قوم ہوشیار رہے
معیشت اور ملک چلانے کا کام سیاستدانوں کا ہے اور ہم ان سیاستدانوں کو سات دہائیوں سے بھگت رہے ہیں۔
پاکستان کے دشمن اس کا گھیراؤ مکمل کرنے کی فکر میں ہیں لیکن ان کے مقابلے میںہم ایک دوسرے کے گھیراؤ میں لگے رہتے ہیں۔ پاکستانیوں کے بارے میں غیر ملکی دانشوروں کی ایک متفقہ رائے ہے کہ یہ ایک ایسی قوم ہے جسے باہر سے تو کوئی خاص خطرہ نہیں ہے لیکن یہ خود باہمی جنگ میں الجھی رہتی ہے اور سیاسی اور مذہبی گروہوں میں بٹ کر یہ ایک دوسرے سے برسر جنگ رہنا پسند کرتی ہے ۔
ہمارا بنیادی اور سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ آزادی کے برسوں بعد ہم خوشحال بھی ہو گئے اور اپنا نام بھی پیدا کر لیا لیکن اس کے باوجود ہم ایک متحد قوم نہیں بن سکے ۔ آزادی کے ساتھ ہی انتشار کی عمر بھی بڑھتی گئی اور دشمنوں کو خدا ایسا موقع دے انھوں نے آج ہمیں اپنے نرغے میں لے رکھا ہے۔ انھی دشمنوں کی وجہ سے ہم اپنے ہمسایوں سے قریب ہونے کے باوجود دور ہوتے گئے اور آج یہ صورتحال ہے کہ ہمارا برادر اسلامی ملک افغانستان جب روسی جارحیت کا شکار ہوا تو اس کے باشندوں کے لیے پاکستانیوں نے اپنی باہیں وا کردی تھیں اور اپنی سر زمین پر انھیں کھلے دل سے خوش آمدید کہا تھا اب یہ صورتحال ہے کہ اسی ملک کرتا دھرتا ہمیں اپنا دشمن سمجھتے ہیں ۔
دوسری طرف کی اگر بات جائے تو ہمارا قدیمی اور قابل اعتبار دوست ملک ایران کو ہم سے دور کرنے کی سازش کی جا رہی ہے، کبھی ایران جانے والے زائرین اور کبھی وہاں سے آنے والوں کو بلوچستان میں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ عالمی سازشی اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں اور پاکستان کو تنہا کر دینے کی خواہش میں ہیں ۔ ہمسایہ ملک میں ایک چین ہی بچ جاتا ہے جس کے ساتھ ہم نے اپنے تجارتی روابط مزید وسیع کر دیے ہیں ۔ دنیا کے ہر اہم فورم پر چین ہمیشہ کی طرح پاکستان کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے ۔ بات رہ گئی امریکا کی تو اس کے ساتھ بھی ایک ایسا تعلق باقی رہ گیا ہے جس کو رسمی تعلق کہا جا سکتا ہے۔ ہم نے زندگی بھر امریکا کے ساتھ تعلق رکھا اور اس کے ہر حکم کی تعمیل کی لیکن وہ آج بھارت کے ساتھ کھڑا ہے۔
ان حالات میں ہماری اگر کوئی طاقت ہے تو وہ قومی شجاعت، غیرت اور حمیت ہے اور اس بڑھتی ہوئی تنہائی میں ہم صرف اور صرف اپنی قومی طاقت پر ہی سلامت رہ سکتے ہیں۔ کیا ہماری قوم کے اندر اتنی طاقت موجود ہے اور کوئی ایسی قیادت بھی موجود ہے جو اس طاقت کو صحیح سمت دے سکتی ہے۔ اس سوال کا جواب یہی دیا جا سکتا ہے کہ سیاستدانوں کی وسیع کرپشن اور قوم کے مفادات سے قریب قریب مکمل لاتعلقی کے باوجود یہ قوم ابھی تک زندہ ہے اور جب اسے کوئی ایسا لیڈر دکھائی دیتا ہے جس پر اس کے دل میں اعتماد کی لہر اٹھتی ہے تو وہ اپنے تمام قومی امراض کو پرے جھٹک کر باہر آ جاتی ہے اور اس لیڈر پر اپنا سب کچھ قربان کرنے پر تیار ہو جاتی ہے۔
برصغیر کے مسلمانوں کے رہنما قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے بعد پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر نواز شریف اور عمران خان تک اس قوم نے کسی کو بھی مایوس نہیں کیا لیکن ہماری مختصر سی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ان لیڈروں کو جب بھی موقع ملا انھوں نے قوم کو مایوس ہی کیا ۔ پرانی باتوں کا وقت گزر گیا ۔ ہماری سیاسی قیادت نے قوم کو وہ اعتماد نہیں دیا جس کی اس قوم نے ان سے توقع رکھی بلکہ اگر یہ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا کہ ہماری قومی سیاسی قیادت عوام کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکی۔
