سیاسی منظر نامہ
کیا تحریک انصاف کی سیاسی تنہائی ہی اس کی سیاسی موت کا باعث ہو گی۔
کیا پاکستان کا سیاسی منظر نامہ کسی بڑے بحران کے لیے تیار ہو رہا ہے۔کیا کسی گریٹ گیم کا آغاز ہو چکا ہے۔ کیا وزیراعظم عمران خان کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے۔کیا انھیں مائنس کرنے کے پلان پر عملدرآمد شروع ہو چکا ہے۔ کیا ایک نیا بیانیہ بنایا جا رہا ہے کہ پہلے کرپٹ قیادت کو نکالا گیا، اب نااہل قیادت کو نکالنا ہے۔
کیا تحریک انصاف کی سیاسی تنہائی ہی اس کی سیاسی موت کا باعث ہو گی۔ کیا مقتدر قوتیں حکومتی نا اہلی سے تنگ آگئی ہیں اور اس فیصلہ پر پہنچ رہی ہیںکہ مسائل حل کی طرف جانے کے بجائے بڑھ رہے ہیں۔کیا یہ آخری موقع ہے، اگر اب وزیراعظم اس ٹیم کے ساتھ بھی نتائج نہ دے سکے تو پھر ٹیم نہیں وہ مشکل میں ہوں گے۔
دوبارہ ایسا ماحول بن رہا ہے جہاں حکومت گرانے کی باتیں کی جاتی ہیں۔ جہاں ایک خاص ماحول بنایا جا تا ہے کہ اس حکومت سے جان چھڑانی بہت ضروری ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اس بار حکومت گرانے کی گیم میں ن لیگ شامل نہیں ہے لیکن وہ تماشا ضرور دیکھنا چاہتی ہے۔ن لیگ حکومت کو گرانے اور کمزور کرنے کے کسی پلان کا حصہ نہیں بننا چاہتی ہے لیکن اس کے ثمرات سے فائدہ ضرور حاصل کرنا چاہتی ہے۔ ن لیگ وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے کی کوشش کرنا چا ہتی ہے۔
وہ حکومت گرانے والوں کی اخلاقی حمایت کرنا چاہتی ہے لیکن ساتھ ساتھ اگر کسی موقع پر حکومت کو مدد چاہیے ہوئی تو اسے دینے سے بھی انکار نہیں کیا جائے گا۔ جب کہ پی پی پی کا علم نہیں کہ وہ کہاں ہوگی۔ گزشتہ چند دن سے پی پی پی خاموش ہو گئی ہے۔ وہ تیزی نظر نہیں آرہی۔ اکیلے مولانا فضل الرحمن ہی حکومت گر انے پر بضد ہیں۔ لیکن کیا وہ تنہا یہ کام کر سکیں گے۔ ایک سوال ہے۔جب ملک کی اپوزیشن کا یہ حال ہو کہ ووٹوں کی موجودگی کے باوجود وہ چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کی جرات نہ کر سکے تو ایسی اپوزیشن سے حکومت گرانے کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے۔ جو اپوزیشن اکٹھے مل کر بیٹھنے کو تیار نہیں وہ حکومت کو کیسے گرا سکتی ہے۔
اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو اپوزیشن جماعتوں میں حکومت گرانے کی نہ تو سکت ہے اور نہ ہی وہ اس حکومت گرانے کے موڈ میں ہیں۔ لیکن پھر بھی حکومت خطرے میں نظر آرہی ہے۔اگر دیکھا جائے تو اپوزیشن جماعتوں کی قیادت ایسے مسائل میں پھنس چکی ہے کہ ان میں حکومت گرانے کی خواہش اور طاقت نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی حکومت کے جانے کی باتیں شروع ہو گئی ہیں ۔ یہ بھی لگ رہا ہے کہ اس حکومت کو گرانے کے لیے اس بار کوئی احتجاجی تحریک نہیں چلے گی بلکہ یہ حکومت خود ہی اپنے بوجھ سے گر جائے گی۔
