پاک بھارت تجارتی سرگرمیاں جاری رہنی چاہئیں
پاکستان اور بھارت دونوں کی حکومتوں کو اس امر کا بخوبی ادراک ہے کہ دونوں ملکوں کی بقاء‘ ترقی اور خطے...
KARACHI:
پاکستان اور بھارت دونوں کی حکومتوں کو اس امر کا بخوبی ادراک ہے کہ دونوں ملکوں کی بقاء' ترقی اور خطے میں امن باہمی تعاون اور دوستانہ تعلقات ہی میں مضمر ہے اور جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ اسی حقیقت کے تناظر میں دونوں ممالک کے درمیان سرحدی کشیدگی خواہ کتنی ہی کیوں نہ بڑھ جائے باہمی تجارت کا قافلہ بہر صورت رواں دواں رہتا ہے۔
حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان واہگہ بارڈر کے ذریعے معمول کی تجارت میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوئی۔ اخباری خبر کے مطابق ہفتے کو بھارت سے سویا بین' ٹماٹر اور دیگر اشیا کے 110 ٹرک پاکستان آئے جب کہ پاکستان سے 45 ٹرکوں پر برآمدی سامان بھیجا گیا۔
پاک بھارت تجارتی نمو دونوں ممالک کے مفاد میں ہے۔ باہمی تجارتی سرگرمیوں کو جتنا فروغ ملے گا روز گار کے اتنے ہی مواقع پیدا ہوں گے اور خطے میں خوشحالی آئے گی۔ بلاشبہ بعض حلقے پاک بھارت دوستی اور تجارت کی مخالفت کر رہے ہیں' ان کے موقف میں کسی حد تک وزن ضرور ہو گا لیکن انھیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ آج کی دنیا میں کوئی بھی ملک پڑوسی ممالک سے تعلقات بگاڑ کر یا جنگ جیسے حالات پیدا کرکے خوشحالی کی منازل طے نہیں کر سکتا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی جنگیں ہو چکی ہیں۔ ایک دوسرے پر عدم اعتماد کی بنا پر دونوں ملک اسلحے کی دوڑ میں شامل ہیں۔
پاکستان اور بھارت دونوں کے دفاعی اخراجات روز بروز بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ادھر تعمیر و ترقی کے منصوبوں کے لیے وسائل کم پڑ جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں غربت' بے روز گاری اور دیگر مسائل میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔بھارت میں غریبی کا حجم پاکستان کی نسبت بہت زیادہ ہے تاہم پاکستان میں بھی غربت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ادھربڑھتی ہوئی دہشت گردی بھی اس خطے کے لیے مسائل پیدا کر رہی ہے اور ترقی کے عمل کو سست کرنے کا باعث بن رہی ہے۔ اس لیے ناگزیر ہے کہ دونوں ممالک باہمی کشیدگی کو ختم کر کے دوستانہ تعلقات کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیں۔
خوش آیند امر یہ ہے کہ لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان باہمی تجارتی عمل متاثر نہیں ہوا۔ مالدیپ کے دارالحکومت مالے میں سارک چیمبر کی ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کے موقع پر پاکستانی اور بھارتی وفود کے درمیان سرحدی تنازعات کے باوجود باہمی تجارت جاری رکھنے پر اتفاق ہوا ہے۔ صنعت کار اور تاجر برادری کو اس حقیقت کا ادراک ہے کہ کشیدگی دونوں ممالک کے مفاد میں نہیں، اس سے ان کی تجارت کو شدید نقصان پہنچے گا۔ امن و امان کی بگڑتی صورت حال توانائی کے بڑھتے ہوئے بحران' پٹرول' بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بتدریج اضافے کے باعث پیداواری لاگت بڑھنے سے بھی پاکستانی صنعت کار کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ اسے اپنے مال کی کھپت کے لیے وسیع منڈی کی ضرورت ہے۔ سب سے قریب' بڑی اور رسائی کے لحاظ سے سستی ترین منڈی بھارت ہی ہے۔
