کیٹی بومن

بلیک ہول آنکھ سے نہیں دیکھا جاسکتا اور وہ چالیس بلین کلومیٹر طویل یا زمین سے تیس لاکھ گنا بڑا ہے

29 سالہ کمپیوٹر سائنٹسٹ جو بلیک ہول کی تصویر لینے میں کامیاب ہوئی

امریکی سائسدان کیٹی بومن 29 سالہ کمپیوٹر سائنٹسٹ ہیں جنھوں نے سائنسدانوں کی اس ٹیم کی قیادت کی جس نے بلیک ہول کی پہلی تصویر لینے والا الگورتھم بنایا کیٹی کے اس کام کی وجہ سے ان کی دنیا بھر میں تعریف کی جارہی ہے۔

کیٹی بومن کی قیادت میں ان کی ٹیم نے وہ کمپیوٹر پروگرام بنایا جس کے ذریعے یہ سائنسی کارنامہ ممکن ہو سکا۔ 10اپریل کو جاری کی جانے والی اس تصویر میں زمین سے پانچ سو ملین ٹرلین یا پانچ ہزار کھرب کلومیٹر دور ایک بلیک ہول دیکھا جاسکتا ہے جس میں دھول اور گیس کا ہالا نظر آرہا ہے۔

اس سے قبل سائنسی حلقوں میں یہ تصور تھا کہ اس طرح کی تصویر لینا شاید ممکن نہ ہو۔ کیٹی بومن اس بڑے کارنامے کے لمحے پر انتہائی پرجوش تھیں اور ان کی ایک تصویر میں انھیں بلیک ہول کی تصویر اپنے لیپ ٹاپ پر ڈاؤن لوڈ کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔ اپنی فیس بک پوسٹ میں ڈاکٹر کیٹی نے لکھا:

'جیسے جیسے بلیک ہول کی میری بنائی ہوئی پہلی تصویر حصوں میں تشکیل پا رہی تھی تو مجھے بلکل یقین نہیں آرہا تھا۔'

کیٹی بومن نے تین برس قبل اس وقت سے الگورتھم بنانا شروع کردیا تھا جب وہ میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں گریجویشن کی طالب علم تھیں۔ وہاں انھوں نے اس پراجیکٹ کی قیادت کی اور ان کے ساتھ ایم آئی ٹی کی کمپیوٹر سائنس اینڈ آرٹی فیشل انٹیلی جنس لیبارٹری، ہارورڈ سمتھسونین سینٹر فار ایسٹرو فزکس اور ایم آئی ٹی ہے سٹیک آبزرویٹری کی ایک ٹیم کا تعاون حاصل رہا۔

بلیک ہول کی یہ تصویر ایونٹ ہورائزن ٹیلی اسکوپ یا ای ایچ ٹی نے بنائی جو کہ اصل میں آٹھ دور بینوں کا ایک دوسرے سے جڑا ایک نیٹ ورک ہے۔ لیکن ان الگ الگ دوربینوں کی بنائی ہوئی تصویروں کو رینڈر یا یکجا ڈاکٹر بومن کے الگورتھم نے کیا۔

بلیک ہول کی غیرمعمولی تصویر کے جاری ہونے کے بعد گھنٹوں میں ڈاکٹر بومن بین الاقوامی سطح پر معروف نام بن گئیں اور ان کا نام ٹوئٹر پر ٹرینڈ کرنے لگا۔ ایم آئی ٹی اور سمتھسونین نے بھی سوشل میڈیا پر ان کی تعریف کی۔

ایم آئی ٹی کی کمپیوٹر سائینس اینڈ آرٹیفیشل انٹیلی جنس لیب نے لکھا، 'تین برس قبل ایم آئی ٹی کی گریڈ طالبہ کیٹی بومن نے بلیک ہول کی پہلی تصویر بنانے کے لیے ایک نئے الگورتھم بنانے کی قیادت کی، آج یہ تصویر جاری ہوگئی ہے۔' لیکن ڈاکٹر بومن کا کہنا تھا کہ ان کی ٹیم بھی برابر کی تعریف کی مستحق ہے جس نے اس خواب کو حقیقت بنایا۔ وہ اب امریکہ کے کیلیفورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔

