نیوزی لینڈ تا سوری نام

سونے کے حصول کے لیے مقامی آبادی کے نومولود بچوں کو ہسپانوی کتوں کو ان کے والدین کے سامنے خوراک بنایا گیا۔

zb0322-2284142@gmail.com

عالمی سامراج اور مقامی بور ژوای (سرمایہ دار) 1493ء سے لے کر آج تک مختلف سامراجی ہتھکنڈوں اور طریقوں سے پسماندہ انسانوں کا استحصال کرتا آرہا ہے۔ ہسپانوی سامراج کے سرغنہ اور قاتل کولمبس نے 1493ء میں امریکا پر حملہ کیا اور وہاں کے لاکھوں انسانوں کا قتل عام کیا ۔

سونے کے حصول کے لیے مقامی آبادی کے نومولود بچوں کو ہسپانوی کتوں کو ان کے والدین کے سامنے خوراک بنایا گیا۔ کون سا ایسا خطہ، ملک یا علاقہ امریکا کا ہے جہاں ہسپانوی ، پرتگالی، ڈچ اور برطانوی سامراج نے حملہ کرکے مقامی آبادی کا قتل عام نہ کیا ہو۔لاکھوں انسانوں کو زندہ جلایا گیا۔ مغربی افریقی غلاموں کو زراعت اور کاشت کے لیے افریقہ سے امریکا خاص طور پر لاطینی امریکہ لایا گیا۔

ان کی لڑکیوں سے زبردستی شادی کرکے یورپی نسل کو پھیلایا گیا۔ اس وقت امریکہ میں اوسطاً ہر ملک میں تقریباً2فیصد سے زیادہ مقامی آبادی نہیں ہے۔ لاطینی امریکہ کا انتہائی مغربی ملک سوری نام جہاں اب بھی 30 فیصد لوگ ہندوستانی ہیں جنکی زبان ہندی اور اردو ہے۔گنے کی کاشت کروانے کے لیے ہندوستان سے سوری نام لے جایا گیا تھا، یہاں تقریباً دو صدی تک مقامی آبادی حملہ آور قاتلوں سے لڑتی رہی اور آخرکار ان کا قتل عام ہوا ۔ جنوبی افریقہ ، مڈغاسکر اور ماریشس وغیرہ کی آدھی آبادی ہندوستانی ہے بلکہ ماریشس اور مڈغاسکر کی قومی زبان فرنچ کے ساتھ ساتھ ہندی بھی ہے۔

لاطینی امریکہ سمیت جہاں جہاں یورپی سامراج نے قبضہ کیا اور قتل عام کیا وہاں کی مقامی آبادی کے مذاہب و ثقافت کو تہ وبالا کیا گیا۔ اسی طرح برطانوی اور ڈچ سامراج نے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی مقامی آبادی کا دو صدیوں 1642-1870 تک قتل عام کیا ۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی مقامی آبادی جو سیاہ لوگ تھے اب وہاں 4فیصد سے بھی کم رہ گئے ہیں۔ جبراً مقامی آبادی کی لڑکیوں کو ریپ کیا اور یورپی نسل بڑھائی گئی آج آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی تقریباً ساری آبادی برطانوی نسل میں بدل گئی ہے۔

کینیڈا میں آج بھی قدیم آبادی کو فرسٹ سٹیزن کہا جاتا ہے، ان کے بچوں کو چرچوں میں رکھا جاتا ہے، زبردستی انھیں عیسائی بنایا جاتا ہے اور انھیں ان کی اپنی زبان میں بات کرنے کی اجازت نہیں۔اس پر 2018میں کینیڈا کی قدیم آبادی سے دکھاوے کے لیے ٹی وی چینلز پر کینیڈا کے وزیر اعظم نے ان سے معافی مانگی تھی ۔ جاپان کے مشرقی ملک فجی کی 50 فیصد آبادی ہندوستانی ہے جنھیں جاپانی سامراج ہندوستان سے غلام بنا کر زرعی کاشت کے لیے لے گیا تھا ۔


کچھ یہی صورتحال ہمارے اندرون ملک میں بھی ہے۔ سوئی گیس، سوئی بلوچستان سے دریافت ہوئی۔ سارے ملک میں ترسیل ہوتی ہے لیکن گیس کی رائلٹی بلوچ غریب لو گوں کو دینے کی بجائے سرداروں کو دی گئی۔ننگر پارکر سندھ میں قیمتی پتھر گرینائٹ دریافت ہوا جسکی رائلٹی ایسے لوگوں کو دی گئی جن کا تعلق ننگر پارکر سے تھا ہی نہیں ۔ اب گزشتہ دنوں بلاول بھٹو نے تھری عوام کو بہت کچھ دینے کا اعلان کیا اور تھرکے عوام کوکوئلے کی دریافت میں حصہ دینے کی بات بھی کی مگر تھر سے کوئلے کی بجلی 660 میگا واٹ دوسرے شہر کو فرا ہم کی جائے گی مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ اس شہر کے پاور لومز اور ٹیکسٹائل کے محنت کشوں کی تنخواہوں میں اضافہ ہو گا یا نہیں ۔

