آبادی کا نصف توجہ چاہتا ہے

ملکی معیشت میں عورتوں کو مواقع فراہم کرکے تعمیر و ترقی ممکن ہے

آپ کا وہم اور ضعیف الاعتقادی دوسروں کے لیے مسئلہ بن سکتا ہے۔ فوٹو: فائل

ہر راستہ، ہر سفر شاید معلوم فاصلے اور منزل کے تعین سے مشروط ہوتا ہے، مگر خواب تتلی جیسے ہوتے ہیں جن میں ہر خواب اپنا الگ راستہ اپناتا ہے اور سنگِ میل طے کرتے ہوئے منزل پر پہنچتا ہے، مگر عورت کے لیے تو ہر راستہ دشوار ہے.

ہر سفر مشکل اور غیرمحفوظ۔ جب کوئی عورت اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے سفر پر نکلتی ہے تو فاصلہ بڑھتا جاتا ہے۔ اس کے ہاتھ کچھ نہیں آتا اور راستہ کٹ جاتا ہے، کیوں کہ ہمارے معاشرے میں اسے صنفی تفریق، جنس کی بنیاد پر امتیاز اور عدم مساوات کا سامنا ہے۔

مذہب، طبقے اور جنس کی بنیاد پر تعلیم کے حصول کی آزادی نہ دینے اور سہولیات فراہم کرنے سے گریز قومی مفاد میں نہیں۔ ایسے رویے ملک کی معیشت پر براہِ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔ ''پاکستان سوشل اینڈ لیونگ اسٹینڈرز میجرمنٹ (PSLM) کے ایک سروے کے مطابق 2014ء میں شرح خواندگی 58 فی صد سے بڑھ کر 60 فی صد دیکھی گئی۔

یعنی صنفی بنیاد پر تعلیمی مسابقت صرف 2 فی صد تھی جب کہ حالیہ سروے میں مردوں میں خواندگی کی شرح 70 فی صد اور خواتین میں 49 فی صد بتائی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ تفریق 21 فی صد ہو چکی ہے۔ اس خلا کو پُر کرنے کے لیے ترجیحی بنیاد پر اقدامات اور تعلیمی بجٹ میں اضافہ کرنا ہو گا جب کہ مجموعی ملکی پیداوار کا صرف 2.4 فی صد تعلیم پر خرچ ہورہا ہے۔ اسی طرح صحت کے شعبے میں اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 2.6 فی صد خرچ ہوتا جب کہ 49 فی صد خواتین صحت کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ مختلف امراض کے علاوہ دورانِ زچگی اموات کی شرح پر بھی قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔

خواتین، پاکستان کی تقریباً نصف آبادی ہیں۔ اگر انہیں ملکی معیشت کے مرکزی دھارے میں شامل کرلیا جائے تو تعمیر و ترقی کا عمل تیز تر ہو جاسکتا ہے۔ افرادی قوت سے متعلق اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ مرد 67.8 فی صد سے 22 فی صد خواتین پر برتری رکھتے ہیں۔ عالمی مالیاتی ادارے کی 2016ء کی ایک رپورٹ کے مطابق، اگر پاکستان میں صنفی تفریق کی شرح کم ہو جائے تو معاشی ترقی میں 30 فی صد تک اضافہ ممکن ہے۔

پاکستان میں خواندہ خواتین کی تعداد بہت کم ہے اور صرف 3 فی صد خواتین رسمی شعبوں میں کام کررہی ہیں۔ دیگر خواتین روایتی ذرایع روزگار سے منسلک ہیں جن میں کئی انتہائی کم آمدن والے ہیں۔ اس کے ساتھ

اجرت میں بھی نمایاں فرق ہے اور مردوں کو اس حوالے سے بھی برتری حاصل ہے۔ اس صورتِ حال میں ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جو تعلیم تک رسائی ممکن بنائیں، تیکنیکی شعبوں میں مہارت دی جائے،

عورتوں کو دورانِ سفر تحفظ کا احساس ہو اور نقل و حرکت میں آسانی ہو جب کہ ہراسانی اور ان جیسی دیگر رکاوٹوں کو دور کیا جائے۔ سندھ اور پنجاب کی حکومتوں نے گھریلو سطح پر کام کرنے والی خواتین کی کم از کم تنخواہوں کو یقینی بنانے، سماجی تحفظ اور دیگر فوائد کے حصول کے لیے پالیسی دی ہے جو خوش آئند ہے۔ اسی طرح پنجاب میں، زچہ و بچہ کے قوانین میں ترمیم اور زمین کی آمدن کے کام کا قانون معاشی شراکت داری میں صنفی مساوات کو فروغ دینے کا ذریعہ بنا ہے۔ ان تمام کاوشوں کے باوجود حکومتی سطح پر اقتصادی ترقی کے لیے صنفی مساوات کو ہر شعبہ ہائے زندگی میں فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے۔


