لہو سے چراغ روشن
ضمانت بھی نہ کرا سکے، دوسرے بولے میرا لڑکا کار کے وہیل کپ چوری کے الزام میں بند ہے۔
ISLAMABAD:
انصاف کے بارے میں سنا، عدالتوں میں برسہا برس لوگوں کو جاتے دیکھا جب ان غربا، مساکین و بے کس لوگوں کو انصاف نہ ملا تو افسوس ہوا۔ ان کے پاس بڑا مہنگا وکیل کرنے کا مال و زر نہ تھا، کچھ ایسے بھی تھے جو وکیل نہ کرسکے ان کی استعداد نہ تھی۔ معلوم ہوا ان کا لڑکا موبائل، پرس چھیننے کے جرم میں بند ہے۔
ضمانت بھی نہ کرا سکے، دوسرے بولے میرا لڑکا کار کے وہیل کپ چوری کے الزام میں بند ہے۔ تیسرا بول اٹھا کیا اندھیر نگری ہے میرا لڑکا دکان کے سامنے سے گزر رہا تھا اس دکان میں ڈاکہ پڑا پولیس ڈاکوؤں کو پکڑ نہ سکی بے قصور میرے لڑکے کو پکڑ لیا، قصوروار بناکر عدالت میں پیش کیا آج تک اسے چھڑا نہ سکے بند ہے۔ تاریخ پر تاریخ، تاریخ پر تاریخ۔ یہاں جتنے لوگ ہیں وہ اپنی اولادوں کے چھوٹے معمولی جرائم پرعدالتوں میں حاضر ہو رہے ہیں۔ ایسے بھی ہیں جن کے لڑکوں کو بند ہوئے کئی سال بیت گئے، غریب ضمانت تک نہ کراسکے۔ باپ کا بھی انتقال ہوگیا مرے ہوئے باپ کا جیل سے چہرہ بھی نہ دیکھنے دیا، کسی کی ماں کا انتقال ہوگیا۔
سارا دکھ، تڑپ ان غریب غربا، مساکین، بیوہ، یتیموں کے لیے ہے ان 70 سال میں دیکھا ہے ان لوگوں کو دھکے، مکے، چانٹے، گھونسے ملتے رہے وہ شخص انصاف کے لیے تڑپا کیا آج بھی تڑپ رہا ہے۔ رونے کے لیے ہر قدم پر مسائل، امیر، رؤسا، بڑے لوگوں کے لیے عیش و تعیش کے لیے سب کچھ موجود ہے۔ مہنگائی کا اثر غریب پر پڑا امیر پر کوئی فرق نہیں۔ سیکڑوں سے ہزاروں کی دوا، ان کے لیے مہنگی نہیں۔ مال ہی مال ہے۔ جب کہ غریب جس کی آمدنی محدود بلکہ اتنی کم جس سے گزارا مشکل وہ کس طرح مہنگی ادویات یا اشیا خور و نوش خرید سکے گا۔ بھوک، افلاس، تڑپتے، بیماری سے لڑتے ہوئے وقت گزرتا ہے وقت سے پہلے دم توڑ جاتا ہے۔ غریبی، امیری کا کھیل پوری دنیا میں ہے لیکن دنیا کے دیگر ممالک سے غربت کم ہو رہی ہے بلکہ بہت سے ممالک ایسے ہیں جہاں غربت ختم ہوگئی ہے۔ افسوس ہمارے ملک میں غربت ختم ہونا دور کی بات بڑھ گئی بلکہ ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔
70 سال میں تعلیم عام نہ ہوسکی بلکہ سرکاری اسکول میں الگ نصاب اور گرامر، انگلش میڈیم، پرائیویٹ اسکولوں میں جدا نظام تعلیم۔ اس طرح جیسے غریب کے لیے قانون الگ اور امیر کے لیے الگ۔ بحث و مباحثے کے لیے کسی استاد کو بلاتے ہیں تو وہ بھی پرائیویٹ، انگلش میڈیم کے تعلیم یافتہ یا وہاں کے استاد کو بلاتے ہیں وہاں بھی سرکاری اردو میڈیم کے اسکول کے استاد کو پیچھے کردیا جاتا ہے۔ اونچے، بڑے عہدوں پر وہی انگلش میڈیم گرامر اسکول کے پڑھے ہوئے پہنچتے ہیں۔
