مصر کا نوحہ

مصر میں طویل دور آمریت کے اختتام، جمہوریت کے آغاز اور پھر امریکی سرپرستی ہی میں دوبارہ فوجی بغاوت اور آمریت کے...

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

مصر میں طویل دور آمریت کے اختتام، جمہوریت کے آغاز اور پھر امریکی سرپرستی ہی میں دوبارہ فوجی بغاوت اور آمریت کے آغاز کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے اور جیسے جیسے حالات و واقعات بدلیں گے اور سامنے آتے جائیں گے مصر کے مستقبل کے بارے میں مزید جائزے، تجزیے اور تبصرے کی گنجائش نکلے گی، ویسے تو امریکا، مغرب، یورپ جمہوریت کا نام گردانی کرتے نہیں تھکتے تاہم جہاں جمہوریت ان کے گلے کی ہڈی بن جائے اور ان کے مذموم مقاصد اور مکروہ مفادات کو نقصان پہنچنا شروع ہوجائے تو پھر وہاں آمریت کو جمہوریت پر ترجیح دے دی جاتی ہے فوجی بغاوت کی پشت پناہی اور آمریت کی حوصلہ افزائی وآب یاری کی جاتی ہے، مصر اس کی تازہ ترین مثال ہے۔

جس کے بعد امریکا کے جمہوری رویوں، طرز حکمرانی اور انداز نگہبانی کی قلعی کھل گئی ہے لہٰذا اس حوالے سے مغرب و یورپ بالخصوص امریکا کے صبح و شام کیے گئے جمہوریت کی بالادستی کو یقینی بنانے کے بلندوبانگ دعوے اور مغربی تہذیب سے متاثر جمہوریت کا راگ الاپنے والے، بعض خاص اسلامی ممالک کی جانب سے پراسرار خاموشی، معنی خیز لیکن سوالیہ نشان ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ پوری دنیا پر صاف ظاہر ہے اور مصر کا پس منظر اس کے پیش منظر کی خود ہی وضاحت بھی کردیتا ہے۔

پہلی اور واضح وجہ تو یہ ہے کہ محمد مرسی منصوبے کا حصہ نہیں تھے۔ 2007 میں جب حسنی مبارک بیمار پڑے تو امریکا اور یورپ کو فکر لاحق ہوئی کہ اب مصر میں کسے حکومت سونپی جائے،2010 میں حسنی مبارک کی صحت مزید گر گئی اور امریکی تشویش مزید بڑھ گئی اور امریکی تھنک ٹینک پر قائم فریڈم ہاؤس نے تندہی سے کام شروع کردیا تاکہ حسنی مبارک کے بعد مصر ایسی شخصیت کو سونپا جائے جو ہر اعتبار سے امریکی مفادات کا نگران اور محافظ ہو اور امریکی و مغربی مفادات کے خلاف سوچنے کی بھی زحمت نہ کرے، ان حالات میں واشنگٹن کی نظریں محمد البرادعی کی جانب اٹھیں لیکن محمد مرسی کے انتخاب نے پوری بساط ہی الٹ دی، محمد مرسی نے امریکا کے لیے کئی چیلنج کھڑے کیے، انھوں نے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں مختلف معاملات میں جواب طلبی کی۔

جس کے نتیجے میں امریکی مفادات زد میں آئے انھوں نے یہودیوں کو بندروں کی اولاد ہی نہیں کہا بلکہ اپنے دفتر کے دروازے حماس اور فلسطینی رہنماؤں اور اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کے لیے بھی کھلے رکھے، امریکا اور اسرائیل کو جب اپنے منصوبے مٹی میں ملتے دکھائی دیے تو انھیں قومی فکر لاحق ہوگئی کہ محمد مرسی کی جگہ جلدازجلد کسی من پسند ہم خیال حامی کو لایا جائے، سب کچھ بہت منظم اور برق رفتاری کے ساتھ ہوا، محمد مرسی اور ان کے رفقاء کے خلاف محاذ بن گیا، نتیجتاً محمد مرسی کو ایوان صدر سے نکال دیا گیا، ستم بالائے ستم یہ کہ حکومت کے خاتمے کے لیے سازش کے تحت ایسی عجیب فضا سازگار کی گئی کہ منتخب حکومت کے خاتمے کے لیے فوج نے جو کچھ کیا اسے بھی جمہوری انقلاب قرار دیا گیا۔۔۔۔! امریکا اور اسرائیل کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا اور انھیں صرف اس بات سے غرض تھی کہ مصر کی فوج ان کی وفادار رہے، لہٰذا مصر میں تیزی سے بدلتی صورت حال کے تناظر میں امریکی و اسرائیلی سرپرستی اور فوجی حمایت میں محمد البرادعی کا ابھرنا حیرت انگیز نہیں نیز ہمیں اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ کئی عشروں تک مصر میں فوج نے امریکی امداد وصول کی ہے اور وہ معیشت کو 40 فیصد حد تک کنٹرول بھی کرتی ہے لہٰذا ماضی میں امریکی مصری افواج کے انتہائی قریبی تعلقات رہے ہیں۔