بلیک ہول کی یہ تصویر لینے کے لیے انٹارکٹیکا سے لیکر چلی تک پھیلے ہوئے دوربینوں کے نیٹ ورک کا استعمال کیا گیا اور اس کام میں دو سو سے زیادہ سائنسدان شامل تھے۔ ڈاکٹر بومن نے امریکی ٹیلی ویژن چینل 'سی این این' سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان میں سے کوئی بھی ایک شخص اپنے طور پر یہ کام نہیں کر سکتا تھا۔ یہ اس لیے ممکن ہوسکا کیونکہ مختلف طرح کا کام کرنے والے بہت سارے لوگ اس پر مل کر کام کر رہے تھے۔


٭بلیک ہول کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟

٭بلیک ہول آنکھ سے نہیں دیکھا جاسکتا اور وہ چالیس بلین کلومیٹر طویل یا زمین سے تیس لاکھ گنا بڑا ہے۔

٭یہ میسیئر 87 گیلیکسی میں دس روز تک سکین کیا جاتا رہا۔

٭نیدر لینڈ کی یونیورسٹی رڈباؤڈ کے پروفیسر ہائنو فالکے نے اس تجربے کی تجویز دی تھی۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اس بلیک ہول کا حجم ہمارے پورے نظام شمسی سے بھی بڑا ہے۔

کیٹی بومن کے الگورتھم نے یہ تصویر کیسے بنائی؟

عام زبان میں بتایا جائے تو یہ ہے کہ ڈاکٹر بومن اور دیگر سائنسدانوں نے مل کر ایسے الگورتھمز کا سلسلہ تشکیل دیا جنھوں نے مختلف دوربینوں سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کو اس تاریخی فوٹوگراف میں تبدیل۔ اب اس تصویر کو دنیا کے ساتھ شیئر کیا گیا ہے۔

میتھمیٹکس اور کمپیوٹر سائنس میں الگورتھم ایک ایسا عمل یا اصولوں کا مجموعہ ہے جن کے ذریعے پیچیدہ مسائل کا حل نکالا جاتا ہے۔

کوئی ایک ٹیلی سکوپ اتنی طاقتور نہیں ہے جو بلیک ہول کی تصویر بنا سکتی ہو اس لیے انٹرفیرومیٹری نامی تکنیک استعمال کرتے ہوئے، آٹھ دوربینوں کا ایک نیٹ ورک قائم کیا گیا۔ان دوربینوں کو سیکڑوں کمپیوٹر ہارڈ ڈراؤز پر محفوظ کیا گیا اور انھیں امریکہ کے شہر بوسٹن اور جرمنی کے شہر بون میں قائم مرکزی پراسسنگ مراکز میں بھیجا گیا۔

کہا جارہا ہے کہ اس ڈیٹا کو پراسز کرنے کا جو طریقہ ڈاکٹر بومن نے وضع کیا تھا وہ اس تصویر کو بنانے یا یو کہیے کہ یکجا کرنے میں سب سے اہم ثابت ہوا۔ ان کے طریقے سے متعدد الگورتھمز مختلف ممکن زاویوں اور امکانات کا استعمال کرتے ہوئے دستیاب ڈیٹا سے تصویر حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس کے بعد ان الگورتھمز کا تجزیہ چار الگ الگ ٹیموں نے کیا تاکہ ان کی دریافت کے بارے میں مکمل اعتماد کیا جاسکے۔ ڈاکٹر بومن نے کہا کہ 'ہم فلکیات دانوں، فزکس کے ماہرین، ریاضی دانوں اور انجینیئرز کا ایک مجموعہ تھے تبھی اتنی بڑی کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکے ہیں جو اب سے پہلے ناممکن تصور کی جاتی تھی۔'
Load Next Story