پختون جمہوری اتحاد کی فاٹا کانفرنس
کانفرنس میں ممبر پارٹیوں کے کارکنوں کے علاوہ عوام اور قبائل نے بھی بھرپور شرکت کی۔
ISLAMABAD:
سابقہ فاٹا میں رہنے والے پختون قبائل کے متعلق انگریزوں کی سوچ مندرجہ ذیل دو مثالوں سے واضح ہو جائے گی۔ برطانیہ کے انڈیا آفس کے سیاسی اور خفیہ امور کے سیکریٹری جان ولیم کے (John William Kay) نے ان کے متعلق کہا تھا کہ ''we can not rein wild horses with silken braids'' (ہم وحشی گھوڑوں پر نرم اور ریشمی تاروں کے ذریعے سواری نہیں کرسکتے)۔ وائسرائے ہند لارڈ ڈلہوزی نے ان کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''شمال میں بسنے والے وحشی اور جنگجو لوگوں کے مزاج کا خیال رکھتے ہوئے ان علاقوں کے لیے مخصوص قوانین بنائے گئے''۔
انگریزوں کی ایک رپورٹ کے مطابق ''سرحد پار کے قبائل پوری طرح مسلح اور تاریخ کے مشہور ترین لٹیرے تھے' ان کو کنٹرول کرنے کے لیے پفرز اور فرنٹیر کانسٹبلری (FC) نامی ملیشیاء بنائی گئیں''۔ قبائل کو سرکشی کی سزا دینے کے لیے اکثر ان کے خلاف فوج کشی بھی کی جاتی تھی۔
FCR کے قانون کی ابتدائی شکل 1848ء میں نافذ کی گئی' پھر 1876-1873ء اور آخر میں1901ء میں ان قوانین میں مختلف ترامیم کی گئیں' موجودہ ایف سی آر1901ء والا مسودہ تھا' صوبہ سرحد کے قیام کے اعلان کے ساتھ لارڈ کرزن نے یہ قوانین وحشی قبائل میں لاگو رہنے دیے' یہ قانون پولیٹیکل ایجنٹ کے ذریعے نافذ ہوتا تھا' پولیٹکل ایجنٹ کو اس قانون کے تحت مقننہ' انتظامیہ اور عدلیہ تینوں کی حیثیت حاصل تھی' جرگہ بنانا' ملکی اور لنگی تقسیم کرنا' مواجب کس کو اور کتنا دینا ہے' ٹھیکہ کس ٹھیکیدار کو کس ریٹ پر دینا ہے' یہ بھی ان کی صوابدید تھا' وہ اس جمہوری دور میں بھی ایک شہنشاہ تھا' اس کے فیصلے کے خلاف اپیل بھی دوسرے افسر کو ہوتی' عدلیہ کا کو ئی کردار نہیں تھا۔ اب بھی یہ مراعات یافتہ ملکان' سفید پوش اور بیوروکریسی موجودہ تبدیلیوں کی مزاحمت کر رہے ہیں۔
1848ء سے لے کر 2018ء تک 170 سال اس وحشیانہ قانون کے تحت زندگی گزارنے اور طویل جدوجہد کے بعد فاٹا کے عوام کو آئینی حقوق تو پارلیمنٹ کی حد تک مل گئے لیکن سابقہ نظام کے مراعات یافتہ طبقے اور موجودہ حکومت کے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں ابھی تک حالات جوں کے توں ہیں' بلکہ اب تو مصیبت یہ ہو گئی کہ پرانا قانون بھی ختم ہو گیا اور نیا قانون بھی ان علاقوں میں نافذ نہ ہو سکا' ان علاقوں کے مسائل اجاگر کرنے اور حکومت پر ان کے حل کے لیے دباؤبڑھانے کے لیے ''پختونخوا جمہوری اتحاد'' نے 21اپریل2019ء کو نشتر ہال پشاور میں ایک بڑی کانفرنس کا اہتمام کیا ' کانفرنس میں ممبر پارٹیوں کے کارکنوں کے علاوہ عوام اور قبائل نے بھی بھرپور شرکت کی۔
