صوبائی خود مختاری اور قائد اعظم
جب تک صوبوں کو مالیاتی خودمختاری نہیں ملتی صرف انتظامی خود مختاری تو بے کار ہے
پاکستان میں ہر مسئلے کی طرح صوبائی خود مختاری کا مسئلہ بھی متنازعہ ہے 'وحدانی ریاست یا ایک حقیقی جمہوری وفاقی نظام پر بحث ہوتی رہتی ہے حالانکہ 1973کے آئین نے پاکستان کو ایک وفاقی پارلیمانی ریاست ہونے کا مسئلہ حل کردیا ہے'لیکن پاکستان میں غیر جمہوری قوتیں اب بھی شاید آئین کو کاغذ کے چند ٹکڑے سمجھتی ہیں۔18ویں ترمیم کے بعد یہ بحث جاری ہے کہ کیا صوبوں کو اپنے حقوق پورے مل گئے ہیں؟۔
مرکزیت پسندوں کا کہنا ہے کہ صوبوں کو ضرورت سے زیادہ خود مختاری مل گئی ہے جب کہ چھوٹی قومیتیں اب بھی اس کو ناکافی سمجھتی ہیں اور ایک نئے عمرانی معاہدے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔بہر حال اس ریفرنڈم میں بقول حکومت 'ا کثر یت نے پا کستان کے حق میں فیصلہ دیا ۔
پاکستان کا وفاق صوبوں کی منظوری سے بنا تھا اس لیے صوبوں کے اختیارات کے مسئلے کی اہمیت بہت زیادہ تھی' اس سلسلے میں کا فی بحث مبا حثے کے بعد چند مسا ئل ابھر کر سامنے آ ئے تھے 'جس کا حل بہت ضروری تھا ۔ پہلا مسئلہ یہ کہ صو بو ں کو کتنی خو د مختار ی دی جا ئے تا کہ و فا ق کو بھی نقصا ن نہ پہنچے اور صو بے بھی مطمئن ہو جا ئیں'اس سو ال پر ا بھی تک اتفا ق ر ا ئے نہیں ہو سکا 'دو سر ا مسئلہ یہ ہے کہ جب تک صوبوں کو ما لیا تی خودمختاری نہیں ملتی صر ف انتظامی خو د مختا ر ی تو بے کا ر ہے 'یہ فیصلہ ابھی تک نہ ہو سکا کہ مر کز ا پنے شا ہا نہ اخراجات 'ایک عظیم ا نتظا می ڈ ھا نچے 'دفاعی اخراجات اور تما م محکمے ا پنے پاس ر کھنے کے بعد صو بو ں کو کتنی ما لیا تی خود مختاری دے سکتا ہے۔
تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ ا بھی تک مختلف پارٹیوں اور صو بو ں میں یہ فیصلہ نہیں ہو سکا تھا کہ 1973 کے آئین میں دی گئی صو با ئی خو د مختا ری کا فی ہے یا اس میں ترمیم کی ضرورت ہے' قوم پر ست پا ر ٹیا ں جو ز یا دہ تر چھوٹے صوبوں کی نما یند گی کرتی ہیں وہ 1973 کے آ ئین میں دی گئی صو با ئی خو د مختاری سے مطمئن نہیں تھیں اور سب سے بڑا مسئلہ تو بعض محب وطن حلقو ں کی طر ف سے صو بو ں کو حقوق دینے کی صور ت میں ملک کے ٹو ٹنے کا شو شہ ہے حالانکہ یہ حقوق د ینے سے ا نکار پر ملک ا یک د فعہ ٹو ٹ چکا ہے۔بہرحال بڑی جدوجہد کے بعد اٹھارویں ترمیم نے مسئلہ کچھ نہ کچھ حل کردیا'لیکن اب پھر مضبوط مرکز والی قوتیں اس ترمیم کے پیچھے پڑ گئی ہیں۔
