منصوبہ بندی کے بغیر تعمیرات سے سپلائی ریلے کا رخ رہائشی آبادیوں کی جانب ہوا رپورٹ
علاقوں میں سیلابی پانی کسی ڈیم کے ٹوٹنے سے نہیں آیا، لینڈ مافیا نے اسکیم 33 میں 2 برساتی نالوں پر بھرائی کرکے گرین۔۔۔
پاک فوج کی انجینئرنگ کور ، صوبائی محکمہ آبپاشی اور بلدیہ عظمیٰ کے ماہرین پر مشتمل کمیٹی کی ابتدائی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ کراچی میں 3 اگست کو بادلوں کے پھٹنے سے دادو اور کیرتھر رینج کے مخصوص مقام پرکم وقت میں بہت زیادہ مقدار میں بارش ہوئی۔
اس طوفانی بارش کے نتیجے میں سیلابی ریلے نے اسکیم 33 سعدی ٹاؤن اور دیگر علاقے میں تباہ کاری مچائی،ان علاقوں میں سیلابی پانی کسی ڈیم کے ٹوٹنے کے نتیجے میں نہیں آیا، نادرن بائی پاس کی تعمیر، برساتی نالوں پر تجاوزات ، گلستان جوہر پر آباد کاری سے پانی کے قدرتی راستوں کی بندش سے مذکورہ علاقے زیر آب آگئے جس میں 5 افراد ہلاک اور کروڑوں روپے کے مالی نقصانات ہوئے، متوقع برسات کی پیش گوئی کے تحت متعلقہ اداروں نے مختصر مدت کی منصوبہ بندی کرلی ہے تاکہ بارشوں کی تباہ کاری سے نمٹا جاسکے، لمبی مدت کے منصوبے پر تفصیلی اسٹڈی کی جا ے گی جبکہ کیرتھر رینج سے آنے والے برساتی پانی کو ذخیرہ کرنے کیلیے ڈیم کی تعمیر بھی زیرغور ہے۔
تفصیلات کے مطابق کراچی میں حالیہ بارشوں کے نتیجے میں اسکیم 33 اور دیگرعلاقے زیر آب آگئے، ملیرکنٹونمنٹ بورڈ اور دیگر متعلقہ اداروںکی حدود میں آنے والے ان علاقوں میں اس تباہ کاری سے نمٹنے کیلیے انتظامات نہیں کیے گئے تھے،برساتی پانی کے ریلے نے سفید پوش شہریوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا، متعلقہ اداروں کی بنائی گئی ابتدائی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ لینڈ مافیا نے اسکیم 33 میں 2 برساتی نالوں پر بھرائی کرکے گرین بیلٹس تعمیر کردی تھیں تاکہ مستقبل میں اس پر پلاٹ بنا کر فروخت کیے جا سکیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ 50 سال قبل بھی اسی طرح بادلوں کے پھٹنے سے موسلادھار بارشیں کیرتھر رینج اور ضلع دادو میں ہوئیں جس کا برساتی پانی سیلابی ریلے کی شکل میں اسکیم 33 اور گلستان جوہر کے راستے لیاری ندی میں جاگرا ، اس وقت ان علاقوں میں آبادکاری نہیں تھی لہٰذا غیر معمولی ہونے والی بارشوں کا برساتی پانی قدرتی طور پر راستہ بناتا ہوا ندی میں جاگرا، نصف صدی میں گلستان جوہر میں مکمل طور پر آبادکاری ہوئی جس نے کیرتھر رینج میں ہونے والی غیرمعمولی بارشوں کا قدرتی راستہ روک دیا۔
اس دوران نادرن بائی پاس کی تعمیر بھی ہوئی جس نے پہاڑوں سے آنے والا برساتی پانی کا رخ بھی ملیر ندی کے بجائے مذکورہ علاقوں کی جانب موڑ دیا ، ذرائع نے بتایا کہ متعلقہ اداروں کے وہم وگمان میں بھی یہ نہیں تھا کہ کیرتھر اور دادو میں اگر طوفانی بارش ہوتی ہے تو اس کا رخ اسکیم 33 کی جانب ہوگا، ٹاؤن پلاننگ کے بغیر گلستان جوہر اور اسکیم 33 میں نئی آبادکاری کردی گئی جس میں بڑے بڑے رہائشی اور تجارتی پلازہ برساتی نالوں پر تعمیر کردیے گئے، وفاقی، صوبائی اور شہری اداروں نے محکمہ ماسٹر پلان اور ماحولیاتی اداروں سے مشاورت کیے بغیر نادرن بائی پاس، لیاری ایکسپریس وے اور دیگر اہم مقامات پر تعمیرات کیں جس سے کیرتھر رینج اور شہرکراچی کا قدرتی ما حولیاتی سسٹم شدید متا ثرہوگیا، واضح رہے کہ ان حالیہ بارشوں میں نہ صرف اسکیم 33، سعدی ٹاؤن زیرآب آئے بلکہ فیڈرل بی ایریا کے مختلف مقامات بارشوںکی تباہ کاریوںکا شکار ہوئیں۔
بارشوں کی تباہ کاریوں کی بنیادی وجہ برساتی نالوں پر تجاوزات ہے جس نے برساتی پانی کا قدرتی راستہ روک دیا ، متعلقہ اداروں کے افسران نے بتایا کہ متوقع بارشوںکی پیش گوئی کے پیش نظر مختصر مدتی منصوبہ بندی کرلی گئی ہے جس کے تحت اسکیم 33 میں ہنگامی اقدامات پر عملدرآمد کیلیے ہیوئی مشینری ، ڈی واٹرنگ پمپس تیار ہیں، علاوہ ازیں دو دریافت ہونے والے برساتی نالوں کی صفائی بھی شروع کردی گئی، لمبی مدت کے منصوبے میں کیرتھر رینج کی اسٹڈی ، برساتی نالوں کی تعمیر ، کراچی کے مضافات ڈیموں اور ریزروائر کی تعمیر زیرغور ہیں۔