کانفرنس سے پختونخوا جمہوری اتحاد کے کنوینر سکندر شیر پاؤ' نیشنل پارٹی کے مختار باچا' مزدور کسان پارٹی کے افضل شاہ خاموش' پختونخوا اولسی تحریک کے اجمل آفریدی' عوامی ورکرز پارٹی کے شہاب خٹک ایڈوکیٹ' ممتاز دانشور لطیف آفریدی ایڈوکیٹ' سابقہ ایم این اے شاہ جی گل آفریدی' بلوچستان اسمبلی کی سابقہ رکن یاسمین لہڑی' فاٹا یوتھ کے ملک مثل خان اورکزئی' جنگریز خان مہمند کے علاوہ قومی وطن پارٹی کے مرکزی چیئر مین آفتاب شیرپاؤ نے بطور مہمان خصوصی خطاب کیا' انھوں نے وہاں پر ہونے والے صوبائی انتخابات کے تناظر میں وزراء اور وزیراعظم کے دوروں اور اعلانات کو الیکشن سے قبل دھاندلی سے تعبیر کیا اور الیکشن کمیشن سے اس کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا' مقررین نے فاٹا کی موجودہ پیچیدہ صورت حال اور مسائل پر روشنی ڈالی۔ اسٹیج سیکریٹری کے فرائض ڈاکٹر عالم یوسفزئی' شکیل وحید اللہ اور ان کے ساتھیوں نے خوبصورتی سے ادا کیے۔
کانفرنس کے آخر میں مندرجہ ذیل 20نکاتی اعلامیہ جاری کیا گیا۔
یہ کانفرنس فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے اقدامات میں تساہل کو تشویش کی نظر سے دیکھتی ہے اور انضمام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے فی الفور مندرجہ ذیل ٹھوس اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کرتی ہے ۔
1۔ قبائلی علاقوں میں دہشتگردی اور انتہا پسندی کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں۔
2۔ عوام کا حق حاکمیت تسلیم کرتے ہوئے خیبر پختونخوا اسمبلی، صوبائی وزیر اعلیٰ اور کابینہ کا اختیار کھلی طور پر تسلیم اور گورنر کا دخل ممنوع اور غیر آئینی قرار دیا جائے اور اس کے تمام اقدامات اور قائم کردہ کمیٹیاں کالعدم قرار دی جائیں۔
3۔ آئینی، انتظامی عدالتی خاصہ دار اور لیویز کے بارے میں اعلانات پر فوری اور موثر عمل درآمد کیا جائے۔
4۔ قبائلی علاقوں میں دہشتگردی اور انتہا پسندی کے ہاتھوں اور ان کے خلاف آپریشن سے ہونے والے نقصانات کا شفاف طریقے سے ازالہ کیا جائے۔
5۔ حکومت کی جانب سے اعلان شدہ 100 بلین روپے فوری طور پر حکومت خیبر پختونخوا کو ریلیز اور قبائلی اضلاع میں عوام کی ترقی کے لیے شفاف طریقے سے خرچ کیے جائیں۔
6۔ فوری طور قبائلی اضلاع میں مردم شماری کا ازسرنوبندوبست کیا جائے جب تک مردم شماری مکمل نہ ہو 3فیصد این ایف سی ایوارڈ صوبہ خیبر پختونخوا کو بشمول بقایاجات ادا کیے جائیں۔
7۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں قبائلی علاقوں کے لیے اعلان شدہ بیرونی امداد اور مراعات کی تفصیل فراہم کی جائے اور غیر جانبدار آڈٹ کرایا جائے۔
8۔ قبائلی علاقوں میں دہشتگردی اور انتہا پسندی کے ہاتھوں بے گھر، آئی ڈی پیز کی بحالی اور گھر واپسی کے لیے فوری اور موثر اقدامات کیے جائیں اور واپس جانے والے کنبوں کو معاوضہ فی الفور ادا کیا جائے۔
9۔ فوری طور پر قبائلی علاقوں میں 7 یونیورسٹیاں اور 7 ضلعی ہیڈ کوارٹر اسپتال3 میڈیکل اور انجینئرنگ کالجز، نرسنگ اور ٹیچر ٹریننگ ادارے قائم کیے جائیں۔
10۔ فوری طور بندوبست اراضی کا نظام قائم کیا جائے، خواتین کی ملکیت کا تعین کے لیے ایک کمیشن اور ان کے لیے خصوصی بلا سود زرعی قرضے فراہم کیے جائیں ۔
11۔ مالیا تی ادارے مثلا بینک، انشورنس اور سرمایہ کار کمپنیاں قائم کرنے میں مدد کی جائے تاکہ تجارتی' زرعی اور صنعتی قرضے فراہم ہو سکیں۔