اسی طرح کوئلہ ساہیوال لے جایا جائے گا تو کیا ساہیوال کے مزدور،کھیت مزدوراورکسا نوں کی تنخوا ہوں اور دہاڑیوں میں اضافہ ہوگا یا نہیں۔ بلاول بھٹو نے این ای ڈی یونیورسٹی کا کیمپس تھر میں قائم کرنے کا اعلان کیا مگر یہ نہیں بتایا کہ لاکھوں کی آبادی میں کتنے پرائمری اسکول قائم کیے جائینگے۔

گزشتہ برس 2018میں تھر میں جو 638بچے بھوک اور بیما ری سے مرگئے ان کا تدارک آیندہ کیسے ہو گا، کتنے ہیلتھ سینٹر ، اسپتال ، میٹرنٹی ہومز قائم کیے جائینگے ۔ہندو بچیوں کے اغوا ، تبدیلی مذہب کو روکنے کے لیے کیا اقدام کیے جا ئینگے کیا دفاعی اخراجات میں کمی کرکے تھرکے عوام کو جینے کا حق دینے کے لیے وہاں کاشتکاری کو فروغ دینے کے لیے نہریں کھودی جائینگی یا نہیں ۔ تھر پارکرکے عوام کو پینے کا صاف پانی اور معقول ٹرانسپورٹ کا انتظام ہوگا یا نہیں ۔ یہی صورتحال وزیراعظم عمران خان کی ہے۔

انھوں نے بلوچستان میں تقریرکرتے ہو ئے ایک لاکھ پچیس ہزار آبادی کو مکان فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے مگر یہ نہیں بتایا کہ ان میں کتنے بلوچ ، پختون ، براہوی اور ہزارہ ہونگے یعنی مقامی آبادی کے لیے بھی ان میں گنجائش ہوگی یا نہیں۔ یاد رہے چین نے بلوچستان ،گوادرمیں مقامی آ بادی کے لیے اسپتال بنایا، اسکول بنایا ، میٹرنٹی، ڈسپینسری اور نہ ہی کارخانے بنائے ہاں مگر ایک چینی لیبرکالونی زیر تعمیر ہے مگر اس میں مقامی بلوچ نہیں چینی مزدور رہائش پذیر ہونگے۔ یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے ۔ ملک یا ریاست میں یہی سب کچھ ہوتا ہے۔ ریاست کا نام ہی ہے چند لوگوں ، صاحب جائیداد طبقات کی حفاظت کریں ۔

ارب پتی کھرب پتی بن جائیں اور غریب غریب تر ہوجائیں ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں روزانہ ہزاروں افراد بھوک ، افلاس ، غربت ، لاعلاجی اور غذائی قلت سے مر رہے ہیں تو دوسری طرف لگژری کاروں،عالی شان محلوں، ائیر کنڈیشنڈ گھروں ، منرل واٹروں ، نجی ہوائی جہازوں، زمینوں کے رقبوں، بینکوں کے اکاؤنٹوں اور دیگر ممالک میں سرمایہ کی منتقلی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔ ادھر ادھر سے اربوں ڈالر آنے کے اعلانات ہو رہے ہیں لیکن مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔

ہندوستان میں مذہبی فرقہ پرست جماعت بی جے پی کی کامیابی کے لیے عمران خان دعا گو ہیںجس طرح ٹرمپ نے نیتن یا ہو کی کامیا بی پر اپنے بیان میں کہا کہ مشرق وسطیٰ میں سب سے اچھا بااثر اور پروقار شخصیت نیتن یاہو ہیں ۔قربان جاؤں ٹرمپ کے ایسے خیالات پر۔ اسرائیل اور ہندوستان کے عوام خود سامراجی اور متعصبانہ پالیسیوں سے تنگ ہیں جب کہ ٹرمپ اور عمران خوش ہیں۔ یہ تو ایک دوسرے کو سامراجی ترغیب اور انتہا پسندی میں تقویت پہنچانے کی بات کرتے ہیں مگر عوام مودی اور عمران کی عوام دشمن پالیسیوں سے تنگ آچکے ہیں۔ بہت جلد اسرائیل، امریکا ہندوستان اور پاکستان کے عوام مہنگائی ، بیروزگاری ، لاعلاجی سے تنگ آکر حکمرانوں کے جبر و استحصال کا خاتمہ کرکے دم لیں گے ۔
Load Next Story