سامراجی دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں

2008 کے عالمی مالی بحران کے بعد آج تک سرمایہ دارانہ معیشت نہیں سنبھل پائی بلکہ مسلسل انحطاط پذیری کی جانب گامزن ہے۔

zb0322-2284142@gmail.com

2008 کے عالمی مالی بحران کے بعد آج تک سرمایہ دارانہ معیشت نہیں سنبھل پائی بلکہ مسلسل انحطاط پذیری کی جانب گامزن ہے۔ یہ بحران روزانہ کی بنیاد پر بڑھ رہا ہے۔ یورپی یونین جوکہ دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے پیچھے کی جانب جارہی ہے۔ اسٹاکس اور بونڈز تیزی سے عالمی سرمایہ داری کے قابل ذکر ادارے ڈوجونس میں 200 پوائنٹس کے ساتھ مسلسل گراوٹ کا شکار ہے۔ چین کا سب سے بڑا بینک پیپلز بینک آف چائنا مشکوک قرضہ دے کر اپنی بیلنس شیٹ کی درستگی میں لگا ہوا ہے۔ چین کی شنگھائی اسٹاک مارکیٹ مسلسل چار سال سے مندی کا شکار ہے۔

ترکی، برازیل اور انڈیا اپنی پیداواری بڑھوتری اور عوام کے معیار زندگی کو درست کرنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں اس صورتحال کے ردعمل میں استنبول اور ریوڈی جینریو میں بار بار سمندری لہروں کی طرح عوام کا ردعمل ہورہا ہے۔ ایشیا کی دو دیو ہیکل ابھرتی ہوئی معیشتوں کے غبارے سے ہوا نکل رہی ہے۔ چین کی معاشی نمو 11 فیصد سے گھٹ کر 7 فیصد پر آگئی ہے۔ ہندوستان کی معاشی نمو میں گزشتہ برس کمی آئی ہے۔ ہر چندکہ انڈیا کی معاشی نمو میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہورہا تھا مگر سماجی تضادات اور دیگر وجوہات کی بنیاد پر گراوٹ آئی ہے۔ چین دولت کے اعتبار سے دنیا میں جنوبی افریقہ کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ ہندوستان دنیا کی 22 فیصد آبادی پر مشتمل ملک ہے جب کہ دنیا کی 40 فیصد غربت ہندوستان میں پلتی ہے۔

یہاں افریقہ سے زیادہ غربت ہے۔ چین میں سرمایہ داری کی بحالی سے یہاں کروڑوں لوگ غربت کی لکیر کے نیچے چلے گئے ہیں یہ درست ہے کہ چین میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی وجہ سے صنعتی ابھار آیا ہے اور مزدوروں کو روزگار بھی ملا ہے لیکن معیار زندگی میں بڑھوتری کے بجائے گراوٹ آئی ہے جب کہ دنیا کے صنعتی مزدوروں کی سب سے بڑی آبادی ہے۔ زمین پر ملکی اور غیرملکی سرمایہ کاری، خریداری اور قبضے کے خلاف کسانوں نے بڑے پیمانے پر ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ 1978 میں ڈنگ شیاؤپنگ کی جانب سے سرمایہ داری کو متعارف کروانے کے بعد بدامنی، جوا، دھوکا، عصمت فروشی اور دیگر سرمایہ دارانہ نظام کی برائیاں اپنے عروج پر ہیں۔ تیز رفتار سرمایہ دارانہ ترقی کی وجہ سے تین دہائیوں سے طبقاتی تفریق میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔


ماضی کے ہنرمند اور سستے مزدوروں کی بدولت سرمایہ دار مرغ مسلم اڑا رہے ہیں۔ معاشی نمو کے بعد گراوٹ نے سماجی بحران کو جنم دیا ہے۔ کمیونسٹ پارٹی جوکہ کمیونسٹ ہے اور نہ پارٹی بلکہ وہ اعلیٰ درجے کی نوکر شاہی ہے جن کا سرمایہ دار حکمران طبقات سے متعلق ہے۔ چین آج کل اندرونی تحفظات کے بجائے بیرونی تحفظات پر زیادہ خرچ کر رہا ہے۔ بیجنگ یونیورسٹی کی ایک سرکاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر چین کی معاشی نمو (گروتھ) میں 5/6 فیصد کمی ہوئی تو یہ خطرے کی گھنٹی ہوگی اور سماجی دھماکا بھی۔ چین کی بیشتر فوریکس ریزرو امریکی خزانے کا بونڈز ہے، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ چین کے امریکا سے تعلقات میں کتنا تضاد ہے۔ دوسری جانب مغربی سامراجیوں کا چین کے سرمایہ داروں سے تعلقات کا رول ہے۔ چین بڑے پیمانے پر افریقہ ایشیا اور لاطینی امریکا میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ ان ملکوں میں چین کی سرمایہ کاری وہاں کے محنت کشوں کے استحصال کا باعث بن رہی ہے۔ زمبیا کے عام انتخابات میں چین مخالف پارٹی نے کہا کہ چین ہمارے ہاں ''کارپوریٹ سرمایہ'' تشکیل دے رہا ہے۔

