بل کی مخالفت کے باوجود ایم کیو ایم کا بلدیاتی الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ
سندھ میں نئے بلدیاتی نظام کے نفاذ کے لیے جس قدر آسانی سے سندھ اسمبلی نے قانون منظور کرلیا ہے ...
سندھ میں نئے بلدیاتی نظام کے نفاذ کے لیے جس قدر آسانی سے سندھ اسمبلی نے قانون منظور کرلیا ہے ، اس کی توقع نہیں کی جارہی تھی۔
سندھ لوکل گورنمنٹ بل 2013ء گذشتہ پیر کو سندھ اسمبلی میں پیش ہونے سے پہلے لوگ یہ اندازہ لگارہے تھے کہ ایوان کے اندر بہت ہنگامہ اور شور شرابہ ہوگا اور متحدہ قومی موومنٹ( ایم کیو ایم) یہ بل منظور نہیں ہونے دے گی لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ بل کی منظوری کے بعد بھی یہ قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں کہ ایم کیو ایم اس بل کے خلاف بہت بڑا احتجاج کرے گی اور وہ ہڑتال کی کال دے سکتی ہے ۔ لوگوں کی یہ قیاس آرائیاں بھی غلط ثابت ہوئیں۔ سندھ اسمبلی میں پرسکون ماحول میں بل پر بحث ہوئی اور تمام پارلیمانی پارٹیوں کے ارکان نے خطاب کیا۔
ایم کیو ایم کی طرف سے صرف اس بات پر احتجاج کیا گیا کہ ارکان کو بل کی کاپیاں موصول نہیں ہوئی ہیں اور جن لوگوں کو یہ کاپیاں موصول ہوئی ہیں ، ان کے ساتھ بل کے اغراض ومقاصد کے حوالے سے اسٹیٹمنٹ منسلک نہیں ہے۔ بل پر رائے شماری کے دوران ایم کیو ایم کے ارکان نے مخالفت میں ووٹ دیا لیکن ایوان کا ماحول خراب نہیں ہونے دیا۔ ایم کیو ایم کے ارکان نے ایک دوسرے بل پر احتجاجاً ایوان سے واک آؤٹ کیا اور یہ مؤقف اختیار کیا کہ یہ بل اچانک لایا جارہا ہے اور ارکان کو اس بارے میں علم بھی نہیں ہے ۔
یہ بل سندھ کی سرکاری یونیورسٹیز کے قوانین میں متعدد ترامیم سے متعلق تھا۔ ان ترامیم کے ذریعے وائس چانسلرز، پرووائس چانسلرز اوریونیورسٹیزکے دیگراہم عہدوں پر تقرریوں اور بھرتیوں کے اختیارات گورنر سندھ سے واپس لے کر وزیر اعلیٰ سندھ کو منتقل کردیئے گئے۔ بل کی منظوری سے کراچی یونیورسٹی اور ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں داخلہ پالیسی بنانے کا اختیار بھی حکومت سندھ کو حاصل ہوگیا ہے ۔ اس بل پر بھی ایم کیو ایم کی طرف سے زبردست احتجاج کی توقع کی جارہی تھی لیکن ایسی کوئی صورت حال پیدا نہیں ہوئی ۔
سندھ لوکل گورنمنٹ بل کی منظوری کے بعد ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے دیگر رہنماؤں نے اپنے خطاب اور پریس کانفرنسز میں مذکورہ بل کی شدید مخالفت کی اور پیپلز پارٹی کے خلاف انتہائی سخت لہجہ استعمال کیا ۔ ایم کیو ایم کے قائدین کاکہنا تھا کہ پیپلز پارٹی صوبہ سندھ میں شہری اور دیہی علاقوں میں تقسیم پیداکر رہی ہے۔ اس کے باوجود ایم کیو ایم نے نہ تو کسی ہڑتال کی کال دی اور نہ ہی لوگوں کو احتجاج کے لیے اکسایا۔ ایم کیو ایم کے رابطہ کے رکن واسع جلیل نے ان خبروں کی بھی تردیدکردی ہے کہ ایم کیو ایم بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کرے گی۔ ان کاکہنا تھا کہ ایم کیو ایم بلدیاتی انتخابات میں بھرپور حصہ لے گی ۔ اس طرح سندھ میں نئے بلدیاتی نظام کا مسئلہ انتہائی خوش اسلوبی سے حل ہوگیا ہے ۔