تا ر یخ کے طا لب علم کے لیے یہ با ت د لچسپی کا با عث ہو گی کہ صو با ئی خو د مختا ری کا مسئلہ با چا خان،جی ا یم سید،بزنجو،مری،مینگل،عبد ا لصمد خان ا چکز ئی اور شیخ مجیب جیسے چند ''غداران پا کستان '' کا پید ا کر دہ نہیں بلکہ یہ مسئلہ بنیا دی طور پر بانی پاکستان قا ئد ا عظم اور مسلم لیگ کا پید ا کر دہ ہے' متحد ہ ہند وستان میں یہ مسئلہ ا تنا ا ہم تھا کہ اس کی و جہ سے مسلم لیگ اور کا نگریس کے در میا ن سمجھو تو ں میں رکا و ٹ پڑتی رہی بلکہ بہت سے تجزیہ نگا روں کا کہنا ہے کہ پاکستان کا مطالبہ اس وقت سامنے آیا ' جب یہ دو نو ں پا ر ٹیاں صو با ئی خو د مختا ری کے مسئلے پر متفق نہ ہو سکیں۔
کا نگر یس چو نکہ ا کثر یتی ہند و بور ژوازی کی نما یندہ پا ر ٹی تھی اس لیے ا س کا خیا ل تھا کہ ایک مضبو ط مر کز کیسا تھ اس طبقے کے مفا دا ت کا تحفظ ز یا دہ بہتر طر یقے سے ہو سکے گا اور دو سر ا یہ کہ مضبو ط مر کز کیسا تھ ہندو ستا ن کا ا تحا د بر قر ا ر رہ سکے گا'جب کہ مسلم لیگ ہمیشہ اکثریتی مسلمان صو بو ں کے حقوق کے تحفظ کا نعرہ لگا تی تھی چو نکہ مسلمان ا قلیت میں تھے اور ہند و ا کثر یت میں اس لیے ان کے حقوق کا تحفظ صر ف صوبائی خو د مختا ری سے ممکن تھا۔
جب ہند و ستان کے لیے آ ئین بنا نے کے حو ا لے سے 1927 میں نہرو ر پور ٹ ا ٓ ئی تو اُس کیسا تھ قا ئد ا عظم نے اسی بنیا دپر ا ختلا ف کیا کہ نہرو رپورٹ میں آ ئین کا جو ڈ ھا نچہ تجویز کیا گیا تھا،اس میں مر کز ی حکو مت کو ز یا دہ ا ختیا ر ات دیے گئے تھے جب کہ ا سکے مقا بلے میں قا ئد ا عظم کے مشہور چودہ نکات میں آ ئین کے لیے جو تجا و یز دی گئیں' ان میں بڑا مطالبہ یہ کیا گیا کہ مر کز ی محکمو ں کے علا وہ تمام ا ختیارا ت (Residual Powers ) صوبوں کو دی جا ئیںتا کہ صوبے مضبوط ہو سکیں۔1935 کے ا نڈ یا ا یکٹ میں مر کز اور صو بو ں کے د ر میا ن ا ختیا را ت کی واضح تقسیم کی گئی تھی اس پر کانگر یس نا ر ا ض تھی کیو نکہ اس کا خیال تھا کہ اس ا یکٹ میں مسلما نو ں کے مطا لبات تسلیم کیے گئے ہیں' جب کہ مسلم لیگ کی قیا دت کا خیا ل تھا کہ اس ایکٹ کے مطا بق مر کز ا بھی تک مضبو ط ہے۔
اختیارات کے مرکز کو منتقلی سے مر کز ی حکو مت اور صوبو ں کے د ر میا ن نفر ت پیدا ہو گئی اور صو بو ں نے ا پنے حقوق کے لیے آ و ا ز ا ٹھا نا شر و ع کر د یا 'پا کستان کی پہلی آئین ساز ا سمبلی میں صو با ئی حقوق کے متعلق کا فی تفصیل سے بحث مبا حثہ ہو تا ر ہا' مختلف سیا سی ر ہنما ؤں نے اس خطرے کا اظہار کیا کہ مر کز ی حکو مت کے طرز عمل سے و فا ق پر پنجا ب کی بالا د ستی قا ئم ہو نے کا خدشہ ہے۔ مشر قی پا کستان کے ر ہنما ؤں کو خا ص کر اس خطرے کا ا حساس تھا۔کسی صاحب نے لکھا تھا کہ چو ہدری رحمت علی کے مجوزہ نام ''پاکستان'' میں بنگال کے لیے پہلے سے ہی کوئی حرف موجود نہیں تھا' ان کا مطا لبہ تھا کہ صو بو ں کو ز یا دہ خو د مختاری دے کر خار جہ ا مو ر' دفاع'کر نسی اور مو ا صلا ت کے علا وہ د یگر تما م محکمے صوبو ں کی تحو یل میں د یے جائیں۔