یہ دنیا کے مختلف ملکوں میں مداخلت بھی کر رہا ہے۔ چین افغانستان میں ''اینک'' تانبے کی کان کنی کا سرمایہ دار ہے جو دنیا کے چند بڑے تانبے کی کانوں میں سے ایک ہے۔ اس نے حال ہی میں کرزئی حکومت کے ساتھ شمالی افغانستان میں ''اوکسس رائیو'' کی خریداری پر بھی معائدہ کیا ہے۔ چینی سرمایہ کار جنگجو سردار رشید دوستم کو الگ سے رقم مہیا کرتے ہیں جس سے ان کے علاقوں میں اربوں گیلینز خام تیل کو محفوظ تجارت کی ضمانت مل سکے۔ ان سب کے علاوہ ہیبت ناک طور پر چینی کارپوریٹ سرمایہ مشرق وسطیٰ اور دیگر علاقوں کو اپنے قبضے میں لیے ہوا ہے۔ امریکا اور یورپ میں معاشی سست روی نے کھپت میں کمی کردی ہے جس کی وجہ سے منافعے کا بھاؤ بڑھ گیا ہے۔ معاشی انحطاط پذیری کے باعث اندرون کھپت مزید پیداوار کے لیے بوجھ بن گئی ہے۔

ان حالات کے مدنظر چین کے نوجوانوں اور محنت کشوں میں زبردست تحریک بھڑک اٹھے گی جو سرمایہ داری کی ان ساری لوٹ مار کو لے ڈوبے گی۔ نپولین نے ایک بار کہا تھا کہ ''چین ایک بار جاگ اٹھا تو دنیا کو ہلا دیگا'' ہندوستان میں سماجی اور سیاسی بے چینی نے معاشی گراوٹ کو جنم دیا ہے۔ ہندوستان کے ''سرخ دائرے 170 اضلاع میں اڑیسہ، چھتیس گڑھ، جھاڑ کھنڈ، تامل ناڑ، آندھرا پردیش، آسام، منی پور اور دیگر ریاستوں میں ماؤ نواز کمیونسٹ عوام میں جڑیں رکھتے ہیں، اور حکمرانی کرتے ہیں ان علاقوں میں ریاست کی دھاک نہ ہونے کے برابر ہے۔ کانگریس کے منتخب اراکین بدامنی کے مقدمے میں ایک کے بعد دوسرے مقدمے میں پھنستے جارہے ہیں۔ کانگریس حکومت سامراجی حربے اور میڈیا کے دباؤ میں آکر ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے مارکیٹ کھولنے پر مجبور ہوئی ہے۔ غذا اور بنیادی ضرورتوں میں دی گئی رعایتوں میں کٹوتی کی جارہی ہے۔ ہندوستان کے بڑے سرمایہ دار میڈیا اور سیاسی جماعتوں کو کنٹرول کرتے ہیں۔

ہندوستان کے قومی سرمایہ دار ہندو بنیاد پرست سرمایہ داروں کی حمایت کرتے ہیں اس لیے کہ وہ انھیں منافع اور استحصال کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ حالیہ امبانی کے نامزد کردہ ٹاٹا اور نریندر مودی جن کا ہندو انتہا پسند جماعت بی جے پی سے تعلق ہے اس کا ثبوت گجرات کے وزیر اعلیٰ ہیں جنہوں نے 2002 میں ایک ہزار مسلمانوں کا قتل کیا تھا۔ شایننگ انڈیا کا نعرہ ملک کی اکثریت کے لیے ایک گالی اور سرمایہ داروں کے لیے جنت ہے۔ یہاں تک کہ چھوٹا سرمایہ دار افراط زر اور قیمتیں بڑھنے سے پریشان ہے۔ انڈیا کی ایک ارب 20 کروڑ کی آبادی میں دو تہائی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ ایچ آئی ایس کے جینی نے پیش گوئی کی ہے ''انڈیا دنیا کا سب سے بڑا اسلحے کا برآمد کنندہ ہے'' گزشتہ سال انڈیا کے محنت کشوں نے ہڑتال کی تھی جس میں 10 کروڑ مزدوروں نے شرکت کی۔ اس صورت حال کے مدنظر دنیا اس طبقاتی نظام کے استحصال میں بلک رہی ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ برصغیر کے عوام ایک غیر طبقاتی معاشرہ انقلاب کے ذریعے قائم کریں اور امداد باہمی کی بنیاد پر سماج کی باگ ڈور کو فطری تقاضے کے مطابق چلائیں۔ جہاں ہر ایک سب کا اور سب ہر ایک کا ہوگا ۔ہر طرف خوشحالی کے پھول کھلیں گے۔
Load Next Story