پیلی عینک والے

یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارت اس صفائی سے جھوٹ بولتا رہا ہے کہ سچ کا گماں ہو۔

پچھلے چند ہفتوں میں ہونے والے کچھ واقعات و حادثات نے بہت سے اندھیروں میں ہونے والے خفیہ فیصلوں اور اسکیموں کو بے نقاب کیا ہے، ہوسکتا ہے کہ اسے محض اتفاق کہہ کر نظرانداز کردیا جائے لیکن آندھی و طوفان سے پہلے ہواؤں کے بدلتے رخ بتا ہی دیتے ہیں کہ مستقبل میں تبدیلی کا رجحان کس جانب چل رہا ہے۔

حالیہ حکومت کے آنے کے بعد بہت سے خدشات کی سرگوشیاں ابھر رہی تھیں ظاہر ہے کہ یہ ان کا پہلا دور ہے بہت سے تجربات سے گزر کر پکے ہونے کے بعد دلیلیں پیش کرنے والے بھی بخوبی جانتے ہیں اندر و باہر یہی ایک جیسی کیفیت چل رہی ہے۔ ادھر پڑوس میں انتخابات کی سرگرمیاں عروج پر ہیں مودی سرکار اپنے مذموم عزائم اپنے مخصوص انداز کو اجاگر کرچکی ہے لیکن اس خاصیت میں بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A کو ختم کرنے کی کوشش کا زہر خاصا کاری ثابت ہوسکتا ہے۔

یہ وہ آرٹیکلز ہیں جس کے تحت جموں و کشمیر کی شناخت کے ساتھ ہر کوئی بھارتی باآسانی چھیڑ چھاڑ نہیں کرسکتا جس کے تحت کشمیر کی سرزمین پر دوسری ریاست سے تعلق رکھنے والے نہ تو جائیداد خرید سکتے ہیں اور نہ ہی سرکاری نوکری کرسکتے ہیں جب کہ مودی کی انتخابی مہم میں دھارے سے 370 اور 35A کے آرٹیکلز کو ختم کرکے کشمیر کو بھارتی ریاست میں شامل کرنے کا عزم ہے اور اسی نقطے پر وہ بھارتیوں سے ووٹ حاصل کرنے کا پرچار کر رہے ہیں گویا کشمیر کی حالیہ صورت کو بدل کر اسے ہندو اکثریتی یا مسلمان اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کا واویلا کھلے عام کر رہے ہیں تاکہ ان کی اس زہریلی چال سے کشمیریوں کی آواز ہمیشہ کے لیے دبا دی جائے اس گندے پلان کی تکمیل ان کے مطابق اسی صورت ہوسکتی ہے جب وہ دوبارہ انتخابات میں جیت کر وزارت اعلیٰ کی کرسی پر منصب ہوں، بی جے پی پہلے سے ہی مسلمان مخالف ہی نہیں بلکہ دوسری تمام اقلیتوں کی مخالف رہی ہے۔

وہ شدت پسندی اور جنونیت کو فروغ دیتے رہے ہیں، حالانکہ کشمیریوں کی مظلومیت کو دنیا کے ایوانوں میں سنا جا رہا ہے لیکن یہ مودی کی شدت پسندی ہے جس کا اظہار 35A اور 370 آرٹیکلز کو ختم کرکے کشمیریوں کے حقوق سلب کرکے ایک زرخیز خطے پر راج کرنے کی سوچ رہے ہیں تاکہ ہمیشہ کے لیے خون سے لکھے اس قصے کو دفن کردیا جائے یہ ایک ایسا ایشو ہے کہ جس پر نہ صرف تمام کشمیری لیڈران بلکہ دوسری سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی مودی کے اس جبری طرز عمل کو مخالفت کا سامنا ہے گویا کیس ابھی عدالت میں زیرسماعت ہے لیکن فیصلہ اب بھی بہت سے واقعات و حادثات کی جانب اشارہ کر رہا ہے۔