حکومت کی اس وقت سب سے بڑی اپوزیشن مہنگائی ہے، روپے کی گرتی ہوئی قدر، بے روزگاری ، وعدہ خلافیاں، نامکمل احتساب اور معاشی عدم استحکام ہے۔ لوگوں کو یہ بھی محسوس ہو رہا ہے کہ اب احتساب کو روکا جا رہا ہے۔ چیئرمین نیب کی بیوروکریسی کو کلین چٹ کو بھی تحریک انصاف کے حامیوں نے پسند نہیں کیا۔ عمران خان ایک بے لاگ احتساب کے نعرہ پر آئے ہیں۔ اسی لیے احتساب میں نرمی بھی عمران خان کی عوامی حمایت میں کمی کر رہی ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ جب اپوزیشن عمران خان کو نہ تو کمزور کرنا چاہتی ہے اور نہ ہی گرانا چاہتی تو کون کمزور کررہا ہے۔ عمران خان کس کو مخاطب کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ابھی تو ہمیں آئے آٹھ ماہ ہوئے ہیں اور ہمیں گرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جب عمران خان اور اسٹبلشمنٹ ایک ہی پیج پر ہیں تو پھر حکومت کو گر انے کی باتیں کون کر رہا ہے۔ قومی حکومت کی باتیں کہاں سے آرہی ہیں۔ کیا اپوزیشن کی خاموشی اسی وجہ سے ہے کہ اپوزیشن کو اس بات کا اندازہ ہو گیا ہے کہ عمران خان کو مائنس کرنے پر کام شروع ہو گیا ہے۔ اس لیے اپوزیشن اس پلان کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالنا چاہتی ہے۔
عمران خان کی کابینہ میں تبدیلیوں سے بھی حکومت طاقتور نہیں کمزور ہوئی ہے ۔ لوگ ماضی کے تجربات سے جانتے ہیں کہ جب حکمرانوں کو اپنے دیرینہ ساتھیوں کی قربانی دینا پڑ جائے تو سمجھیں اقتدار کی مسند کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ جب آپ غیر متعلق لوگوں کے ساتھ شراکت اقتدار کرنے پر مجبور ہو جائیں تو سمجھیں حکومت کمزو ر ہو رہی ہے۔ جب سیاسی ٹیم کی جگہ ٹیکنوکریٹس آجائیں تو سمجھ جائیں سیاسی ٹیم کے جانے کا وقت ٹھہر گیا ہے۔ کبھی قربانیوں سے اقتدار مضبوط نہیں ہوا بلکہ ہر قربانی اندر سے اقتدار کو کمزور کرتی جا تی ہے۔ قربانی سے وقتی طو پر درد تو کم ہوتا ہے لیکن مرض ختم نہیں ہوتا۔
اس ضمن میں میں ایک واقعہ لکھنا چاہتا ہوں ۔ ایک دوست کی و الدہ شدید بیمار تھیں۔ ڈاکٹر نے خوارک کی نالی میں اسٹنٹ ڈالنے کی تجویز دی۔ دوست نے ڈاکٹر سے پوچھا کہ کیا اس اسٹنٹ کے بعد میری والدہ کی جان بچ جائے گی تو ڈاکٹر نے جواب دیا، نہیں مرنا آسان ہو جائے گا۔ تم کیا اپنی والدہ کو تکلیف سے مارنا چاہتے ہو۔ اس تناظر میں دیکھاجائے تو وزرا کی تبدیلی نے حکومت کی وقتی طورپر تکلیف تو کم کر دی ہے لیکن شائد مرض ختم نہیں ہوا۔
تحریک انصاف کے اندر اختلافات بھی کسی کینسر سے کم نہیں ہے۔جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کے گروپ میں لڑائی اب چوکوں اور چور اہوں میں لڑی جا رہی ہے۔ بیان بازی کھلے عام ہے۔ ایک د وسرے کے کپڑے اتارے جا رہے ہیں۔اسی طرح فواد چوہدری اور اسد عمر سے کہیں نہ کہیں یہ خیال زور پکڑ رہا ہے کہ تحریک انصاف اندر سے کمزور ہورہی ہے۔ دھڑے بندیاں صرف تحریک انصاف پنجاب یا مرکز میں ہی نظر نہیں آرہی ہیں۔ بلکہ خیبر پختوانخوا اور سندھ میں بھی دھڑے بندیاں شدید ہو رہی ہیں۔کوئی بھی خود کو محفوظ نہیں سمجھ رہا ہے۔ پاکستان میں یہ کوئی نئی بات نہیں ۔کھیل بھی پرانا ہے، بساط بھی وہی ہے، کھلاڑی اپنی پوزیشنز پر آ چکے ہیں، ہم سب اس کے عادی ہیں۔