مصر میں فوجی بغاوت اور جمہوری حکومت کا خاتمہ اتنے منظم انداز میں ہوا کہ صرف ایک برس میں ہی سب کچھ بدل گیا، ایک سال قبل جب محمد مرسی نے مصر کے صدر کا انتخاب جیتا تو دارالحکومت قاہرہ کا تحریر اسکوائر ان کے حق میں اور فوج کے خلاف نعروں سے گونجا اور اب کامیاب امریکی سازش کے بعد فوج کے حق میں اور مرسی کے خلاف گونج رہا ہے، مخالفین کے ساتھ ساتھ صدر مرسی کے حامیوں کی بھی ایک بری تعداد حکومت کو بحال کرنے کے حق میں نعرے لگانے والوں میں شامل رہی ہے تاہم نتیجہ ندارد اور حامیوں اور مخالفین کے درمیان تصادم سے جانی و مالی نقصان کا سلسلہ بھی جاری رہا۔

گہری سازش کے تحت ایسی فضا ہموار کی گئی۔۔۔۔جس سے عوام میں غلط تاثر ابھرا کہ صدر مرسی تمام اختیارات سمیٹنے کی کوشش کر رہے ہیں، نتیجے میں لوگ یہ سمجھے کہ وہ زیادہ سے زیادہ طاقت اپنی ذات میں مرتکزکرنا چاہتے ہیں، عوام شکوک و شبہات میں مبتلا ہوئے اور ان کا اعتبار و بھروسہ جاتا رہا معیشت کی خودساختہ زبوں حالی بھی عوام کو متحرک کرنے اور سڑکوں پر لانے کا سبب بنی، نیز معاشی مسائل کے حل میں تاخیر، توانائی کا بحران اور عالمی مالیاتی فنڈ سے قرضے کے حصول میں تاخیر نے بھی عوام کو اکسایا اور معاملات کو خراب کیا،یہ سب کچھ منصوبے کے تحت تھا۔ امریکی آشیرباد پر فوج نے پہلے تو جمہوریت کی بساط لپیٹی پھر عوام کو جشن منانے کی راہ دکھائی اور جب جشن منایا جارہا تھا تب عالمی میڈیا کو جشن کی تصاویر یہ ثابت کرنے کے لیے جاری کی گئیں کہ عوام منتخب جمہوری حکومت کے خاتمے سے بہت خوش ہیں۔

حالانکہ صدر مرسی نے طویل آمریت سے نومولود ''جمہوری مصر'' میں اپنی ایک سالہ تاریخی جدوجہد سے کامیاب پالیسیوں کے نتیجے میں معاشی ماہرین اور اپنوں و غیروں کو ششدر کردیا، لیکن ان تاریخ ساز کامیابیوں اور کارناموں کو یکسر نظرانداز کردیا گیا، یہی وہ کامیابیاں و کارنامے تھے جنہوں نے یہودی و عیسائی سامراج کی نیندیں اڑادی تھیں، مثلاً مرسی جب صدارت پر براجمان ہوئے تو حال یہ تھا کہ اندرونی اور بیرونی قرضے 300 ٹریلین پاؤنڈ تک پہنچ چکے تھے اور مرسی کا اس سے کوئی تعلق نہ تھا، انھوں نے ایک سال کے عرصے میں وہ اصلاحات قائم کیں کہ جسے ان سے قبل 60 برس میں تباہ و برباد کردیا گیا تھا انھوں نے عوام کو وہ حقیقی آزادی دی جو عوام کو ان سے قبل کبھی نصیب نہ ہوئی انھوں نے قید خانوں سے بے گناہ قیدیوں کو رہائی دی جب کہ یہی جیلیں قیدیوں سے پٹی ہوئی تھیں جہاں ظلم و ستم کا ایک لامتناہی سلسلہ اپنے عروج پر تھا، مرسی نے ''روٹی و نان'' کے ایشو میں مصر کو امریکا کی غلام سے نکالا اور 70 فیصد خودکفالت حاصل کی مارکیٹنگ کے لیے سام سنگ کمپنی کی کئی۔

برانچوں کا افتتاح کیا، تاکہ مصریوں کو بڑی تعداد میں روزگار کے مواقع حاصل ہوسکیں، ایک مل ایریا کا افتتاح کیا جوکہ قطری حکومت کے تعاون سے ہوا جب کہ دوسرے مل ایریا کا آغاز ترک حکومت کے تعاون سے ہوا، مرسی نے بحری جہازوں کی مرمت کے حوالے سے ایک پروجیکٹ کی سرمایہ کاری شروع کی تاکہ دس سال کے اندر اندر مصر کی آمدنی میں 3 ارب سے 100 ارب ڈالر تک سالانہ بنیادوں پر اضافہ ہو اس عمل نے تل ابیب کو غضبناک کردیا، مرسی نے مصری آئی پوڈ کی سرپرستی کی، ایسا آئی پوڈ جو تمام مصری صنعتی مہارتوں اور خوبیوں سے آراستہ ہو۔ یہی وہ انقلابی اقدامات ہیں جن کی بدولت مظاہرین کی تعداد پر اگر غور کیا جائے تو مخالف مظاہرین سے زیادہ حامی مظاہرین کی تعداد آپ کو مصر میں نظر آئی ہوگی۔ مصر میں جو کچھ بھی ہوا وہ صریحاً فوجی بغاوت ہے اسے جمہوری انقلاب یا کوئی دوسرا نام دیا ہی نہیں جاسکتا۔ مصر کے عوام کو سیاسی آزادی اور بہتر معاشی مواقع درکار ہیں مگر وہاں عوامی بیداری کی لہر کے نام پر جو کھیل کھیلا جارہا ہے وہ آنکھوں میں دھول جھونکنے کے سوا کچھ نہیں اور مغرب و یورپ بالخصوص امریکا، اسرائیل، برطانیہ کی خاموشی سب کچھ بیان کر رہی ہے۔
Load Next Story