جامعہ کراچی کا شعبہ، دی سینٹر آف ایکسی لینس فار وویمن اسٹڈیز درس و تدریس اور تحقیقی سرگرمیوں میں نمایاں کام کر رہا ہے۔ 1989ء میں قائم ہونے والے اس شعبے کے تحت 2002ء میں ایم فل اور پی ایچ ڈی پروگراموں کا اعلان کیا گیا تھا جب کہ 2010ء سے شعبہ، ایوننگ پروگرامز کا اہتمام بھی کر رہا ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ اس شعبے سے 30 برسوں سے وابستہ ہیں۔ آپ تدریس کے ساتھ متعدد تحقیقی کتب کی مصنف ہیں اور عورتوں کی تعلیم، فلاح و بہبود اور معاشرے میں ان کو جائز مقام دلانے کے حوالے کوشاں ہیں۔ ان کے نزدیک ایک عورت، پورے خاندان کی تربیت کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ خواتین کی تعلیم اور تربیت دراصل سب سے اہم ہے۔ ہم جس معاشرے میں جی رہے ہیں، اس کے نئے رحجانات کو حاوی کیے بغیر، اچھی تعلیم اور تربیت کا فرض کیسے پورا کرسکتے ہیں؟ یہ سب سے بڑی جنگ ہے، جو بحیثیت استاد ہمیں احسن طریقے سے انجام دینی ہے۔ ہم نے اس شعبے کا نصاب انسانی نفسیات اور رویوں کے تجزیے کا نچوڑ سماجی، بہبودی، معاشی ، تعلیمی اور صنفی مسائل کے مناسب حل کے لیے بروئے کار لاتے ہوئے مرتب کیا ہے تاکہ ہمارے طالب علم اپنے معاشرتی فرائض سے بخوبی آگاہ ہوں۔ پروفیسر ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ کے مطابق یہ نہیں ہے کہ صرف تعلیم ہی ہر مسئلے کا حل ہوسکتی ہے۔ تعلیم بھی تو ایک مسئلہ ہے جسے حل کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ ہم یہی کررہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ اور ساتھی اساتذہ ایسے اذہان کی نشوونما کررہے ہیں جو امتیاز اور تفریق سے پاک ہوں اور مثبت سرگرمیاں انجام دینے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ ان کے مطابق یہ سنتے آرہے تھے کہ معاشرہ مردوں کا ہے اور عورت محکوم۔ اس سوچ کو تقویت بہت دی گئی۔ نتیجتاً ایسے واقعات تواتر سے سامنے آنے لگے جنہوں نے پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں شامل کردیا جو خواتین کو کم تر مخلوق گردانتے ہیں۔ یہ صرف سوچ کا فرق ہے ورنہ عورت تو مغرب کی بھی محفوظ نہیں۔ ہمارے شعبے کا بنیادی مقصد خواتین کی عملی اور ضروریات پر فوری توجہ اور ملکی معیشت کی ترقی میں ان کی شمولیت ہے۔ یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین کی ضروریات کو روٹی، کپڑا اور مکان تک محدود نہ کیا جائے بلکہ ان وجوہ کا سدباب کیا جائے جن کے باعث وہ معاشی طور پر غیر مستحکم ہیں۔

پاکستان کا شمار ترقی پزیر ممالک میں ہوتا ہے۔ یہاں خواتین کی تعداد مردوں کے مقابلے میں کم نہیں۔ معیار زندگی کا انحصار روزگار کے مواقع پر منحصر ہوتا ہے۔ افراد کی معاشی خوش حالی معاشرے کی خوش حالی تصور کی جاتی ہے۔ ملک میں روزگار کے حصول میں رکاوٹیں حائل ہیں جب کہ دست یاب روزگار پر مردوں کی اجارہ داری ہے۔ ملک میں بے روزگاری کی شرح میں اضافے کے بعد لازم ہے کہ ان خواتین کو بھی منظر عام پر لایا جائے جو معاشی بوجھ اپنے شانوں پر اٹھائے پھررہی ہیں۔