لوگوں کو کہتے سنا انگلش میڈیم، گرامر پرائیوٹ اسکولوں کے تعلیم یافتہ کو فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ جو سرکاری اسکول تھے وہی ہیں ان میں اضافہ نہ ہوا اگر اضافہ ہوا تو پرائیویٹ اسکولوں میں۔ غریب کا لڑکا یا لڑکی ان سرکاری اسکولوں کے علاوہ پرائیویٹ اسکولوں میں نہیں پڑھ سکتے وہ اس قدر فیس کہاں سے لائے۔ جیسا لوگ کہتے ہیں اگر سرکاری اسکولوں میں اضافہ ہوتا رہتا تعلیمی نظام ایک ہوتا تو آج ان پرائیویٹ اسکولوں میں اضافہ نہ ہوتا۔ اسکول کے ایک استاد نے پیاری بات کہی کبھی ڈگمگائی کشتی، کبھی کھو گیا کنارہ ۔ چشم فلک سے ماضی کے جھرونکے افق حیات پر موجود ہیں۔
سرکاری اسپتال جو تھے وہی آج بھی ہیں، ان میں کئی دہائیاں گزریں اضافہ نہ ہوا وہی پرائیویٹ اسکولوں کی بات بالکل اسی طرح پرائیویٹ اسپتالوں، شفا خانوں میں بتدریج اضافہ ہوتا رہا۔ کوئی غریب کس طرح ان مہنگے پرائیویٹ اسپتالوں میں علاج کراسکے گا جہاں لاکھوں رقومات وصول کی جاتی ہیں۔ ہزاروں غم ہیں دنیا کے ہم کیا کریں حوادث کی گھٹا ، دنیا نئی ہے چہرہ ہے پرانا یہ ہماری بدنصیبی نہیں تو اور کیا ہے۔ جسے موت نے نہ پوچھا اسے زندگی نے مارا ، کتنے لوگوں کی بہاروں پر خزاں چھائی، کہتے ہیں پھول آرزوؤں کے کھلتے نہیں کبھی بڑی ویران ہیں امید کی راہیں۔ دہر فانی میں غم زندگی کے ساتھ لہو کے چراغ بھی نہیں بڑی ویران ہیں امید کی راہیں۔ جس نے راہ مستقیم اپنائی اسے شرمندگی ہوئی نہ درد کی ٹیسیں ۔اب کہتا ہوں کہ کسی نہ کسی بات پر تشنگی ضرور ہے چشم زدن ہے اور دل بسمل بھی۔
کہنے کو بہت کچھ غم دوراں ہو یا شب غم ہر غریب کی امیدوں کا چمن مفلوک الحال ۔ خزاں چھا گئی اس کے دل ویراں میں ترک الفت اس کے تصور میں چراغ روشن ہیں۔ میں نے سسکتی ہوئی زندگی دیکھی ان کے پھول آرزوؤں کے کھلے نہیں کبھی لیکن وہ ان بڑے لوگوں سے افضل ہیں جو ملک کو لوٹتے رہے آج بھی عیش و تعیش کی زندگی گزار رہے ہیں غریب کل بھی غریب تھا آج بھی غریب ہے لیکن اپنے ملک کے لیے اس کی جان قربان ہے۔
یہ ہماری خوش نصیبی ہے ہمارا ملک زراعت، صنعت و معدنیات میں بہت آگے ہے کوئلہ، گیس، سونا، چاندی، جواہرات، دریا، سمندر سب ہی کچھ ہے مکار، عیاروں کی نگاہیں گڑھی ہوئی ہیں۔ امریکا ہو یا روس وہ نہیں چاہتے ہمارا ملک ترقی کرے بلکہ وہ مسلمانوں کے سخت خلاف ہیں یہ جانتے ہوئے ان کی باتوں میں آتے ہیں جس کو وہ نکالنا چاہتے ہیں اس کو نکالتے جس کو رکھنا چاہتے ہیں اس کو رکھتے ہیں۔ مجھ سے اکثر لوگ کہتے ہیں قائد اعظم محمد علی جناح نے ہم کو آزادی دلائی لیکن ہمارے ملک کے خود غرض عناصر نے سب کو امریکا و یورپی ممالک کے زیر اثر کردیا۔ نتیجہ یہاں تک کہ ہم اپنی مرضی و منشا پر کچھ نہیں کرسکتے۔ جو لوگ ہمارے ملک کے بڑے اداروں کو برا کہتے ہیں سخت جملے استعمال کرتے ہیں ان کے خلاف کچھ نہیں کرسکتے۔