ایک ارب افراد کی حامل منڈی بھارت پاکستانی صنعت کاروں کے لیے سود مند ثابت ہو سکتی ہے۔ علاوہ ازیں بھارت سے بہت سی اشیا دیگر ممالک کے مقابلے میں سستی دستیاب ہیں جن سے فائدہ اٹھا کر یہاں تجارت کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ پاکستانی ماہرین صحت بھی اس امر پر قائل ہیں کہ بھارت سے زیادہ سے زیادہ ادویات درآمد کی جائیں' ان کا کہنا ہے کہ بھارتی ادویات پاکستانی مصنوعات کے مقابلے میں تین گنا سستی ہیں۔ پاکستان میں کروڑوں افراد غربت کے باعث مہنگی ادویات نہ خرید سکنے کے باعث بیماریوں کا مسلسل شکار چلے آ رہے ہیں۔ ایسے میں سستی بھارتی ادویات ملنے سے یہاں عام افراد میں بیماریوں پر قابو پانے میں آسانی پیدا ہو جائے گی۔ ماہرین صحت کا موقف ہے کہ جب بھارت سے آلو' پیاز اور دیگر اشیا درآمد کی جا سکتی ہیں تو ادویات درآمد کرنے میں کیا امر مانع ہے۔
سستی بھارتی ادویات کی درآمد سے عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف ملے گا۔ ماہرین کا یہ مطالبہ قطعی درست ہے کہ حکومت بھارت سے جان بچانے والی ادویات کے ساتھ ساتھ مختلف بیماریوں کے تدارک کے لیے دیگر ادویات بھی درآمد کرنے کی جامع پالیسی وضع کرے۔ دوسری جانب پاکستانی فارما انڈسٹری کے مالکان بھارت سے ادویات کی درآمد کی مسلسل مخالفت کر رہے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ پاکستان میں خام مال پر بہت زیادہ ٹیکس ہے بجلی اور گیس بھی بھارت کے مقابلے میں مہنگی ہونے سے پیداواری لاگت زیادہ ہے۔
لہٰذا بھارت سے سستی ادویات کی درآمد کی صورت میں پاکستان میں ادویات سازی کی 8 سو فیکٹریاں بند ہو جائیں گی۔ حکومت کو فارما انڈسٹری کو بچانے کے لیے ان کے مالکان کے مطالبات پر غور کرنا چاہیے مگر دوسری جانب یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ صنعت کار زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے لیے اپنا مال مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں، انھیں اس امر پر بھی غور کرنا چاہیے۔ بھارتی مال سستا آنے سے جہاں چند ہزار صنعت کاروں کو نقصان پہنچے گا وہاں کروڑوں عوام کو فائدہ بھی پہنچے گا۔ پاک بھارت تجارت دونوں ممالک کے عوام کے مفاد میں ہے اسے کسی بھی صورت روکا نہیں جانا چاہیے۔
پاکستان اور بھارت دونوں کی حکومتوں کو اس امر کا بخوبی ادراک ہے کہ دونوں ملکوں کی بقاء' ترقی اور خطے میں امن باہمی تعاون اور دوستانہ تعلقات ہی میں مضمر ہے اور جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ اسی حقیقت کے تناظر میں دونوں ممالک کے درمیان سرحدی کشیدگی خواہ کتنی ہی کیوں نہ بڑھ جائے باہمی تجارت کا قافلہ بہر صورت رواں دواں رہتا ہے۔
حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان واہگہ بارڈر کے ذریعے معمول کی تجارت میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوئی۔ اخباری خبر کے مطابق ہفتے کو بھارت سے سویا بین' ٹماٹر اور دیگر اشیا کے 110 ٹرک پاکستان آئے جب کہ پاکستان سے 45 ٹرکوں پر برآمدی سامان بھیجا گیا۔
پاک بھارت تجارتی نمو دونوں ممالک کے مفاد میں ہے۔ باہمی تجارتی سرگرمیوں کو جتنا فروغ ملے گا روز گار کے اتنے ہی مواقع پیدا ہوں گے اور خطے میں خوشحالی آئے گی۔ بلاشبہ بعض حلقے پاک بھارت دوستی اور تجارت کی مخالفت کر رہے ہیں' ان کے موقف میں کسی حد تک وزن ضرور ہو گا لیکن انھیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ آج کی دنیا میں کوئی بھی ملک پڑوسی ممالک سے تعلقات بگاڑ کر یا جنگ جیسے حالات پیدا کرکے خوشحالی کی منازل طے نہیں کر سکتا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی جنگیں ہو چکی ہیں۔ ایک دوسرے پر عدم اعتماد کی بنا پر دونوں ملک اسلحے کی دوڑ میں شامل ہیں۔