خواتین کے لیے مسائل کا انبار، گھریلو ذمہ داریوں، ان کی معاشی حقیقت سے پردہ پوشی اور انکار کی شکل میں موجود ہے۔ محنت کے مقابلے میں قلیل معاوضہ بھی اہم سبب ہے۔ یہ خواتین اپنی گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ خاندان کی کفالت بھی کررہی ہیں لیکن ان کی معاشی کاوشوں کو شمار نہیں کیا جاتا۔ ناخواندگی انہیں ملازمت کے حصول سے دور کردیتی ہے۔ ذاتی کام اور روزگار کے ضمن میں خواندہ اور ناخواندہ خواتین کی ترجیحات مختلف ہیں۔ تعلیم یافتہ خواتین اسکول، ٹیوشن سینٹر، بیوٹی پارلر، بوتیک، سلائی، کڑھائی سکھانے کے علاوہ مختلف ذرایع آمدن اپنا لیتی ہیں جب کہ ناخواندہ خواتین اچار، پاپڑ، اگربتی، موم بتی، مچھلی کے جال، پتنگیں اور مٹی کے برتن بنانے اور اس جیسے مختلف ہنر یعنی ٹوکریاں اور چٹائیاں بنانے کا کام کرتی ہیں۔

اس سلسلے میں اپنی تحقیق کے بعد ان پر کُھلا کہ برسوں سے مختلف کام کرنے والی عورتوں کے جہاں معاشی حالات بہتر ہوئے وہیں غربت اور افلاس اور آگاہی و راہ نمائی نہ ہونے سے یہ مسئلہ گویا ناسور بن گیا ہے۔ ہفتے کے ساتوں دن اور چوبیس گھنٹوں کی محنت کے بعد بھی دو وقت کے کھانے کی کوئی ضمانت نہیں۔ عورتیں بچوں کو تعلیم نہیں دلوا سکتیں، کیوں کہ فیس کی ادائیگی کے لیے رقم نہیں بچتی اور وہ انہیں کام پر لے کر جاتی ہیں۔ گھریلو ذمہ داریوں، بچوں کی دیکھ بھال اور دیگر معاشرتی فرائض ادا کرنے کے ساتھ کام اور روزگار کی فکر انہیں جسمانی اور ذہنی عوارض کا شکار بنارہی ہے۔ ان خواتین کے پاس اپنے لیے وقت نہیں ہوتا۔ ان حالات میں بہتری لانے کے لیے پروفیسر ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ نے اپنی تحقیق اور تجاویز پر مبنی کتاب میں چند اہم باتیں سامنے رکھی ہیں جن پر عمل کر کے بہتری لائی جاسکتی ہے۔

مثلاً تعلیم اور معلومات کی دست یابی، چھوٹے پیمانے پر آسان شرائط کے ساتھ قرضوں کی فراہمی کا نظام، جدید مشینری کا استعمال اور مہارتیں سکھائے جانے کے لیے وسائل مہیا کرنا اور مڈل مین کا نظام ختم کرکے منڈی تک محفوظ اور سہل رسائی کی یقین دہانی کرائی جائے۔ اسی طرح پروفیسر ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ نے ''کراچی کی گداگر لڑکیاں: ایک جائزہ'' کے عنوان سے تحقیق میں لکھا کہ ترقی یافتہ ممالک بھی اس سے محفوظ نہیں۔ مسئلے کی سنگینی، اس پیشے میں لڑکیوں کی شمولیت سے ظاہر ہوتی ہے۔

گداگری کے ساتھ ساتھ یہ لڑکیاں جنسی استحصال کا شکار ہوتی ہیں۔ اغوا کرلی جاتی ہیں۔ غربت اور بے روزگاری کے علاوہ جسمانی معذوری بھی اس کی ایک اہم وجہ ہے۔ معصوم بچیاں بھی گداگری پر مجبوری نظر آتی ہیں جب کہ اکثر گداگر لڑکیاں جسم فروشی کے کاروبار میں بھی ملوث ہوتی ہیں۔ گداگر عورتوں اور معصوم بچیوں کو مفت تعلیم اور ہنر سکھا کر باعزت طریقے سے زندگی بسر کرنے کا موقع دینے کی اشد ضرورت ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ کے مطابق خواتین اور مردوں کے مابین جاری صنفی امتیاز کی جنگ کی شدت کو کم کرنا ہو گا۔ آج خواتین کی فلاح اور بہبود کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت پہلے کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ گئی ہے۔

کنول بانو
Load Next Story