گو ر نر جنر ل غلا م محمد نے جب 1953 میں وز یر ا عظم نا ظم الد ین کی حکو مت ختم کی تو دیگر وجو ہا ت کے علا و ہ یہ و جہ بھی بیا ن کی گئی کہ وزیر ا عظم صاحب مشر قی پا کستان میں صو با ئی خو د مختا ری کے لیے چلائے جا نی و ا لی تحر یک کو کچلنے میں نا کا م رہے تھے ' 1954میں انتخابات کے مو قع پر مشر قی پا کستان کی قو م پرست پا رٹیو ں نے متحد ہ محا ذ (جگتو فر نٹ)قا ئم کیا' مغر بی پاکستان کی با لادستی کے خلاف اورخو دمختاری کے نعرے پر انتخابات میں جگتو فر نٹ نے مسلم لیگ کو شکست دی۔ مشرقی پاکستان اور مغر بی پاکستان میں خلیج بڑھتی رہی' مشرقی پا کستان کی آ با دی مغر بی پاکستان کے چا روں صو بو ں سے ز یا دہ تھی 'وہ مسلسل اسمبلیوں میں نما یندگی 'ملا ز متو ں اور وسا ئل میں ا پنا حق ما نگتا ر ہا ' اس حق سے محر وم کر نے کے لیے ایک عجیب چکر چلا یا گیا ۔ا س طرح مغر بی پا کستان اور مشرقی پاکستان دونو ں صو بو ں میں مساوات (Parity ) کا ا صو ل لا گوکر د یا گیا۔حالانکہ مشر قی پاکستان 52%اور مغر بی پاکستان 48%کے حقدار تھے۔
1956کے آ ئین کی بنیاد اسی ''منصفانہ ''ا صو ل پر ر کھی گئی ' پہلی بار دنیا کو معلوم ہوا کہ پاکستان میں 52 اور 48 برابر ہوتے ہیں۔ اس ا قد ام سے وزیر ا عظم چو ہد ری محمد علی نے ایک طرف مغر بی پا کستان کے چھو ٹے صو بو ں کو ختم کر د یا اور دوسری طر ف مشر قی پاکستان کو اپنے جائز حصے سے محر وم کر د یا' ا یو ب خا ن کی پو ر ی حکومت میں حز ب ا ختلا ف پا ر لیما نی نظام اور صو با ئی خو د مختاری کے لیے جد و جہد کر تی ر ہی اور جب اُ ن کے خلا ف آخری تحر یک چلی تو مشر قی او ر مغر بی پا کستان کے عو ام کا مطا لبہ یہی تھاکہ پارلیمانی نظا م بحا ل کیا جا ئے' ون یو نٹ ختم کیا جائے' چھوٹے صوبے بحا ل کر کے مکمل صوبائی خو د مختا ری دی جائے۔
ایو ب خا ن کی حکومت کے بعدجب جنرل یحییٰ خان نے حکو مت سنبھالی تو عو امی خو ا ہشات کا ا حترام کر تے ہوئے ون یو نٹ ختم کرکے بلو چستان کو مکمل صو با ئی حیثیت دے دی گئی۔ 1970کے ا نتخا با ت کے بعد بننے و ا لی اسمبلی جب مشرقی پاکستان کی علیحد گی کی بعد نیا آ ئین بنا نے لگی تو سب سے بڑا مسئلہ پھر بھی صو با ئی خو د مختا ری کا تھا۔ 1973کے آ ئین میں بعض ا یسے ا قد ا مات تجو یز کیے گئے تھے جس سے صو بوں کی کچھ نہ کچھ تسلی ہو گئی ' NFC۔CCI اور NECجیسے آ ئینی اداروں کی تشکیل سے صو با ئی خو د مختاری کا مسئلہ حل ہو نے کی اُمید پید ا ہو گئی تھی لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان اداروں کو کامیابی سے کام کرنے نہیں دیا گیا۔