پاکستان اور بھارت دونوں کے دفاعی اخراجات روز بروز بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ادھر تعمیر و ترقی کے منصوبوں کے لیے وسائل کم پڑ جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں غربت' بے روز گاری اور دیگر مسائل میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔بھارت میں غریبی کا حجم پاکستان کی نسبت بہت زیادہ ہے تاہم پاکستان میں بھی غربت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ادھربڑھتی ہوئی دہشت گردی بھی اس خطے کے لیے مسائل پیدا کر رہی ہے اور ترقی کے عمل کو سست کرنے کا باعث بن رہی ہے۔ اس لیے ناگزیر ہے کہ دونوں ممالک باہمی کشیدگی کو ختم کر کے دوستانہ تعلقات کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیں۔
خوش آیند امر یہ ہے کہ لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان باہمی تجارتی عمل متاثر نہیں ہوا۔ مالدیپ کے دارالحکومت مالے میں سارک چیمبر کی ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کے موقع پر پاکستانی اور بھارتی وفود کے درمیان سرحدی تنازعات کے باوجود باہمی تجارت جاری رکھنے پر اتفاق ہوا ہے۔ صنعت کار اور تاجر برادری کو اس حقیقت کا ادراک ہے کہ کشیدگی دونوں ممالک کے مفاد میں نہیں، اس سے ان کی تجارت کو شدید نقصان پہنچے گا۔ امن و امان کی بگڑتی صورت حال توانائی کے بڑھتے ہوئے بحران' پٹرول' بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بتدریج اضافے کے باعث پیداواری لاگت بڑھنے سے بھی پاکستانی صنعت کار کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ اسے اپنے مال کی کھپت کے لیے وسیع منڈی کی ضرورت ہے۔ سب سے قریب' بڑی اور رسائی کے لحاظ سے سستی ترین منڈی بھارت ہی ہے۔
ایک ارب افراد کی حامل منڈی بھارت پاکستانی صنعت کاروں کے لیے سود مند ثابت ہو سکتی ہے۔ علاوہ ازیں بھارت سے بہت سی اشیا دیگر ممالک کے مقابلے میں سستی دستیاب ہیں جن سے فائدہ اٹھا کر یہاں تجارت کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ پاکستانی ماہرین صحت بھی اس امر پر قائل ہیں کہ بھارت سے زیادہ سے زیادہ ادویات درآمد کی جائیں' ان کا کہنا ہے کہ بھارتی ادویات پاکستانی مصنوعات کے مقابلے میں تین گنا سستی ہیں۔ پاکستان میں کروڑوں افراد غربت کے باعث مہنگی ادویات نہ خرید سکنے کے باعث بیماریوں کا مسلسل شکار چلے آ رہے ہیں۔ ایسے میں سستی بھارتی ادویات ملنے سے یہاں عام افراد میں بیماریوں پر قابو پانے میں آسانی پیدا ہو جائے گی۔ ماہرین صحت کا موقف ہے کہ جب بھارت سے آلو' پیاز اور دیگر اشیا درآمد کی جا سکتی ہیں تو ادویات درآمد کرنے میں کیا امر مانع ہے۔
سستی بھارتی ادویات کی درآمد سے عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف ملے گا۔ ماہرین کا یہ مطالبہ قطعی درست ہے کہ حکومت بھارت سے جان بچانے والی ادویات کے ساتھ ساتھ مختلف بیماریوں کے تدارک کے لیے دیگر ادویات بھی درآمد کرنے کی جامع پالیسی وضع کرے۔ دوسری جانب پاکستانی فارما انڈسٹری کے مالکان بھارت سے ادویات کی درآمد کی مسلسل مخالفت کر رہے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ پاکستان میں خام مال پر بہت زیادہ ٹیکس ہے بجلی اور گیس بھی بھارت کے مقابلے میں مہنگی ہونے سے پیداواری لاگت زیادہ ہے۔
لہٰذا بھارت سے سستی ادویات کی درآمد کی صورت میں پاکستان میں ادویات سازی کی 8 سو فیکٹریاں بند ہو جائیں گی۔ حکومت کو فارما انڈسٹری کو بچانے کے لیے ان کے مالکان کے مطالبات پر غور کرنا چاہیے مگر دوسری جانب یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ صنعت کار زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے لیے اپنا مال مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں، انھیں اس امر پر بھی غور کرنا چاہیے۔ بھارتی مال سستا آنے سے جہاں چند ہزار صنعت کاروں کو نقصان پہنچے گا وہاں کروڑوں عوام کو فائدہ بھی پہنچے گا۔ پاک بھارت تجارت دونوں ممالک کے عوام کے مفاد میں ہے اسے کسی بھی صورت روکا نہیں جانا چاہیے۔