غلطی سے بھول کر اگر کوئی چھوٹا آدمی کسی ادارے کے بارے میں صرف ایک لفظ کہہ دے سمجھ لیں نہ صرف اس کی حیات تنگ بلکہ سیدھا جیل میں ہوتا ہے کوئی پرسان حال نہیں۔ یہی باتیں دیکھ کر لوگ بدگمان ہوتے ہیں مایوسی قدرتی امر ہے۔ یہ وعدہ کیا جائے کہ ملک سے کرپشن ختم کریں گے جنھوں نے ملک کا مال و زر لوٹا ، اسے کھوکھلا کیا ان کو سزائیں دیں گے۔ لیکن ایسا نہ ہوا وہی لوگ عدالتوں سے مراعات حاصل کر رہے ہوں ۔ یہ بھی سنا کہ کسی کی غیر موجودگی میں شاید کسی عدالت نے ضمانت بھی لے لی۔ ظاہر ہے کسی قانون کے تحت لی ہوگی۔ سوچیں تو بہت کچھ نہ سوچیں تو کچھ بھی نہیں ۔ میں نے ایسے لوگوں کو روتے، تڑپتے، مچلتے دیکھا جن کی اولادوں کو معمولی سے جرم میں کئی سال بیت گئے ضمانت تک نہ ہوسکی عدلیہ قانون کو مدنظر رکھتی ہے۔
میرے قریبی دوست بار بار کہہ رہے ہیں مجھے تم کبھی بھی بھلا نہ سکو گے نہ جانے مجھے کیوں یقین ہوچلا ہے لٹے دل میں دیا جلتا نہیں۔ میں نے ان سے کہا یہ آپ کی بات نہیں بلکہ آپ جیسا اور مجھ جیسا ہر شخص اپنے ملک و ملت کی ترقی میں اپنی ہر بات بھول کر اپنے لہو سے چراغ روشن کرتا ہے۔
انصاف کے بارے میں سنا، عدالتوں میں برسہا برس لوگوں کو جاتے دیکھا جب ان غربا، مساکین و بے کس لوگوں کو انصاف نہ ملا تو افسوس ہوا۔ ان کے پاس بڑا مہنگا وکیل کرنے کا مال و زر نہ تھا، کچھ ایسے بھی تھے جو وکیل نہ کرسکے ان کی استعداد نہ تھی۔ معلوم ہوا ان کا لڑکا موبائل، پرس چھیننے کے جرم میں بند ہے۔
ضمانت بھی نہ کرا سکے، دوسرے بولے میرا لڑکا کار کے وہیل کپ چوری کے الزام میں بند ہے۔ تیسرا بول اٹھا کیا اندھیر نگری ہے میرا لڑکا دکان کے سامنے سے گزر رہا تھا اس دکان میں ڈاکہ پڑا پولیس ڈاکوؤں کو پکڑ نہ سکی بے قصور میرے لڑکے کو پکڑ لیا، قصوروار بناکر عدالت میں پیش کیا آج تک اسے چھڑا نہ سکے بند ہے۔ تاریخ پر تاریخ، تاریخ پر تاریخ۔ یہاں جتنے لوگ ہیں وہ اپنی اولادوں کے چھوٹے معمولی جرائم پرعدالتوں میں حاضر ہو رہے ہیں۔ ایسے بھی ہیں جن کے لڑکوں کو بند ہوئے کئی سال بیت گئے، غریب ضمانت تک نہ کراسکے۔ باپ کا بھی انتقال ہوگیا مرے ہوئے باپ کا جیل سے چہرہ بھی نہ دیکھنے دیا، کسی کی ماں کا انتقال ہوگیا۔