مرکزیت پسندوں کا کہنا ہے کہ صوبوں کو ضرورت سے زیادہ خود مختاری مل گئی ہے جب کہ چھوٹی قومیتیں اب بھی اس کو ناکافی سمجھتی ہیں اور ایک نئے عمرانی معاہدے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔بہر حال اس ریفرنڈم میں بقول حکومت 'ا کثر یت نے پا کستان کے حق میں فیصلہ دیا ۔
پاکستان کا وفاق صوبوں کی منظوری سے بنا تھا اس لیے صوبوں کے اختیارات کے مسئلے کی اہمیت بہت زیادہ تھی' اس سلسلے میں کا فی بحث مبا حثے کے بعد چند مسا ئل ابھر کر سامنے آ ئے تھے 'جس کا حل بہت ضروری تھا ۔ پہلا مسئلہ یہ کہ صو بو ں کو کتنی خو د مختار ی دی جا ئے تا کہ و فا ق کو بھی نقصا ن نہ پہنچے اور صو بے بھی مطمئن ہو جا ئیں'اس سو ال پر ا بھی تک اتفا ق ر ا ئے نہیں ہو سکا 'دو سر ا مسئلہ یہ ہے کہ جب تک صوبوں کو ما لیا تی خودمختاری نہیں ملتی صر ف انتظامی خو د مختا ر ی تو بے کا ر ہے 'یہ فیصلہ ابھی تک نہ ہو سکا کہ مر کز ا پنے شا ہا نہ اخراجات 'ایک عظیم ا نتظا می ڈ ھا نچے 'دفاعی اخراجات اور تما م محکمے ا پنے پاس ر کھنے کے بعد صو بو ں کو کتنی ما لیا تی خود مختاری دے سکتا ہے۔
تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ ا بھی تک مختلف پارٹیوں اور صو بو ں میں یہ فیصلہ نہیں ہو سکا تھا کہ 1973 کے آئین میں دی گئی صو با ئی خو د مختا ری کا فی ہے یا اس میں ترمیم کی ضرورت ہے' قوم پر ست پا ر ٹیا ں جو ز یا دہ تر چھوٹے صوبوں کی نما یند گی کرتی ہیں وہ 1973 کے آ ئین میں دی گئی صو با ئی خو د مختاری سے مطمئن نہیں تھیں اور سب سے بڑا مسئلہ تو بعض محب وطن حلقو ں کی طر ف سے صو بو ں کو حقوق دینے کی صور ت میں ملک کے ٹو ٹنے کا شو شہ ہے حالانکہ یہ حقوق د ینے سے ا نکار پر ملک ا یک د فعہ ٹو ٹ چکا ہے۔بہرحال بڑی جدوجہد کے بعد اٹھارویں ترمیم نے مسئلہ کچھ نہ کچھ حل کردیا'لیکن اب پھر مضبوط مرکز والی قوتیں اس ترمیم کے پیچھے پڑ گئی ہیں۔
تا ر یخ کے طا لب علم کے لیے یہ با ت د لچسپی کا با عث ہو گی کہ صو با ئی خو د مختا ری کا مسئلہ با چا خان،جی ا یم سید،بزنجو،مری،مینگل،عبد ا لصمد خان ا چکز ئی اور شیخ مجیب جیسے چند ''غداران پا کستان '' کا پید ا کر دہ نہیں بلکہ یہ مسئلہ بنیا دی طور پر بانی پاکستان قا ئد ا عظم اور مسلم لیگ کا پید ا کر دہ ہے' متحد ہ ہند وستان میں یہ مسئلہ ا تنا ا ہم تھا کہ اس کی و جہ سے مسلم لیگ اور کا نگریس کے در میا ن سمجھو تو ں میں رکا و ٹ پڑتی رہی بلکہ بہت سے تجزیہ نگا روں کا کہنا ہے کہ پاکستان کا مطالبہ اس وقت سامنے آیا ' جب یہ دو نو ں پا ر ٹیاں صو با ئی خو د مختا ری کے مسئلے پر متفق نہ ہو سکیں۔