یہ امر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ سندھ میں سیاسی جماعتوں نے اس صوبے کے معروضی سیاسی حقائق کو تسلیم کرلیا ہے اور وہ صرف اپوزیشن برائے اپوزیشن نہیں کرنا چاہتی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) نے بھی بہترین سیاسی تدبر کا مظاہرہ کیا ہے اور سندھ لوکل گورنمنٹ بل 2013ء کی منظوری میں حکومت سندھ کی مکمل حمایت کی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) مرکز میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں نہ صرف شامل ہے بلکہ سندھ میں ان کا ایک مضبوط سیاسی اتحاد بھی ہے ۔
ان دونوںجماعتوں نے بھی مخالفت برائے مخالفت کی سیاست نہیں کی اور اپنی دانست میں سندھ کے عوام کے لیے جو بہتر سمجھا، وہ کیا۔ ان دونوں جماعتوں کی طرف سے پیپلز پارٹی کی غیر مشروط حمایت سے سندھ کے مستقبل کی سیاست پر اہم اثرات مرتب ہوںگے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت نے بھی بل کی منظوری سے پہلے سندھ اسمبلی کے اندر اور باہر کی تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کئے اوربل پر ان کی رائے حاصل کی۔ پیپلز پارٹی کے اس اقدام سے بھی سیاسی اعتماد کی ایک فضا قائم ہوئی ۔
پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) کے سندھ اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر امتیاز احمد شیخ اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر عرفان اللہ خان مروت نے اس بات کو سراہا کہ پیپلز پارٹی نے مسودہ قانون منظور ہونے سے پہلے مشاورت کی۔ ان دونوں رہنماؤں نے سندھ لوکل گورنمنٹ بل 2013ء کو سندھ کے عوام کے مفاد میں قرار دیا اورکہا کہ اپوزیشن میں ہونے کے باوجود ہم اس بل کی غیر مشروط حمایت کرتے ہیں ۔ امتیاز احمد شیخ نے سندھ اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران حکومت سندھ سے یہ اپیل کی کہ ایم کیو ایم کے اعتراضات کو دور کرنے کے لیے بل کی منظوری کو کچھ دنوں کے لیے مؤخر کیا جائے تاکہ ہم آہنگی کی فضا میں یہ بل منظور ہو ۔ بہرحال سندھ اسمبلی میں اس بل کی منظوری کے وقت جو ماحول تھا ، وہ توقع کے برعکس تھا ۔
سندھ اسمبلی میں سیاسی جماعتوں کے رویئے سے یہ بات واضح طور پر محسوس کی جارہی تھی کہ ایم کیو ایم سمیت تمام سیاسی جماعتیں اس بات سے آگاہ تھیں کہ سندھ کے عوام کس طرح کا بلدیاتی نظام چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوںنے سندھ کے عوام کی سوچ کا احترام کیا ۔ یہ اور بات ہے کہ سندھ کے سینئر وزیر برائے تعلیم نثار احمد کھوڑو نے سندھ کے عوام کی اس سوچ کو ان کی '' اجتماعی دانش '' قرار دیا جبکہ سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر فیصل علی سبزواری نے اسے '' اکثریتی دانش'' کا نام دیا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اسمبلی میں منتخب لوگوںکو اس بات کا احساس تھا کہ سندھ میںکیسا نظام ہونا چاہئے، جس پر کوئی کشیدگی پیدا نہ ہو۔
مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (فنکشنل) نے بھی سندھ کے لوگوں کی اسی دانش کو مدنظر رکھتے ہوئے سندھ لوکل گورنمنٹ بل کی حمایت کی، چاہے اس دانش کو اجتماعی کہا جائے یا اکثریتی ۔ سندھ کے عوام کی اسی دانش کا ادراک ہونے کی وجہ سے سندھ اسمبلی میں ماضی کی طرح ٹکراؤ اور تصادم کی صورت حال پید نہیں ہوئی۔ اس صورت حال کا زیادہ کریڈٹ ایم کیو ایم کو جاتا ہے، جس نے اپنے مؤقف پر قائم رہتے ہوئے بل کی مخالفت تو کی لیکن سندھ اسمبلی کے اکثریتی فیصلے کے خلاف وہ احتجاج نہیں کیا، جس کی توقع کی جارہی تھی ۔
جو لوگ یہ کہتے تھے کہ سندھ میںبلدیاتی نظام کے حوالے سے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے مابین جو اختلافات تھے، ان کی وجہ سے سندھ میں سیاسی کشیدگی کا ماحول کبھی ختم نہیں ہوسکتا، اب وہ لوگ اپنی رائے بدل سکتے ہیں۔ اس ملک کے کچھ عناصر سیاسی طور پر انتہائی حساس صوبہ سندھ میں حالات خراب کرنے کے لیے ہمیشہ مصروف رہتے ہیں لیکن اب انہیں احساس ہوجانا چاہئے کہ سیاسی جماعتیں ماضی کے تجربات سے بہت کچھ سیکھ چکی ہیں اور وہ تصادم کا راستہ اختیار کرکے غیر سیاسی قوتوں کے لیے مواقع پیدا نہیں کرنا چاہتی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (فنکشنل) کی طرف سے بھی پیپلزپارٹی کی حمایت سے سندھ کے لوگوں کو ایک اچھا پیغام گیا ہے اور یہ تاثر ختم کرنے میں مدد ملی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی مرکزی حکومت سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ سندھ اسمبلی میں جو روایت قائم ہوئی ہے ، اسے برقرار رہنا چاہئے کیونکہ پاکستان کی سیاسی اور جمہوری قوتوںکو ملک میں سیاسی استحکام کے حصول اور دیگر چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ابھی بہت سے صبر آزما مراحل سے گزرنا ہوگا۔
سندھ لوکل گورنمنٹ بل 2013ء گذشتہ پیر کو سندھ اسمبلی میں پیش ہونے سے پہلے لوگ یہ اندازہ لگارہے تھے کہ ایوان کے اندر بہت ہنگامہ اور شور شرابہ ہوگا اور متحدہ قومی موومنٹ( ایم کیو ایم) یہ بل منظور نہیں ہونے دے گی لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ بل کی منظوری کے بعد بھی یہ قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں کہ ایم کیو ایم اس بل کے خلاف بہت بڑا احتجاج کرے گی اور وہ ہڑتال کی کال دے سکتی ہے ۔ لوگوں کی یہ قیاس آرائیاں بھی غلط ثابت ہوئیں۔ سندھ اسمبلی میں پرسکون ماحول میں بل پر بحث ہوئی اور تمام پارلیمانی پارٹیوں کے ارکان نے خطاب کیا۔
ایم کیو ایم کی طرف سے صرف اس بات پر احتجاج کیا گیا کہ ارکان کو بل کی کاپیاں موصول نہیں ہوئی ہیں اور جن لوگوں کو یہ کاپیاں موصول ہوئی ہیں ، ان کے ساتھ بل کے اغراض ومقاصد کے حوالے سے اسٹیٹمنٹ منسلک نہیں ہے۔ بل پر رائے شماری کے دوران ایم کیو ایم کے ارکان نے مخالفت میں ووٹ دیا لیکن ایوان کا ماحول خراب نہیں ہونے دیا۔ ایم کیو ایم کے ارکان نے ایک دوسرے بل پر احتجاجاً ایوان سے واک آؤٹ کیا اور یہ مؤقف اختیار کیا کہ یہ بل اچانک لایا جارہا ہے اور ارکان کو اس بارے میں علم بھی نہیں ہے ۔
