مریض عشق پر رحمت خدا کی
ہمیں تو ایسا لگتا ہے کہ کہیں پھر وہ زمانہ نہ آ جائے کہ بھئی روپیہ اپنے پاس رکھو کچھ اور ہو تو لاو۔
CAIRO:
معاملہ نہایت گھمبیر اور مسئلہ نہایت ہی نازک بلکہ ہر قسم کی ناک یعنی خطرناک، المناک، دردناک، شرمناک، تشویش ناک (باقی ناکوں کے لیے لغت سے رجوع کریں) یوں کہیے کہ ناکوں ناک ہے۔ اس ''روپیہ'' سلمہ کو جو جاں لیوا روگ لگا ہے اس کا کچھ کیجیے ورنہ ایک دن:
''زاں پیشتر کہ بانگ برآئد فلاں نماند''
اس کی بیماری کا پتہ تو ہم نے لگا لیا ہے، اس کے پیٹ میں خطرناک اور خون چوسنے والے کیڑوں کی پوری پوری کالونیاں اور ٹاون شپ، انکلیو اور کمپلیکس آباد ہیں، لیکن دنیا کے تمام ڈاکٹر حکیم طبیب یہاں تک کہ اتائی بھی جواب دے چکے ہیں کہ ایسی کوئی دوائی اب تک ایجاد ہی نہیں ہوئی ہے جو ان کیڑوں کو ہلاک یا نکال سکے۔ اس معاملے میں یہ گویا ''کھٹمل'' کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ صحیح نام ان کا اگر کوئی ہو سکتا ہے تو وہ ''کرسی مل'' ہے کیونکہ کھٹمل بچارابھوکا پیاسا پڑا رہے تو زندہ رہتا ہے اور شرمندہ بھی نہیں ہوتا کیونکہ درویشانہ طبیعت کا ہے:
روضہ خلد بریں خلوت درویشاں است
مایہ محتشمی خدمت درویشاں است
دولتی را کہ نباشد غم از آسیب زوال
بے تکلف بشنو دولت درویشاں است
مطلب یہ کہ صابرین شاکرین میں کوئی آیا بیٹھا ذرا خون سے لب تر کیے کہ وہ چلا گیا ۔
لیکن یہ ''کرسی مل'' یہ تو پورے پورے ویمپائر اور ڈرا کیولے ہوتے ہیں، چوستے جاتے چوستے جاتے ہیں مجال ہے کہ کبھی دم لے لیں گھڑی بھر۔
مطلب یہ کہ جس طرح کھٹملوں کو مارنے کی دوا ابھی ایجاد نہیں ہوئی اور جو دوائیاں بیچی خریدی جاتی ہیں وہ زیادہ سے زیادہ ان کو تھوڑی دیر کے لیے سلا دیتی ہیں۔لیکن ان کے یہ عزیز جو ''روپیہ'' سلمہ کے پیٹ میں کیڑے بن کر گھسے ہوئے ہیں یہ تو اور بھی زیادہ ترقی یافتہ یا ترقی دادہ ہیں کہ دوائیاں ان کے ''ٹانک'' بن جاتی ہیں جن سے وہ اور بھی بڑے ہو جاتے ہیں بڑھ جاتے ہیں اور سر چڑھ جاتے ہیں۔اور نتیجہ تو آپ دیکھ رہے ہیں کہ وہ روپیہ جو کبھی پہلوان ہوا کرتا تھا بڑی بڑی چیزوں کو ایک نظر دیکھ کر چت کر دیتا تھا آج اگر اس کے قریب کوئی زور سے سانس بھی لے تو کانپنے لگتا ہے یا لڑکھڑا کر گر جاتا ہے وہ بھی کسی گٹر نالے میں۔
اس دن تو ہماری حیرت اور صدمے سے جان ہی نکل گئی جب ہم نے اسے دیکھا کہ امرود جیسا کس مپرس بھی اسے تھپڑوں لاتوں اور مکوں پر رکھے ہوئے ہے اور یہ ہل کر نہیں دے رہا تھا:
ایک زمانہ تھا کہ اس کے گھر کے چھوٹے بڑے بچے ایک پیسہ دو پیسے پانچ یا دس پیسے بھی بازار میں نکل جاتے تھے تو چیزیں سم کر سکڑ جاتی تھیں، چونی اٹھنی تو پوریء بازار کے ''دادا'' یا بھائی ہوتے تھے، اور خود روپیہ اس کا تو صرف نام ہی کافی ہوتا تھا:
پھر نہ جانے کہاں سے، کیسے، کیوں اور کس نے اسے یہ روگ لگا دیا اور پیٹ میں کیڑے ڈال دیے۔ پہلے تو اس کے سارے چھوٹے بڑے لشکری کام آ گئے، پیسہ کھیت ہوا پانچ پیسے مارے گئے آنہ چت ہو گیا، دونی چونی اور اٹھنی بچارے کافی جان توڑ کر لڑے لیکن۔ افسوس۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