کیا تحریک انصاف کی سیاسی تنہائی ہی اس کی سیاسی موت کا باعث ہو گی۔ کیا مقتدر قوتیں حکومتی نا اہلی سے تنگ آگئی ہیں اور اس فیصلہ پر پہنچ رہی ہیںکہ مسائل حل کی طرف جانے کے بجائے بڑھ رہے ہیں۔کیا یہ آخری موقع ہے، اگر اب وزیراعظم اس ٹیم کے ساتھ بھی نتائج نہ دے سکے تو پھر ٹیم نہیں وہ مشکل میں ہوں گے۔
دوبارہ ایسا ماحول بن رہا ہے جہاں حکومت گرانے کی باتیں کی جاتی ہیں۔ جہاں ایک خاص ماحول بنایا جا تا ہے کہ اس حکومت سے جان چھڑانی بہت ضروری ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اس بار حکومت گرانے کی گیم میں ن لیگ شامل نہیں ہے لیکن وہ تماشا ضرور دیکھنا چاہتی ہے۔ن لیگ حکومت کو گرانے اور کمزور کرنے کے کسی پلان کا حصہ نہیں بننا چاہتی ہے لیکن اس کے ثمرات سے فائدہ ضرور حاصل کرنا چاہتی ہے۔ ن لیگ وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے کی کوشش کرنا چا ہتی ہے۔
وہ حکومت گرانے والوں کی اخلاقی حمایت کرنا چاہتی ہے لیکن ساتھ ساتھ اگر کسی موقع پر حکومت کو مدد چاہیے ہوئی تو اسے دینے سے بھی انکار نہیں کیا جائے گا۔ جب کہ پی پی پی کا علم نہیں کہ وہ کہاں ہوگی۔ گزشتہ چند دن سے پی پی پی خاموش ہو گئی ہے۔ وہ تیزی نظر نہیں آرہی۔ اکیلے مولانا فضل الرحمن ہی حکومت گر انے پر بضد ہیں۔ لیکن کیا وہ تنہا یہ کام کر سکیں گے۔ ایک سوال ہے۔جب ملک کی اپوزیشن کا یہ حال ہو کہ ووٹوں کی موجودگی کے باوجود وہ چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کی جرات نہ کر سکے تو ایسی اپوزیشن سے حکومت گرانے کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے۔ جو اپوزیشن اکٹھے مل کر بیٹھنے کو تیار نہیں وہ حکومت کو کیسے گرا سکتی ہے۔
اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو اپوزیشن جماعتوں میں حکومت گرانے کی نہ تو سکت ہے اور نہ ہی وہ اس حکومت گرانے کے موڈ میں ہیں۔ لیکن پھر بھی حکومت خطرے میں نظر آرہی ہے۔اگر دیکھا جائے تو اپوزیشن جماعتوں کی قیادت ایسے مسائل میں پھنس چکی ہے کہ ان میں حکومت گرانے کی خواہش اور طاقت نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی حکومت کے جانے کی باتیں شروع ہو گئی ہیں ۔ یہ بھی لگ رہا ہے کہ اس حکومت کو گرانے کے لیے اس بار کوئی احتجاجی تحریک نہیں چلے گی بلکہ یہ حکومت خود ہی اپنے بوجھ سے گر جائے گی۔
