کوٹہ سسٹم … پہلا حصہ

کوٹہ سسٹم ایک ایسی لعنت ہے جس کی وجہ سے نا اہل افراد ان سیٹوں پر براجمان ہو جاتے ہیں جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے۔

کوٹہ سسٹم ایک ایسی لعنت ہے جس سے ملک و قوم کی جڑ یں کھوکھلی ہو جاتی ہیں۔ میرٹ کا قتل عام ہوتا ہے اور ایسے افراد جو کسی پوسٹ کے مستحق نہیں ہوتے وہ نا اہل افراد اس نظام کی وجہ سے ان سیٹوں پر براجمان ہو جاتے ہیں جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اس سسٹم کا مقصد یہ تھا کہ فاٹا، وزیر ستان، گلگت، بلتستان اور اسی طرح دور دراز اور انتہائی پسماندہ علاقوں کے عوام کو سہولتیں فراہم کی جائیں لیکن اس کا سب سے زیادہ ناجائز فائدہ سندھ میں اٹھایا گیا جہاں دیہی اور شہری بنیاد پر صوبائی سطح پر کوٹہ سسٹم نافذ کیا گیا لیکن اس کا سب زیادہ فائدہ وڈیروں کے نا اہل بچوں نے اٹھایا جنھوں نے کراچی میں تعلیم حاصل کی لیکن اندرون سندھ کے ڈومیسائل پر پروفیشنل کالجوں میں داخلہ اور نوکریاں حاصل کیں۔

پنجاب میں سرائیکی علاقے اندرون سندھ سے کہیں زیادہ پسماندہ، غیر تعلیم یافتہ اور غربت کی انتہائی نچلی سطح پر ہیں اسی طرح بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے دیہی علاقوں کی یہی صورتحال ہے لیکن اس کے باوجود وہاں شہری اور دیہی کوٹہ نافذ نہیں ہے جب کہ ا س کا نفاذ صرف سندھ میں کیا گیا ہے جہاں دیہی علاقوں کو 60 فیصد اور شہری علاقوں کو 40 فیصد کوٹہ 1973 کے آئین میں 10 سال کے لیے دیا گیا تھا۔ جسے جنرل ضیاء الحق نے بیک جنبش قلم اپنے شاہی احکامات سے 10 سال مزید بڑھایا دیا۔ اس کے بعد آنے والی سول حکومت اور دوسرے آمر جنرل مشرف نے شہری علاقوں کی صورتحال جانے بغیر ان میں دو دفعہ دس دس سال کی توسیع کر دی جس کے انتہائی خطرناک اثرات آج کراچی میں پڑ رہے ہیں یہاں کے عوام کو نہ تو تعلیم کے مواقعے حاصل ہیں اور نہ ہی نوکریاں اس حالت میں یہ نوجوان کہاں جائیں سوائے ہاتھوں میں ہتھیار اٹھائے اپنا اور اپنے گھر والوں کے پیٹ کی آگ بجھائیں۔ اس کا جواب نہ یہ قوم پرست دیتے ہیں نہ ہی علماء سو اور نہ نام نہاد دانشور۔ ان سب کو صرف ایک ہی بات کہنی آتی ہے کہ کراچی جل رہا ہے وہاں بارود کے ڈھیر ہیں، خانہ جنگی کی کیفیت ہے روز 10 سے زائد لاشیں گرتی ہیں لیکن یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے؟ وہ نہیں بتاتے نہ بتانا چاہتے ہیں۔ کیونکہ ان کے دلوں میں تعصب کی سیاہی چھائی ہوئی ہے۔

وفاقی حکومت نے کوٹہ سسٹم پر تمام اسٹیک ہولڈرز سے مذاکرات کیے بغیر 20 سال کا اضافہ کر دیا اس پر بہت لے دے ہوئی حتی کہ صدارتی امیدوار کے ووٹ کے لیے جب ن لیگ کے اراکین نائن زیرو گئے تو وہاں رہنماؤں کے ساتھ کارکنوں کی بھی شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جس پر نو منتخب صدر ممنون حسین نے وضاحت کی کہ ابھی اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی صرف غور ہوا ہے۔ لیکن اس کی آڑ میں سندھ گورنمنٹ نے 20 سال کوٹہ سسٹم میں اضافہ کر دیا جب کہ گزشتہ 40 سال کے دوران صرف 10 سال کے لیے اضافہ کیا جاتا تھا۔ اس مرتبہ وفاق کو جواز بنا کر ایسا کیوں کیا گیا جب کہ وفاق کا کوٹہ بالکل الگ اور جائز مسئلہ ہے جب کہ صوبے میں کوٹہ سسٹم کا اطلاق انتہائی ناجائز اور حقیقتاً سندھ کی تقسیم کی بنیاد رکھنے کے مترادف ہے۔ آنے والا مورخ جب سندھ کی تقسیم کی تاریخ لکھے گا تو اس کا پہلا سبب کوٹہ سسٹم کو بتائے گا۔