12۔ آبپاشی کا نظام بہتر بنانے کے لیے خصوصی فنڈ، شمسی توانائی کے استعمال کو بڑھانے کے لیے مختص کیا جائے۔
13۔ صوبے کی اے ڈی پی سے کم از کم30 فیصد قبائلی اضلاع کے لیے مختص اور شفاف طریقے سے خرچ کیا جائے۔
14۔ فوری طور پر مقامی حکومت کے قیام کے لیے انتخابات کرائے جائیں۔
15۔ صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے انتخاب میں تاخیر کی مذمت اور فوری انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کرتے ہیں۔
16۔ کم از کم 7 فری انڈسٹریل زون قا ئم کیے جائیں اور 20 سال کے لیے ٹیکس رعایت، سستی بجلی، گیس اور بلا سود قرضے فراہم کیے جائیں۔
17۔ سرحد کے دونوں طرف 11 کلو میٹر میں رہنے والے باشندوں کے لیے ایز منٹ رائیٹ پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے اور تجارتی اقدامات میں رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔
18۔ رسل و رسائل کے ذرایع بشمول ریل' روڈ، تھری جی، فور جی اور انٹرنیٹ کی سہولت فوری طور پر فراہم کی جائے۔
19۔ قبائلی بیروزگار نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کے لیے ایک خصوصی ''بیروزگار فنڈ'' کا قیام عمل میں لایا جائے جو آسان اقساط پر کاروبار اور اعلیٰ تعلیم کے لیے قرض فراہم کرے نیز صوبے کی ملازمتوں میں کم از کم 30 فیصد ملازمتیں قبائلی نوجوانوں کو فراہم کرنے کا بندوبست کیا جائے' فاٹا سیکریٹریٹ اور دوسرے قبائلی ملازمین کو صوبے کے ملازمین تصور کر کے ان کی سینیارٹی بحال رکھی جائے۔
20۔ وفاق میں خیبر پختونخوا کے حصے کا از سر نو تعین کیا جائے اور جب تک یہ نہ ہو فاٹا کی قومی اسمبلی کی سیٹیوں کی تعداد برقرار رکھی جائے۔
سابقہ فاٹا میں رہنے والے پختون قبائل کے متعلق انگریزوں کی سوچ مندرجہ ذیل دو مثالوں سے واضح ہو جائے گی۔ برطانیہ کے انڈیا آفس کے سیاسی اور خفیہ امور کے سیکریٹری جان ولیم کے (John William Kay) نے ان کے متعلق کہا تھا کہ ''we can not rein wild horses with silken braids'' (ہم وحشی گھوڑوں پر نرم اور ریشمی تاروں کے ذریعے سواری نہیں کرسکتے)۔ وائسرائے ہند لارڈ ڈلہوزی نے ان کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''شمال میں بسنے والے وحشی اور جنگجو لوگوں کے مزاج کا خیال رکھتے ہوئے ان علاقوں کے لیے مخصوص قوانین بنائے گئے''۔
انگریزوں کی ایک رپورٹ کے مطابق ''سرحد پار کے قبائل پوری طرح مسلح اور تاریخ کے مشہور ترین لٹیرے تھے' ان کو کنٹرول کرنے کے لیے پفرز اور فرنٹیر کانسٹبلری (FC) نامی ملیشیاء بنائی گئیں''۔ قبائل کو سرکشی کی سزا دینے کے لیے اکثر ان کے خلاف فوج کشی بھی کی جاتی تھی۔
FCR کے قانون کی ابتدائی شکل 1848ء میں نافذ کی گئی' پھر 1876-1873ء اور آخر میں1901ء میں ان قوانین میں مختلف ترامیم کی گئیں' موجودہ ایف سی آر1901ء والا مسودہ تھا' صوبہ سرحد کے قیام کے اعلان کے ساتھ لارڈ کرزن نے یہ قوانین وحشی قبائل میں لاگو رہنے دیے' یہ قانون پولیٹیکل ایجنٹ کے ذریعے نافذ ہوتا تھا' پولیٹکل ایجنٹ کو اس قانون کے تحت مقننہ' انتظامیہ اور عدلیہ تینوں کی حیثیت حاصل تھی' جرگہ بنانا' ملکی اور لنگی تقسیم کرنا' مواجب کس کو اور کتنا دینا ہے' ٹھیکہ کس ٹھیکیدار کو کس ریٹ پر دینا ہے' یہ بھی ان کی صوابدید تھا' وہ اس جمہوری دور میں بھی ایک شہنشاہ تھا' اس کے فیصلے کے خلاف اپیل بھی دوسرے افسر کو ہوتی' عدلیہ کا کو ئی کردار نہیں تھا۔ اب بھی یہ مراعات یافتہ ملکان' سفید پوش اور بیوروکریسی موجودہ تبدیلیوں کی مزاحمت کر رہے ہیں۔