عمران خان جو کہ ملک کی معاشی صورتحال کی وجہ سے سخت دباؤ کا شکار ہیں ان کو جب بھی فرصت مل رہی ہے وہ دنیا میں پاکستان کے دوستوں سے ملنے جا رہے ہیں ان کا ایران کا حالیہ دورہ اس بات کی جانب واضح اشارہ ہے کہ وہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں اور تعلقات کے ساتھ وہ کاروبار کو بھی فروغ دینا چاہتے ہیں ۔ ایران ہمارا برادر اسلامی ملک ہے اور ایران کی زبان فارسی کبھی برصغیر کی زبان ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ یہ متروک ہوتی گئی اور اب یہ عالم ہے کہ اگر کبھی کوئی فارسی کا مصرعہ یا شعر کالم میں لکھ دیا جائے تو اس کا ترجمہ بھی ساتھ لکھنا پڑتا ہے۔ عمران خان نے اپنے دورے کے دوران ایرانی قیادت کو پرانے تعلقات کی یاد بھی دلائی ہے اور دونوں ملکوں نے دہشت گردی کے خلاف مل کر لڑنے کا فیصلہ بھی کیا ہے ۔
جہاں تک مجھے سمجھ آرہی ہے عمران خان ملک کی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے ہمسایہ ممالک سے تجارتی تعلقات کو فروغ دینا چاہتے ہیں تا کہ پاکستان جو کہ ہر طرح کی نعمتوں سے مالا مال ہے یہ اپنی مصنوعات ہمسایہ ممالک کو برآمد اور ان کی مصنوعات کو درآمد کر کے خطے میں کاروبار کو فروغ دے ۔ ان تجارتی روابط کا فائدہ ہر دو ملکوں کو ہو گا کہ ہمارے خطے میں سستی مزدوری کی وجہ سے مصنوعات سستے داموں تیار ہو جاتی ہیں اس لیے اگر اس خطے کے ملک باہمی تجارت کو مزید وسعت دیں تو خطے کی معیشت بھی بہتر ہو گی اور اس معاشی بہتری سے ملکوں میں معاشی استحکام بھی آئے گا۔
معیشت اور ملک چلانے کا کام سیاستدانوں کا ہے اور ہم ان سیاستدانوں کو سات دہائیوں سے بھگت رہے ہیں جس میں انھوں نے ہمیں مایوس ہی کیا ہے۔ اللہ اور رسولﷺ کے نام پر وجود میں آنے والا ملک اسی برکت سے اب تک قائم چلا آرہا ہے ورنہ ہماری قیادتوں نے تو ملک کو ڈبونے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ مجھے امید ہے بیرونی دشمن ہوں یا اندرونی ، اس ملک کے دشمن کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے ۔ حکمران جیسے بھی ہوں یہ اﷲ اور اس کے رسولﷺ کے نام لیواوں کا ملک ہے اور اس کے ناکام ہونے کا تصور کرنا بھی ایک گنا ہ ہے، بس قوم کو اپنے لیڈروں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔
ہمارا بنیادی اور سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ آزادی کے برسوں بعد ہم خوشحال بھی ہو گئے اور اپنا نام بھی پیدا کر لیا لیکن اس کے باوجود ہم ایک متحد قوم نہیں بن سکے ۔ آزادی کے ساتھ ہی انتشار کی عمر بھی بڑھتی گئی اور دشمنوں کو خدا ایسا موقع دے انھوں نے آج ہمیں اپنے نرغے میں لے رکھا ہے۔ انھی دشمنوں کی وجہ سے ہم اپنے ہمسایوں سے قریب ہونے کے باوجود دور ہوتے گئے اور آج یہ صورتحال ہے کہ ہمارا برادر اسلامی ملک افغانستان جب روسی جارحیت کا شکار ہوا تو اس کے باشندوں کے لیے پاکستانیوں نے اپنی باہیں وا کردی تھیں اور اپنی سر زمین پر انھیں کھلے دل سے خوش آمدید کہا تھا اب یہ صورتحال ہے کہ اسی ملک کرتا دھرتا ہمیں اپنا دشمن سمجھتے ہیں ۔
دوسری طرف کی اگر بات جائے تو ہمارا قدیمی اور قابل اعتبار دوست ملک ایران کو ہم سے دور کرنے کی سازش کی جا رہی ہے، کبھی ایران جانے والے زائرین اور کبھی وہاں سے آنے والوں کو بلوچستان میں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ عالمی سازشی اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں اور پاکستان کو تنہا کر دینے کی خواہش میں ہیں ۔ ہمسایہ ملک میں ایک چین ہی بچ جاتا ہے جس کے ساتھ ہم نے اپنے تجارتی روابط مزید وسیع کر دیے ہیں ۔ دنیا کے ہر اہم فورم پر چین ہمیشہ کی طرح پاکستان کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے ۔ بات رہ گئی امریکا کی تو اس کے ساتھ بھی ایک ایسا تعلق باقی رہ گیا ہے جس کو رسمی تعلق کہا جا سکتا ہے۔ ہم نے زندگی بھر امریکا کے ساتھ تعلق رکھا اور اس کے ہر حکم کی تعمیل کی لیکن وہ آج بھارت کے ساتھ کھڑا ہے۔