سارا دکھ، تڑپ ان غریب غربا، مساکین، بیوہ، یتیموں کے لیے ہے ان 70 سال میں دیکھا ہے ان لوگوں کو دھکے، مکے، چانٹے، گھونسے ملتے رہے وہ شخص انصاف کے لیے تڑپا کیا آج بھی تڑپ رہا ہے۔ رونے کے لیے ہر قدم پر مسائل، امیر، رؤسا، بڑے لوگوں کے لیے عیش و تعیش کے لیے سب کچھ موجود ہے۔ مہنگائی کا اثر غریب پر پڑا امیر پر کوئی فرق نہیں۔ سیکڑوں سے ہزاروں کی دوا، ان کے لیے مہنگی نہیں۔ مال ہی مال ہے۔ جب کہ غریب جس کی آمدنی محدود بلکہ اتنی کم جس سے گزارا مشکل وہ کس طرح مہنگی ادویات یا اشیا خور و نوش خرید سکے گا۔ بھوک، افلاس، تڑپتے، بیماری سے لڑتے ہوئے وقت گزرتا ہے وقت سے پہلے دم توڑ جاتا ہے۔ غریبی، امیری کا کھیل پوری دنیا میں ہے لیکن دنیا کے دیگر ممالک سے غربت کم ہو رہی ہے بلکہ بہت سے ممالک ایسے ہیں جہاں غربت ختم ہوگئی ہے۔ افسوس ہمارے ملک میں غربت ختم ہونا دور کی بات بڑھ گئی بلکہ ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔
70 سال میں تعلیم عام نہ ہوسکی بلکہ سرکاری اسکول میں الگ نصاب اور گرامر، انگلش میڈیم، پرائیویٹ اسکولوں میں جدا نظام تعلیم۔ اس طرح جیسے غریب کے لیے قانون الگ اور امیر کے لیے الگ۔ بحث و مباحثے کے لیے کسی استاد کو بلاتے ہیں تو وہ بھی پرائیویٹ، انگلش میڈیم کے تعلیم یافتہ یا وہاں کے استاد کو بلاتے ہیں وہاں بھی سرکاری اردو میڈیم کے اسکول کے استاد کو پیچھے کردیا جاتا ہے۔ اونچے، بڑے عہدوں پر وہی انگلش میڈیم گرامر اسکول کے پڑھے ہوئے پہنچتے ہیں۔
لوگوں کو کہتے سنا انگلش میڈیم، گرامر پرائیوٹ اسکولوں کے تعلیم یافتہ کو فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ جو سرکاری اسکول تھے وہی ہیں ان میں اضافہ نہ ہوا اگر اضافہ ہوا تو پرائیویٹ اسکولوں میں۔ غریب کا لڑکا یا لڑکی ان سرکاری اسکولوں کے علاوہ پرائیویٹ اسکولوں میں نہیں پڑھ سکتے وہ اس قدر فیس کہاں سے لائے۔ جیسا لوگ کہتے ہیں اگر سرکاری اسکولوں میں اضافہ ہوتا رہتا تعلیمی نظام ایک ہوتا تو آج ان پرائیویٹ اسکولوں میں اضافہ نہ ہوتا۔ اسکول کے ایک استاد نے پیاری بات کہی کبھی ڈگمگائی کشتی، کبھی کھو گیا کنارہ ۔ چشم فلک سے ماضی کے جھرونکے افق حیات پر موجود ہیں۔
سرکاری اسپتال جو تھے وہی آج بھی ہیں، ان میں کئی دہائیاں گزریں اضافہ نہ ہوا وہی پرائیویٹ اسکولوں کی بات بالکل اسی طرح پرائیویٹ اسپتالوں، شفا خانوں میں بتدریج اضافہ ہوتا رہا۔ کوئی غریب کس طرح ان مہنگے پرائیویٹ اسپتالوں میں علاج کراسکے گا جہاں لاکھوں رقومات وصول کی جاتی ہیں۔ ہزاروں غم ہیں دنیا کے ہم کیا کریں حوادث کی گھٹا ، دنیا نئی ہے چہرہ ہے پرانا یہ ہماری بدنصیبی نہیں تو اور کیا ہے۔ جسے موت نے نہ پوچھا اسے زندگی نے مارا ، کتنے لوگوں کی بہاروں پر خزاں چھائی، کہتے ہیں پھول آرزوؤں کے کھلتے نہیں کبھی بڑی ویران ہیں امید کی راہیں۔ دہر فانی میں غم زندگی کے ساتھ لہو کے چراغ بھی نہیں بڑی ویران ہیں امید کی راہیں۔ جس نے راہ مستقیم اپنائی اسے شرمندگی ہوئی نہ درد کی ٹیسیں ۔اب کہتا ہوں کہ کسی نہ کسی بات پر تشنگی ضرور ہے چشم زدن ہے اور دل بسمل بھی۔