1848ء سے لے کر 2018ء تک 170 سال اس وحشیانہ قانون کے تحت زندگی گزارنے اور طویل جدوجہد کے بعد فاٹا کے عوام کو آئینی حقوق تو پارلیمنٹ کی حد تک مل گئے لیکن سابقہ نظام کے مراعات یافتہ طبقے اور موجودہ حکومت کے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں ابھی تک حالات جوں کے توں ہیں' بلکہ اب تو مصیبت یہ ہو گئی کہ پرانا قانون بھی ختم ہو گیا اور نیا قانون بھی ان علاقوں میں نافذ نہ ہو سکا' ان علاقوں کے مسائل اجاگر کرنے اور حکومت پر ان کے حل کے لیے دباؤبڑھانے کے لیے ''پختونخوا جمہوری اتحاد'' نے 21اپریل2019ء کو نشتر ہال پشاور میں ایک بڑی کانفرنس کا اہتمام کیا ' کانفرنس میں ممبر پارٹیوں کے کارکنوں کے علاوہ عوام اور قبائل نے بھی بھرپور شرکت کی۔
کانفرنس سے پختونخوا جمہوری اتحاد کے کنوینر سکندر شیر پاؤ' نیشنل پارٹی کے مختار باچا' مزدور کسان پارٹی کے افضل شاہ خاموش' پختونخوا اولسی تحریک کے اجمل آفریدی' عوامی ورکرز پارٹی کے شہاب خٹک ایڈوکیٹ' ممتاز دانشور لطیف آفریدی ایڈوکیٹ' سابقہ ایم این اے شاہ جی گل آفریدی' بلوچستان اسمبلی کی سابقہ رکن یاسمین لہڑی' فاٹا یوتھ کے ملک مثل خان اورکزئی' جنگریز خان مہمند کے علاوہ قومی وطن پارٹی کے مرکزی چیئر مین آفتاب شیرپاؤ نے بطور مہمان خصوصی خطاب کیا' انھوں نے وہاں پر ہونے والے صوبائی انتخابات کے تناظر میں وزراء اور وزیراعظم کے دوروں اور اعلانات کو الیکشن سے قبل دھاندلی سے تعبیر کیا اور الیکشن کمیشن سے اس کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا' مقررین نے فاٹا کی موجودہ پیچیدہ صورت حال اور مسائل پر روشنی ڈالی۔ اسٹیج سیکریٹری کے فرائض ڈاکٹر عالم یوسفزئی' شکیل وحید اللہ اور ان کے ساتھیوں نے خوبصورتی سے ادا کیے۔
کانفرنس کے آخر میں مندرجہ ذیل 20نکاتی اعلامیہ جاری کیا گیا۔
یہ کانفرنس فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے اقدامات میں تساہل کو تشویش کی نظر سے دیکھتی ہے اور انضمام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے فی الفور مندرجہ ذیل ٹھوس اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کرتی ہے ۔
1۔ قبائلی علاقوں میں دہشتگردی اور انتہا پسندی کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں۔
2۔ عوام کا حق حاکمیت تسلیم کرتے ہوئے خیبر پختونخوا اسمبلی، صوبائی وزیر اعلیٰ اور کابینہ کا اختیار کھلی طور پر تسلیم اور گورنر کا دخل ممنوع اور غیر آئینی قرار دیا جائے اور اس کے تمام اقدامات اور قائم کردہ کمیٹیاں کالعدم قرار دی جائیں۔
3۔ آئینی، انتظامی عدالتی خاصہ دار اور لیویز کے بارے میں اعلانات پر فوری اور موثر عمل درآمد کیا جائے۔