اس طوفانی بارش کے نتیجے میں سیلابی ریلے نے اسکیم 33 سعدی ٹاؤن اور دیگر علاقے میں تباہ کاری مچائی،ان علاقوں میں سیلابی پانی کسی ڈیم کے ٹوٹنے کے نتیجے میں نہیں آیا، نادرن بائی پاس کی تعمیر، برساتی نالوں پر تجاوزات ، گلستان جوہر پر آباد کاری سے پانی کے قدرتی راستوں کی بندش سے مذکورہ علاقے زیر آب آگئے جس میں 5 افراد ہلاک اور کروڑوں روپے کے مالی نقصانات ہوئے، متوقع برسات کی پیش گوئی کے تحت متعلقہ اداروں نے مختصر مدت کی منصوبہ بندی کرلی ہے تاکہ بارشوں کی تباہ کاری سے نمٹا جاسکے، لمبی مدت کے منصوبے پر تفصیلی اسٹڈی کی جا ے گی جبکہ کیرتھر رینج سے آنے والے برساتی پانی کو ذخیرہ کرنے کیلیے ڈیم کی تعمیر بھی زیرغور ہے۔
تفصیلات کے مطابق کراچی میں حالیہ بارشوں کے نتیجے میں اسکیم 33 اور دیگرعلاقے زیر آب آگئے، ملیرکنٹونمنٹ بورڈ اور دیگر متعلقہ اداروںکی حدود میں آنے والے ان علاقوں میں اس تباہ کاری سے نمٹنے کیلیے انتظامات نہیں کیے گئے تھے،برساتی پانی کے ریلے نے سفید پوش شہریوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا، متعلقہ اداروں کی بنائی گئی ابتدائی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ لینڈ مافیا نے اسکیم 33 میں 2 برساتی نالوں پر بھرائی کرکے گرین بیلٹس تعمیر کردی تھیں تاکہ مستقبل میں اس پر پلاٹ بنا کر فروخت کیے جا سکیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ 50 سال قبل بھی اسی طرح بادلوں کے پھٹنے سے موسلادھار بارشیں کیرتھر رینج اور ضلع دادو میں ہوئیں جس کا برساتی پانی سیلابی ریلے کی شکل میں اسکیم 33 اور گلستان جوہر کے راستے لیاری ندی میں جاگرا ، اس وقت ان علاقوں میں آبادکاری نہیں تھی لہٰذا غیر معمولی ہونے والی بارشوں کا برساتی پانی قدرتی طور پر راستہ بناتا ہوا ندی میں جاگرا، نصف صدی میں گلستان جوہر میں مکمل طور پر آبادکاری ہوئی جس نے کیرتھر رینج میں ہونے والی غیرمعمولی بارشوں کا قدرتی راستہ روک دیا۔
اس دوران نادرن بائی پاس کی تعمیر بھی ہوئی جس نے پہاڑوں سے آنے والا برساتی پانی کا رخ بھی ملیر ندی کے بجائے مذکورہ علاقوں کی جانب موڑ دیا ، ذرائع نے بتایا کہ متعلقہ اداروں کے وہم وگمان میں بھی یہ نہیں تھا کہ کیرتھر اور دادو میں اگر طوفانی بارش ہوتی ہے تو اس کا رخ اسکیم 33 کی جانب ہوگا، ٹاؤن پلاننگ کے بغیر گلستان جوہر اور اسکیم 33 میں نئی آبادکاری کردی گئی جس میں بڑے بڑے رہائشی اور تجارتی پلازہ برساتی نالوں پر تعمیر کردیے گئے، وفاقی، صوبائی اور شہری اداروں نے محکمہ ماسٹر پلان اور ماحولیاتی اداروں سے مشاورت کیے بغیر نادرن بائی پاس، لیاری ایکسپریس وے اور دیگر اہم مقامات پر تعمیرات کیں جس سے کیرتھر رینج اور شہرکراچی کا قدرتی ما حولیاتی سسٹم شدید متا ثرہوگیا، واضح رہے کہ ان حالیہ بارشوں میں نہ صرف اسکیم 33، سعدی ٹاؤن زیرآب آئے بلکہ فیڈرل بی ایریا کے مختلف مقامات بارشوںکی تباہ کاریوںکا شکار ہوئیں۔
بارشوں کی تباہ کاریوں کی بنیادی وجہ برساتی نالوں پر تجاوزات ہے جس نے برساتی پانی کا قدرتی راستہ روک دیا ، متعلقہ اداروں کے افسران نے بتایا کہ متوقع بارشوںکی پیش گوئی کے پیش نظر مختصر مدتی منصوبہ بندی کرلی گئی ہے جس کے تحت اسکیم 33 میں ہنگامی اقدامات پر عملدرآمد کیلیے ہیوئی مشینری ، ڈی واٹرنگ پمپس تیار ہیں، علاوہ ازیں دو دریافت ہونے والے برساتی نالوں کی صفائی بھی شروع کردی گئی، لمبی مدت کے منصوبے میں کیرتھر رینج کی اسٹڈی ، برساتی نالوں کی تعمیر ، کراچی کے مضافات ڈیموں اور ریزروائر کی تعمیر زیرغور ہیں۔