پاکستان کی حالیہ حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد اپنے ارد گرد کی تمام طاقتوں کو جنگ کے بجائے امن کی جانب ہاتھ بڑھانے پر توجہ دی گئی یہ ایک مثبت اعلامیہ تھا لیکن دوسری جانب سے جو کچھ کیا گیا وہ محض انتخابی پبلسٹی کے لیے استعمال کیا گیا اور بعد میں یہ واضح ہوگیا کہ دراصل قصہ کیا ہے۔

لوگوں کو پاکستانی حدود میں بسوں سے اتار کر شہید کرنا ایک ظالمانہ فعل ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، ایران سے اس پر احتجاج بھی کیا گیا لیکن ایسی صورتحال میں جب بہت سے فراری پاکستانی فوج کے سامنے اپنے ہتھیار پھینک کر گلے لگ گئے بغاوتی جذبات کو بھڑکانے والے بھی سست ہوگئے کہ اچانک سے یہ چنگاری پھر کیسے بھڑکی۔ اس وقت جب اندرونی طور پر ہمیں مسائل گمبھیر ہوتے نظر آرہے ہیں یہ ستم کیا محض اتفاق ہے۔ وفاقی کابینہ میں رد و بدل عوام میں بے چینی و اضطراب پیدا کر رہا ہے ایسے میں کچھ اس طرح کرنے کی کوشش کہ پاکستان اپنے ہی اندر الجھ کر رہ جائے کسی پرانے تعویذ کرنے والے بابا کا دقیانوسی فارمولہ ہے آج کے تیز رفتار دور میں حقیقت کو پرکھنے کے لیے بھی مخالفتوں، کدورت اور رنجشوں کو ایک جانب رکھ کر مفروضوں پر ہی غور نہ کیا جائے بلکہ اس کے لیے اتفاق ضروری ہے۔

ایک وقت تھا جب سوویت یونین کی طاقت کا ڈنکا بجتا تھا سپر پاور سوویت یونین ریاستوں کے جھنڈ تلے افغانستان کو پتھروں کا ڈھیر بناکر آگے بڑھنے کا عزم رکھتا تھا گرم پانی کی رسائی کے لیے اسے کامیابی یقینی نظر آرہی تھی لیکن اسلحے کے انبار رکھنے کے باوجود معاشی طور پر وہ کمزور ہوتا گیا اور اس غیر متوازن صورتحال نے اسے ڈھیر کردیا۔ لہٰذا معیشت کو نظرانداز کرکے دوسرے عوامل پر زیادہ توجہ دینا یا پرانے زخموں کو اکھیڑ کر ہرا کرنے سے ترقی کی راہوں کے مسافر نہیں بن سکتے اس کے لیے مدبرانہ اور وسیع القلبی سے بہت کچھ درگزر کرکے عوام کو اپنے ساتھ شامل کرکے معیشت کے پہیے کو رواں رکھنے کی ضرورت ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارت اس صفائی سے جھوٹ بولتا رہا ہے کہ سچ کا گماں ہو لیکن ہمارے اپنے اداروں میں بھی کچھ اسی طرح سے نمبر دو کام اس انداز سے کیے جا رہے ہیں کہ بظاہر تو سچ ہی لگتے ہیں پر اندر سے کھوکھلی جڑیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ درخت کو ہی اکھاڑ کر پھینک دیا جائے بلکہ پوری قوم کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے لیے عوام کی طرح سمجھنے کی کوشش کی جائے، چند کالی بھیڑوں کو شناخت کرنا کیا اس قدر مشکل ہے کہ جس کا خمیازہ سب کو بھگتنا پڑے۔ ضرورت ہے کہ آج ہم اور حکومتی ادارے اور تمام سیاسی جماعتیں متحد ہوکر اس گرداب سے نکلنے میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیں کیونکہ ہمیں بکھیر کر مزہ لینے والے اب بھی پیلی عینک پہن کر مستقبل میں جھانک رہے ہیں۔

یاد رہے کہ ہمیں صرف اپنے لیے ہی نہیں کام کرنا بلکہ ان مظلوم کشمیریوں کے حقوق کے لیے بھی پوری قوت سے آواز بلند کرنی ہے جن کی آزادی سلب کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں ورنہ آیندہ آنے والی نسلیں ہمیں بددعائیں دیں گی۔
Load Next Story