حکومت کی اس وقت سب سے بڑی اپوزیشن مہنگائی ہے، روپے کی گرتی ہوئی قدر، بے روزگاری ، وعدہ خلافیاں، نامکمل احتساب اور معاشی عدم استحکام ہے۔ لوگوں کو یہ بھی محسوس ہو رہا ہے کہ اب احتساب کو روکا جا رہا ہے۔ چیئرمین نیب کی بیوروکریسی کو کلین چٹ کو بھی تحریک انصاف کے حامیوں نے پسند نہیں کیا۔ عمران خان ایک بے لاگ احتساب کے نعرہ پر آئے ہیں۔ اسی لیے احتساب میں نرمی بھی عمران خان کی عوامی حمایت میں کمی کر رہی ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ جب اپوزیشن عمران خان کو نہ تو کمزور کرنا چاہتی ہے اور نہ ہی گرانا چاہتی تو کون کمزور کررہا ہے۔ عمران خان کس کو مخاطب کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ابھی تو ہمیں آئے آٹھ ماہ ہوئے ہیں اور ہمیں گرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جب عمران خان اور اسٹبلشمنٹ ایک ہی پیج پر ہیں تو پھر حکومت کو گر انے کی باتیں کون کر رہا ہے۔ قومی حکومت کی باتیں کہاں سے آرہی ہیں۔ کیا اپوزیشن کی خاموشی اسی وجہ سے ہے کہ اپوزیشن کو اس بات کا اندازہ ہو گیا ہے کہ عمران خان کو مائنس کرنے پر کام شروع ہو گیا ہے۔ اس لیے اپوزیشن اس پلان کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالنا چاہتی ہے۔
عمران خان کی کابینہ میں تبدیلیوں سے بھی حکومت طاقتور نہیں کمزور ہوئی ہے ۔ لوگ ماضی کے تجربات سے جانتے ہیں کہ جب حکمرانوں کو اپنے دیرینہ ساتھیوں کی قربانی دینا پڑ جائے تو سمجھیں اقتدار کی مسند کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ جب آپ غیر متعلق لوگوں کے ساتھ شراکت اقتدار کرنے پر مجبور ہو جائیں تو سمجھیں حکومت کمزو ر ہو رہی ہے۔ جب سیاسی ٹیم کی جگہ ٹیکنوکریٹس آجائیں تو سمجھ جائیں سیاسی ٹیم کے جانے کا وقت ٹھہر گیا ہے۔ کبھی قربانیوں سے اقتدار مضبوط نہیں ہوا بلکہ ہر قربانی اندر سے اقتدار کو کمزور کرتی جا تی ہے۔ قربانی سے وقتی طو پر درد تو کم ہوتا ہے لیکن مرض ختم نہیں ہوتا۔
اس ضمن میں میں ایک واقعہ لکھنا چاہتا ہوں ۔ ایک دوست کی و الدہ شدید بیمار تھیں۔ ڈاکٹر نے خوارک کی نالی میں اسٹنٹ ڈالنے کی تجویز دی۔ دوست نے ڈاکٹر سے پوچھا کہ کیا اس اسٹنٹ کے بعد میری والدہ کی جان بچ جائے گی تو ڈاکٹر نے جواب دیا، نہیں مرنا آسان ہو جائے گا۔ تم کیا اپنی والدہ کو تکلیف سے مارنا چاہتے ہو۔ اس تناظر میں دیکھاجائے تو وزرا کی تبدیلی نے حکومت کی وقتی طورپر تکلیف تو کم کر دی ہے لیکن شائد مرض ختم نہیں ہوا۔
تحریک انصاف کے اندر اختلافات بھی کسی کینسر سے کم نہیں ہے۔جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کے گروپ میں لڑائی اب چوکوں اور چور اہوں میں لڑی جا رہی ہے۔ بیان بازی کھلے عام ہے۔ ایک د وسرے کے کپڑے اتارے جا رہے ہیں۔اسی طرح فواد چوہدری اور اسد عمر سے کہیں نہ کہیں یہ خیال زور پکڑ رہا ہے کہ تحریک انصاف اندر سے کمزور ہورہی ہے۔ دھڑے بندیاں صرف تحریک انصاف پنجاب یا مرکز میں ہی نظر نہیں آرہی ہیں۔ بلکہ خیبر پختوانخوا اور سندھ میں بھی دھڑے بندیاں شدید ہو رہی ہیں۔کوئی بھی خود کو محفوظ نہیں سمجھ رہا ہے۔ پاکستان میں یہ کوئی نئی بات نہیں ۔کھیل بھی پرانا ہے، بساط بھی وہی ہے، کھلاڑی اپنی پوزیشنز پر آ چکے ہیں، ہم سب اس کے عادی ہیں۔