سن اے غارت گر جنس وفا سن
شہدان نگہ کا خون خون بہا کیا
کیا کسی نے جگرداری کا دعویٰ
شکیب خاطری عاشق بھلا کیا
بچارے سارا لشکر اور سپاہی ایسے گم ہوئے جیسے کبھی تھے ہی نہیں۔ اور اب اس بچارے پر وہ دن آن پڑا ہے کہ سارے اعضا و جوارح کی جان تو نکل چکی ہے حلق میں گھنگرو بولنے لگا ہے صرف سانس کی آمد و رفت جاری ہے نہ جانے کب رک جائے کیونکہ دواوں نے کچھ بھی کام نہیں کیا ہے اور تمام تدبیریں الٹی پڑ چکی ہیں۔
ہو چکیں غالبؔ بلائیں سب تمام
ایک مرگ ناگہانی اور ہے
سنا ہے صرف آنکھوں میں تھوڑی سی جاں باقی ہے لیکن وہ بھی نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ صرف ماہر طبیب ایسا کہتے ہیں ورنہ عام نظروں میں تو بچارا سارے ''پران'' تیاگ چکا ہے کہیں کہیں نہایت ہی نالائق قسم کا کوئی فقیر ہی اسے قبول کر لیتا ہے ورنہ بچے اور دکاندار تو اس کے پہچاننے سے بھی انکاری ہیں۔
اس دن اپنے گھر میں بچوں کے درمیان ٹاکرا ہو گیا۔ ایک نے فریاد کی اس نے میرا ''پیسہ'' چھین لیا ہے دیکھا تو وہ پانچ روپے کا سکہ تھا۔ اور ہمارا ایک پوتا تو جب بھی آتا ہے، ''ایک روپیہ دے'' اور اس کا ''روپیہ'' دس کا نوٹ ہوتا ہے کیونکہ اس کے نیچے کا سارا خاندان اس کے لیے اجنبی ہے۔
امرود تو پھر بھی ایک پھل تو ہے لیکن نسوار کی ٹکیہ جو زمانوں سے ایک روپے کی تھی آج بیس روپے سے کم میں بات ہی نہیں کرتی۔
آپ نے کبھی دیکھا ہے کہ جب آپ گاڑی میں بیٹھے ہوں۔ تو دوسری گاڑیاں پیچھے چلتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں، بلکہ ریل میں تو اور بھی صاف نظر آتا ہے کہ درخت مکان دیواریں آدمی جانور وغیرہ پیچھے کی طرف دوڑ رہے ہوتے ہیں بھلا درخت اور مکان بھی کبھی چلے ہیں یہ آپ کی گاڑی بلکہ ''روپیہ'' بھاگا جا رہا ہے۔ امرود بھی اپنی جگہ کھڑے ہیں آٹا بھی گھی بھی انڈا اور گوشت بھی ٹھیک اسی مقام پر ہیں جہاں ہمیشہ تھے۔
سایہ میرا مجھ سے مثل دود بھاگے ہے اسدؔ
پاس مجھ ''آتش بجاں'' کے کس سے ٹھہرا جائے ہے
ہمارے اس ''آتش بجان'' روپے کے قریب کوئی کیسے ٹھہرے اس لیے ساری چیزیں اس سے دور دور بھاگی جا رہی ہیں۔ حالانکہ بھاگا۔ بلکہ ''گرا'' جا رہا ہے۔
خیر وہ تو جو ہونا ہے وہ ہو کر رہے گا کہ نہ تو اس کے پیٹ کے کیڑوں کا کوئی علاج ہے اور نہ ہی اس کے خون کی کمی کا۔ آخرکار ایسا دن بھی آ گیا کہ روزانہ چار پانچ بوتل خون چڑھانا ہوتا تھا لیکن:
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ اور
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیمارئی دل نے آخر کام تمام کیا
ہمیں تو ایسا لگتا ہے کہ کہیں پھر وہ زمانہ نہ آ جائے کہ بھئی روپیہ اپنے پاس رکھو کچھ اور ہو تو لاو۔ تب بدلے میں سودا ملے گا۔ یعنی مال کے بدلے مال یا چیز کے بدلے چیز۔ بڑا مزا آئے گا جب مزدور کام پر آئے گا جب آپ آٹے کا تھیلا یا گھی کا ڈبہ سامنے رکھیں گے اور حجام آپ کی حجامت تب بنائے گا جب ایک کلو چینی یا سبزی یا کچھ اور آپ کے ہاتھ میں ہو گا۔
