پیرہن میں
حسنِ قدیم کی یہ پوشیدہ اک جھلک تھی
لے آئی جس کو قدرت خلوت سے انجمن میں
چھوٹے سے چاند میں ہے ظلمت بھی روشنی بھی
نکلا کبھی گہن سے، آیا کبھی گہن میں
''ایک پرندہ اور جگنو'' میں ایک مرغِ نوا پیرا (جو بلبل بھی ہو سکتا ہے!) سے مکالمے کے دوران جگنو قدرتِ حق کی ودیعت کردہ صلاحیتوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اپنی چمک کو ''فردوسِ نظر'' قرار دیتا ہے۔ وہ باور کراتا ہے کہ قدرت نے اس کے پروں کو ضیا بخشی ہے، اسے گلزار کی مشعل بنایا اور سوز سے نوازا ہے۔وہ یہاں تک کہتا ہے کہ:
لباسِ نور میں مستور ہوں میں
پتنگوں کے جہاں کا طور ہوں میں
جگنو کے ان ظاہری اوصاف سے اقبالؔ پر جو باطنی خوبیاں مترشح ہوتی ہے، وہ انھیں بے مثل علامتی آہنگ میں ڈھال دیتے ہیں۔ دیکھیے ابیات ذیل میں جگنو کی علامت کا اطلاق اس کی ہمدردانہ فطرت، جلائے قلبی اور چمک دمک کے پیش نظر بڑے پُرتاثیر انداز میں ہوا ہے:
وادیِ ہستی میں کوئی ہم سفر تک بھی نہ ہو
جادہ دکھلانے کو جگنو کا شرر تک بھی نہ ہو
_____________
کیا ذرّے کو جگنو، دے کے تابِ مستعار اس نے
کوئی دیکھے تو شوخی آفتابِ جلوہ فرما کی
_____________
مجھے عشق کے پر لگا کے اُڑا
مری خاک جگنو بنا کے اُڑا
یہاں پہلے شعر میں جگنو رہنمائی کی علامت ہے جس کے نور کا ایک شرر بھی جادہ دکھانے کے لیے کافی ہے۔ دوسرے شعر میں ذرّہ، مسلمان کی علامت ہے جسے آفتابِ جلوہ فرما (فرنگ) کی شوخی نے تابِ مستعار (تہذیبِ حاضر) دے کر جگنو بنا دیا ہے جو چمک دمک کا سمبل ہے، جبکہ آخری شعر میں جگنو جذبۂ عشق کی حدت کی رمز کے طور پر متعارف ہوا ہے۔ یوں جگنو کے ظاہری اوصاف بڑے قرینے سے علامتی معنویت پر منتج ہو جاتے ہیں۔
پروانے اور جگنو کے علائم تضاد و تقابل کی صورت میں زیادہ نکھر کر سامنے آتے ہیں۔ اقبالؔ یہ موازنہ کرتے ہیں اور اس کا مقصد جگنو کا پروانے پر تفوق ثابت کرنا ہے۔یاد رہے کہ جگنو اور پروانے کے مابین تفاوت کو ظاہر کرنے کے لیے اقبالؔ بظاہر دونوں کی خصوصیات کو بالمقابل لاتے ہیں مگر بباطن ان کا مقصد ان کی وساطت سے اپنے کلام کی علامتی جہتوں کو روشن کرنا ہے، جیسے:
پروانہ اک پتنگا، جگنو بھی اک پتنگا
وہ روشنی کا طالب، یہ روشنی سراپا
اسی طرح انھوں نے بالِ جبریل کی نظم ''پروانہ اور جگنو'' میں صرف دو شعروں میں مکالمت و مخاطبت کی ڈرامائی فضا میں دونوں رموز کا فرق آئینہ کر دیا ہے۔ یہاں پروانہ ایسی اقوام کی علامت ہے جو پرائی آگ کا طواف کرتی ہیں جبکہ جگنو خودداری کی رمز بلیغ ہونے کے ناتے حاکم اقوال و ملل کی دریوزہ گری سے ہر آن گریزاں ہے، یہ مختصر نظم دیکھیے:
پروانہ:
پروانے کی منزل بہت دُور ہے جگنو
کیوں آتشِ بے سوز پہ مغرور ہے جگنو
جگنو:
اللہ کا سو شکر کہ پروانہ نہیں میں
دریوزہ گرِ آتشِ بیگانہ نہیں میں
یوں دیکھا جائے تو پروانہ و جگنو کی علامتوں کے سلسلے میں علامہ کے ہاں ایک تدریجی ارتقا ملتا ہے جس کے تحت اوّل اوّل تو وہ ان دونوں کی الگ الگ صفات سے آشنا کرتے ہیں، بعدازاں انھیں برابر کی اہمیت دیتے ہیں___ اور پھر بالآخر دونوں کا موازنہ کرتے ہوئے جگنو کی پروانے پر فوقیت ثابت کر دیتے ہیں۔