کا نگر یس چو نکہ ا کثر یتی ہند و بور ژوازی کی نما یندہ پا ر ٹی تھی اس لیے ا س کا خیا ل تھا کہ ایک مضبو ط مر کز کیسا تھ اس طبقے کے مفا دا ت کا تحفظ ز یا دہ بہتر طر یقے سے ہو سکے گا اور دو سر ا یہ کہ مضبو ط مر کز کیسا تھ ہندو ستا ن کا ا تحا د بر قر ا ر رہ سکے گا'جب کہ مسلم لیگ ہمیشہ اکثریتی مسلمان صو بو ں کے حقوق کے تحفظ کا نعرہ لگا تی تھی چو نکہ مسلمان ا قلیت میں تھے اور ہند و ا کثر یت میں اس لیے ان کے حقوق کا تحفظ صر ف صوبائی خو د مختا ری سے ممکن تھا۔
جب ہند و ستان کے لیے آ ئین بنا نے کے حو ا لے سے 1927 میں نہرو ر پور ٹ ا ٓ ئی تو اُس کیسا تھ قا ئد ا عظم نے اسی بنیا دپر ا ختلا ف کیا کہ نہرو رپورٹ میں آ ئین کا جو ڈ ھا نچہ تجویز کیا گیا تھا،اس میں مر کز ی حکو مت کو ز یا دہ ا ختیا ر ات دیے گئے تھے جب کہ ا سکے مقا بلے میں قا ئد ا عظم کے مشہور چودہ نکات میں آ ئین کے لیے جو تجا و یز دی گئیں' ان میں بڑا مطالبہ یہ کیا گیا کہ مر کز ی محکمو ں کے علا وہ تمام ا ختیارا ت (Residual Powers ) صوبوں کو دی جا ئیںتا کہ صوبے مضبوط ہو سکیں۔1935 کے ا نڈ یا ا یکٹ میں مر کز اور صو بو ں کے د ر میا ن ا ختیا را ت کی واضح تقسیم کی گئی تھی اس پر کانگر یس نا ر ا ض تھی کیو نکہ اس کا خیال تھا کہ اس ا یکٹ میں مسلما نو ں کے مطا لبات تسلیم کیے گئے ہیں' جب کہ مسلم لیگ کی قیا دت کا خیا ل تھا کہ اس ایکٹ کے مطا بق مر کز ا بھی تک مضبو ط ہے۔
اختیارات کے مرکز کو منتقلی سے مر کز ی حکو مت اور صوبو ں کے د ر میا ن نفر ت پیدا ہو گئی اور صو بو ں نے ا پنے حقوق کے لیے آ و ا ز ا ٹھا نا شر و ع کر د یا 'پا کستان کی پہلی آئین ساز ا سمبلی میں صو با ئی حقوق کے متعلق کا فی تفصیل سے بحث مبا حثہ ہو تا ر ہا' مختلف سیا سی ر ہنما ؤں نے اس خطرے کا اظہار کیا کہ مر کز ی حکو مت کے طرز عمل سے و فا ق پر پنجا ب کی بالا د ستی قا ئم ہو نے کا خدشہ ہے۔ مشر قی پا کستان کے ر ہنما ؤں کو خا ص کر اس خطرے کا ا حساس تھا۔کسی صاحب نے لکھا تھا کہ چو ہدری رحمت علی کے مجوزہ نام ''پاکستان'' میں بنگال کے لیے پہلے سے ہی کوئی حرف موجود نہیں تھا' ان کا مطا لبہ تھا کہ صو بو ں کو ز یا دہ خو د مختاری دے کر خار جہ ا مو ر' دفاع'کر نسی اور مو ا صلا ت کے علا وہ د یگر تما م محکمے صوبو ں کی تحو یل میں د یے جائیں۔