معاملہ نہایت گھمبیر اور مسئلہ نہایت ہی نازک بلکہ ہر قسم کی ناک یعنی خطرناک، المناک، دردناک، شرمناک، تشویش ناک (باقی ناکوں کے لیے لغت سے رجوع کریں) یوں کہیے کہ ناکوں ناک ہے۔ اس ''روپیہ'' سلمہ کو جو جاں لیوا روگ لگا ہے اس کا کچھ کیجیے ورنہ ایک دن:
''زاں پیشتر کہ بانگ برآئد فلاں نماند''
اس کی بیماری کا پتہ تو ہم نے لگا لیا ہے، اس کے پیٹ میں خطرناک اور خون چوسنے والے کیڑوں کی پوری پوری کالونیاں اور ٹاون شپ، انکلیو اور کمپلیکس آباد ہیں، لیکن دنیا کے تمام ڈاکٹر حکیم طبیب یہاں تک کہ اتائی بھی جواب دے چکے ہیں کہ ایسی کوئی دوائی اب تک ایجاد ہی نہیں ہوئی ہے جو ان کیڑوں کو ہلاک یا نکال سکے۔ اس معاملے میں یہ گویا ''کھٹمل'' کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ صحیح نام ان کا اگر کوئی ہو سکتا ہے تو وہ ''کرسی مل'' ہے کیونکہ کھٹمل بچارابھوکا پیاسا پڑا رہے تو زندہ رہتا ہے اور شرمندہ بھی نہیں ہوتا کیونکہ درویشانہ طبیعت کا ہے:
روضہ خلد بریں خلوت درویشاں است
مایہ محتشمی خدمت درویشاں است
دولتی را کہ نباشد غم از آسیب زوال
بے تکلف بشنو دولت درویشاں است
مطلب یہ کہ صابرین شاکرین میں کوئی آیا بیٹھا ذرا خون سے لب تر کیے کہ وہ چلا گیا ۔
لیکن یہ ''کرسی مل'' یہ تو پورے پورے ویمپائر اور ڈرا کیولے ہوتے ہیں، چوستے جاتے چوستے جاتے ہیں مجال ہے کہ کبھی دم لے لیں گھڑی بھر۔
مطلب یہ کہ جس طرح کھٹملوں کو مارنے کی دوا ابھی ایجاد نہیں ہوئی اور جو دوائیاں بیچی خریدی جاتی ہیں وہ زیادہ سے زیادہ ان کو تھوڑی دیر کے لیے سلا دیتی ہیں۔لیکن ان کے یہ عزیز جو ''روپیہ'' سلمہ کے پیٹ میں کیڑے بن کر گھسے ہوئے ہیں یہ تو اور بھی زیادہ ترقی یافتہ یا ترقی دادہ ہیں کہ دوائیاں ان کے ''ٹانک'' بن جاتی ہیں جن سے وہ اور بھی بڑے ہو جاتے ہیں بڑھ جاتے ہیں اور سر چڑھ جاتے ہیں۔اور نتیجہ تو آپ دیکھ رہے ہیں کہ وہ روپیہ جو کبھی پہلوان ہوا کرتا تھا بڑی بڑی چیزوں کو ایک نظر دیکھ کر چت کر دیتا تھا آج اگر اس کے قریب کوئی زور سے سانس بھی لے تو کانپنے لگتا ہے یا لڑکھڑا کر گر جاتا ہے وہ بھی کسی گٹر نالے میں۔
اس دن تو ہماری حیرت اور صدمے سے جان ہی نکل گئی جب ہم نے اسے دیکھا کہ امرود جیسا کس مپرس بھی اسے تھپڑوں لاتوں اور مکوں پر رکھے ہوئے ہے اور یہ ہل کر نہیں دے رہا تھا:
ایک زمانہ تھا کہ اس کے گھر کے چھوٹے بڑے بچے ایک پیسہ دو پیسے پانچ یا دس پیسے بھی بازار میں نکل جاتے تھے تو چیزیں سم کر سکڑ جاتی تھیں، چونی اٹھنی تو پوریء بازار کے ''دادا'' یا بھائی ہوتے تھے، اور خود روپیہ اس کا تو صرف نام ہی کافی ہوتا تھا:
پھر نہ جانے کہاں سے، کیسے، کیوں اور کس نے اسے یہ روگ لگا دیا اور پیٹ میں کیڑے ڈال دیے۔ پہلے تو اس کے سارے چھوٹے بڑے لشکری کام آ گئے، پیسہ کھیت ہوا پانچ پیسے مارے گئے آنہ چت ہو گیا، دونی چونی اور اٹھنی بچارے کافی جان توڑ کر لڑے لیکن۔ افسوس۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