یہ بل سندھ کی سرکاری یونیورسٹیز کے قوانین میں متعدد ترامیم سے متعلق تھا۔ ان ترامیم کے ذریعے وائس چانسلرز، پرووائس چانسلرز اوریونیورسٹیزکے دیگراہم عہدوں پر تقرریوں اور بھرتیوں کے اختیارات گورنر سندھ سے واپس لے کر وزیر اعلیٰ سندھ کو منتقل کردیئے گئے۔ بل کی منظوری سے کراچی یونیورسٹی اور ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں داخلہ پالیسی بنانے کا اختیار بھی حکومت سندھ کو حاصل ہوگیا ہے ۔ اس بل پر بھی ایم کیو ایم کی طرف سے زبردست احتجاج کی توقع کی جارہی تھی لیکن ایسی کوئی صورت حال پیدا نہیں ہوئی ۔
سندھ لوکل گورنمنٹ بل کی منظوری کے بعد ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے دیگر رہنماؤں نے اپنے خطاب اور پریس کانفرنسز میں مذکورہ بل کی شدید مخالفت کی اور پیپلز پارٹی کے خلاف انتہائی سخت لہجہ استعمال کیا ۔ ایم کیو ایم کے قائدین کاکہنا تھا کہ پیپلز پارٹی صوبہ سندھ میں شہری اور دیہی علاقوں میں تقسیم پیداکر رہی ہے۔ اس کے باوجود ایم کیو ایم نے نہ تو کسی ہڑتال کی کال دی اور نہ ہی لوگوں کو احتجاج کے لیے اکسایا۔ ایم کیو ایم کے رابطہ کے رکن واسع جلیل نے ان خبروں کی بھی تردیدکردی ہے کہ ایم کیو ایم بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کرے گی۔ ان کاکہنا تھا کہ ایم کیو ایم بلدیاتی انتخابات میں بھرپور حصہ لے گی ۔ اس طرح سندھ میں نئے بلدیاتی نظام کا مسئلہ انتہائی خوش اسلوبی سے حل ہوگیا ہے ۔
یہ امر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ سندھ میں سیاسی جماعتوں نے اس صوبے کے معروضی سیاسی حقائق کو تسلیم کرلیا ہے اور وہ صرف اپوزیشن برائے اپوزیشن نہیں کرنا چاہتی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) نے بھی بہترین سیاسی تدبر کا مظاہرہ کیا ہے اور سندھ لوکل گورنمنٹ بل 2013ء کی منظوری میں حکومت سندھ کی مکمل حمایت کی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) مرکز میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں نہ صرف شامل ہے بلکہ سندھ میں ان کا ایک مضبوط سیاسی اتحاد بھی ہے ۔
ان دونوںجماعتوں نے بھی مخالفت برائے مخالفت کی سیاست نہیں کی اور اپنی دانست میں سندھ کے عوام کے لیے جو بہتر سمجھا، وہ کیا۔ ان دونوں جماعتوں کی طرف سے پیپلز پارٹی کی غیر مشروط حمایت سے سندھ کے مستقبل کی سیاست پر اہم اثرات مرتب ہوںگے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت نے بھی بل کی منظوری سے پہلے سندھ اسمبلی کے اندر اور باہر کی تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کئے اوربل پر ان کی رائے حاصل کی۔ پیپلز پارٹی کے اس اقدام سے بھی سیاسی اعتماد کی ایک فضا قائم ہوئی ۔
پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) کے سندھ اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر امتیاز احمد شیخ اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر عرفان اللہ خان مروت نے اس بات کو سراہا کہ پیپلز پارٹی نے مسودہ قانون منظور ہونے سے پہلے مشاورت کی۔ ان دونوں رہنماؤں نے سندھ لوکل گورنمنٹ بل 2013ء کو سندھ کے عوام کے مفاد میں قرار دیا اورکہا کہ اپوزیشن میں ہونے کے باوجود ہم اس بل کی غیر مشروط حمایت کرتے ہیں ۔ امتیاز احمد شیخ نے سندھ اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران حکومت سندھ سے یہ اپیل کی کہ ایم کیو ایم کے اعتراضات کو دور کرنے کے لیے بل کی منظوری کو کچھ دنوں کے لیے مؤخر کیا جائے تاکہ ہم آہنگی کی فضا میں یہ بل منظور ہو ۔ بہرحال سندھ اسمبلی میں اس بل کی منظوری کے وقت جو ماحول تھا ، وہ توقع کے برعکس تھا ۔