4۔ قبائلی علاقوں میں دہشتگردی اور انتہا پسندی کے ہاتھوں اور ان کے خلاف آپریشن سے ہونے والے نقصانات کا شفاف طریقے سے ازالہ کیا جائے۔
5۔ حکومت کی جانب سے اعلان شدہ 100 بلین روپے فوری طور پر حکومت خیبر پختونخوا کو ریلیز اور قبائلی اضلاع میں عوام کی ترقی کے لیے شفاف طریقے سے خرچ کیے جائیں۔
6۔ فوری طور قبائلی اضلاع میں مردم شماری کا ازسرنوبندوبست کیا جائے جب تک مردم شماری مکمل نہ ہو 3فیصد این ایف سی ایوارڈ صوبہ خیبر پختونخوا کو بشمول بقایاجات ادا کیے جائیں۔
7۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں قبائلی علاقوں کے لیے اعلان شدہ بیرونی امداد اور مراعات کی تفصیل فراہم کی جائے اور غیر جانبدار آڈٹ کرایا جائے۔
8۔ قبائلی علاقوں میں دہشتگردی اور انتہا پسندی کے ہاتھوں بے گھر، آئی ڈی پیز کی بحالی اور گھر واپسی کے لیے فوری اور موثر اقدامات کیے جائیں اور واپس جانے والے کنبوں کو معاوضہ فی الفور ادا کیا جائے۔
9۔ فوری طور پر قبائلی علاقوں میں 7 یونیورسٹیاں اور 7 ضلعی ہیڈ کوارٹر اسپتال3 میڈیکل اور انجینئرنگ کالجز، نرسنگ اور ٹیچر ٹریننگ ادارے قائم کیے جائیں۔
10۔ فوری طور بندوبست اراضی کا نظام قائم کیا جائے، خواتین کی ملکیت کا تعین کے لیے ایک کمیشن اور ان کے لیے خصوصی بلا سود زرعی قرضے فراہم کیے جائیں ۔
11۔ مالیا تی ادارے مثلا بینک، انشورنس اور سرمایہ کار کمپنیاں قائم کرنے میں مدد کی جائے تاکہ تجارتی' زرعی اور صنعتی قرضے فراہم ہو سکیں۔
12۔ آبپاشی کا نظام بہتر بنانے کے لیے خصوصی فنڈ، شمسی توانائی کے استعمال کو بڑھانے کے لیے مختص کیا جائے۔
13۔ صوبے کی اے ڈی پی سے کم از کم30 فیصد قبائلی اضلاع کے لیے مختص اور شفاف طریقے سے خرچ کیا جائے۔
14۔ فوری طور پر مقامی حکومت کے قیام کے لیے انتخابات کرائے جائیں۔
15۔ صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے انتخاب میں تاخیر کی مذمت اور فوری انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کرتے ہیں۔
16۔ کم از کم 7 فری انڈسٹریل زون قا ئم کیے جائیں اور 20 سال کے لیے ٹیکس رعایت، سستی بجلی، گیس اور بلا سود قرضے فراہم کیے جائیں۔
17۔ سرحد کے دونوں طرف 11 کلو میٹر میں رہنے والے باشندوں کے لیے ایز منٹ رائیٹ پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے اور تجارتی اقدامات میں رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔
18۔ رسل و رسائل کے ذرایع بشمول ریل' روڈ، تھری جی، فور جی اور انٹرنیٹ کی سہولت فوری طور پر فراہم کی جائے۔
19۔ قبائلی بیروزگار نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کے لیے ایک خصوصی ''بیروزگار فنڈ'' کا قیام عمل میں لایا جائے جو آسان اقساط پر کاروبار اور اعلیٰ تعلیم کے لیے قرض فراہم کرے نیز صوبے کی ملازمتوں میں کم از کم 30 فیصد ملازمتیں قبائلی نوجوانوں کو فراہم کرنے کا بندوبست کیا جائے' فاٹا سیکریٹریٹ اور دوسرے قبائلی ملازمین کو صوبے کے ملازمین تصور کر کے ان کی سینیارٹی بحال رکھی جائے۔
20۔ وفاق میں خیبر پختونخوا کے حصے کا از سر نو تعین کیا جائے اور جب تک یہ نہ ہو فاٹا کی قومی اسمبلی کی سیٹیوں کی تعداد برقرار رکھی جائے۔