سن اے غارت گر جنس وفا سن
شہدان نگہ کا خون خون بہا کیا
کیا کسی نے جگرداری کا دعویٰ
شکیب خاطری عاشق بھلا کیا
بچارے سارا لشکر اور سپاہی ایسے گم ہوئے جیسے کبھی تھے ہی نہیں۔ اور اب اس بچارے پر وہ دن آن پڑا ہے کہ سارے اعضا و جوارح کی جان تو نکل چکی ہے حلق میں گھنگرو بولنے لگا ہے صرف سانس کی آمد و رفت جاری ہے نہ جانے کب رک جائے کیونکہ دواوں نے کچھ بھی کام نہیں کیا ہے اور تمام تدبیریں الٹی پڑ چکی ہیں۔
ہو چکیں غالبؔ بلائیں سب تمام
ایک مرگ ناگہانی اور ہے
سنا ہے صرف آنکھوں میں تھوڑی سی جاں باقی ہے لیکن وہ بھی نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ صرف ماہر طبیب ایسا کہتے ہیں ورنہ عام نظروں میں تو بچارا سارے ''پران'' تیاگ چکا ہے کہیں کہیں نہایت ہی نالائق قسم کا کوئی فقیر ہی اسے قبول کر لیتا ہے ورنہ بچے اور دکاندار تو اس کے پہچاننے سے بھی انکاری ہیں۔
اس دن اپنے گھر میں بچوں کے درمیان ٹاکرا ہو گیا۔ ایک نے فریاد کی اس نے میرا ''پیسہ'' چھین لیا ہے دیکھا تو وہ پانچ روپے کا سکہ تھا۔ اور ہمارا ایک پوتا تو جب بھی آتا ہے، ''ایک روپیہ دے'' اور اس کا ''روپیہ'' دس کا نوٹ ہوتا ہے کیونکہ اس کے نیچے کا سارا خاندان اس کے لیے اجنبی ہے۔
امرود تو پھر بھی ایک پھل تو ہے لیکن نسوار کی ٹکیہ جو زمانوں سے ایک روپے کی تھی آج بیس روپے سے کم میں بات ہی نہیں کرتی۔
آپ نے کبھی دیکھا ہے کہ جب آپ گاڑی میں بیٹھے ہوں۔ تو دوسری گاڑیاں پیچھے چلتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں، بلکہ ریل میں تو اور بھی صاف نظر آتا ہے کہ درخت مکان دیواریں آدمی جانور وغیرہ پیچھے کی طرف دوڑ رہے ہوتے ہیں بھلا درخت اور مکان بھی کبھی چلے ہیں یہ آپ کی گاڑی بلکہ ''روپیہ'' بھاگا جا رہا ہے۔ امرود بھی اپنی جگہ کھڑے ہیں آٹا بھی گھی بھی انڈا اور گوشت بھی ٹھیک اسی مقام پر ہیں جہاں ہمیشہ تھے۔
سایہ میرا مجھ سے مثل دود بھاگے ہے اسدؔ
پاس مجھ ''آتش بجاں'' کے کس سے ٹھہرا جائے ہے
ہمارے اس ''آتش بجان'' روپے کے قریب کوئی کیسے ٹھہرے اس لیے ساری چیزیں اس سے دور دور بھاگی جا رہی ہیں۔ حالانکہ بھاگا۔ بلکہ ''گرا'' جا رہا ہے۔
خیر وہ تو جو ہونا ہے وہ ہو کر رہے گا کہ نہ تو اس کے پیٹ کے کیڑوں کا کوئی علاج ہے اور نہ ہی اس کے خون کی کمی کا۔ آخرکار ایسا دن بھی آ گیا کہ روزانہ چار پانچ بوتل خون چڑھانا ہوتا تھا لیکن:
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ اور
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیمارئی دل نے آخر کام تمام کیا
ہمیں تو ایسا لگتا ہے کہ کہیں پھر وہ زمانہ نہ آ جائے کہ بھئی روپیہ اپنے پاس رکھو کچھ اور ہو تو لاو۔ تب بدلے میں سودا ملے گا۔ یعنی مال کے بدلے مال یا چیز کے بدلے چیز۔ بڑا مزا آئے گا جب مزدور کام پر آئے گا جب آپ آٹے کا تھیلا یا گھی کا ڈبہ سامنے رکھیں گے اور حجام آپ کی حجامت تب بنائے گا جب ایک کلو چینی یا سبزی یا کچھ اور آپ کے ہاتھ میں ہو گا۔