سندھ اسمبلی میں وزیر اعظم اور ایم کیو ایم سربراہ کیخلاف قراردادیں
پیپلز پارٹی نے 18 ویں آئینی ترمیم کو سندھ میں ایک حساس ایشو بنادیا ہے۔
سندھ اسمبلی کا 9 جنوری 2019ء کو شروع ہونے والا اجلاس ابھی تک جاری ہے ۔
سندھ اسمبلی کی تاریخ میں یہ شاید طویل ترین اجلاس ہے۔ یہ اجلاس انتہائی ہنگامہ خیز رہا ہے، جس میں اپوزیشن نے کئی مواقع پر زبردست احتجاج کیا اور ایوان سے واک آؤٹ بھی کیا۔ اپوزیشن ارکان نے چند دن اجلاس کا مکمل بائیکاٹ بھی کیا۔اسی اجلاس کے دوران وزیراعظم عمران خان اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے سربراہ اور وفاقی وزیر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کے خلاف پیپلز پارٹی کے ارکان نے سندھ اسمبلی سے قراردادیں بھی منظور کرائیں۔
سندھ اسمبلی میں 18ویں آئینی ترمیم کو رول بیک کرنے کی کوششوں کے خلاف تحریک التواء پر بھی تین دن تک مسلسل دھواں دھار بحث ہوئی۔ اس طرح سندھ اسمبلی کا یہ اجلاس سیاسی طور پر بہت ہنگامہ خیز رہا۔ دوسری طرف ایم کیو ایم پاکستان نے 27 جولائی کو کراچی کے باغ جناح میں جلسہ عام منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے،جس میں وہ اپنی سیاسی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کرے گی۔
وزیراعظم عمران خان کے خلاف قرارداد سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی طرف سے پیش کی گئی تھی۔ قرارداد میں کہا گیا کہ وزیراعظم نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے حق میں بیان دیا ہے اور کہا ہے کہ بھارت کے عام انتخابات میں نریندر مودی کی کامیابی پاکستان کے لیے بہتر ہے۔ سندھ اسمبلی کا ایوان اس بیان کی مذمت کرتا ہے۔ عمران خان نے مودی کے انتخابی ایجنٹ کا کردار ادا کیا ہے۔
ایم کیو ایم کے سربراہ اور وفاقی وزیر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کے خلاف بھی پیپلز پارٹی نے ایوان میں قرارداد پیش کی، جس میں ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی جانب سے سندھ کو تقسیم کرنے کے بیان کی مذمت کی گئی۔ قرارداد میں کہا گیا کہ ایم کیو ایم کے سربراہ نے یہ بیان دیا ہے کہ سندھ دو حصوں میں تقسیم ہوچکا ہے، صرف اعلان ہونا باقی ہے۔
ایوان اس بیان کی مذمت کرتا ہے۔ اس قرارداد پر پیپلز پارٹی کے متعدد ارکان نے خطاب کیا اور کہا کہ سندھ ہمیشہ سے ایک وحدت رہا ہے اور سندھ کوئی بھی تقسیم نہیں کر سکتا ۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سندھ کو ٹکڑے کرنے کی بات کرنے والے خود کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئے۔ اب وہ مزید کتنے ٹکڑے ہونا چاہتے ہیں؟ دونوں قراردادیں پیش ہونے پر اپوزیشن ارکان نے زبردست احتجاج کیا اور وہ ایوان سے واک آؤٹ کرگئے۔ قراردادوں پر بحث اور ان کی منظوری کے دوران اپوزیشن ارکان ایوان میں موجود نہیں تھے۔
پیپلز پارٹی نے 18 ویں آئینی ترمیم کو سندھ میں ایک حساس ایشو بنادیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں اور حکومتی عہدیداروں کی طرف سے 18 ویں آئینی ترمیم کے خلاف بیانات کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے، اس سے سندھ کے عوام میں یہ احساس پیدا ہو رہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت کے 18 ویں آئینی ترمیم کو رول بیک کرنے سے متعلق خدشات درست تھے۔ پیپلز پارٹی اس معاملے کو سندھ اسمبلی میں ایک تحریک التواء کی صورت میں لے آئی۔
اس تحریک التواء پر پیپلز پارٹی کے ارکان نے دھواں دھار تقریریں کیں اور کہا کہ 18 ویں ترمیم کو رول بیک کرنے سے ملکی یکجہتی کو نقصان ہوگا۔ تحریک انصاف کی حکومت 18 ویں ترمیم کو رول بیک کرنے کی کوششوں سے باز رہے۔ تحریک التواء پر تقاریر کے دوران اپوزیشن ارکان ایوان میں موجود نہیں تھے۔ گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس (جی ڈی اے) کی طرف سے 18 ویں ترمیم کے خلاف کوئی بات نہیں کی گئی اور نہ وہ سندھ کی موجودہ سیاسی صورت حال میں اس حساس ایشو پر پیپلز پارٹی کے خلاف جا سکتی ہے۔
ایم کیو ایم 18 ویں آئینی ترمیم کے خلاف اپنے تحفظات کا کھل کر اظہار کر رہی ہے۔ ایم کیو ایم کی قیادت کا کہنا ہے کہ 18 ویں ترمیم کی حمایت کرکے انہوں نے غلطی کی کیونکہ اس ترمیم کے تحت صوبوں کو جو اختیارات ملے، وہ نچلی سطح پر تقسیم نہیں کیے جا رہے اور سندھ میں اردو بولنے والوں کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ ایم کیو ایم نے ہفتہ 27 اپریل کو کراچی میں جلسہ عام منعقد کرنے اور اپنی سیاسی طاقت کے مظاہرے کا اعلان کیا ہے۔ اسے ایم کیو ایم کی سیاسی طور پر بحالی کی کوششوں سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔
سندھ اسمبلی کی تاریخ میں یہ شاید طویل ترین اجلاس ہے۔ یہ اجلاس انتہائی ہنگامہ خیز رہا ہے، جس میں اپوزیشن نے کئی مواقع پر زبردست احتجاج کیا اور ایوان سے واک آؤٹ بھی کیا۔ اپوزیشن ارکان نے چند دن اجلاس کا مکمل بائیکاٹ بھی کیا۔اسی اجلاس کے دوران وزیراعظم عمران خان اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے سربراہ اور وفاقی وزیر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کے خلاف پیپلز پارٹی کے ارکان نے سندھ اسمبلی سے قراردادیں بھی منظور کرائیں۔
سندھ اسمبلی میں 18ویں آئینی ترمیم کو رول بیک کرنے کی کوششوں کے خلاف تحریک التواء پر بھی تین دن تک مسلسل دھواں دھار بحث ہوئی۔ اس طرح سندھ اسمبلی کا یہ اجلاس سیاسی طور پر بہت ہنگامہ خیز رہا۔ دوسری طرف ایم کیو ایم پاکستان نے 27 جولائی کو کراچی کے باغ جناح میں جلسہ عام منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے،جس میں وہ اپنی سیاسی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کرے گی۔
وزیراعظم عمران خان کے خلاف قرارداد سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی طرف سے پیش کی گئی تھی۔ قرارداد میں کہا گیا کہ وزیراعظم نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے حق میں بیان دیا ہے اور کہا ہے کہ بھارت کے عام انتخابات میں نریندر مودی کی کامیابی پاکستان کے لیے بہتر ہے۔ سندھ اسمبلی کا ایوان اس بیان کی مذمت کرتا ہے۔ عمران خان نے مودی کے انتخابی ایجنٹ کا کردار ادا کیا ہے۔
ایم کیو ایم کے سربراہ اور وفاقی وزیر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کے خلاف بھی پیپلز پارٹی نے ایوان میں قرارداد پیش کی، جس میں ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی جانب سے سندھ کو تقسیم کرنے کے بیان کی مذمت کی گئی۔ قرارداد میں کہا گیا کہ ایم کیو ایم کے سربراہ نے یہ بیان دیا ہے کہ سندھ دو حصوں میں تقسیم ہوچکا ہے، صرف اعلان ہونا باقی ہے۔
ایوان اس بیان کی مذمت کرتا ہے۔ اس قرارداد پر پیپلز پارٹی کے متعدد ارکان نے خطاب کیا اور کہا کہ سندھ ہمیشہ سے ایک وحدت رہا ہے اور سندھ کوئی بھی تقسیم نہیں کر سکتا ۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سندھ کو ٹکڑے کرنے کی بات کرنے والے خود کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئے۔ اب وہ مزید کتنے ٹکڑے ہونا چاہتے ہیں؟ دونوں قراردادیں پیش ہونے پر اپوزیشن ارکان نے زبردست احتجاج کیا اور وہ ایوان سے واک آؤٹ کرگئے۔ قراردادوں پر بحث اور ان کی منظوری کے دوران اپوزیشن ارکان ایوان میں موجود نہیں تھے۔
پیپلز پارٹی نے 18 ویں آئینی ترمیم کو سندھ میں ایک حساس ایشو بنادیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں اور حکومتی عہدیداروں کی طرف سے 18 ویں آئینی ترمیم کے خلاف بیانات کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے، اس سے سندھ کے عوام میں یہ احساس پیدا ہو رہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت کے 18 ویں آئینی ترمیم کو رول بیک کرنے سے متعلق خدشات درست تھے۔ پیپلز پارٹی اس معاملے کو سندھ اسمبلی میں ایک تحریک التواء کی صورت میں لے آئی۔
اس تحریک التواء پر پیپلز پارٹی کے ارکان نے دھواں دھار تقریریں کیں اور کہا کہ 18 ویں ترمیم کو رول بیک کرنے سے ملکی یکجہتی کو نقصان ہوگا۔ تحریک انصاف کی حکومت 18 ویں ترمیم کو رول بیک کرنے کی کوششوں سے باز رہے۔ تحریک التواء پر تقاریر کے دوران اپوزیشن ارکان ایوان میں موجود نہیں تھے۔ گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس (جی ڈی اے) کی طرف سے 18 ویں ترمیم کے خلاف کوئی بات نہیں کی گئی اور نہ وہ سندھ کی موجودہ سیاسی صورت حال میں اس حساس ایشو پر پیپلز پارٹی کے خلاف جا سکتی ہے۔
ایم کیو ایم 18 ویں آئینی ترمیم کے خلاف اپنے تحفظات کا کھل کر اظہار کر رہی ہے۔ ایم کیو ایم کی قیادت کا کہنا ہے کہ 18 ویں ترمیم کی حمایت کرکے انہوں نے غلطی کی کیونکہ اس ترمیم کے تحت صوبوں کو جو اختیارات ملے، وہ نچلی سطح پر تقسیم نہیں کیے جا رہے اور سندھ میں اردو بولنے والوں کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ ایم کیو ایم نے ہفتہ 27 اپریل کو کراچی میں جلسہ عام منعقد کرنے اور اپنی سیاسی طاقت کے مظاہرے کا اعلان کیا ہے۔ اسے ایم کیو ایم کی سیاسی طور پر بحالی کی کوششوں سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