حکومت کا چینی قرضوں کی تفصیلات سامنے نہ لانے کا فیصلہ
رواں مالی سال 2018-19 ء کے اقتصادی سروے میں 2.54 بلین ڈالر قرض کی تفصیلات بھی شائع نہیں کی جائیں گی
حکومت نے بیرونی کمرشل قرضوں کوخفیہ رکھنے کے اصول کے تحت چینی قرضوں کی تفصیلات کو سامنے نہ لانے کا حتمی فیصلہ کرلیا ہے۔
وزرات خزانہ کے مطابق تحریک انصاف کی حکومت کی طرف سے2017-18 کے شائع کردہ اقتصادی سروے میں چین کی طرف سے ملنے والے3.7 بلین ڈالر قرض کی تفصیلات کا ذکر نہیںکیا ہے۔ اس قرض میں سے چین کی طرف سے اب تک2.2بلین ڈالر کی رقم پاکستان وصول کرچکا ہے۔
اس صورتحال سے عندیہ ملتا ہے کہ حکومت رواں مالی سال 2018-19 ء کے اقتصادی سروے میں 2.54 بلین ڈالر قرض کی تفصیلات بھی شائع نہیںکریگی ۔ چین کی طرف سے یہ رقم زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کرنے کیلیے پچھلے مہینے دی گئی تھی۔چائنہ ڈویلپمنٹ بنک نے 2.24 بلین ڈالرکا شارٹ ٹرم قرضہ جبکہ انڈسٹریل اینڈ کمرشل بنک آف چائنہ نے 300ملین ڈالرکا قرض مارچ کے مہینے میں پاکستان کو فراہم کیا تھا۔
مشیر برائے خزانہ ڈاکٹرعبدالحفیظ شیخ بجٹ پیش کرنے سے ایک روزقبل حکومت کا رواں مالی سال کا اقتصادی سروے پیش کرینگے۔
وزرات خزانہ کے اقتصادی کونسل ونگ کے ماہر معیشت اعجاز واسطی کے مطابق پاک چین معاہدہ میں شامل خفیہ شق کی وجہ سے اس بات کاامکان ہے کہ موجودہ حکومت بھی قرضوں کی تفصیلات سامنے نہیں لائے گی۔
ان کے مطابق یہ پہلی دفعہ ہے کہ کسی حکومت نے قرضوں کی تفصیلات سامنے نہ لانے کافیصلہ کیا ہے، جبکہ یہ تفصیلات پچھلی حکومت کے وزیرخزانہ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل مئی 2018 میں پیش کئے گئے سروے میں پیش کر چکے ہیں۔
سابق وزیرخزانہ اسد عمر کی جانب سے پارلیمنٹ کو بیرونی قرضوں کی خفیہ شقوں کے بارے میں آگاہ کرنے کا فیصلہ حیران کن تھا۔ سال 2017-18میں ن لیگ کی حکومت نے ایک سال کے دوران لیے جانیوالا ملکی تاریخ کا سب سے قرض11.5بلین ڈالر لیا۔ اس مالی سال کے دوران لیے گئے بیرونی قرضوں کی تفصیلات بھی سامنے نہیں لائی گئی تھیں۔
پاکستان اورآئی ایم ایف کے درمیان چینی قرضوں کی تفصیلات سے آگاہی نہ دینا ابھی تک اہم مسئلہ ہے، آئی ایم ایف ان قرضوں کی تفصیلات کی فراہمی کے مطالبے سے دستبردار نہیں ہوا۔آئی ایم ایف اس لیے تفصیلات سے آگاہ ہونا چاہتا ہے کیونکہ اسے خدشہ ہے کہ 2023 ء تک پاکستان کا ٹوٹل قرض اسکی جی ڈی پی کا 83 فیصدکی بلند ترین سطح تک پہنچ جائیگا۔
وزرات خزانہ کے مطابق تحریک انصاف کی حکومت کی طرف سے2017-18 کے شائع کردہ اقتصادی سروے میں چین کی طرف سے ملنے والے3.7 بلین ڈالر قرض کی تفصیلات کا ذکر نہیںکیا ہے۔ اس قرض میں سے چین کی طرف سے اب تک2.2بلین ڈالر کی رقم پاکستان وصول کرچکا ہے۔
اس صورتحال سے عندیہ ملتا ہے کہ حکومت رواں مالی سال 2018-19 ء کے اقتصادی سروے میں 2.54 بلین ڈالر قرض کی تفصیلات بھی شائع نہیںکریگی ۔ چین کی طرف سے یہ رقم زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کرنے کیلیے پچھلے مہینے دی گئی تھی۔چائنہ ڈویلپمنٹ بنک نے 2.24 بلین ڈالرکا شارٹ ٹرم قرضہ جبکہ انڈسٹریل اینڈ کمرشل بنک آف چائنہ نے 300ملین ڈالرکا قرض مارچ کے مہینے میں پاکستان کو فراہم کیا تھا۔
مشیر برائے خزانہ ڈاکٹرعبدالحفیظ شیخ بجٹ پیش کرنے سے ایک روزقبل حکومت کا رواں مالی سال کا اقتصادی سروے پیش کرینگے۔
وزرات خزانہ کے اقتصادی کونسل ونگ کے ماہر معیشت اعجاز واسطی کے مطابق پاک چین معاہدہ میں شامل خفیہ شق کی وجہ سے اس بات کاامکان ہے کہ موجودہ حکومت بھی قرضوں کی تفصیلات سامنے نہیں لائے گی۔
ان کے مطابق یہ پہلی دفعہ ہے کہ کسی حکومت نے قرضوں کی تفصیلات سامنے نہ لانے کافیصلہ کیا ہے، جبکہ یہ تفصیلات پچھلی حکومت کے وزیرخزانہ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل مئی 2018 میں پیش کئے گئے سروے میں پیش کر چکے ہیں۔
سابق وزیرخزانہ اسد عمر کی جانب سے پارلیمنٹ کو بیرونی قرضوں کی خفیہ شقوں کے بارے میں آگاہ کرنے کا فیصلہ حیران کن تھا۔ سال 2017-18میں ن لیگ کی حکومت نے ایک سال کے دوران لیے جانیوالا ملکی تاریخ کا سب سے قرض11.5بلین ڈالر لیا۔ اس مالی سال کے دوران لیے گئے بیرونی قرضوں کی تفصیلات بھی سامنے نہیں لائی گئی تھیں۔
پاکستان اورآئی ایم ایف کے درمیان چینی قرضوں کی تفصیلات سے آگاہی نہ دینا ابھی تک اہم مسئلہ ہے، آئی ایم ایف ان قرضوں کی تفصیلات کی فراہمی کے مطالبے سے دستبردار نہیں ہوا۔آئی ایم ایف اس لیے تفصیلات سے آگاہ ہونا چاہتا ہے کیونکہ اسے خدشہ ہے کہ 2023 ء تک پاکستان کا ٹوٹل قرض اسکی جی ڈی پی کا 83 فیصدکی بلند ترین سطح تک پہنچ جائیگا۔