گو ر نر جنر ل غلا م محمد نے جب 1953 میں وز یر ا عظم نا ظم الد ین کی حکو مت ختم کی تو دیگر وجو ہا ت کے علا و ہ یہ و جہ بھی بیا ن کی گئی کہ وزیر ا عظم صاحب مشر قی پا کستان میں صو با ئی خو د مختا ری کے لیے چلائے جا نی و ا لی تحر یک کو کچلنے میں نا کا م رہے تھے ' 1954میں انتخابات کے مو قع پر مشر قی پا کستان کی قو م پرست پا رٹیو ں نے متحد ہ محا ذ (جگتو فر نٹ)قا ئم کیا' مغر بی پاکستان کی با لادستی کے خلاف اورخو دمختاری کے نعرے پر انتخابات میں جگتو فر نٹ نے مسلم لیگ کو شکست دی۔ مشرقی پاکستان اور مغر بی پاکستان میں خلیج بڑھتی رہی' مشرقی پا کستان کی آ با دی مغر بی پاکستان کے چا روں صو بو ں سے ز یا دہ تھی 'وہ مسلسل اسمبلیوں میں نما یندگی 'ملا ز متو ں اور وسا ئل میں ا پنا حق ما نگتا ر ہا ' اس حق سے محر وم کر نے کے لیے ایک عجیب چکر چلا یا گیا ۔ا س طرح مغر بی پا کستان اور مشرقی پاکستان دونو ں صو بو ں میں مساوات (Parity ) کا ا صو ل لا گوکر د یا گیا۔حالانکہ مشر قی پاکستان 52%اور مغر بی پاکستان 48%کے حقدار تھے۔
1956کے آ ئین کی بنیاد اسی ''منصفانہ ''ا صو ل پر ر کھی گئی ' پہلی بار دنیا کو معلوم ہوا کہ پاکستان میں 52 اور 48 برابر ہوتے ہیں۔ اس ا قد ام سے وزیر ا عظم چو ہد ری محمد علی نے ایک طرف مغر بی پا کستان کے چھو ٹے صو بو ں کو ختم کر د یا اور دوسری طر ف مشر قی پاکستان کو اپنے جائز حصے سے محر وم کر د یا' ا یو ب خا ن کی پو ر ی حکومت میں حز ب ا ختلا ف پا ر لیما نی نظام اور صو با ئی خو د مختاری کے لیے جد و جہد کر تی ر ہی اور جب اُ ن کے خلا ف آخری تحر یک چلی تو مشر قی او ر مغر بی پا کستان کے عو ام کا مطا لبہ یہی تھاکہ پارلیمانی نظا م بحا ل کیا جا ئے' ون یو نٹ ختم کیا جائے' چھوٹے صوبے بحا ل کر کے مکمل صوبائی خو د مختا ری دی جائے۔
ایو ب خا ن کی حکومت کے بعدجب جنرل یحییٰ خان نے حکو مت سنبھالی تو عو امی خو ا ہشات کا ا حترام کر تے ہوئے ون یو نٹ ختم کرکے بلو چستان کو مکمل صو با ئی حیثیت دے دی گئی۔ 1970کے ا نتخا با ت کے بعد بننے و ا لی اسمبلی جب مشرقی پاکستان کی علیحد گی کی بعد نیا آ ئین بنا نے لگی تو سب سے بڑا مسئلہ پھر بھی صو با ئی خو د مختا ری کا تھا۔ 1973کے آ ئین میں بعض ا یسے ا قد ا مات تجو یز کیے گئے تھے جس سے صو بوں کی کچھ نہ کچھ تسلی ہو گئی ' NFC۔CCI اور NECجیسے آ ئینی اداروں کی تشکیل سے صو با ئی خو د مختاری کا مسئلہ حل ہو نے کی اُمید پید ا ہو گئی تھی لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان اداروں کو کامیابی سے کام کرنے نہیں دیا گیا۔