ان حالات میں ہماری اگر کوئی طاقت ہے تو وہ قومی شجاعت، غیرت اور حمیت ہے اور اس بڑھتی ہوئی تنہائی میں ہم صرف اور صرف اپنی قومی طاقت پر ہی سلامت رہ سکتے ہیں۔ کیا ہماری قوم کے اندر اتنی طاقت موجود ہے اور کوئی ایسی قیادت بھی موجود ہے جو اس طاقت کو صحیح سمت دے سکتی ہے۔ اس سوال کا جواب یہی دیا جا سکتا ہے کہ سیاستدانوں کی وسیع کرپشن اور قوم کے مفادات سے قریب قریب مکمل لاتعلقی کے باوجود یہ قوم ابھی تک زندہ ہے اور جب اسے کوئی ایسا لیڈر دکھائی دیتا ہے جس پر اس کے دل میں اعتماد کی لہر اٹھتی ہے تو وہ اپنے تمام قومی امراض کو پرے جھٹک کر باہر آ جاتی ہے اور اس لیڈر پر اپنا سب کچھ قربان کرنے پر تیار ہو جاتی ہے۔
برصغیر کے مسلمانوں کے رہنما قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے بعد پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر نواز شریف اور عمران خان تک اس قوم نے کسی کو بھی مایوس نہیں کیا لیکن ہماری مختصر سی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ان لیڈروں کو جب بھی موقع ملا انھوں نے قوم کو مایوس ہی کیا ۔ پرانی باتوں کا وقت گزر گیا ۔ ہماری سیاسی قیادت نے قوم کو وہ اعتماد نہیں دیا جس کی اس قوم نے ان سے توقع رکھی بلکہ اگر یہ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا کہ ہماری قومی سیاسی قیادت عوام کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکی۔
عمران خان جو کہ ملک کی معاشی صورتحال کی وجہ سے سخت دباؤ کا شکار ہیں ان کو جب بھی فرصت مل رہی ہے وہ دنیا میں پاکستان کے دوستوں سے ملنے جا رہے ہیں ان کا ایران کا حالیہ دورہ اس بات کی جانب واضح اشارہ ہے کہ وہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں اور تعلقات کے ساتھ وہ کاروبار کو بھی فروغ دینا چاہتے ہیں ۔ ایران ہمارا برادر اسلامی ملک ہے اور ایران کی زبان فارسی کبھی برصغیر کی زبان ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ یہ متروک ہوتی گئی اور اب یہ عالم ہے کہ اگر کبھی کوئی فارسی کا مصرعہ یا شعر کالم میں لکھ دیا جائے تو اس کا ترجمہ بھی ساتھ لکھنا پڑتا ہے۔ عمران خان نے اپنے دورے کے دوران ایرانی قیادت کو پرانے تعلقات کی یاد بھی دلائی ہے اور دونوں ملکوں نے دہشت گردی کے خلاف مل کر لڑنے کا فیصلہ بھی کیا ہے ۔
جہاں تک مجھے سمجھ آرہی ہے عمران خان ملک کی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے ہمسایہ ممالک سے تجارتی تعلقات کو فروغ دینا چاہتے ہیں تا کہ پاکستان جو کہ ہر طرح کی نعمتوں سے مالا مال ہے یہ اپنی مصنوعات ہمسایہ ممالک کو برآمد اور ان کی مصنوعات کو درآمد کر کے خطے میں کاروبار کو فروغ دے ۔ ان تجارتی روابط کا فائدہ ہر دو ملکوں کو ہو گا کہ ہمارے خطے میں سستی مزدوری کی وجہ سے مصنوعات سستے داموں تیار ہو جاتی ہیں اس لیے اگر اس خطے کے ملک باہمی تجارت کو مزید وسعت دیں تو خطے کی معیشت بھی بہتر ہو گی اور اس معاشی بہتری سے ملکوں میں معاشی استحکام بھی آئے گا۔
معیشت اور ملک چلانے کا کام سیاستدانوں کا ہے اور ہم ان سیاستدانوں کو سات دہائیوں سے بھگت رہے ہیں جس میں انھوں نے ہمیں مایوس ہی کیا ہے۔ اللہ اور رسولﷺ کے نام پر وجود میں آنے والا ملک اسی برکت سے اب تک قائم چلا آرہا ہے ورنہ ہماری قیادتوں نے تو ملک کو ڈبونے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ مجھے امید ہے بیرونی دشمن ہوں یا اندرونی ، اس ملک کے دشمن کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے ۔ حکمران جیسے بھی ہوں یہ اﷲ اور اس کے رسولﷺ کے نام لیواوں کا ملک ہے اور اس کے ناکام ہونے کا تصور کرنا بھی ایک گنا ہ ہے، بس قوم کو اپنے لیڈروں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