سندھ میں کوٹہ سسٹم وہ لعنت ہے جس میں سندھ کے وڈیروں ان کی اولاد اور ان مالی موالی ہی فائدہ اٹھاتے ہیں جب کہ غریب، ہاری اور مزدور اس کے ثمرات کو محسوس بھی نہیں کر سکتے۔ اس کی مثال سندھ کی کئی شخصیتوں کی دی جا سکتی ہے ۔ ایک صاحب جو 2008کی حکومت میں کوئی عہدہ نہیں رکھتے تھے۔ اُنھوں نے جب ایک وڈیرے کا دامن پکڑ ا تو 2008کے ضمنی الیکشن میں ٹکٹ ملا اور جیتنے کے بعد اُن پر پیسوں اور نوازشوں کی بارش ہو جاتی ہے اور آج وہ ارب پتی ہے، پاکستان میں کوئی ادارہ ایسا نہیں ہے کہ اُن سے پوچھ سکے کہ صرف دو سال میں وہ ارب پتی کیسے بنے؟ کتنا انکم ٹیکس دیتے ہیں؟ یہ سب کوٹہ سسٹم ہی کی بدولت ہے کہ ایک وڈیرے کے دامن سے لٹک کر ایک جست میں وہ فاصلہ طے کر لیا کہ سندھ کے عوام وہ صدیوں میں طے نہیں کر سکے۔


پوری د نیا میں ایک اُصول ہے کہ چھوٹے گریڈ یعنی گریڈ1 سے گریڈ15 تک کے افراد اُسی گاؤں و شہر سے لیے جاتے ہیں لیکن اس کوٹہ سسٹم کی ایک نحوست یہ بھی ہے کہ دادو، خیر پور اور دیگر اضلاع کے سپاہی لیول کے لوگ کراچی میں تبادلہ کرا لیتے ہیں جب اُن سے پوچھا جاتاہے کہ اس شہر میں گزارا کیسے کریں گے تو سینہ تان کر کہتے ہیں کہ تنخواہ گاؤں میں گھر والوں کو بھیج دیتے ہیں جب کہ دن بھر جو ''رقم'' جمع کرتے ہیں اس پر گزارا ہو جاتاہے جب یہ سوچ پولیس والوں کی ہو گی تو کراچی کا ٹریفک بے ہنگم اور بد امنی کا شکار تو ہو گا ۔

گزشتہ حکومت میں گھوڑا باری ٹھٹھہ میں ایک زیر تعمیر کالج میں 29 افراد کچھ سفارش اور کچھ پیسوں کے عوض بھرتی کر لیے گئے جس کی مقامی افراد نے سخت مزاحمت کی حتی کہ ان افراد کی پٹائی کر دی۔ خوفزدہ افراد اُس وقت کے وزیر تعلیم کے گھر پر بیٹھ گئے جس پر انھوں نے سیاسی یتیم خانہ یعنی کراچی میں ان کا تبادلہ کر دیا۔ یہاں بھی انھیں پہلی دفعہ شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جس پر اُن کا تبادلہ اُنہی کے علاقوں میں کر دیا گیا۔ یہ بھی کوٹہ سسٹم کی شدید خلاف ورزی تھی کہ اُن افراد کو جن کا ضلع ٹھٹھہ سے کوئی تعلق نہیں تھا انھیں ایک ایسے کالج میں بھرتی کیا گیا جو کہ ابھی زیر تعمیر ہی تھا اس بات کی کوئی انکوائری نہیں کر رہا کہ اتنی بڑی بدعنوانی کی گئی لیکن کوئی پوچھنے والا ہی نہیں وجہ صاف ظاہر ہے!!! کیوں کہ ان افراد کا تعلق اندرون سندھ سے تھا ۔

جب سندھ میں کوٹہ سسٹم نافذ کیا گیا تھا تو کہا گیا تھا کہ اندرون سندھ میں تعلیمی سہولیات میسر نہیں ہیں اس لیے اسے دس سال کے لیے نافذ کیا جا رہا ہے۔ اس دوران اندرون سندھ میں تعلیم کی بہتری کے لیے انفرا اسٹرکچر بنا لیا جائے گا لیکن ہوا اس کے برعکس۔ دس سال میں تعلیمی اداروں کی بہتری کے لیے کوئی کام نہیں کیا گیا۔ اسکولوں کو وڈیروں اور من پسند افراد کی خوشنودی کے لیے ان علاقوں میں بنایا گیا جہاں آبادی نہیں تھی پھر ایسے اسکولوں کو بعد میں وڈیروں کی اوطاق یا بھینسوں کے باڑے بنا کر بااثر افراد نے اپنی رہائش گاہیں بنا لیں۔ تھر پارکر اور دیگر اندرون سندھ کے علاقوں میں ایسے اسکولوں کی نشاندہی بھی ہو گئی لیکن کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں ہوئی کیونکہ یہ افراد عوامی نمایندوں کے ووٹرز ہیں۔

(جاری ہے)
Load Next Story