کہنے کو بہت کچھ غم دوراں ہو یا شب غم ہر غریب کی امیدوں کا چمن مفلوک الحال ۔ خزاں چھا گئی اس کے دل ویراں میں ترک الفت اس کے تصور میں چراغ روشن ہیں۔ میں نے سسکتی ہوئی زندگی دیکھی ان کے پھول آرزوؤں کے کھلے نہیں کبھی لیکن وہ ان بڑے لوگوں سے افضل ہیں جو ملک کو لوٹتے رہے آج بھی عیش و تعیش کی زندگی گزار رہے ہیں غریب کل بھی غریب تھا آج بھی غریب ہے لیکن اپنے ملک کے لیے اس کی جان قربان ہے۔
یہ ہماری خوش نصیبی ہے ہمارا ملک زراعت، صنعت و معدنیات میں بہت آگے ہے کوئلہ، گیس، سونا، چاندی، جواہرات، دریا، سمندر سب ہی کچھ ہے مکار، عیاروں کی نگاہیں گڑھی ہوئی ہیں۔ امریکا ہو یا روس وہ نہیں چاہتے ہمارا ملک ترقی کرے بلکہ وہ مسلمانوں کے سخت خلاف ہیں یہ جانتے ہوئے ان کی باتوں میں آتے ہیں جس کو وہ نکالنا چاہتے ہیں اس کو نکالتے جس کو رکھنا چاہتے ہیں اس کو رکھتے ہیں۔ مجھ سے اکثر لوگ کہتے ہیں قائد اعظم محمد علی جناح نے ہم کو آزادی دلائی لیکن ہمارے ملک کے خود غرض عناصر نے سب کو امریکا و یورپی ممالک کے زیر اثر کردیا۔ نتیجہ یہاں تک کہ ہم اپنی مرضی و منشا پر کچھ نہیں کرسکتے۔ جو لوگ ہمارے ملک کے بڑے اداروں کو برا کہتے ہیں سخت جملے استعمال کرتے ہیں ان کے خلاف کچھ نہیں کرسکتے۔
غلطی سے بھول کر اگر کوئی چھوٹا آدمی کسی ادارے کے بارے میں صرف ایک لفظ کہہ دے سمجھ لیں نہ صرف اس کی حیات تنگ بلکہ سیدھا جیل میں ہوتا ہے کوئی پرسان حال نہیں۔ یہی باتیں دیکھ کر لوگ بدگمان ہوتے ہیں مایوسی قدرتی امر ہے۔ یہ وعدہ کیا جائے کہ ملک سے کرپشن ختم کریں گے جنھوں نے ملک کا مال و زر لوٹا ، اسے کھوکھلا کیا ان کو سزائیں دیں گے۔ لیکن ایسا نہ ہوا وہی لوگ عدالتوں سے مراعات حاصل کر رہے ہوں ۔ یہ بھی سنا کہ کسی کی غیر موجودگی میں شاید کسی عدالت نے ضمانت بھی لے لی۔ ظاہر ہے کسی قانون کے تحت لی ہوگی۔ سوچیں تو بہت کچھ نہ سوچیں تو کچھ بھی نہیں ۔ میں نے ایسے لوگوں کو روتے، تڑپتے، مچلتے دیکھا جن کی اولادوں کو معمولی سے جرم میں کئی سال بیت گئے ضمانت تک نہ ہوسکی عدلیہ قانون کو مدنظر رکھتی ہے۔
میرے قریبی دوست بار بار کہہ رہے ہیں مجھے تم کبھی بھی بھلا نہ سکو گے نہ جانے مجھے کیوں یقین ہوچلا ہے لٹے دل میں دیا جلتا نہیں۔ میں نے ان سے کہا یہ آپ کی بات نہیں بلکہ آپ جیسا اور مجھ جیسا ہر شخص اپنے ملک و ملت کی ترقی میں اپنی ہر بات بھول کر اپنے لہو سے چراغ روشن کرتا ہے۔