سندھ اسمبلی میں سیاسی جماعتوں کے رویئے سے یہ بات واضح طور پر محسوس کی جارہی تھی کہ ایم کیو ایم سمیت تمام سیاسی جماعتیں اس بات سے آگاہ تھیں کہ سندھ کے عوام کس طرح کا بلدیاتی نظام چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوںنے سندھ کے عوام کی سوچ کا احترام کیا ۔ یہ اور بات ہے کہ سندھ کے سینئر وزیر برائے تعلیم نثار احمد کھوڑو نے سندھ کے عوام کی اس سوچ کو ان کی '' اجتماعی دانش '' قرار دیا جبکہ سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر فیصل علی سبزواری نے اسے '' اکثریتی دانش'' کا نام دیا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اسمبلی میں منتخب لوگوںکو اس بات کا احساس تھا کہ سندھ میںکیسا نظام ہونا چاہئے، جس پر کوئی کشیدگی پیدا نہ ہو۔
مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (فنکشنل) نے بھی سندھ کے لوگوں کی اسی دانش کو مدنظر رکھتے ہوئے سندھ لوکل گورنمنٹ بل کی حمایت کی، چاہے اس دانش کو اجتماعی کہا جائے یا اکثریتی ۔ سندھ کے عوام کی اسی دانش کا ادراک ہونے کی وجہ سے سندھ اسمبلی میں ماضی کی طرح ٹکراؤ اور تصادم کی صورت حال پید نہیں ہوئی۔ اس صورت حال کا زیادہ کریڈٹ ایم کیو ایم کو جاتا ہے، جس نے اپنے مؤقف پر قائم رہتے ہوئے بل کی مخالفت تو کی لیکن سندھ اسمبلی کے اکثریتی فیصلے کے خلاف وہ احتجاج نہیں کیا، جس کی توقع کی جارہی تھی ۔
جو لوگ یہ کہتے تھے کہ سندھ میںبلدیاتی نظام کے حوالے سے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے مابین جو اختلافات تھے، ان کی وجہ سے سندھ میں سیاسی کشیدگی کا ماحول کبھی ختم نہیں ہوسکتا، اب وہ لوگ اپنی رائے بدل سکتے ہیں۔ اس ملک کے کچھ عناصر سیاسی طور پر انتہائی حساس صوبہ سندھ میں حالات خراب کرنے کے لیے ہمیشہ مصروف رہتے ہیں لیکن اب انہیں احساس ہوجانا چاہئے کہ سیاسی جماعتیں ماضی کے تجربات سے بہت کچھ سیکھ چکی ہیں اور وہ تصادم کا راستہ اختیار کرکے غیر سیاسی قوتوں کے لیے مواقع پیدا نہیں کرنا چاہتی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (فنکشنل) کی طرف سے بھی پیپلزپارٹی کی حمایت سے سندھ کے لوگوں کو ایک اچھا پیغام گیا ہے اور یہ تاثر ختم کرنے میں مدد ملی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی مرکزی حکومت سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ سندھ اسمبلی میں جو روایت قائم ہوئی ہے ، اسے برقرار رہنا چاہئے کیونکہ پاکستان کی سیاسی اور جمہوری قوتوںکو ملک میں سیاسی استحکام کے حصول اور دیگر چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ابھی بہت سے صبر آزما مراحل سے گزرنا ہوگا۔